اظہرالحق صاحب کے سوال کا جواب

اظہرالحق صاحب نے میری تحریر “غزہ میں بہتا خون کیا کہتا ہے” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا

میری نظر میں سب سے پہلے فلسطینی ہی غلط ہیں‌، انکل آپ بھی فلسطینیوں کے ساتھ رہے ہو ، آپ تو انہیں بہت اچھی طرح جانتے ہو ۔ ۔ ۔ وہ لوگ آج بھی عرب قومیت کی بات کرتے ہیں‌، فتح اور حماس کی تفریق کسی سے چھپی نہیں‌ہے ، صابرہ اور شتیلا کی تباہی سے لیکر دوسری انتفادہ تک ۔ ۔ ۔ اسرائیل ہمیشہ ہی فلسطینیوں میں تفریق رکھنے میں‌ کامیاب رہا ہے ، کبھی سیکیورٹی پاس ایشو کر کے کبھی دوائیوں کے ٹرک روانہ کر کے اور کبھی چند ڈالروں کے عیوض ۔ ۔ ۔ فلسطینی مسلمان بہت ارزاں بکتا ہے انکل جی بہت ہی ارزاں ۔ ۔ ۔
دبئی میں‌فلسطینیوں کی بہت مانگ اور وہ یہ مانگیں پوری کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آج کل یہاں کے بازاروں میں غزہ کی تصویریں لگا کر انکے لئے سامان اکھٹا کر رہے ہیں‌، انکے ویزوں کی فیسیں معاف کی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مگر سب کچھ ہے ۔ ۔ ۔ کیا یہ فلسطینی اپنے ہی فلسطینیوں کا خیال کررہے ہیں‌ ۔ ۔ ۔ جی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ افسوس ہم تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھ رہے ہیں‌دوسرا رُخ بھی بہت بھیانک ہے ۔۔ ۔
حماس ایک ایسی تنظیم ہے جسنے فلسطینیوں کے دل میں‌ گھر کر رکھا ہے اسے ایران کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ ۔ ۔ مگر خالد مشعال سے لیکر لیلٰی الداؤدی تک سب کے سب عربوں کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ کاش یہ مسلمانوں کی بات کرتے کاش ۔ ۔ اے کاش ۔۔ ۔ ایسا ہوتا تو شاید یہ اتنا ظلم بھی نہ سہتے ۔ ۔ ۔
———————
ایک بات ، موضوع سے ذرا ہٹ کہ ۔ یہودیوں کی تین ہزار سالہ تاریخ (یعنی فرعون کے زمانے سے لیکر اب تک ) یہ بتاتی ہے کہ یہ قوم کسی بھی جگہ چالیس سال سے زیادہ نہیں ٹِک سکی ۔ ۔ ۔ اور 2008 میں یہ چالیس سال پورے ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔ ہیکل سلیمانی بھی نہیں‌بن سکا اور ساری دنیا میں صہیونی بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں‌ ۔ ۔ شاید اب یہ کسی اور خطے کی تلاش میں ہیں‌ ۔ ۔ ۔ ۔ وللہ عالم بالصواب

چونکہ اس تبصرہ کا تعلق تاریخ سے ہے اور زمانے کے رواج کے مطابق عام طور پر نوشتہ تاریخ وہ ہوتی ہے جسے با اثر یا طاقتور لکھواتا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنا نظریہ سرِ ورق پر پیش کروں ۔

حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے اور اس تلخی کو برداشت کرنا ہی انسانیت کی کُنجی ہے ۔ فلسطینی اور پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت خود غرض اور کوتاہ اندیش ہے ۔ دنیا کی صرف یہ دو قومیتیں ایسی ہیں جن کی اکثریت اپنے ہی ہموطنوں کو بُرا کہتی ہے ۔ ان خوائص کی وجہ سے ان میں بِکنے والے بھی باقی قوموں سے زیادہ ہیں ۔ فلسطین کی اصل خیر خواہ جماعت حماس ہی ہے جو پہلے صرف دین کی تبلیغ و اشاعت کرتی تھی پھر اپنوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے مسلحہ جد و جہد آزادی میں شامل ہو گئی ۔ جن لوگوں نے فلسطین کی آزادی کی جد و جہد شروع کی تھی ان میں عیسائی بھی شامل تھے ۔ پھر یاسر عرفات کہیں سے نمودار ہوا اور امریکہ کے خلاف بولنے کی وجہ سے چھا گیا ۔ اُس نے فلسطین کی جد و جہد آزادی کو بہت نقصان پہنچایا ۔ یاسر عرفات کے نائب جو جنگِ آزادی کے اصل کمانڈر ہوتے تھے یکے بعد دیگرے مرتے رہے مگر یاسر عرافات کو کسی نے مارنے کی کوشش نہ کی ۔ آخرِ عمر میں اُسے اپنی قوم کا کچھ خیال آیا تو اسرائیلی فوج کے ایک انتہاء پسند گروہ نے اسے مارنے کا منصوبہ بنایا ۔ ان دنوں یاسر عرفات شام میں تھا ۔ امریکی سی آئی اے نے حملہ سے قبل یاسر عرفات کو مع اسکے معتمد ساتھیوں کے اپنے ہیلی کاپٹر میں اُٹھایا اور پھر لبنان سے ہوائی جہاز کے ذریعہ الجزائر پہنچا دیا ۔ دراصل یاسر عرفات امریکہ کا ایجنٹ تھا ۔ یاسر عرفات جب تک طاقت میں رہا فلسطینی جد و جہد آزادی کے رہنما یکے بعد دیگرے مرتے رہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ الفتح اور حماس کی آپس میں جنگ شروع ہو گئی ۔

حماس کو اس وقت صرف ایران ہی نہیں شام کی بھی حمائت حاصل ہے جبکہ الفتح کو مصر اور دوسرے امریکہ کے غلام مسلمان ملکوں کی حمائت حاصل ہے ۔ آپ ذرا اپنے ملک پر غور کیجئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو جسے سامراج بالخصوص امریکہ کا دشمن سمجھا جاتا تھا اس نے امریکہ کی خواہش پوری کرتے ہوئے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا کافی حصہ ضائع کر دیا اور باقی ماندہ کو بھی قوم کے سامنے نہ آنے دیا ۔ موجودہ صدر آصف زرداری کو ہی دیکھ لیں ۔ امریکہ کی فرماں برداری میں ڈالر حاصل کرنے کیلئے قوم و ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اپنی من مانی کرنے کیلئے اُس نے بھٹو خاندان کو تقریباً ختم کر دیا ہے ۔

رہی بات اسرائیل کے چالیس سالوں والی تو یہ چالیس سال حکومت کرنا نہیں تھا بلکہ چالیس سال در بدر پھرنا تھا ۔ فلسطین کو صیہونیوں [یہودیوں کی نہیں] اماجگاہ امریکہ کی ایماء پر برطانیہ نے بنایا اور امریکہ صیہونیوں کو پال پوس رہا ہے اور ان کی حفاظت بھی کر رہا ہے ۔ یہودیوں کی نہیں میں نے اسلئے لکھا ہے کہ اسرائیل کے حکمران فلسطین کے رہنے والے نہیں تھے ۔ انہیں روس اور یورپ سے لا کر یہاں بسایا گیا تھا ۔ یہ عمل 1905ء میں شروع ہوا ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اللہ کی مخلوق پر ظُلم و استبداد کے نتیجہ میں قانونِ قدرت ضرور حرکت میں آئے گا لیکن ساتھ شرط یہ بھی ہے کہ جن پر ظُلم کیا جارہا ہے وہ خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں

غزہ میں بہتا خون کیا کہتا ہے

اتنا تو ارزاں نہ تھا مسلماں کا لہو
آج جو ہر طرف وحشیانہ طریقہ سے مسلمانوں کے لہو سے خوفناک ہولی کھیلی جا رہی ہے اور بلاتمیز مرد یا عورت ۔ جوان یا بوڑھے یا بچے مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑائے جا رہے ہیں اس کا بنیادی سبب تو ازل سے طاغوتی طاقتوں کا  اللہ  کے نام لیواؤں سے عناد ہے لیکن ان اللہ کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہونے کی وجہ آج کے دور کے مسلمانوں کی اپنے دین سے دُوری ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے اللہ سے ڈرنے اور اللہ ہی سے مدد مانگنے کی بجائے طاغوتی طاقتوں سے ڈرنا اور مدد مانگنا شروع کر دیا ہے [نیچے غزہ میں اسرائیلی دہشتگری کی جھلکیاں]

خود کو انسانیت کا پرستار اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والا امریکہ فلسطین میں اسرائیل کے روا رکھے ہوئے قتلِ عام کے متعلق کیا کہتا ہے ۔ نیچے پڑھیئے ۔ اگر اب بھی مسلمانوں خصوصاً حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو پھر مسلمانوں کو اپنی تباہی کیلئے تیار ہو جانا چاہیئے

امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے  کہ تمام فریقین حماس پر زور دیں کہ وہ اسرائیل پر حملے روک دے۔ غزہ کی صورتحال پر پہلے بیان میں صدر بش کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسمگل کئے گئے ہتھیاروں کی مانیٹرنگ تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جنگ بندی قبول نہیں جس میں اسرائیل پر راکٹ حملے جاری رہیں۔ صدر بش کا کہنا تھا کہ حماس کے حملے دہشتگردی ہیں۔ صدر بش نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر حملے روکنے کیلئے دباؤ ڈالیں

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکرٹری گورڈن جونڈرو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ چاہے فضائی حملہ کرے یا زمینی لیکن اس دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں فوجی جمع کرلئے ہیں۔ ادھر امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا ہے کہ امریکا غزہ میں ایک ایسے سیزفائر کی کوشش کر رہا ہے جس کے بعد حماس غزہ سے باہر راکٹ حملے کرنے کے قابل نہ رہے۔

اگر پاکستانی مسلمانوں کا بھی حال ایسا ہی رہا جیسا ہے تو جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہی یا اُس سے بھی بھیانک حال پاکستان کا ہو سکتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کی منصوبہ بندی کے بعد اس پر عمل شروع ہو چکا ہے ۔ اِبتداء امریکہ کے حُکم پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی کاروائی کر کے 1000 کے قریب بیگناہ انسانوں جن میں 600 سے زائد کم سٍن یتیم اور لاوارث بچیاں شامل تھیں کی ہلاکت سے ہوئی ۔ اسکے بعد امریکہ کے پاکستان کو کمزور کرنے کے منصوبہ کے تحت پاکستانی حکومت نے قبائلی علاقہ میں اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے پر لگا رکھا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے ۔ پھر بھی امریکہ کی طرف سے “ڈُو مَور” کا وِرد ہو رہا ہے ۔ اور اب امریکہ کی شہہ پر بھارت بھی اس راگ میں شامل ہو گیا ہے

مکمل تباہی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خودغرضیوں کو چھوڑ کر قومی بہتری کیلئے جد و جہد کی جائے ۔پاکستانی مسلمان اپنی بقاء اور اپنے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے باعزت زندگی کی خواہش رکھتے ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اپنے پیدا کرنے والے جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کے نظام کو چلا رہا ہے سے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگیں اور آئیندہ اللہ کی ہدائت کے مطابق چلنے کی سچے دل سے بھرپور کوشش کریں ۔ انسانوں سے جو کہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں ڈرنے کی بجائے اللہ سے ڈریں

مت بھولیں کہ اللہ نے ہمیں بھیجی گئی کتاب میں ہر چیز واضح طور پر بیان کر دی ہوئی ہے اور ہم اس سے استفادہ نہیں کرتے ۔ خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال خُود اپنی حالت بدلنے کا ۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اس آیت کا مدعا پیش کیا ہے ۔
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

امریکہ ٹوٹنے کی طرف گامزن

دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں بنیں ۔ جن میں عاد و ثمود ۔ کسرٰی ۔ نمرود اور فرعون مشہور ہیں ۔ ان کے دور کے متعلق جو معلومات ہمیں ملتی ہیں یہی ہیں کہ ان لوگوں نے بہت ترقی کی اور آرام و آسائش کے بہت سے وسائل حاصل کئے ۔ یہ حُکمران اتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک خدا سمجھ بیٹھے ۔ جو اُن کا باجگذار نہ بنتا اُس پر ظُلم کرتے ۔ وہ مِٹ گئے اور اُن کی سلطنتیں جن پر اُنہیں گھُمنڈ تھا اُن کا بھی نام و نشان مٹ گیا سوائے فرعون کے جس کے متعلق مالک و خالقِ کائنات کا فیصلہ تھا کہ رہتی دنیا تک اُسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا ۔ سو فرعون کی حنوط شُدہ نعش ۔ ابوالہول کا مجسمہ اور احرامِ مصر آج بھی موجود ہیں ۔

ایک صدی قبل تک مسلمانوں کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی مگر اللہ کے احکامات کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے 1915ء میں بکھر گئی ۔ مسلمانوں کی سلطنت بکھرنے کے بعد روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد اور ریاستہائے متحدہ امریکہ طاقت پذیر ہوئے اور اپنے آپ کو سُپر پاور کا خطاب دے دیا ۔

بہت دُور کی بات نہیں کہ ان میں سے ایک سُپر پاور روس نے طاقت کے بل بوتے قریبی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پولینڈ ۔ بیلارس ۔ لتھوانیا ۔ ایسٹونیا ۔ لیٹویا ۔ سلوواکیا ۔ چیک ۔ کروشیا ۔ سربیا ۔ رومانیہ ۔ بوسنیا ۔ ہرزیگووینا ۔ بلغاریہ اور مالدووا پر قبضہ کر کے مسلمانوں اور مذہبی عیسائیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا اور جس نے ایسا نہ کیا اسے جان سے مار ڈالا یا کال کوٹھڑی میں ڈال دیا اور اس طرح روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد قائم کیا ۔ یہیں بس نہ کیا بلکہ یورپ سے باہر بھی اپنا عمل دخل بڑھانا شروع کر دیا اور اسی عمل میں افغانستان پر قبضہ اس سُپر پاور کے ٹوٹنے کا بہانہ بنا ۔

روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حُکمران جو پہلے ہی کئی ممالک پر قبضہ کر چکے تھے مزید خُودسَر ہو گئے اور مسلمانوں کو تیزی سے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تاکہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو سکے ۔ اس پر عمل درآمد کیلئے پہلے ڈبلیو ایم ڈی کا بہانہ گھڑ کر عراق پر حملہ کیا پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا ۔ افغانستان پر حملہ سے پہلے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسلئے گرا دیا کہ دنیا کی ناجائز حمائت حاصل کی جائے ۔

امریکی حکمرانوں کی ہوّس اور بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے لاکھوں بے کس لوگوں کو بے گھر کرنے اور اں کے ہاتھ سے رزق چھننے اور ہزاروں لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب اُن کی آنکھیں واحد مسلم ایٹمی طاقت پر گڑی ہیں ۔ اُن کا مقصد دنیا میں غیر مسلموں کے مکمل غلبے کے سوا کچھ نہیں

اس خود غرضی کی جنگ میں امریکی عوام بُری طرح سے جکڑے جا چکے ہیں ۔ امریکی عوام کو شاید اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اُن کے حکمرانوں کی بنائی ہوئی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” نے جو تحفے امریکی عوام کو دیئے ہیں وہ ہیں ۔ عراق میں 5000 کے قریب امریکی فوجی ہلاک ۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی زخمی اور 167 امریکی فوجی خود کشی کر کے ہلاک ۔ امریکی عوام میں بے چینی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے امریکی حکمرانوں نے افغانستان میں ہونے والے نقصانات کو ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن وہاں بھی عراق سے کم نقصان نہیں ہوا ۔ معاشی لحاظ سے اس خودغرضی کی جنگ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اب تک اس جنگ میں 10 کھرب یعنی ایک ٹریلین ڈالر جھونکا جا چکا ہے ۔ اور امریکیوں کو بونس کے طور پر دنیا کے لوگوں کی اکثریت کی نفرت ملی ہے ۔ اس سب نقصان کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر پورے عراق پر امریکہ کی حکمرانی ہے مگر افغانستان میں کابل سے باہر مُلا عمر کا سکہ چلتا ہے ۔

ایک حقیقت جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں نے پیشِ نظر نہیں رکھی وہ قانونِ قدرت ہے جس پر عمل ہوتا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا

دنیاوی طور پر دیکھا جائے تو کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہا ں زیادہ وقت قیام نہیں کر پاتا اور اُسے نیچے اُترنا پڑتا ہے خواہ وہ جہاں سے اُوپر گیا تھا اُسی طرف اُترے یا پہاڑ کے دوسری طرف ۔ انسان کو ہی دیکھ لیں پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان اور پھر بوڑھا یعنی کمزور سے طاقتور بننے کے بعد کچھ عرصہ طاقتور رہتا ہے اور پھر کمزور ہو جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک قدیم مقولہ ہے “ہر کمالے را زوالے”۔ یعنی کمال حاصل کرنے کے بعد زوال لازم ہے ۔

ایک تعلیم یافتہ شخص جس کا تعلق جموں کشمیر کے اُس علاقہ سے تھا جس پر 1947ء سے بھارت کا غاصبانہ استبدادی قبضہ ہے اور جس نے افغانستان پر سوویٹ یونین کے قبضہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا کو اُس کے علم اور تجربہ کی بنیاد پر گیارہ سال قبل ایک مجلس میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ اُس نے افغانستان میں جنگِ آزادی کے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرنے کے بعد کہا “آپ نے دیکھا کہ سوویٹ یونین جیسی سُپر پاور ٹوٹ گئی ۔ ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ اب سوویٹ یونین کا کام بھی امریکہ نے سنھال لیا ہے ۔ آپ نوٹ کر لیجئے کہ آج سے 14 سال کے اندر امریکی ایمپائر ٹوٹ جائے گی”۔

روسی پروفیسر اِیگور پانارِن [Igor Panarin] نے کئی سال قبل پیشگوئی کی تھی کہ 2010ء میں امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد موجودہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔

آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمران اس ترجیح پر عمل پیرا ہیں کہ “ہم ایک ایمپائر ہیں ۔ جب ہم قدم اُٹھاتے ہیں تو اپنی پسند کی حقیقت کو جنم دیتے ہیں ۔ لوگ ابھی اس حقیقت کے مطالعہ میں لگے ہوتے ہیں کہ ہم قدم بڑھا کر نئے حقائق پیدا کر دیتے ہیں ۔ بیشک لوگ اُن کا بھی مطالعہ کریں ۔ ہم تاریخ ساز ہیں اور باقی سب لوگ صرف ہماری بنائی ہوئی تاریخ کو پڑھنے کیلئے ہیں”

لیکن آنے والے کل کی کسی کو کیا خبر ۔ البتہ دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور سوچنے والے دماغ سمجھ چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے ۔

پچھلے نو سال کی اس مہم جوئی کے نتیجہ میں امریکی معیشت خطرناک حد غوطہ لگا کر کساد بازاری کا شکار ہے اور مزید اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ ساتھ ہی بے روزگاری نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہے ۔ اگر امریکی حکمرانوں کے یہی طور رہے تو وہ وقت دُور نہیں جب امریکی عوام احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے اور مر جاؤ یا مار دو کے ارادوں سے سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔ عوامی حقوق کی یہ جد و جہد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر کے واحد سُپر پاور کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ لگتا ہے کہ حکمران اس صورتِ حال کی توقع رکھتے ہیں اسی لئے 2008ء کے اواخر میں 20000 فوجیوں کا چناؤ کیا جا چکا ہے جنہیں اگلے تین سال میں شہریوں کے بلووں سے نپٹنے کی تربیت دی جائے گی

اسرائیل غزہ اور اقوامِ متحدہ

جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ یو این او [UNO] مخفف ہے یونائٹڈ نیشنز آرگنائزیشن [United Nations Organization] کا جو اسی طرح کے کاموں کیلئے بنائی گئی لیگ آف نیشنز [League of Nations] کی ناکامی کے بعد معرضِ وجود میں لائی گئی تھی ۔ پچھلے 60 سال کے مشاہدہ سے واضح ہوا ہے کہ یو این او دراصل مخفف ہے یونائٹڈ ناسٹی نَیپوٹِزم آرگنائزیشن
United Nasty-nepotism Organization
کا ورنہ اس کے پروردہ دہشتگردوں کے ہاتھوں مسلسل یہ قتل و غارتگری کیوں ہوتی

_45329291_rafahcar_afp466
_45329607_wounded_afp466
_45330118_3tankssufagetty466
gaza1
gaza5
gaza7
gaza8
gaza9
gaza10
gaza11
gaza12

مسلمانوں کا المیہ

حقائق پر مبنی تحریر جو مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے ایک تازیانے سے کم نہیں

ممبئی میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد بھارت کی ایما پر امریکہ نے پاکستان کو بغیر کوئی عذر دیئے اپنی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ذریعے جماعت الدعوة اور دو دوسری پاکستانی رفاہی اور دینی تنظیموں کو دہشتگردقرار دے دیا جبکہ ان تنظیموں سے منسلک کچھ افراد کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ۔ اقوام متحدہ کی اس کارروائی کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ان تنظیموں بالخصوص جماعت الدعوة کے دفاتر کو ملک بھر اور آزادجموں کشمیر میں مقفل کر دیا اور اس کے کئی عہدیداروں اور رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیا یا گرفتار کرلیا اور ان کے بنک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے۔

ہمارے صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکار بار ہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک بھارت نے ہمیں ممبئی دہشتگردی کے حوالے سے ایسے شواہد فراہم نہیں کئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کی کوئی تنظیم ان واقعات میں ملوث ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایسے شواہد پیش کئے گئے۔ لیکن ہم نے بغیر کوئی ثبوت دیکھے جماعت الدعوة جو پاکستان بھر میں اپنے رفاہی کاموں کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتی ہے اور جس نے خاص طور پر زلزلہ زدہ علاقوں بشمول آزادکشمیر، بالاکوٹ، مانسہرہ اور بلوچستان میں کافی کام کیا ہے اس طرح دھاوا بول دیا جیسے ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ ہمارے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان جماعت الدعوة کے خلاف ایکشن نہ لیتی تو خطرہ تھا کہ پاکستان کو ہی دہشتگرد ملک قرار دے دیا جاتا۔ کیا جناب احمد مختار ضمانت دے سکتے ہیں کہ اب پاکستان کو دہشتگرد ممالک میں فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

بغیر کسی منطق اور جواز کے ہم کتنی آسانی سے ہر بیرونی حُکم کی بجا آواری کرتے جا رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد پہلے ہی ہم نے اپنی قومی عزتِ نفس کو تار تار کرتے ہوئے امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر ڈالا خواہ وہ قانونی تھا یا غیر قانونی خواہ وہ پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف تھا یا کہ نہیں اور اب ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھے بغیر سب کچھ بھارت کے لئے کرنے پر تیار ہیں۔یہ سب کرنے کے باوجود امریکہ ہم سے آج تک خوش نہیں ہوا جبکہ بھارت نے ابھی سے do more-do more کی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو نجانے ہمارا کل کیسا ہو گا۔ پہلے ہی امریکہ کی نظر میں پاکستان دنیا بھر کے لئے دہشت گردوں کا ٹھکانہ ہے۔ آج بھارت بھی امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز [epicentre] گردانتا ہے۔ بیرونی قوتوں کے کہنے پر اگر ہم آج اپنی تنظیموں اور اپنے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو کیا اس سے ہم آنے والے خطرات سے جان چھڑا پائیں گے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کا اصل نشانہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے، کیا ہم بھول گئے کہ یہی ممالک ہمارے ملک کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف انتہائی سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں اور اب بھی لگا رہے ہیں تا کہ ان اداروں کو کمزور کر کے اس ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کی جائے جس سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بیرونی قبضے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اپنی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے یقیناً ہم اپنے ملک کو دشمن قوتوں کے پھیلائے گئے جال میں آہستہ آستہ پھنسا رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی امریکہ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کی عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شہادت پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اس ریاستی دہشت گردی پر تو اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جبکہ تمام اسلامی ممالک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اتحاد و یگانگت سے بیگانہ سب ایک دوسرے کی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھارت سے نہیں پوچھتا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیونکر جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لینے کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ مگر اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں بند ہیں اور ان کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

ہم زبان سے تو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں اور اسی سے ڈرنے کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے دلوں میں امریکہ کا خوف اور ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم دنیا کو اور حتٰی کہ اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو امریکہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج ہم اپنے مذہب کے متعلق اس حد تک معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہم اپنی مسلمانیت کو اس طرح پیش کرنے کے جتن کر رہے ہیں جس سے امریکہ ہم سے خوش ہو جائے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی میرے اللہ کا وعدہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی کتاب قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں تو اپنے رب کے واضح احکامات کے باوجود ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ کافر اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہود و نصاریٰ کو راضی کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بھول گئے جس کا مفہوم ہے یہ [یہودونصاریٰ اور کفار] تم [مسلمانوں] سے اس وقت راضی ہوں گے جب تم اپنے دین پر اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے یعنی کہ دین اسلام کو چھوڑ دو گے۔ کیا ہم قرآن کی اس بات کو بھول سکتے ہیں کہ ان [یہودونصاریٰ اور کفار] کی زبانوں سے کہیں زیادہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض چھپا ہوا ہے۔

دین اسلام کی نظر میں جو ہمارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو ہمارے بدترین دشمن ہیں انہی کو ہم نے اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے اور ان کے ہر حکم پر اپنا سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو مغضوب [ہمیشہ غضب میں رہنے والی] اور بھٹکے ہوئے کہا ہم آج کے مسلمان ان کی پیروی پر لگے ہوئے ہیں۔ کل افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جنگ کو جہاد اور اس میں حصہ لینے والوں کو مجاہدین کہنے والوں نے آج افغانستان میں قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار طالبان کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے دیا اور ہم مسلمان بھی انہی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جہاد چاہے وہ افغانستان، کشمیر یا عراق میں ہو اس کو ہم نے دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔ ان حالات میں مسلمان کے مقدر میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
انصار عباسی نے جنگ کیلئے لکھا اور 15 دسمبر 2008ء کو شائع ہوا

جنہیں اقوامِ متحدہ نے دہشتگرد قرار دیا ہے

یہ وقت سوچنے کا ہے کہ کیا ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کہا مان کر درُست سمت میں جا رہے ہیں ؟ وہ اقوامِ متحدہ جس کے ہر مُسلم کُش فیصلے پر طاقت کے زور سے عمل کروایا جاتا ہے اور جس کی سکیورٹی کونسل کی جموں کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں منظور کی گئی 17 قرادادوں پر آج تک بھارت نے عمل نہیں کیا اور فلسطین کے حق میں منظور کی گئی سکیورٹی کونسل کی 131 اورجنرل اسمبلی کی منظور کردہ 429 قراردادیں اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور کسی کے ماتھے پر بَل بھی نہ آیا ؟

انتہائی تابعداری کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے جماعت الدعوہ پر پابندی لگا کر اس کے تمام حسابات منجمد کر دیئے ہیں اور کئی خدمتگاروں کو پابندِ سلاسل کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں اُن کی سرپرستی میں پاکستان کے طول و عرض میں چلنے والے طبی امداد کے مراکز ۔ 340 سکول ۔ کئی کالج اور ایک یونیورسٹی بند ہو جانے خدشہ ہے جو نادار پاکستانیوں کو بلا امتیاز مذہب ۔ رنگ و نسل طِبی امداد پہنچاتے تھے اور اُن کے بچوں تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کا کام کر رہے تھے ۔ یہ طبی مراکز اور تعلیمی ادارے پاکستانیوں کی مالی اعانت ہی سے چل رہے تھے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اس قابل ثابت نہیں کیا کہ مُخیّر پاکستانی اپنی امدادی رقوم رفاہی کاموں کیلئے حکومتی اداروں کے حوالے کریں

قارئین کی یاد دہانی کیلئے اپنی 28 اکتوبر 2005ء کی تحریر نقل کر رہا ہوں جس میں بی بی سی کے نمائندے کی چشم دِید صورتِ حال نقل کی گئی تھی

صدر پرویز مشرف نے 20 اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔

صدر کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پُر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی تجربہ خاصا مددگار ثابت ہورہا ہے۔

مثلاً جماعت الدعوہ کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے ۔ اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی 1000 کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں

مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا ۔ تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھُلے حصے میں کپڑوں، گدیلوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے ۔ اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے

مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت الدعوہ پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے ۔ بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے ذریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدیلے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں

اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے

ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں 120 بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں ۔ ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں ۔ جبکہ اب تک 3500 چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں

اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھا ۔ یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں ۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے

جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا ۔ اسکے علاوہ متاثرین کو 1000 گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارہا ہے

کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں ۔ الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں ۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں

یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررہا ہے

بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر مناسب نہیں سمجھتے

اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جُتی ہوئی ہے ۔ مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں ۔ جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں

ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے ۔ بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے ۔ یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں

البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی
اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں ۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں

شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔

میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رہا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے ۔ وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے ۔ میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی ۔ کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہےاسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا

الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں ۔ بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی 2500 خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے جبکہ 1000 زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے

تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے

الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے ۔ تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے

بُش مار جُوتوں کیلئے 370000 جوڑوں کا آرڈر

خبر ہے کہ عراقی صحافی نے امریکی صدر بش کو نیوز کانفرنس کے دوران جو جوتا مارا تھا اُسے تیار کرنے والی ترکی کے شہر استنبول میں قائم بیدان شوز کا کاروبار خوب چل نکلا ہے اور اس نے اپنے گاہکوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے 100 مزید ہُنرمندوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں ۔ اب تک بیدان شوز کو 370000 جوڑوں کے آرڈر مل چکے ہیں ۔ کمپنی کے مطابق عام طور پر اس ماڈل کے سال میں 15000 جوتے فروخت ہوتے تھے ۔

اس جوتے کے آرڈر عراق ۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور امریکا سمیت پوری دنیا سے موصول ہو رہے ہیں ۔ اس جوتے کے امریکیوں نے 19000 جوڑے بھیجنے کی فرمائش کی ہے ۔ اس جوتے کا ماڈل نمبر 271 تھا لیکن اب تبدیل کرکے اس کا نام بش شوز رکھ دیا گیا ہے ۔ کمپنی کے مالک نے کہا ہے کہ “کمپنی جوتے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے زیادہ منافع نہیں کمارہی اور اس کی پہلے والی قیمت یعنی 27 ڈالر ہی رکھی ہے لیکن ہمارے لئے یہی بات کافی ہے کہ ہماری کمپنی خوب نام کما رہی ہے”