جُرمِ عظیم ہے مؤمن اور ذہین ہونا

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں تین کمسن بچوں سمیت امریکی حکومت نے 30 مارچ 2003ء کو اغوا کیا اور ساڑھے پانچ سال سے غیرقانونی طور پر قید رکھ کر درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ بچوں کی عمریں اُس وقت ایک ماہ سے چار سال تھیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہین ۔ محنتی اور باعمل مسلمان خاتون ہیں اور یہی جُرمِ عظیم ہے آج کی انسانی حقوق کی دلدادہ کہلوانے والی نام نہاد آزاد دنیا میں ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں یا ایف بی آئی والوں نے کیا کیا ظُلم نہ کئے ہوں گے ۔ اس کیلئے ماضی کی ہلکی سی جھلک

In addition, the May 10-17, 2004 issue of Newsweek said that yet-unreleased Abu Ghraib abuse photos “include an American soldier having sex with a female Iraqi detainee and American soldiers watching Iraqis have sex with juveniles.”

What also has not been revealed to the American public is that the sexual humiliation of Islamic prisoners and rape of women detainees is actually an Israeli Jewish practice used by the Zionists against the Palestinians.

. . . investigators and intelligence officers keep video tapes of the raping to blackmail the female detainees

On May 12, 2004 an Iraqi female professor revealed that U.S. soldiers in Iraq have raped, sexually humiliated and abused several Iraqi female detainees in the notorious Abu Ghraib prison. Professor Huda Shaker, a political scientist at Baghdad University, said an Iraqi young girl was raped by a U.S. military policeman and became pregnant.

صدیقی نے امریکا کی معروف یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے وراثیات [genes] میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ 2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دورہ پر گئیں۔ اس دوران میری لینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لئے پوسٹ بکس کرائے پر لیا اور 2003ء کے شروع میں کراچی ۔ پاکستان ۔ واپس آ گئیں کیونکہ وہ اُمید سے تھیں ۔ ایف بی آئی نے الزام لگایا کہ پوسٹ بکس القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لئے کرائے پر لیا گیا ۔ امریکی ذرائع ابلاغ کو جو ہر لمحہ مسلمان دُشمن پروپیگنڈہ کیلئے تیار رہتے ہیں سنسنی پھیلانے کا موقع مل گیا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی ۔

اتوار 30 مارچ 2003ء کو عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لئے ٹیکسی میں کراچی ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت آپ کو اغوا کر کے امریکی ایف بی آئی کے حوالے کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی ۔ 31 مارچ 2003ء کے مقامی اخباروں میں آپ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر اس وقت کے وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کسی سرکاری ادارے کی تحویل میں نہیں ہے ۔ امریکی نیٹ ورک این بی سی نے خبر لگائی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اُسامہ بن لادن کیلئے چندہ بھیجنے کے الزام میں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بلا جواز گرفتاری پر واویلا کرنے والی ماں بیگم عصمت صاحبہ کو خطرناک انجام کی دھمکیاں دی گئیں ۔ 

گمشدگی کے فوراً بعد امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی تاہم بعد میں ان کے بارے میں سرکاری سطح پر لا علمی کا اظہار کیا جاتا رہا ۔ 2 اپریل 2003ء کو فیصل صالح حیات نے بیان دیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مفرور ہے ۔ 30 دسمبر 2003ء کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اس وقت کے ایک وزیر اعجاز الحق کو ساتھ لے کر وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات کے پاس گئیں تو فیصل صالح حیات نے کہا “ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ آپ گھر جا کر اُس کی کال کا انتظار کریں”۔

معلوم ہوا ہے کہ 2002ء میں ایف بی آئی والے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ میں تھیں تو ایف بی آئی والے اُن کے خاوند کو لے گئے تھے ۔ میاں بیوی دونوں کے متعلق چھان بین کی گئی اور کچھ ثبوت نہ ملنے پر انہیں چھوڑ دیا ۔ امریکی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاوند نے اُسے طلاق دے دی تھی اور پھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے خالد شیخ کے بھتیجے یا بھانجے سے شادی کرلی تھی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دوسرے گھر والے اسے غلط بیانی قرار دیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا خاوند بھی ایف بی آئی کے زیرِ حراست ہے ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خفیہ اداروں سے رہائی کی درخواست پچھلے سال 3 نومبر سے پہلے والی عدالتِ عظمٰی میں دائر کی گئی تھی جو پرویز مشرف کے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے اب تک شنوائی کے انتظار میں ہے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق انہوں نے امریکی اہلکاروں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو انہوں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عافیہ کی زندگی چاہتے ہو تو اپنی زبان بند رکھو ۔ اُنہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی جاتی رہیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے عزیز و اقارب حالات کی ستم ظریفی کے باعث ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے تھے ۔ پھر جولائی 2008ء کے پہلے ہفتہ میں اچانک ان کے دبے ہوئے احساس پھر بھڑک اُٹھے جب ایک برطانوی صحافیہ نے بگرام کے کنسنٹریشن سینٹر [Concentration Centre] میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا

ایک برطانوی صحافیہ وون رِڈلی صاحبہ [Yvonne Ridley] جو انسانی حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں افغانستان کے دورہ پر گئیں اور وہاں جیلوں میں قیدیوں کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کے دوران اُنہیں رہا ہونے والے قیدیوں نے بتایا کہ امریکیوں کے زیرِ انتظام بگرام کنسنٹریشن سینٹر جو کہ صرف مردوں کیلئے ہے میں ایک قیدی نمبر 650 عورت ہے اور رات کے وقت اُس کی چیخوں اور آہ و بقا کی آواز یں سنی جاتی ہے ۔ رِڈلی صاحبہ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت قیدی نمبر 650 وہاں 4 سال سے زیادہ عرصہ سے قید ہے ۔

کچھ دن بعد صحافیہ وون رِڈلی پاکستان آئیں اور 6 جولائی 2008ء کو عمران خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بگرام جیل میں موجود ایک قیدی عورت کیلئے مدد مانگی جو صحافیہ کے خیال میں پانچ سال قبل حراست میں لی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو سکتی ہیں ۔ صحافیہ نے کہا کہ وہ اُسے گرے لیڈی [Grey Lady] کا نام دیتی ہیں کیونکہ اُس پر اس قدر تشدد کیا گیا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے ۔ اور اُسے بھوت سے تشبیہ دی جس کی کوئی شناخت نہیں ہے لیکن اسکی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں جو انہیں ایک بار سننے کا تجربہ کر چکے ہیں ۔

جولائی 2008ء کے شروع میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور لاپتہ افراد اور خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے قائم دیگر بین الاقوامی اداروں کو بھیجی جانے والی یادداشت میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس بات کے کافی شواہد ملے ہیں کہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہیں ۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے اور قیدی نمبر 650 کے نام سے مشہور اس خاتون کو نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔

ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 کی شناخت اور حالات کو منظر عام پر لانے کے لئے مداخلت کریں ۔ جب کچھ معلومات نجی پاکستانی ذرائع ابلاغ تک پہنچی تو چاروں طرف شور مچ گیا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے تین کمسِن بچوں کی باز یابی کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ اس پر امریکیوں نے نیا ڈرامہ رچایا اور 27 جولائی 2008ء کو اعلان کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 17 جولائی 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ اس پر امریکی فوجیوں پر گولیاں چلانے کا مقدمہ چلایا جا سکے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین کہا ہے اور حقیقت میں یہ کہانی بے ڈھنگ کا جھوٹ ہے ۔ کس طرح ایک چھوٹے قد کی نحیف لڑکی امریکی مسلح فوجیوں کی قید میں ہوتے ہوئے ایک فوجی سے بندوق چھین کر ان پر گولی چلا سکتی ہے ؟

ایک بے قصور تعلیم یافتہ مگر کمزور خاتون ساڑھے پانچ سال سے امریکی درندوں کے قبضہ میں ہے اور وہ اس پر بے پناہ ظُلم ڈھاتے رہے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
مختصر سا جواب ہے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف جس نے اپنی کتاب میں فخریہ انداز میں لکھا کہ اس نے پانچ سو سے زیادہ لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کئے اور ان کے بدلے میں ڈالر حاصل کئے اور اُس کے ماتحت بے غیرت اہلکار ۔

کتنی بدقسمت ہے وہ قوم جس کا صدر بردہ فروش ہو ۔ بردہ فروش کی سزا موت ہے ۔ کیا پرویز مشرف کو پانچ چھ سو بار موت کی سزا دی جائے گی ؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جو تمام پاکستانیوں کا منہ چڑھا رہا ہے ۔

کہاں ہیں حقوقِ نسواں اور محافظتِ نسواں کے نام پر تقریریں کرنے والے اور ٹی وی کیمروں کے سامنے احتجاج کرنے والے ؟
کہاں ہیں عورت کو آزادی دلانے کیلئے شور مچانے والے ؟
کہاں ہیں اسلامی قوانین کو ظالمانہ قرار دینے والے ؟
کہاں ہے وہ عاصمہ جہانگیر جو آزادی نسواں کا بلند پرچم اُٹھانے کی دعویدار ہے ؟

یہ سب کچھ صرف اسلئے کہ ایک طرف ان حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کا اَن داتا امریکا ہے اور دوسری طرف اللہ کی بندی باعمل مؤمنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ۔

بلاشبہ مہنگائی ۔ اور بجلی کی آنکھ مچولی سے پِٹے ہوئے عوام کی کافی تعداد اپنی تکلیف بھُول کر قوم کی ہونہار بیٹی کے غم میں مبتلا ہو کر اپنی نحیف آواز اُٹھا رہے ہیں ۔ اُمید ہے کہ یہ آواز بہت جلد زور پکڑ جائے گی ۔ جماعتی سطح پر احتجاج میں پہل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور جماعتِ اسلامی نے کی ۔

خون کی ندیاں آج بھی بہتی ہیں

میرے وطن جموں کشمیر میں آج بھی آہنسا پرمودما کے پُجاری میرے مسلمان بھائوں کا خون بہا رہے ہے ۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا

پیر اور منگل یعنی 11 اور 12 اگست 2008ء کے روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے “مظفر آباد چلو” مارچ میں حصّہ لیا ۔ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے مظاہرین پر اشک آور گیس کے شیل پھنکے اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنے کے حامی سرکردہ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز اور ایک خاتون سمیت کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ۔ بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے استعمال اور مُظاہرین پر فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ حکومت کا یہ اقدام کسی منطق کا نہیں بلکہ سراسر بوکھلاہٹ نتیجہ ہے

تنازعہ کیسے شروع ہوا

ریاست جموّں و کشمیر کے مسلم اکثریتی صوبہ کشمیر میں ہندوٴوں کی ایک مقدس غار واقع ہے ۔ جسے “امرناتھ گھپا” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کی یاترا کیلئے آتے ہیں مگر کبھی ان کی رہائش کلا مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ حال ہی میں ایک ہندو نجی ادارہ تشکیل دیا گیا اور ریاست کی حکومت نے یاتریوں کی سہولت کے نام پر 800 کنال زمین اس نجی ادارے کے نام منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ زمین دراصل مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ملکیت ہے ۔

حکومت میں شامل بھارت نواز پارٹی نے بھی اس فیصلہ سےمشتعل ہو کر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ شدید دباؤ کے پیش نظر ریاستی حکومت نے زمین منتقل کئے جانے کا فیصلہ واپس لیا لیکن اس فیصلے کے خلاف ریاست کے صوبہ جموّں میں ہندوٴوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع کئے گئے ۔ ہر گُذرتے دن کے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد پر سیاسی دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر 7 جولائی 2008ء کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ۔ مگر ہندو تنظیموں نے اسی پر بس نہ کی اور پندرہ بیس دن قبل 294 کلو میٹر طویل جموّں سے سری نگر قومی شاہراہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور اشیاء ضروری کی سپلائی کشمیر نہیں پہنچنے دی اور نہ ہی مسلمانوں کے باغوں میں پیدا ہونے والے پھل گذرنے دئیے جو کہ گل سڑ گئے ۔

باغات کے مالکان اور تاجران نے اس غیرقانونی اور غیر انسانی ناکہ بندی سے مجبور ہو کر اپنا مال مظفر آباد اور راولپنڈی کی منڈیوں میں فروخت کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس پر “مظفر آباد چلو” کا نعرہ لگایا گیا ۔ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے صوبہ کشمیر میں پھلوں کی پیداوار سے منسلک فروٹ گروئرز ایسوسی ایشن ۔ تاجروں کی انجمنوں ۔ سول سوسائٹی کے اتحاد [کولیشن آف سول سوسائٹی] ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس ۔ یہاں تک کہ بھارت نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھی مارچ کی حمایت کی گئی ۔

ایک طرف بھارت اور پاکستان کی حکومتیں سری نگر ۔ مظفر آباد روڑ سے تجارت شروع کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور دوسری طرف مظفر آباد میں اپنا مال فروخت کرنے کی خواہش ظاہر کرنے پر بھارتی حکومت نے ہندوؤں کی طرف سے کی گئی غیرقانونی ناکہ بندی کو ختم کرانے کی بجائے کرفیو لگا کر علاقے کو فوج کے حوالے کر دیا ۔

یہ سب کچھ اس بھارتی حکومت کی ایماء پر اور سرپرستی میں ہو رہا ہے جو بھارت کو مذہبی تفریق سے آزاد جمہوریت قرار دیتی ہے اور امن امن کا راگ الاپتی رہتی ہے ۔

آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ڈیڑھ ارب انسان کہاں ہیں ؟ انسان دوستی کے راگ گانے والے اربوں جمہوریت پسند کہاں ہیں جن کا دعوٰی ہے کہ وہ کسی جانور کو بھی مرتا نہیں دیکھ سکتے ؟

اپنے 16 کروڑ پاکستانی کہاں ہیں ؟

وہ ہموطن کہاں ہیں جو بھارتی ہندؤوں سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے گیت گاتے رہتے ہیں ۔

وہ مظلوموں کے دُکھ کا ساتھی ہونے کا دعوٰی کرنے والا الطاف حسین کونسا برطانوی نشہ پی چکا ہے کہ اُسے مسلمان کا خون نظر نہیں آتا ؟

باسٹھواں یوم آزادی

 آؤ بچو ۔ سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

آج آنے والی رات کو 11 بج کر 57 منٹ پر سلطنتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پورے 61 سال ہو جائیں گے ۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ میں آزادی کی سالگرہ مبارک تو ہر سال ہی لکھتا ہوں اور اب یہ الفاظ ہی حالات نے پھیکے پھیکے کر دئیے ہیں ۔ آزادی کے 61 سال بعد بھی ہم پسماندگی اور پریشانی کا شکار کیوں ہیں ؟ اس پر غور کر کے ہمیں اپنی خامیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جتنی جلد یہ خامیاں دور ہوں گی اتنی ہی تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے مُلک کو ہر قسم کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن ہموطنوں کی ناسمجھی کی وجہ سے قوم تنزل کا شکار ہے ۔

اندرونِ وطن

سب حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور حقوق کے نام پر لمبی لمبی تقاریر اور مباحث بھی کرتے ہیں لیکن دوسروں کا حق غصب کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر اپنی گاڑی میں نکلیں تو دوسری گاڑیوں میں سے اکثریت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح آپ سے آگے نکل جائیں یا آپ سے پہلے مُڑ جائیں ۔ چوراہے پر بتی ابھی سبز ہو نہیں پاتی کہ لوگ گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے کھڑے کو کوئی سڑک پار کرنے نہیں دیتا

ہموطنوں کی اکثریت کو ہر چیز غیرملکی پسند ہے ۔ اپنے وطن کی بنی عمدہ چیز کو وہ حقیر جانتے ہیں اور دساور کی بنی گھٹیا چیز کو عمدہ سمجھ کر خریدتے ہیں ۔ کئی بار میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی صاحب دساور کی بنی چیز زیادہ دام دے کر خرید لائے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اور کم قیمت پر ملتی ہے ۔ مقامی دکاندار جب گاہکوں کی نفسیات تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مال پر فرانس ۔ جرمنی ۔ جاپان یا چین کا بنا ہوا لکھوانا شروع کر دیا ۔ میں اور دفتر کا ساتھی بازار کچھ خرید کرنے گئے وہاں ایک چیز پر چینی یا جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا ۔ اتفاق سے قریبی دکان سے دو جاپانی کچھ خرید رہے تھے ۔ میرا ساتھی وہ چیز لے کر ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا یہ جاپان کا بنا ہوا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ لکھا ہے پاکستان کا بنا ہوا

ملبہ یا کُوڑا کرکٹ بنائی گئی جگہ کی بجائے اپنے گھر کے قریب جہاں بھی خالی پلاٹ یا جگہ ہو وہاں انبار لگا دینا اپنی خُوبی سمجھا جاتا ہے ۔ قومی یا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا شاید بہادری سمجھا جاتا ہے اور بجلی کی چوری کئی ہموطنوں کی فطرت ہے اور وہ اسے اپنی عقلمندی یا چابکدستی سمجھتے ہیں ۔ دکاندار مال کا عیب گاہک کی نظروں سے اوجھل کر کے عیب دار مال بیچتے ہیں

میرے ہموطن ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے ؟ یا کہہ دیں گے یہ بھی کوئی ملک ہے ۔ اپنے ہموطنوں کے متعلق کہیں گے کہ سب چور ہیں ۔ اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو بھی چور کہہ رہے ہیں

بیرونِ وطن

بیرونِ وطن ہموطنوں کی اکثریت بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نیچا دِکھانے پر تُلے رہتے ہیں ۔ گو اپنا یہ حال کہ عمر برطانیہ میں گذاری مگر صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا نہ سیکھا ۔ سعودی عرب میں بیس پچیس سال رہے اور قرآن شریف صحیح طور پڑھنا نہیں آتا ۔

ایک صاحب جو برطانوی شہری ہیں پاکستان آئے ۔ ایک پتلون مجھے دکھا کر کہنے لگے “یہ میں نے لندن سے خریدی ہے ۔ ایسی اچھی کوئی پاکستان میں بنا سکتا ہے ؟” میں نے پتلون پکڑ کر دیکھی تو خیال آیا کہ یہ کپڑا تو وطنِ عزیز میں ملتا ہے ۔ میں نے پتلون بنانے والی کمپنی کا نام ڈھونڈنا شروع کیا ۔ پتلون کے اندر کی طرف ایک لیبل نظر آیا جس پر انگریزی میں لکھا تھا “پاکستان کی بنی ہوئی”۔

کچھ سالوں سے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ “پاکستان خطرناک مُلک ہے ۔ وہاں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں ۔ جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے”۔ جس کو دیکھو وہ ہر باعمل مسلمان کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے ۔

میں پاکستان سے باہر درجن بھر ملکوں میں گیا ہوں اور آٹھ دس دوسری قوموں سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے ملک یا قوم کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنا لیکن جس ملک میں بھی میں گیا وہاں کے پاکستانی یا جن کے والدین پاکستانی تھے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کے سامنے باتیں کرتے سنا ۔

کاش ہموطن ایک قوم بن جائیں اور ہم صحیح طور سے یومِ پاکستان منا سکیں

سُنہرے اصول

1 ۔ کسی سے مت کہئیے ” تُم مجھے پسند نہیں”

2 ۔ جب تک ٹھوس وجہ نہ ہو ۔ کسی کو بُرا نہ سمجھئیے

3 ۔ خواہ کوئی اچھا ہو یا بُرا ۔ ہر ایک سے اچھا سلوک کیجئے لیکن بُرے شخص کے معاملہ میں ہوشیاری اور بُردباری سے کام لیجئے

4 ۔ کوئی بیہودہ گفتگو کرے تو زبان درازی سے نہیں ۔ سرد مہری سے اپنی ناپسندیدگی کا اُسے احساس دلایئے

5۔ جب تک تسلی سے غور نہ کر لیں ۔ کسی کی بات پر یقین نہ کیجئے

6۔ اکیلی لڑکی یا نوجوان عورت اپنے محرم کے علاوہ کسی مرد یا 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے کو اپنے اتنا قریب آنے کا موقع نہ دے کہ وہ اُس کے جسم کو ہاتھ لگا سکے

7 ۔ اکیلی لڑکی یا نوجوان عورت اپنے محرم کے علاوہ کسی مرد یا 12 سال سے زائد عمر کے لڑکے کے ساتھ تنہا کمرے میں یا کسی الگ جگہ میں ہونے سے بچے

8 ۔ اکیلا لڑکا غیر محرم اکیلی عورت یا اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ تنہا کمرے میں یا کسی الگ جگہ میں ہونے سے بچے

کیا دین اس دنیا کے کاروبار سے لاتعلق ہے ؟

مادیت پرستی نے دنیا کو اتنا محسور کر دیا ہے کہ آج کے دور کا انسان حقائق کو تسلیم کرنا تو کُجا حقائق سمجھنے کی بھی کوشس نہیں کرتا اور صرف اپنے تخلیق کردہ مادہ اور اطوار کو ہی حقیقت سمجھتا ہے ۔ انسان کی دین سے دُوری کا بنیادی سبب بھی یہی ہے ۔ ہم لوگ طبعیات ۔ کیمیا ۔ ریاضی ۔ معاشی ۔ معاشرتی ۔ وغیرہ مضامین کی کتابوں کو جس انہماک اور محنت کے ساتھ پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں اگر اسی طرح دین کی بنیادی کتاب “قرآن شریف” کو بھی پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے سمجھ نہ سکیں ۔ جس قوم کے افراد کا یہ حال ہو کہ دوسرے مضامین کی سینکڑوں سے ہزاروں صفحات پر مشتمل غیر زبان میں لکھی کُتب کے مقابلہ میں اسلامیات کی پچاس صفحوں کی کتاب بھی بوجھل محسوس ہو ایسے افراد سے دین کو سمجھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔

آمدن برسرَ مطلب ۔ دین ہے کیا ؟
دنیا میں ہر مصنوعی پرزہ کے استعمال کا طریقہ اس کے ساتھ لکھ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی احتیاطی تدابیر [Procedure; Operation layout or Process chart; Does and don’ts; Warning, etc] ہوتی ہیں ۔ مختلف اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی لکھا ہوا یا زبانی طریقہ کار [Job description] مہیا کیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ اسی طرح ہر اچھے معاشرہ میں زندگی گذارنے کا طریقہ بھی مروّج ہوتا ہے ۔

ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر کام کے کرنے کے طریقہ کو آج کی ترقی یافتہ دنیا نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اسے آئی ایس او [ISO 2000 to ISO 14000] میں شامل کر لیا ہے اور مشہور ادارے اور کارخانے اس کی سندیں حاصل کرتے پھر رہے ہیں ۔

دین یہ کہتا ہے کہ اچھی زندگی کس طرح گذاری جاتی ہے ۔ اپنے خاندان کے افراد سے ۔ رشتہ داروں سے ۔ محلے والوں سے ۔ ہمسفر سے ۔ مُحتاجوں سے ۔ اپنے افسر سے ۔ اپنے ماتحت سے غرضیکہ ہر انسان سے اچھی طرح پیش آنے کا دین حُکم دیتا ہے اور دین جسم کی صفائی ۔ لباس ۔ کھانا پینا ۔ چلنا پھرنا ۔ لین دین ۔ تجارت ۔ ملازمت ۔ زندگی کے ہر شعبہ اور ہر فعل کے متعلق خوش اسلوبی کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اور ہر بات تفصیل سے بتاتا ہے ۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ چودہ صدیاں قبل قرآن شریف میں جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام آئے آج کے جدید ترین انتظامی قوانین اُنہی سے ماخوذ ہیں مگر عمدگی میں اتنے کامل نہیں ہیں ۔ بات سمجھ سے باہر یہ ہے کہ اگر دین کو دنیا سے الگ ہی رکھنا ہے تو پھر دین کیا چوپایوں اور پرندوں کیلئے ہے ؟

توقعات یا پریشانی ؟

جب بات دسترست سے باہر ہو تو پریشانیوں سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کیجئے

دنیا کیسی ہونا چاہیئے ؟ اس کا فیصلہ آپ کے ذمّہ نہیں
دوسروں کے چال چلن اور برتاؤ کے اصول مرتّب کرنا آپ کی ذمّہ داری نہیں

کيونکہ جب دنیا آپ کے بنائے اصولوں پر نہیں چلتی تو آپ کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ۔

ہم لوگوں کی پریشانی کی وجہ عام طور پر یہی ہوتی ہے ۔ اِس پریشانی سے بچئیے

محنت ؟ ؟ ؟

ہم جب بچے تھے تو ایک مووی فلم بنی تھی جسے لوگ اشتراکیت کا پروپیگنڈہ کہتے تھے ۔ فلم تو میں نے نہیں دیکھی لیکن اس میں ایک گانے کے بول مجھے پسند تھے

محنت کی اِک سوکھی روٹی ۔ ہاں بھئی ہاں ہے
اور مُفت کی دودھ ملائی ۔ نہ بھئی نہ رے

“محنت کا پھل میٹھا ہوتا ہے” ۔ “محنت رائیگاں نہیں جاتی”۔ یہ محاورے نہ صرف وطنِ عزیز کی قومی زبان میں بلکہ تمام علاقائی زبانوں میں بھی مختلف طریقوں سے موجود ہیں ۔ شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جس نے یہ محاورے پڑھے یا سُنے نہ ہوں ۔ تعجب کی بات یہ ہے قوم کی اکثریت ان محاوروں کے مطابق عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتی ۔ اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محنت کا راستہ دُشوار گذار لگتا ہے ۔ شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ انہیں ایک دوسرے محاورے نے زیادہ متاثر کیا ہے جو ہے “گھی سیدھی اُنگلی سے نہیں نکلتا”یعنی گھی نکالنے کیلئے اُنگلی ٹیڑھی کرنا پڑتی ہے ۔ آجکل تو اُنگلی سے گھی کوئی نکالتا ہی نہیں بلکہ اشتہاربازی کے زیرِ اثر زیادہ لوگ گھی کھاتے ہی نہیں ۔ تیل اور وہ بھی جس کے ساتھ کینولا لگا ہو استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے اس سے نیولا یاد آتا ہے جو بڑی مہارت سے بڑے سے بڑے سانپ کو مات کر دیتا ہے ۔

میرا تجربہ یہ ہے کہ محنت کرنے والے کی قدر آج کی دنیا میں بہت کم رہ گئی ہے اور محنت کرنے والے کو کئی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن محنت کرنے والا شخص جتنی پُراعتماد اور ذہنی سکون کی زندگی گذارتا ہے محنت کا راستہ اختیار نہ کرنے والا ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔

لگ بھگ 4 دہائیاں پہلے کی بات ہے میرے محکمہ کے ایک ساتھی میرے دفتر میں آئے اور مجھے کہنے لگے “اجمل ۔ آپ صرف محنت کرتے ہو ۔ آج کی دنیا اشتہاربازی کی ہے ۔ میں تو ایک ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور دوسرے ہاتھ سے ڈفلی بجاتا ہوں ۔ یہ افسران مجمع کے لوگ ہیں ۔ ان کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ڈفلی بجا کر مجمع لگانا ضروری ہے”۔

میں علامہ اقبال صاحب کو فلسفی سمجھتا ہوں ۔ اُن کا ایک شعر آٹھویں جماعت سے میرے لئے مشعلِ راہ رہا ہے

تُندیٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

چنانچہ میں نے اپنے محکمہ کے بظاہر کامیاب ساتھی کی بات نہ مانی اور اپنا سفر آہستہ آہستہ جاری رکھا ۔ تُند و تیز ہواؤں کا مقابلہ کرتے کرتے کبھی کبھی میرا جسم شَل ہو جاتا ۔ ساتھی ڈِپلومیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ۔ میں اُن کی نصیحت کا شکریہ ادا کر دیتا لیکن جس خُو کو ساتھی ڈپلومیسی کا نام دیتے تھے وہ میرے لئے دوغلاپن یا منافقت تھی ۔ میرے دماغ اور دِل نے کبھی ہمت نہ ہاری اور اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ سُکھ کی نیند سویا ۔ مجھے نان و نُفقہ کی کبھی فکر نہ ہوئی ۔ اگر کبھی فکر ہوئی تو صرف اس کی کہ میرے بچے کامیابی سے اپنے تعلیمی منازل طے کر لیں ۔ میں مالدار آدمی نہ تھا اور نہ ہوں لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرے ہر آڑے وقت کو کامیابی سے گذار دیا اور ہمیشہ آزادانہ زندگی بسر کی ۔ الحمدللہ رب العالمین کہ

یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے