مسلمانوں پر امریکی حملہ کی خُفیہ اجازت ؟

امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی [produced or manufatured] القاعدہ و طالبان تحریک کی جو سیاسی حکمت اپنا رکھی ہے کہ اس تحریک کو تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ عوام کو ڈرانے و دھمکانے کیلئے اجاگر کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس سے عالم کے مسلمانوں پر رعب جمانے کیلئے اس کا دھشت گرد چہرہ پیش کرکے اس پر زبردشت حملہ کردیا جاتا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ملکوں کو امداد کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ تخلیقی القاعدہ و طالبان تحریک کو پوری دنیا میں زندہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس امداد کی حصولیابی کیلئے ملکوں میں مداخلت کرکے ان ملکوں کو مذکورہ تحریک سے تحفظ کے نام پر وہاں اپنی افواج مسلط کرکے اپنی افواج کی تنخواہوں کا بوجھ ان پر ڈال کر ۔ دی گئی امداد سے سات گنا زیادہ وصول کرلیا جاتا ہے۔ امریکہ کی نصف افواج کا خرچہ بیرونی ملکوں سے اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی امداد کا بدل خوبصورت طریقہ سے واپس لے لیتا ہے۔ ہر دو یا تین سال بعد کسی نہ کسی ملک کے حصہ کی پنجرہ نما آزادی دلانے کی تحریک سرگرم عمل ہوتی ہے۔ اور وہ تحریک اس پنجرہ نما ملک میں امریکی افواج کی تعیناتی سے ہوتی ہے۔ پھر اس پنجرہ نما آزادی والے ملک کے پنجرہ کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ اور اس کا انسانیت کے خون سے لت پت جھنڈا اقوام متحدہ کے دفتر پر لہراتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکن ری پبلیکن پارٹی نے کامیاب حریت کی ڈکیتی کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔

مذکورہ ملکوں کے حصہ کے لوگوں کے پَر کُتر کر ا س پنجرہ نما آزادی کے اس خوبصورت پنجرہ میں آزادی کے نام پر قید کردیا جاتا ہے۔ وہ وہاں سے بھاگنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ وہ اب اڑنے کے قابل بھی نہیں رہے ہوتے۔ ان کو آزادی کے نام پر معاہدے کرکے اپنی خدمات کی طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔

امریکن ری پبلیکن پارٹی تخلیقی دھشت گردی کے عنوان سے پنجرہ نما آزادی کو پکاتی ہے۔ دلائی لامہ ، یاسر عرفات ، میر واعظ طرح کے لوگ اس بے نظیر تحریک کے ساتھ پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے ملکوں کے حصوں میں امریکہ کیلئے فصل تیار کرتے ہیں۔ اور اس فصل کو امریکہ کی قیادت پنجرہ نما آزادی کے عنوان سے کاٹ کر لے جاتی ہے۔ اس لئے دھشت گردوں و دھشت گردی کا وجود ایک طے شدہ حکمت عملی ہے۔ جو امریکہ کو دھمکیاں دینے کیلئے وجود میں لائی جاتی ہیں۔ القاعدہ و طالبان کے یہ تخلیقی دھشت گرد تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ کو جب دھمکیاں دیتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے۔ کہ یہ اسی کی خوبصورت حکمت عملی ہے۔ اور اس حکمت عملی کی زد پر مسلمان ہیں ۔ اور پھر ان پر امریکی حملوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی طور پر القاعدہ و طالبان کا پلان تیار کیا گیا کہ افغانستان کے پہاڑی علاقے اور پاکستان کے قبائلی علاقے پر مذکورہ جماعت کی قیادت کے حکم پر امریکہ کے صدارتی الیکشن سے عین قبل شدید و بھیانک حملہ ہوگا۔ اس سے قبل مشق کے طور پر چھوٹے موٹے حملے ہوتے رہیں گے۔ اور ان حملوں کیلئے افغانستان اور پاکستان کی سرکاروں سے منظوری لی جائے گی۔

اب اُگائی کا وقت ہے۔ یہ اگائی کا سلسلہ شروع ہوا ہی تھا کہ پاکستان میں جمہوری انقلاب کی آمد سے حالات بدل گئے۔ پاکستان کی نئی حکومت اس حکمت عملی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے پرہیز کررہی ہے۔ اس لئے کہ اس پر میاں نواز شریف صاحب اور وہاں کے عوام کا
زبردشت دباؤ ہے کہ امریکہ کو مسلمانوں پر حملہ کی اجازت کسی طور پر نہ دی جائے۔

تخلیقی القاعدہ وطالبان تحریک امریکن ری پبلیکن پارٹی کا محض ایک تخلیق [product] اور سیاسی پروپیگنڈہ ہے۔ اس پروپیگنڈے کی تشہیر کیلئے الجزیرہ کے عربی چینل کو وجود میں لایا گیا ہے۔ اس خاص فائدے کے تحت مسٹر جارج بش کی ہدایت پر امریکہ میں خصوصی طور پر الجزیرہ کا انگریزی چینل قائم ہوا۔ جہاں سے تخلیقی کیسٹوں کے ذریعہ القاعدہ وطالبان کی دھمکیاں میں منظر عام پر آئیں۔ منصوبہ بندی ہوئی کہ تخلیقی القاعدہ و طالبان کو امریکہ پر حملہ آور دِکھاکر پاکستان و افغانستان کے علاقوں پر حملے کئے جائیں جس سے امریکی عوام کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے مسٹربارک اوبامہ کی امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو اس ایشو کو سامنے رکھ کر شرمناک شکست دی جاسکے ۔

اس حکمت میں تعاون کیلئے پاکستان کا اشتراک ضروری تھا۔ اس کیلئے پاکستان کا جمہوری اتحاد کمزور کیا گیا۔ اور حالات ایسے پید ا کئے گئے۔ کہ نواز لیگ حکومت سے از خود ہی الگ ہوجائے۔ عوام کی بھرپور مخالفت کے نتیجہ میں پرویز مشرف کو اقتدار سے اس لئے الگ کیا گیا کہ اس کی جگہ پی پی پی کو ملے اور پی پی پی سے اعلانیہ نہیں تو خفیہ مفاہمت ہوسکتی ہے ۔ اور یہ خفیہ مفاہمت کا ہی نتیجہ ہے۔ کہ پاکستان کے مذہبی مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ان حملوں کیلئے خفیہ اجازت پی پی پی کی حکومت نے امریکہ کو دے دی ہے۔ گویا اب مسٹر آصف علی زرداری کی جماعت مسٹر بارک اوبامہ کو شکست دینے کے لئے مسٹر جارج بش کے ساتھ کھڑی ہے۔اسی لئے ان کو صدارت کے عہدہ کا تاج مسلمانوں پر حملہ کرانے کیلئے پہنایا جارہاہے۔

بہر حال حکومت پاکستان کی طرف سے مذہبی مسلمانوں پر امریکہ کے خفیہ حملوں کی اجازت افسوس ناک ہے۔ اگر پاکستان میں اسی طرح دھشت گردی پھیلتی رہی اور مذہبی مسلمانوں پر حملہ ہوتے رہے ۔ تو پھر ان میں اور پرویز مشرف میں کیا فرق رہ گیا؟

پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی پر حالیہ حملہ کو دنیا اس طورپر دیکھ رہی ہے کہ ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ مذہبی مسلمانوں پر امریکی حملہ میں معاون بنیں ورنہ انجام بے نظیر کی طرح قتل ۔۔۔۔۔۔؟

دنیا کے عوا م یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ امریکہ کے پاکستان میں خفیہ حملے کی اجازت کے پیچھے کون ہے؟
زرداری یا گیلانی؟
آخر امریکہ اب کس کی اجازت سے مذہبی مسلمانوں پر حملہ کررہا ہے۔ پاکستان میں مذہبی مسلمانوں کا اصل اور خفیہ قاتل کون ہے؟ گیلانی پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا۔ کہ وہ امریکہ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ کہیں یہ حملہ ان کو امریکہ کے آگے جھکنے پر مجبور کرنے کیلئے تو نہیں ہوا؟

بشکریہ ۔ ایاز محمود صاحب ۔ قلمکار القمر آن لائین

شاید ایاز محمود صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ افغانی مسلمانوں پر بم اور گولیاں برسانے والے امریکی اور اُن کے اتحادی فوجیوں کیلئے رسد [supplies] پاکستان سے جاتی ہیں جو قبائلی علاقہ سے گذرتی ہیں ۔ پاکستان کے اندر افغانستان کی سرحد تک ان کی حفاظت پاکستانی فوجی کرتے ہیں ۔ پاکستانی فوج اور پاکستان کے قبائلیوں کی آپس میں جنگ اسی وجہ سے شروع ہوئی کہ قبائلی ان سپلائیز کے ٹرکوں پر حملے کرنے لگے ۔ قبائلیوں کا مسلک یہ تھا اور ہے کہ پاکستانی فوجی اپنے مسلم افغان بھائیوں کو ہلاک کرنے میں امریکہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں ؟

صاحب آفاق

جس بندہء حق بیں کی خودی ہو گئ بیدار
شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار
ہر ذرّے میں پوشیدہ ہے جو قوّت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندہء آفاق ہے ۔ وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی
وہ پاکیءِ فطرت سے ہوا محرم اعماق

میرا روزہ ہے ؟

سب بزرگان ۔ بہنوں ۔ بھائیوں ۔ بھتیجیوں ۔ بھتیجوں ۔ بھانجیوں اور بھانجوں کو رمضان مبارک ۔ اللہ آپ سب کو اور مجھے بلکہ تمام مسلمانوں کو رمضان کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آج پاکستان میں دوسرا روزہ ہے ۔ میں اس اظہارِ خواہش میں تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ وجوہ زیادہ تر دنیاوی ہی ہیں ۔ دو فوتگیاں ہو گئیں اور کچھ دوسرے عُجلت طلب گھریلو کاموں نے پچھلے کچھ دن سے گھیرے رکھا ۔

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے مگر پرانے تجربات بہت دِل شکن ہیں

ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے تو ان سے پوچھا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟” جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”۔ آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر دیکھ لیتے ہیں ۔

روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا ۔ کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا تو عام سی بات ہے

غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا اور کسی لڑکی یا عورت کی طرف جان بوجھ کر دیکھنا تو وطنِ عزیز میں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔

کسی پر گرمی کھانا تو شاید روزے میں فرض سمجھا جاتا ہے ۔

جس روزے کا اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے حُکم دیا ہے وہ مندرجہ بالا کسی بھی عمل یا کوئی دوسری غلطی سے ناقص ہو جاتا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ذی شعور شخص ناقص مال لینا پسند نہیں کرتا ۔ اگر مندرجہ بالا میں سے یا کوئی اور کئی غلطیاں ہو جائیں تو روزہ فاقہ بن جاتا ہے ۔

ظُلم اورکیاہوتاہے

حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں اور سوات میں جو فوجی کاروائی جاری ہے اس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ بشمول بوڑھے ۔ بچے اور عورتیں ہلاک ہو چکے ہیں ۔

کیا یہ سب دہشتگرد تھے ؟

ان لوگوں کو جن میں اکثریت غریب و مسکین لوگوں کی تھی ہلاک کرنے سے پاکستان یا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
یہ درست مان بھی لیا جائے کہ ان علاقوں میں کچھ دہشتگرد موجود تھے یا ہیں تو اُن کی شناخت کون کرے گا ؟
توپوں ۔ ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں سے بمباری کر کے جن سینکڑوں پاکستانیوں کو اپنی ہی فوج نے ہلاک کیا ہے ان میں سے کتنے دہشتگرد ثابت ہوئے ہیں ؟

کیا اس قتلِ عام کا حکم دینے والے اور یہ قتلِ عام کرنے والے جانتے ہیں کہ بغیر جرم ثابت کئے کسی کو قتل کرنا جرم ہے اور گناہِ عظیم بھی ؟
کیا مارنے والے اگر مسلمان ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ بلاقصور مرنے والے شہید ہوتے ہیں اور مارنے والے سیدھے جہنم میں جائیں گے ؟
کیا مارنے والے جانتے ہیں کہ جس امن کا وہ ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں اس فوجی کاروائی کے نتیجہ میں امن کی بجائے پورے ملک میں انتشار پھیلے گا ؟

آخر اُن پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کا کیا قصور ہے جو اس اندھا دھند بمباری کے نتیجہ میں اپنا گھر اور ساز و سامان چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں مہاجر ہو گئے ہیں ؟

ان پانچ لاکھ میں سے زیادہ تر کھلے آسمان کے نیچے نہ صرف بلا کی گرمی کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ پہروں بھوکے رہتے ہیں اور ان کے کمسن بچے بلکتے رہتے ہیں ۔

عوام سے کمائے ہوئے ٹیکسوں پر اللے تللے کرنے والے حکمران اپنی عیاشیاں ختم کر کے ان مسکینوں کے نان و نفقہ اور رہائش کا بندوبست کیوں نہیں کرتے ؟

اب نمعلوم کس وجہ سے صرف رمضان کے مہینہ میں فوجی کاروائی روکنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ آخر یہ فوجی کاروائی جس کا نہ ملک کو فائدہ ہے نہ قوم کو وہ ختم کیوں نہیں کر دی جاتی ؟

نواز شریف کا گانا

نواز شریف آجکل اگر سامنے نہیں تو غُسلخانہ میں گاتا ہو گا

سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
یہ سچ ہے دُنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی

اب بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں آصف زرداری اور پرویز مشرف کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اس معاہدے کے تابع ہے اور آئیندہ جو ہو گا وہ بھی اسی معاہدہ کے تحت ہو گا ۔ 3 نومبر 2007ء کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو مکمل تحفظ دیا جا رہا ہے اور کل وزیرِ قانون فاروق حمید نائیک نے برملا کہا کہ 3 نومبر 2007ء کے اقدامات آئینی اور قانونی ہیں ۔

نواز شریف کو بیوقوف بنانا بھی اسی معاہدہ کا حصہ تھا کیونکہ امریکہ اور پرویز مشرف کے حُکم کے تحت نواز شریف کا کردار عوام کے سامنے مسخ کر کے اُسے سیاست سے باہر کرنے کا منصوبہ تھا جو شاید نواز شریف کی کسی نیکی کے باعث کامیاب نہ ہو سکا اور وہ حکومتی اتحاد سے بدیر سہی لیکن باہر آ گیا ۔

آج کی دنیا میں جس جمہوریت کا چرچا ہے وہ بغیر سیاست کے قائم نہیں ہو سکتی ۔ سیاست کے لئے ہوشیاری اشد ضروری ہے ۔ ہوشیاری کا عملی مطلب ہے ۔ اپنی مطلب براری کیلئے دوسرے سے کام لینا جس میں جھوٹ ۔ مکاری ۔ دھوکہ ۔ وغیرہ سب کچھ جائز ہے ۔ اگر کوئی شخص پینترا بدلنا اور دوسرے کو زچ کرنا نہیں جانتا یا ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھتا تو وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

میں ابھی سکول میں پڑھتا تھا کہ کسی شخص کے متعلق ایک بزرگ نے کہا “وہ ماہرِ سیاست ہے”۔ میں چونکا اور پوچھا ” وہ الیکشن لڑتے ہیں ؟” بزرگ نے مسکرا کر کہا “تم چھوٹے ہو ۔ تم نہیں سمجھتے”۔ وقت گذرنے کے ساتھ مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص کو ماہرِ سیاست کہا گیا تھا وہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے ہر کسی کی وقتی طور پر تابعداری کر لیتا تھا اور اپنے فائدے کے لئے جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کا بھی ماہر تھا ۔ شاید اسی لئے شاعر نے کہا تھا

مغربی سیاست کے انڈے ہیں گندے

جمہوریت کی فی زمانہ بہت تعریف کی جاتی ہے ۔ تین جمہوری ممالک کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے ۔ امریکہ ۔ بھارت اور اسرائیل ۔ ان تینوں ممالک کا جتنا غیر انسانی گھناؤنا کردار ہے اس سے شاید روس بھی شرماتا ہو ۔

امریکہ کو خوش رکھنے کے لئے قبائلی علاقوں اور سوات میں مسلمان ہموطنوں کا بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے ۔ مہنگائی سے عام آدمی کا دم گھُٹنے کو ہے اور حکومتی اہلکاروں کے اللے تللے شاہانہ یا اس سے بھی کچھ اُوپر ہیں ۔ ان بے معنی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ فی زمانہ حُکمرانی کا طور یہودی فلسفہ ہے کہ جس پر حُکمرانی کرنا ہو اُس کی معیشت کمزور کر کے مکمل سُودی بنا دو اور ان کے مُلک میں اندرونی خلفشار پیدا کر دو ۔ سو یہ دو حالتیں وطنِ عزیز کے حُکمرانوں کی وساطت سے حاصل کی جا چکی ہیں ۔

دارچینی

دارچینی (Cinnamon) کو کون نہیں جانتا مگر اکثریت یہی جانتی ہے کہ یہ پلاؤ میں استعمال ہوتی ہے یا گرم مصالحہ کا ایک جزو ہے ۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ایک خاص قسم کے قہوہ میں بھی ڈالی جاتی ہے ۔ درست لیکن اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے دارچینی کو ایک خطرناک انسانی بیماری کا تریاق بنایا ہے ۔ فی زمانہ کھانے یا قہوہ میں دارچینی کے استعمال کی وجہ اس کی مہک ہے ۔

امریکہ کے ماہرینِ طب اس بات پر بہت پریشان تھے کہ مشرقی دنیا میں بسنے والے روکھی سوکھی کھانے کے باوجود زیادہ صحتمند ہوتے ہیں اور ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں جبکہ یورپی اور امریکی باشندے جنہیں اُن کے خیال کے مطابق ہر نعمت میسّر ہے وہ بیماریوں مین مبتلا رہتے ہیں اور ان کی عمریں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ گذشتہ ایک صدی میں جب مشرق قریب کے لوگوں نے کھانے پینے میں یورپ اور امریکہ کی نقل شروع کی تو ان میں یورپ اور امریکہ کی بیماریاں بڑھیں اور اور ان کی عمریں بھی کم ہونا شروع ہوئیں ۔

ان حالات کے زیرِ اثر امریکہ کے سائینسدانوں نے مشرقِ بعید کے لوگوں کے خورد و نوش کی اشیاء پر تحقیق شروع کی ۔ سالہا سال کی تحقیق سے واضح ہوا کہ مشرق بعید کے لوگوں کی صحت اور لمبی عمر کا راز اُن جڑی بوٹیوں میں ہے جو وہ روز مرّہ خوراک میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے قبل میں سبز چائے یا قہوہ ۔ سؤنف ۔ سفید زیرہ اور کالی مرچ کے متعلق لکھ چکا ہوں ۔ آج اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی ایک اور مسلّم نعمت دارچینی کا ذکر ۔ میرا خیال ہے کہ میں زکام اور حساسیت کا عام خوراک سے علاج بھی لکھ چکا ہوں

دارچینی اِنسُولِین کا بہترین اور زیادہ مؤثر نعم البدل ہے ۔ اس لئے دارچینی کا مناسب استعمال ذیابیطس پر قابو رکھتا ہے ۔ ذیابیطس کی دو قسمیں بتائی جاتی ہیں ۔ قسم 1 جو عام ذیابیطس ہے اور اس کا علاج اِنسُولِین سے کیا جاتا ہے ۔ اور قسم 2 جس کا علاج ایلوپیتھی میں ابھی تک صحیح دریافت نہیں ہوا ۔ دارچینی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف ذیابیطس قسم 1 بلکہ قسم 2 کا بھی مؤثر علاج ہے ۔

دارچینی زکام کے علاج کیلئے مجرب نسخہ ہے اور آرتھرائٹس میں بھی مفید ہے ۔ اگر دارچینی کو پانی میں ڈال کر خُوب اُبال لیا جائے پھر اس میں سبز چائے جسے عام طور پر چائینیز ٹی کہا جاتا ہے ڈال کر چولہے سے اُتار لیا جائے ۔ یہ قہوہ روزانہ رات کے کھانے کے بعد پیا جائے تو نہ صرف معدے میں گیس بننے سے روکتا ہے بلکہ کولیسٹرال کو اعتدال میں لاتا ہے اور کئی قسم کے سرطان سے بچاتا ہے ۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں 170 ملین یعنی 17 کروڑ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلاء ہیں جو یورپ اور امریکہ کی بہت مہنگی دوائیاں استعمال کرتے وہ اس سادہ اور سستے نسخہ سے فیضیاب ہو سکتے ہیں

شہید اور زعفران

میں نے بچپن میں سُنا تھا کہ شہید کا جسم مرنے کے بعد گلتا سڑتا نہیں اور اس سے زعفران کی خوشبو آتی ہے ۔ یہ بات مجھے یاد آئی حریت رہنما شیخ عبدالعزیز کی شہادت پر جو مقبوضہ جموں کشمیر میں پیر 11 اگست 2008ء کے روز “مظفرآباد مارچ” کے دوران فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے ۔ شیخ عبدالعزیز کا شمار تحریک آزادی جموں کشمیر کے ممتاز رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ بہت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی ایگزیکیٹو کونسل کے رکن تھے۔

شیخ عبدالعزیز کا تعلق مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تھا جہاں وہ 1952ء میں پامپور قصبے میں پیدا ہوئے۔ پامپور کا علاقہ زعفران کی پیداوار کے لئے مشہور ہے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پامپور کے سکول میں ہی حاصل کی اور میٹرک کے بعد وہ کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔

شیخ عبدالعزیز ابھی نوجوان ہی تھے جب سرینگر میں حضرت بَل کے مزار سے پیغمبرِ اسلام سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موئے مبارک کی چوری کے بعد ایک عوامی احتجاج شروع ہو گیا جس نے بہت جلد مزاحمتی رنگ اِختیار کر لیا اور اس سے متاثر ہو کر شیخ عبدالعزیز سمیت آزادی کے طلبگار کشمیریوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہو گئی ۔ یہ حریت پسند اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں کشمیر کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کے حامی تھے۔

شیخ عبدالعزیز کشمیر میں شورش کے دوران شیخ عبدالعزیز متعدد بار گرفتار ہوئے اور انہیں نے پندرہ سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ پہلی بار وہ 20 سال کی عمر میں گرفتار ہوئے جب ان پر بدنامِ زمانہ نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے معتدل مزاج دھڑے سے وابستہ رہے جو بات چیت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کی حل کی حمایت کرتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ان کی اہم سیاسی کامیابی شری امرناتھ شرائن بورڈ کے مسئلے پر کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو قریب لانا تھا۔