کیا ریاست میں ریاست صرف فاٹا ہے ؟ اور حکومتی رِٹ کی ضرورت صرف فاٹا میں ہے ؟

پاکستان کے ہر صوبے بلکہ ہر ضلع میں ریاست میں ریاست [state within state] موجود ہے اور جہاں حکومتی عملداری [writ] کا فُقدان ہے ۔ ریاست میں ریاست کہاں کہاں ہے اور حکومتی عملداری کی کہاں زیادہ ضرورت ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو میرے جیسے عوام کے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا ہے مگر زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہو رہی ۔ اس پر بات بعد میں ہو گی پہلے صورتِ حال کا کچھ بیان

آجکل انگریزی یا انگریزی ملی اُردو بولنے والے ہموطنوں کی محفل میں جائیں تو اکثر کچھ اس طرح کی گفتگو سننے میں آتی ہے
“ان ایکسٹرِیمِسٹس [extremists] یعنی قبائلیوں نے اسٹیٹ اِن سائیڈ اسٹیٹ [state inside state] بنا رکھی ہے”
“دنیا کے کسی ملک میں دِس اِز ناٹ دیئر [this is not there] ”
“حکومت کی رِٹ [writ] قائم ہونا چاہیئے ۔ جو نہیں مانتا چلا جائے”

اِن اپنے تئیں دانشوروں مگر عقل سے پیدل لوگوں سے کون کہے کہ بات کرنے سے قبل تاریخ جغرافیہ کا مطالع تو کر لیا کریں ۔ لیکن وہ تو فیشن کے لوگ ہیں اور آجکل ایسی ہی باتوں کا فیشن ہے ۔ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ [FATA] میں پاکستان بننے سے لے کر آج تک کسی نے نہ حکومتی عملداری [government’s writ] قائم کرنے کی کوشش کی اور نہ کبھی وہاں رہائش پذیر لوگوں کو پاکستان کا حصہ سمجھا ورنہ وہاں باقی پاکستان کے قانون کی بجائے ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں کا بنایا ہوا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن [FCR] اب تک نافذ نہ ہوتا ۔ اس علاقہ کے لوگوں نے انگریزوں کی تابعداری قبول نہ کی لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھا اور پاکستان کی شمال مغربی حدود کی 60 سال حفاظت کی ہے ۔ شاید امریکا ان کو اسی کی سزا دینا چاہتا ہے جو اِنہی کے ملک کے حکمرانوں کے ذریعہ دی جا رہی ہے ۔

دوسرے ممالک میں ریاست کے اندر ریاستیں

یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ۔ دُور کیا جانا بھارت میں ایسی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہیں جن میں ناگا قبائل کا ذکر تو آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کینڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا [USA] میں بھی ایسی کئی ریاستیں موجود ہیں ۔ ان قبائل میں سے سب سے مشہور لوگ اَیمِش [Amish] کہلاتے ہیں ۔ یہ کینڈا اور امریکا کی کئی ریاستوں میں گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے میں ملکی قوانین کی جگہ ان کے اپنے قوانین چلتے ہیں ۔ میں کسی اور حوالے سے اَیمِش عورت کی تصویر دسمبر 2006ء میں شائع کر چکا ہوں ۔ اَیمِش لوگوں کے متعلق جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک اور گروہ بھی ریاست کے اند ریاست کا درجہ رکھتا ہے جنہیں انڈین کہتے ہیں ۔ اس میں کئی قبائل ہیں جن میں چروکی [Cherokee] ۔ شوشون [Shoshones] ناواجو [Navajo] مشہور ہیں ۔ ان تین گروہوں میں کئی چھوٹے قبائل شامل ہو چکے ہیں ۔ چاکٹا [Chakta] ۔ کرِیک [Creek] ۔ اِرو قوئیس [Iroquois] وغیرہ چروکی میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پائیئوٹس [Paiutes] شوشون میں شامل ہو چکے ہیں اور زُونی [Zuni] ۔ ہوپی [Hopi] وغیرہ ناواجو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان قبائل کی آبادیوں میں بھی ان کے فیصلے ان کے اپنے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست کی کچھ مثالیں

ریاست میں ریاست کی تفصل تو بہت طویل ہے ۔ نمونہ کے طور پر صرف 8 اقسام کا مختصر ذکر کروں گا اور آٹھویں قسم پاکستان کے اندر سب سے بڑی اور انتہائی طاقتور درجنوں ریاستیں ہیں ۔

1 ۔ اسلام آبادمیں ایک گاؤں نور پور ہے جہاں شاہ عبداللطیف کا مقبرہ بھی ہے ۔ اس گاؤں میں کچھ سرکاری زمین پر با اثر لوگوں کا قبضہ ہے جو غریب بے گھر خاندان سے بیس سے تیس ہزار روپیہ لے کر اُنہیں ایک کمرہ بنانے کیلئے زمین دیتا ہے ۔ کبھی کبھی کیپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کو جوش آتا ہے تو تجاوزات قرار دے کر ان غریبوں کے مکان گرا دیتا ہے ۔ اُس وقت ہر خاندان سے زمین کا بیس تیس ہزار روپیہ لینے والا اُن کی مدد کو نہیں آتا ۔ کیا یہ قبضہ گروپ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیاحکمومتی عملداری صرف غریبوں کو نقصان پہنچانا ہے ؟

2 ۔ اسلام آباد ہی میں لال مسجد سے ملحقہ قانونی طور پر قائم جامعہ حفصہ کی توسیع کو تجاوز قرار دے کر سینکڑوں بیگناہ یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ہلاک کرنے کے بعد عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور حکومتی عملداری [writ] قائم ہو گئی ۔ اس جامعہ سے سوا کلو میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد کے وسط میں ایک برساتی نالے کے کنار ے ایک کمیونٹی نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اپنے درجنوں مکانات بنائے ہوئے ہیں ۔ اسے لوگ فرنچ کالونی کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو حکومتی اہلکار کچھ کہنے کی بھی جراءت نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور اس سلسلہ میں حکومتی عملداری [writ] کہاں چلی گئی ہے ؟

3 ۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں وڈیرے کا ناجائز حُکم نہ ماننے والی لڑکی یا عورت کے کپڑے پھاڑ کر اُسے برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے ۔ مگر ان ظُلم کرنے والوں کو حکومت آج تک کوئی سزا نہیں دے سکی ۔ کیا یہ ظالم لوگ ریاست کے اندر ریاست نہیں ؟ اور کہاں چلی جاتی ہے حکومتی عملداری اس سلسہ میں ؟

4 ۔ ملک کے مختلف حصوں میں زبردستی کی شادی پر رضامند نہ ہونے والی لڑکی کو کاری یا کالی قرار دے کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جس کا فیصلہ با اثر وڈیرے کی تابعدار پنچائت کرتی ہے ۔ کیا یہ وڈیرہ اور اس کی پنچائت ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ؟ اور کہاں ہوتی ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

5 ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان میں وِنی یا سوارا کی ایک رسم ہے جس کے تحت کمسِن بچی کی شادی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے سے کر دی جاتی ہے اور وہ ساری زندگی ایک زرخرید لَونڈی کی طرح گذارتی ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں اور کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

6 ۔ چند ماہ قبل بلوچستان کے علاقہ نصیرآباد میں تین لڑکیوں اور دو عورتوں کو زندہ دفن کر دیا گیا ۔ اس جُرم میں ایک حکومتی کارندے کا نام بھی لیا جا رہا ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیا اس سلسلہ میں حکومت کی عمداری قائم ہو گئی ہے ؟

7 ۔ پورے ملک میں دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہیں اور گاڑیاں ۔ موبائل فون ۔ نقدی اور زیورات چھینے جاتے ہیں ۔ کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

8 ۔ آخری قسم سب سے زیادہ طاقتور ہے اور پاکستان میں سرطان کی طرح پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ ہے فوجی چھاؤنیاں [cantonments] ۔ ہندوستان پر قابض انگریز حکمران اپنے آپ کو حکمران اور ہندوستان کے باشندوں کو غلام سمجھتے تھے اُنہوں نے چھاؤنیاں اس لئے بنائی تھیں کہ وہ غلاموں پر قابو رکھ سکیں اور اُنہیں اپنے سے دور رکھ سکیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ان چھاؤنیوں کو ختم ہو جانا چاہیئے تھا لیکن وہ کئی گنا زیادہ ہو گئی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ صرف ضلع راولپنڈی میں آدھی درجن چھاؤنیاں قائم ہیں ۔

پورے مُلک میں جنرل پرویز مشرف نے ضلعی نظام قائم کیا لیکن تمام چھاؤنیوں میں فوجی ڈکٹیٹرشپ آج تک قائم ہے ۔ ہر چھاؤنی کا سرپراہ سٹیشن کمانڈر ہوتا ہے جو ایک حاضر سروس کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے ۔ ان چھاؤنیوں میں بسنے والے غیر فوجی شہری بہت سے حقوق سے محروم ہوتے ہیں ۔

یہی کم نہ تھا کہ ڈی ایچ اے نام کی ایک اور بیماری جو کئی دہائیاں قبل کراچی میں شروع ہوئی تھی لاہور سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کی سرپرستی میں اسلام آباد بھی پہنچ گئی ۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد کو ایسا آئینی تحفظ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف پاکستان کا وزیرِ اعظم بھی کوئی کاروائی نہیں کر سکتا اور اس کے قوانین کو پاکستان کی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی ۔

یہ سب ریاست کے اندر ریاستیں نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور حکومتی عملداری ان درجنوں ریاستوں میں کیوں قائم نہیں کی جاتی ؟ دراصل حکومتی عملداری کیلئے صرف غریب عوام ہی رہ گئے ہیں خواہ وہ قبائلی علاقہ میں ہوں یا ترقی یافتہ علاقوں یعنی کراچی لاہور یا اسلام آباد میں ۔

پیپلز پارٹی کا بانی کون تھا ؟

میں نے اپنی 9 اکتوبر 2008ء کی تحریر میں برسبیلِ تذکرہ لکھ دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی عبدالرحیم تھے ۔ اس پر مجھے ہدائت کی گئی ہے کہ میں وکی پیڈیا اردو ۔ وکی پیڈیا انگریزی اور انسائکلو پیڈیا برِیٹَینِیکا جیسے اداروں کو مطلع کروں‌ تاکہ اتنی اہم اور تاریخی غلطی درست ہوسکے کیونکہ ان سب میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا بانی لکھا ہے ۔

زمانہ کی رسم ہے کہ سچ وہ ہوتا ہے جو بارسُوخ شخص بولے اور میں ایک عام آدمی ہوں ۔ میرے ان بارسوخ اداروں کو کچھ لکھنے کا کوئی اثر بھی نہ ہو گا ۔ ان بارسوخ اداروں کی عظمت کا ایک ادنٰی سا نمونہ یہ ہے کہ وکی پیڈیا اُردو پر لکھا ہے “چائے اور اس کی انگریزی “ٹی” [Tea] دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں”۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ چینی زبان کے نہیں ہیں ۔ چینی زبان کا لفظ “چاء” ہے جو کوریا جا کر “ٹاؤ” بنا ۔ جرمنی میں پہنچ کر ” ٹے” بنا اور پرطانیہ میں “ٹی” بن گیا ۔

مارکوپولو کو مستند مؤرخ مانا جاتا ہے ۔ اُس نے چین کے کئی سفر کئے اور بہت کچھ لکھا مگر چاء یا چائے یا ٹے یا ٹی کا کہیں ذکر نہ کیا حالانکہ چاء اُس زمانہ میں ایک عجوبہ تھی ۔

آمدن برسرِ مطلب ۔ میں نے جو لکھا ہے وہ حقیقت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی کا نام جے اے رحیم ہے جو کمیونسٹ نظریہ رکھتے تھے ۔ ان کے ساتھ کمیونسٹ نظریات رکھنے والے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب جو کسی زمانہ میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور خورشید محمود قصوری کے والد محمود علی قصوری صاحب و دیگر شامل ہوئے ۔ جے اے رحیم صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پاکستان پیپلز پارٹی کا صدر نامزد کیا [بانی نہیں] ۔

کچھ عرصہ بعد ایک دن پارٹی کے بانی جے اے رحیم صاحب نے پارٹی کا اجلاس بُلایا جس میں پارٹی کے صدر ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پہنچنے میں بہت تاخیر کردی تو بانی جے اے رحیم صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اس پر اگلے روز انسپکٹر پولیس شریف بٹ جس کا نام شریف تھا مگر اول درجہ کا بدمعاش تھا نے پارٹی صدر کی ایماء پر پارٹی کے بانی جے اے رحیم کی نہ صرف بے عزتی کی بلکہ اُس بوڑھے شخص کو پارٹی اہلکاروں کے سامنے ٹھُڈے بھی مارے ۔ کچھ دن بعد جے اے رحیم صاحب نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی یا اُنہیں زبردستی نکال دیا گیا ۔ اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بن گئے ۔

وکی پیڈیا پر کئی متنازیہ یا غلط باتیں درج ہیں ۔ یہ ویب سائیٹ جن لوگوں کے کنٹرول میں ہے وہ صرف اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں ۔ انسائیکلوپیڑیا بھی حرفِ آخر نہیں ہے ۔ ویسے بھی میں نے ساری دنیا کو درست کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ۔ میرا مقصد ہے حقیقت لکھنا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے وہ اپنے کردار کا ذمہ دار ہے اور میں اپنے کردار کا ۔

کشمیراورپیپلزپارٹی

پچھلے ماہ صدرِ پاکستان اور معاون صدر پیپلز پارٹی آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ مسئلہ جموں کشمیر اُن کے لئے اول حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اُجاگر کیا تھا ۔

ایک بات جو بہت سے ہموطن نہیں جانتے یا بھول چکے ہیں یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی عبدالرحیم تھے جنہوں نے اس کی صدارت کیلئے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا انتخاب کیا تھا اور بعد میں بھٹو صاحب نے عبدالرحیم صاحب کو بے عزت کر کے نکال باہر کیا ۔ خیر ۔ واپس آتے ہیں اصلی موضوع کی طرف کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مسئلہ جموں کشمیر کو کتنا اُجاگر کیا ۔

آصف علی زرداری صاحب کیلئے مسئلہ جموں کشمیر کتنی حیثیت رکھتا ہے وہ تو اس سے ہی واضح ہو گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران صدر آصف علی زرداری نے جموں کشمیر کا نام تک نہ لیا ۔اور پھر کچھ دن بعد امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے  صدر آصف علی زرداری نے “ستم رسیدہ مقبوضہ جموں کشمیر کے باشندےجو اپنی آزادی کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں کو دہشتگرد قرار دے دیا”۔

جموں کشمیر میں ستمبر 1947ء میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی دسمبر 1947ء میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کو تھی ۔ آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے جب کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے تو اُس وقت بھارت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو امریکہ دوڑے ۔ بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرے کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے اور خموں کشمیر کا قدرتی الحاق پاکستان سے ہو جائے گا چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔

آپریشن جبرالٹر جو اگست 1965ء میں کیا گیا یہ اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے کوشش کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل کی وجہ سے مقبول بٹ پاکستان میں گرفتار ہوا لیکن بعد میں نمعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے رہا کروا لیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو جب 1972ء میں پاکستان کا حکمران بنا تو شملہ معاہدہ کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کا کچھ حصہ بھارت کو دے دیا بلکہ جموں کشمیر کی جنگ بندی لائین کو لائین آف کنٹرول مان کر اسے ملکی سرحد کا درجہ دے دیا ۔

بےنظیر بھٹو نے 1988ء کے آخر میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر بھارت کے ظُلم و ستم کے باعث مقبوضہ جموں کشمیر سے سرحد پار کر کے آزاد جموں کشمیر آنے والے بے خانماں کشمیری مسلمانوں کی امداد بند کر دی ۔ اس کے علاوہ جن دُشوار گذار راستوں سے یہ لوگ مقبوضہ جموں کشمیر سے آزاد جموں کشمیر میں داخل ہوتے تھے اُن کی نشان دہی بھارت کو کر دی ۔ بھارتی فوج نے اُن راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں 500 سے زائد بے خانماں کشمیری شہید ہوئے اور اس کے بعد کشمیریوں کی اپنی جان بچا کر پاکستان آنے کی اُمید بھی ختم ہو گئی ۔

بینظیر بھٹو نے اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں جموں کشمیر کے باشندوں سے اظہارِ یکجہتی تو کُجا اُلٹا بھارت سے محبت کی پینگیں بڑائیں اور موجودہ صدر آصف علی زرداری بھی بڑھ چڑھ کر بھارت سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں

یہ ہے وہ حمائت جو پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج تک جموں کشمیر کے لوگوں کو تحفے میں دی ۔

وائے جمہوریت

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت جو ہوتی ہے وہ جمہور یا عوام کی حکومت ہوتی ہے وہ اس طرح کہ عوام مقررہ وقت پر اپنی پرچی کے ذریعے اپنے نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہ نمائندے شورٰی میں جاتے ہے اور وہاں مل بیٹھ کر عوام کی خواہشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبائی اور قومی سطح کے فیصلے کرتے ہیں ۔

آٹھ سالہ آمریت کے بعد جمہوریت قائم کرنے کیلئے انتخابات کا موقع 18 فروری 2008ءکو آیا ۔ دعوٰی ہے کہ اس کے نتیجہ میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی ہے اور یہ دعوٰی 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والے حکمرانوں کی طرف سے ہر روز عوام کو یاد دِلایا جا رہا ہے ۔ یہ جمہوری حکومت بنے 6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو کیا ہے لیکن ابھی تک آمریت کے دور کے عوام دُشمن فیصلوں پر پوری تَندہی سے عمل جاری ہے اور جو چند فیصلے کئے گئے ہیں وہ اُن میں شورِٰی کا عندیہ لینا تو درکنار ۔ شورٰی کو اُن فیصلوں کا عِلم بھی ذرائع ابلاغ سے ہوتا ہے
اعلٰی عدالتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو زبان زدِ عام ہے ۔ وزیرِ اعظم صاحب کچھ کہتے ہیں اور عملی طور پر کچھ اور ہو رہا ہے ۔ پچھلے 6 ماہ میں مُلک و قوم کے انتہائی اہم معاملات میں سے کوئی شورٰی میں پیش نہیں ہوا ۔ صدر آصف علی زرداری صاحب نے کچھ دیگر معاملات بھی واضح کر دئیے ہیں جن سے شورٰی کی اہمیت کچھ نہیں رہی ۔

صدر آصف علی زرداری صاحب نے امریکی اخبار “وال سٹریٹ جرنل” کے کالم نویس بریٹ اسٹیفنس کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے

کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اس بات پر مفاہمت ہے کہ ہم مشترکہ طور پر ایک دشمن کا تعاقب کررہے ہیں، امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکہ کے ڈرون ( بغیر پائلٹ کے جاسوس) طیارے ان کی حکومت کی اجازت سے پاکستانی علاقوں پر حملے کررہے ہیں، تاہم انہوں نے حساس عسکری معاملات پر بات کرنے سے گریز کیا۔

کہ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم مسلح افراد ’دہشت گرد‘ ہیں۔

کہ ان کی جمہوری حکومت بیرون ملک بھارتی اثر و رسوخ سے خوفزدہ نہیں اور نہ ہی انہیں بھارت امریکہ ایٹمی معاہدے پر کوئی اعتراض ہے ۔ [گویا دریائے چناب کا پانی بند کرنا کوئی خطرے والی بات نہیں ۔ بھارت دریائے جہلم کا پانی بھی بند کر دے ۔ پھر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیوں ہو گا]

کیسے کیسے لوگ

میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک جناب حمائت علی شاعر سے معذرت کے ساتھ

کیسے کیسے لوگ یہاں پہ ہمیں بیوقوف بنانے آ جاتے
اپنے اپنے ٹوٹکے ہمارے ذہن میں بٹھانے آ جاتے ہیں

میرا سب سے چھوٹا بھائی جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کنسلٹینٹ سرجن اور سرجیکل یونٹ کا سربراہ ہے خاندان میں بہت عقلمند سمجھا جاتا ہے ۔ بہرکیف وہ میرا بہت احترام کرتا ہے ۔ جون جولائی 2008ء میں میرے اس بھائی نے متعدد بار مجھ سے کہا “بھائیجان ۔ آپ وقت نکال کر ٹی وی ون پر براس ٹیکس ضرور دیکھیں ۔ حقائق جاننے کیلئے زبردست پروگرام ہے “۔ پروگرام رات گیارہ بجے شروع ہوتا تھا اسلئے میں سُستی کرتا رہا ۔ ایک روز میری بڑی بہن نے لاہور سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے یہی تقاضہ کیا تو میں نے اگست میں ایک پروگرام زید حامد کا براس ٹیکس دیکھ ہی لیا ۔ اور میرا شوق بُلبلے کی طرح پھٹ گیا ۔ زید حامد صاحب جس موضوع پر بات کر رہے تھے اس کے کئی حقائق میری سرکاری ملازمت کی وجہ سے میرے علم میں تھے اور وہ یاوا گوئی کر رہے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ زید حامد صاحب کی معلومات کی بنیاد سستے اخبار اور سینہ گزٹ ہیں

۔جیسا کہ میں نے براس ٹیکس دیکھنے والوں سے سُنا ہے زید حامد صاحب کی کچھ باتیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اس وجہ سے سامعین متاثر ہوتے ہیں لیکن متاثر ہونے کی اس سے بڑی وجہ زید حامد صاحب کا طرزِ بیان ہے جس کی وہ مہارت رکھتے ہیں ۔

زید حامد صاحب کے متعلق معلومات کیلئے یہاں کلک کیجئے اور فیصلہ خود کیجئے

عید الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر

سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما اور ہم پر اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے ۔ آمین ثم آمین

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردشِ ایام کے
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اک نظر ہو جائے آقا ۔ اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
کلام ۔ آغا حشر (1879ء)

جلی بھُنی شاعری

رمضان المبارک سے کچھ دن پہلے کا ذکر ہے ۔ کچھ دل جلے جوان بیٹھے محبت ۔ دل اور بیوفائی کی باتیں کر رہے تھے ۔ اُن کی باتیں کچھ اس طرح کی تھیں کہ میرے ذہن کا شریر حصہ متحرک ہو گیا اور جو کچھ ذہن سے اُبھرا وہ میں نے کاغذ پر لکھ کر اُن جوانوں کے سامنے رکھ دیا

تُجھے دِل دِیا تھا رکھنے کو
تُو نے بھُون کے اُسے کھا لیا
کلیجہ جو دِکھایا چِیر کے
تُو نے کچا ہی اُسے چبا لیا
میرے جسم کو کُوٹ کُوٹ کر
تُو نے قیمہ تھا اُس کا بنا دیا
پھر بھر کے میری ہی آنتوں میں
ہاٹ ڈاگ کی دُکان پہ سجا دیا
گڑھا پھر کھود کر صحن میں
میری باقیات کو تھا دبا دیا
رچا کے سوانگ مجھ سے وفا کا
میرے مکان کو بھی تو نے جلا دیا
میں کس طرح رکھوں گا یاد تُجھے
تُو نے کیا کیا مجھ سے نہیں کیا