ہِپوکریسی کی جڑیں

ہِپوکریسی یا منافقت کا بیج یا جڑ یا بنیاد جھوٹ بولنا ہے ۔ سچ کو جھوٹ کہنا یا سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بھی جھوٹ بونا ہی ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بنیادی طور پر جھوٹے نہیں ہوتے لیکن کسی ذاتی مفاد کی خاطر سچ کو جزوی یا کُلی طور پر چھُپاتے ہیں یا جھوٹا بیان تراش لیتے ہیں ۔
ایسے لوگ جھوٹے یا منافق ہوتے ہیں ۔
دراصل جھوٹ اور منافقت میں بہت تھوڑا فرق ہے ۔

کچھ لوگوں کا کچھ منافق لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ وہ دیانتدار یا قابلِ اعتماد ہیں ۔ یہ تو اسی طرح ہوا کہ چور چونکہ چوری کی گئی رقم آپس میں برابر تقسیم کرتے ہیں اسلئے وہ دیانتدار ہیں ۔ کچھ لوگ یوں بھی کہتے ہیں “ٹھیک ہے فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے لیکن وہ دیانتدار ہے”۔ یہ درست ہے کہ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ جھوٹ نہیں بولتے اور بعض ایسے ہیں کہ وہ عام حالات میں جھوٹ نہیں بولتے لیکن جہاں فائدہ نظر آتا ہو جھوٹ بول دیتے ہیں ۔
آخر ایسے لوگوں پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے ؟
اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ کسی خاص وقت بددیانتی نہیں کریں گے یا جھوٹ نہیں بولیں گے ؟

لگاہےمصرکابازار

لگا ہے مصر کا بازار دیکھو
نئی تہذیب کے یہ آثار دیکھو

سکنڈے نیوین ممالک کے متعلق تو عرصہ دراز سے سنتے آ رہے تھے لیکن کم از کم نام کے مسلمان ایک ملک کے متعلق جس نے سید قطب جیسے جید مسلمان پیدا کئے 3 روز قبل ایک خبر پڑھ کر جھٹکا کا سا لگا ۔

منگل 28 اکتوبر کے گلف نیوز میں صفحہ 18 پر خبر ہے کہ مصر میں ایک ایسے قحبہ خانہ کا انکشاف ہوا ہے کہ 44 باقاعدہ شادی شدہ جوڑے جس کے ارکان ہیں اور وہ جنسی تفریح کے طور پر ایک رات کیلئے ایک دوسرے سے اپنی بیویاں تبدیل کرتے ہیں ۔

پولیس نے ان کی باہمی منصوبہ بندی کی ای میلز پڑھنے کے بعد کھوج لگا کر اس قحبہ خانھ کے چلانے والے جوڑے کو گرفتار کر لیا تو انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ان کا اتفاقیہ طور پر عراق میں اسی طرز پر قحبہ خانہ چلانے والے ایک یہودی کرد سے ہوا ۔ اس نے انہیں اس کے فوائد پر قائل کیا ۔

کمال تو یہ ہے کہ جب پولیس نے انہیں گرفتار کیا تو انسانی حقوق کے گروہ نے اس عمل کو ذاتی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ۔

خیال رہے کھ مصر امریکی حکومت کے زیر اثر ہے اور وہاں کے قانون کے مطابق قحبہ خانہ چلانے کی سزا صرف 3 سال قید ہے

ثقافت اور کامیابی

ثقافت کا غوغا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ ثقافت ہوتا کیا ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ ہماری قدیم تو بہت دُور کی بات ہے ایک صدی قبل کیا تھی ۔ ثقافت [culture] کہتے ہیں ۔ ۔ ۔

1 ۔ خوائص یا خصوصیات جو کسی شخص میں اس فکر یا تاسف سے پیدا ہوتی ہے کہ بہترین سلوک ۔ علم و ادب ۔ ہُنر ۔ فَن ۔ محققانہ سعی کیا ہیں
2 ۔ وہ جو علم و ادب اور سلوک میں بہترین ہے
3 ۔ ایک قوم یا دور کے تمدن ۔ تہذیب یا شائستگی کی شکل
4 ۔ دماغ کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ترقی ۔ نشو و نما ۔ تکمیل یا اصلاح
5 ۔ کسی گروہ کا ساختہ رہن سہن کا طریقہ جو نسل در نسل چلا ہو
6 ۔ طور طریقہ اور عقائد جو کسی نظریاتی گروہ یا صحبت کی نمایاں صفت ہو

1. The quality in a person or society that arises from a concern for what is regarded as excellent in arts, letters, manners, scholarly pursuits, etc
2. That which is excellent in the arts, manners, etc.
3. A particular form or stage of civilization, as that of a certain nation or period:
4. Development or improvement of the mind by education or training
5. The behaviors and beliefs characteristic of a particular social, ethnic, or age group
6. The sum total of ways of living built up by a group of human beings and transmitted from one generation to another.

ثقافتی لحاظ سے ساری دنیا کا حال ابتر ہے ۔ جھوٹ ۔ فریب ۔ مکاری ۔ خودغرضی ثقافت بن چکی ہے ۔ خودغرضی میں کوئی جتنا زیادہ دوسرے کو ۔ یا جتنے زیادہ لوگوں کو بیوقوف بنا لے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین اور ہوشیار سمجھا جاتا ہے ۔ جدید ثقافت یہ ہے کہ جھوٹ بولتے جاؤ بولتے جاؤ ۔ اگر کوئی 10 فیصد کو بھی مان لے تو بھی پَو بارہ یعنی 100 فیصد فائدہ ہی فائدہ ۔

ہماری موجودہ ثقافت کیا ہے ؟ یہ ایک مُشکل سوال ہے ۔ متذکرہ بالا ثقافت کی 6 صفات میں سے پہلی 5 صفات تو ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے قریب سے بھی نہیں گذریں ۔ البتہ چھٹی تعریف پر ہماری قوم کو پَرکھا جا سکتا ہے یعنی ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے نمایاں طور طریقے اور عقائد کیا ہیں ؟

وہ وعدہ کر لینا جسے ایفاء کرنے کا ارادہ نہ ہو ۔ جھوٹ ۔ غیبت ۔ بہتان تراشی ۔ رشوت دینا یا لینا ۔ خودغرضی کو اپنا حق قرار دینا ۔ اللہ کی بجائے اللہ کی مخلوق یا بے جان [افسر ۔ وڈیرہ ۔ پیر۔ قبر ۔ تعویز دھاگہ] سے رجوع کرنا۔ وغیرہ ۔ ہموطنوں کی اکثریت کے یہ اطوار ہیں جن کو ثقافت کی چھٹی تعریف کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے ۔ اِن خوائص کے مالک لوگوں کی ظاہرہ طور پر ملازمت میں ترقی یا تجارت میں زیادہ مال کمانے کو دیکھ کر لوگ اِن خوائص کو اپناتے چلے گئے اور غیر ارادی طور پر ناقابلِ اعتبار قوم بن گئےہیں ۔

پچھلی چند دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ثقافت شاید ناچ گانے اور بے حیائی کا نام ہے ۔ اس میں پتگ بازی اور ہندوآنہ رسوم کو بھی ہموطنوں نے شامل کر لیا ہے ۔ شادیاں ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں ہوتی ہیں ۔ شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کا قابلِ اعتراض بلکہ فحش گانوں کی دھنوں پر ناچنا شادیوں کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے جو کہ کھُلے عام ہوتا ہے ۔

جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد جس کام پر سب سے زیادہ توجہ اور زور دیا اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی وہ یہی جدید ثقافت ہے اور حکومت بدلنے کے باوجود اس پر کام جاری ہے ۔

کچھ ایسے بھی ہموطن ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کی ثقافت ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ انتہاء یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی ساری عمر سیدھی راہ کی تبلیغ میں گذار گئے کبھی ناچ گانے کے قریب نہ گئے اُن کی قبروں پر باقاعدہ ناچ گانے کا اہتمام کیا جانا بھی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے ۔ اگر اُن نیک لوگوں کی روحیں یہ منظر دیکھ پائیں تو تڑپ تڑپ کر رہ جائیں ۔

اور بہت سے عوامل ہیں جو لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بے حیائی ہماری ثقافت بن چکی ہے ۔ کل کا مؤرخ لکھے گا کہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنا ملک حاصل کرنے والے چند ہی دہائیوں کے بعد ہوٹلوں ۔ گھروں اور بازاروں میں اپنے ہی دین کی دھجیاں اُڑاتے رہے اور اتنے کمزور ہو گئے کہ جو چاہتا اُن پر چڑھ دوڑتا ۔

بلا شُبہ ۔ ہموطنوں میں شریف لوگ بھی موجود ہیں جن کی اکثریت ایک جرمن پادری کے قول پر پورا اُترتی ہے جسے ہٹلر کے نازی فوجیوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران قید کر لیا تھا ۔ یہ پادری لکھتا ہے ۔ ۔ ۔

” نازی پہلے کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا ۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں یہودی نہ تھا ۔ پھر وہ عیسائی کیتھولکس کو گرفتار کرنے آئے تو بھی میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں پروٹسٹنٹ تھا ۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے ۔ مگر اس وقت تک کوئی بولنے والا ہی باقی نہ بچا تھا “۔

ہِپو کریسی اور منافقت Hypocrisy

منافقت جسے انگریزی زبان میں ہِپوکریسی [hypocrisy] کہہ کر ہم ہلکے پھُلکے ہو جاتے ہیں بالکُل اسی طرح ہے کہ پیشاب کو یُورِین [urine] کہہ کر سمجھ لیا جائے کہ اس کی بُو اور ناپاکی ختم ہو گئی ۔ اگر ہِپوکریسی [hypocrisy] کے معنی پر میرے ہموطن غور کریں تو وہ اس سے فوری اجتناب کریں اور ہماری قوم ایک مثالی قوم بن جائے ۔ مگر یہ عام غلط فہمی ہے کہ ِ ہِپوکریسی کو منافقت سمجھنے کی بجائے ایک عام سی بے ضرر عادت سمجھا جاتا ہے ۔

ہِپو کریسی کے معنی یہ ہیں

اپنے اور دوسروں کیلئے الگ الگ اصول
اپنے تئیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر اپنا معیارِ زندگی جتانا یا اصولوں کا معیار بتانا
کسی کی بات یا کسی معاملہ کو دل سے نہ مانتے ہوئے ظاہر کرنا کہ مان لیا ہے ۔
کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور
عمل ظاہر کچھ کرنا لیکن کرنا بتائے گئے کی بجائے کچھ اور
اپنے آپ کو وہ ظاہر کرنا جو نہیں ہے

کاش کہ سمجھے کوئی

اگر 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ہلاکت خیز فوجی کاروائی کی بجائے سکول ۔ ہسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔

دیانتدار اور بے خوف قلم کار بہت کم ہیں .ایسے قلمکار امریکا میں بھی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے خفیہ اداروں کے انسانیت دشمن منصوبوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ رون سسکنڈ بھی ایک ایسا ہی امریکی صحافی ہے جس نے اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز [2005ء تا 2007ء] کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک دن اُسے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا ۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں ۔

رون سسکنڈ مزید لکھتا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا ۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا ۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ ۔ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی ۔ ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا ۔

یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کا ایک غیر مسلم نمائندہ جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے لیکں صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو چشمِ بِینا اور انسان کا دِل عطا کرے ۔ آمین

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑا جا سکتا ہے

سُہانہ خواب

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں

ایک جو آدمی سوتے میں دیکھتا ہے اور عام طور پر بھول جاتا ہے
دوسرا جو آدمی جاگتے میں دیکھتا ہے اور وہ کم کم ہی پورے ہوتے ہیں
تیسرا وہ واقعہ جو گذر جانے کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک سُہانا خواب دیکھا تھا اور ایسے خواب کو خیال کے پردہ سیمیں پر دُہراتے رہنے کو جی چاہتا ہے

میرے پچھلے دو ہفتے ۔ دو گھنٹوں کی طرح بہت مصروف اور شاداں گذر گئے ۔ آج میں اِن دو ہفتوں کے ہر ایک لمحے کو یاد کر رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کتنا حسِین کتنا سُہانہ خواب تھا ۔

میرا بڑا بیٹا زکریا ۔ بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی امریکہ سے پونے تین سال بعد دو ہفتے کی چھٹی آئے تھے اور آج صبح صادق سے قبل واپس روانہ ہو گئے ۔ بیٹے اور بہو کی ہمارے پاس موجودگی بھی کچھ کم فرحان و شاداں نہ تھی لیکن میری پوتی جو ماشاء اللہ اب خوب بولنا سیکھ چُکی ہے کی پیاری پیاری باتوں اور معصوم کھیلوں نے ہمیں وقت کا پتہ ہی نہ چلنے دیا ۔ چوبیس گھنٹوں میں اٹھارا بیس گھنٹے جاگ کر بھی ہمیں تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی ۔ اب اُن کے جانے کے بعد ایک ایک لمحہ گذارنا مُشکل ہو رہا ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُنہیں جہاں رکھے شاد و آباد رکھے اور ہماری ملاقات کراتا رہے ۔ آمین یا رب العالمین آمین

معاملہ فہمی یا منافقت ؟

آج تو دنیا کا تقریبا سارا کارو بار ہی [نجی ہو یا اجتماعی] منافقت کے دوش پروان چڑھ رہا ہے ۔ غربت کو ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کھُلے عام اصول پرستوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔

یار لوگوں نے منافقت کا رُوپ ہی بدل دیا ہے ۔ اب اس کا نام “معاملہ فہمی”۔ “حکمت عملی”۔ فراست”۔ “چھریرا پن”۔ “ذہانت” وغیرہ رکھ دیا گیا ہے ۔ اور جو کوئی منافقت نہ کرے اسے “بیوقوف” اور بسا اوقات “پاگل” کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ حال بایں جا رسید کہ دفتر ہو تو منافق کامیاب اور جلد ترقیاں پانے والا ۔ سیاست ہو تو سب سے بڑا منافق سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے

کچھ استثناء تو بہر حال ہوتا ہی ہے۔

علامہ اقبال فلسفی تھے ۔اُنہیں منافقت پسند نہ تھی ۔ اُن وقتوں میں تو شاید اتنی منافقت نہ تھی ۔ انہوں نے ستّر برس پہلے جو تحریر کیا ۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے لئے لکھا تھا ۔ جواب شکوہ سے اقتباس

ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بُت شکن اُٹھ گئے’ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں