ریاست اسرائیل کا پس منظر

آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست ۔ جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس یہودی ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا ۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی
“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”
[ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے]

اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل [سوٹزرلینڈ] میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔ سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا عراق کی جنوبی سرحد تک کا شمالی علاقہ ۔ دیکھئے نقشہ ۔ 1 اس تحریر کے آخر میں

فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا
“We shall try to spirit the penniless population across the border by procuring employment for it in the transit countries, while denying it any employment in our own country.”
ترجمہ ۔ ہم [فلسطین کے] بے مایہ عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے
پھر صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا
“As soon as we have a big settlement here we’ll seize the land, we’ll become strong, and then we’ll take care of the Left Bank. We’ll expel them from there, too. Let them go back to the Arab countries.”
ترجمہ ۔ جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو

نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع‏ میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں 52 سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914ء تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نقشہ – 1

سڑکوں اور عمارتوں کی دنیا

دسمبر 2008ء کے پہلے ہفتے میں دبئی کی میری دوسری سیاحت کا حال لکھنا شروع کیا تھا لیکن دوسرے اہم مسائل نے آگے نہ بڑھنے دیا

سڑکیں
دبئی میں پہلی چیز جو ہمیں نظر آئی وہ کشادہ اور دو سے چار رویہ اور کبھی اُوپر نیچے ہو کر چھ رویہ سڑکیں ہیں جن پر سینکڑوں کاریں ہر وقت دوڑ رہی ہوتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب اِدھر سے اُدھر جا کر واپس آ رہی ہیں اور یونہی دن گذار دیتی ہیں ۔ اس سب کے باوجود کسی کسی علاقہ میں پیدل چلنے والا ۔ کار سواروں سے پہلے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے ۔ مگر میں نے پیدل چلنے کی سعی اسلئے نہ کی کہ کہیں ان کاروں اور سڑکوں میں گم ہو گیا تو لواحقین کم از کم چند گھنٹے پریشان رہیں گے ۔ میں بیگم اور بیٹی کو خوش ہونے کیلئے دبئی لے گیا تھا پریشان ہونے کیلئے نہیں ۔

ایک منظر پریشان کُن تھا کہ کئی سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کوشش میں فی الحال روکاوٹیں کھڑی کر کے اُنہیں تنگ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میٹرو ٹرین چلانے کیلئے اُس کی معلق [Over-head] گذرگاہ زیرِتعمیر ہے جو سڑکوں کی کشادگی کو محدود کئے ہوئے ہے ۔

عمارات

دبئی میں جو دوسری چیز ہمیں نظر آئی وہ وہاں کی بلند و بالا عمارات ہیں جن کی بلندی دیکھنے کی کوشش میں سر سے پگڑی گِر جائے ۔ عمارات قسم قسم کی نِت نئی اشکال کی ہیں جو انجنیئرز اور آرکیٹیکٹ صاحبان کی کرامات کا مظہر ہیں ۔ سمندر کے اندر کھجور کے درخت سے ملتی زمین بنا کر اس پر ایک شہر بسا دیا گیا ہے جس کا نام النخلہ جمیرہ [Jumeirah Palm Island] ہے اس مصنوعی جزیرے کو ایک پُل کے ذریع دبئی سے ملا دیا گیا ہے ۔ سننے میں آیا ہےکہ ایسے دو اور مصنوعی جزیرے بنانے کا منصوبہ ہے ۔

تمام عمارات کے اندر کافی جگہ گاڑیاں پارک کرنے کیلئے ہے تاکہ متعلقہ عمارت میں رہائش پذیر یا اس میں بنے دفاتر میں کام کرنے والوں کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے کی پریشانی نہ ہو ۔ ان پارکنگ کی جگہوں میں عام طور پر مہمانوں کو گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے مہمان کو اگر عام پارکنگ میں جگہ نہ ملے تو وہ بہت پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ عام طور پر مراکز للتسویق [Shopping Malls] اور کچھ دوسری جگہوں پر بلامعاوضہ پارکنگ ہے اور کچھ جگہوں پر معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ کچھ مراکز للتسویق میں بلامعاوضہ پارکنگ کی شرط ہے کہ کم از کم 100 درہم کا سودا خریدا جائے





کیا حکومت امریکہ کی کٹھ پُتلی ہے ؟

کیا حد نگاہ تک پھیلی پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ قومی سلامتی جیسا حساس ترین شعبہ امریکی مفادات سے وابستہ کسی شخص کے سپرد کردیا جاتا؟ کیا یہ اور بعض دوسری تقرریاں این آر او [NRO] کا حصہ تھیں؟ کیا مشرف سے دست کش ہونے سے پہلے امریکہ نے پاکستانی بساط کے ہر خانے میں اپنے مُہرے بٹھانے کی شرط منوا لی تھی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایک مہرہ پِٹ جانے کے بعد یہ باور کرلیا جائے کہ امریکہ کو شہ مات ہوگئی ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مشرف کو اپنی آمرانہ حکمرانی کے لئے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی ۔ اس کے ہر اقدام کی ناک میں امریکی مفادات کی نکیل پڑی تھی ۔ آٹھ برس کے دوران اس نے پاکستان کو بڑے پیٹ والے مویشیوں کی کھرلی بنادیا ۔ 18 فروری کو عوام ایک نئے عزم کے ساتھ نئے انداز سے اُٹھے اور جانا کہ مشرف کو حواریوں سمیت نابود کرکے وہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کا تشخص بحال کردیں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پارلیمینٹ کی بالادستی ایک بے ذوق نعرے تک محدود ہوکے رہ گئی ہے، کابینہ محض باراتیوں کا جتھہ ہے اور شدید بیرونی دباؤ کے ان دنوں میں امریکہ دندنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

امریکہ نے اپنے پاکستانی پٹھوؤں کے ذریعے چین کو روکا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو وِیٹو [Veto] نہ کرے۔ امریکہ نے ہی اپنے پٹھوؤں کے ذریعے اجمل قصاب کی پاکستانیت کا اقراری بیان جاری کرایا اور جان لیجئے کہ محمود علی درانی کے بعد بھی پاکستانی بساط پر جابجا امریکی مُہرے پوری تمکنت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستانی مفادات کا سینہ چھلنی کرنے کے لئے ابھی ان کے ترکش میں بہت تیر باقی ہیں

یہ ہیں جھلکیاں عرفان صدیقی کے مضمون “پاکستانی بساط کے امریکی مُہرے” کی

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں ۔ حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج نے جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

دہشتگرد کون ؟ ؟ ؟

آج کے دور میں ہر اُس مسلمان فرد اور مسلمان ملکوں کے باشندوں کو دہشتگرد قرار دیا جا رہا ہے جو امریکہ یا بھارت کی مداح سرائی نہ کرے یا اُن کے ظُلم کے خلاف آواز اُٹھائے ۔ اس پروپیگنڈہ کی کامیابی کا سبب ذرائع ابلاغ کا کنٹرول مسلمان دُشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہونا ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ مسلمان مُلکوں کے بھی کچھ ذرائع ابلاغ ان مسلم دُشمن طاقتوں کی مالی امداد وصول کر کے یا اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنے ہموطنوں اور مسلم اُمہ کے ساتھ غداری کر رہے ہیں ۔

مُسلم دُشمن طاقتوں کا یہ کھیل تو ازل سے جاری ہے لیکن اس نے زور آج سے 20 سال پہلے پکڑا ۔ ابتداء فرد سے کی گئی ۔ پھر ایک قوم کو ملزم ٹھہرایا گیا اور پھر اس کا دائرہ ہر اُس ملک تک بڑھا دیا گیا جہاں کے عوام ان مُسلم دشمن طاقتوں کی بداعمالی کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں

امریکا کی اعانت سے اسرائیل کی فلسطین میں اور برطانیہ کی اعانت سے بھارت کی جموں کشمیر میں دہشتگردی تو 1947ء میں شروع ہو گئی تھی ۔ امریکہ جو ویت نام ۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں دہشتگردی روا رکھ چکا تھا اُس نے 1991ء کے شروع میں عراق پر حملہ کر کے مشرقِ وسطہ میں اپنی دہشتگردی کا آغاز کیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ میں اپنی عددی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عراق کی 13 سال مکمل ناکہ بندی رکھی گئی اور جب محسوس کیا کہ اب عراق اپنے دفاع کے قابل نہیں رہا تو ڈبلیو ایم ڈی کا جھُوٹا بہانہ بنا کر مارچ 2003ء میں امریکہ نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر مجبور عراق پر حملہ کر دیا ۔ ان دو طاقتوں کے بیہیمانہ ظُلم اور دہشتگردی کی بازگزشت اب بھی فضا میں گونجتی جے ۔ امریکی چیک پوسٹوں پر اور بڑے پیمانے پر قائم کردہ جیلوں بالخصوص ابوغرَیب جیل میں جو کچھ ہوا اسے کون نہیں جانتا ۔

اسی دوران امریکا اور اس کے ساتھیوں نے اکتوبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کو بہانہ بنا کر افغانستان پر دھاوا بول دیا جبکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ سے افغانستان کا دُور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا ۔ گھر بیٹھے شہریوں اور شادی اور مرگ کی محفلوں پر سفّاکانہ بمباری کی گئی ۔ افغانستان میں لاکھ سے زیادہ بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے اندھا دُھند بمباری سے ہلاک کئے جا چکے ہیں اور یہ دہشتگردی 7 سال سے جاری ہے

افغانستان میں مارداڑ شروع کرنے کے کچھ سال بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے جاری فوجی کاروائی کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی فوج نے حملے شروع کر دیئے جو جاری ہیں ۔ ان حملوں کا نشانہ بے قصور شہریوں کے گھر ۔ بچوں کی تعلیمی درسگاہیں اور مساجد ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں سینکڑوں بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ عمل اب تک جاری ہے ۔ اس صریح مُسلم کُش دہشتگری جسے مکاری سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ہے کے نتیجہ میں پاکستان کے قبائلی کے علاقوں کے لاکھوں پُرامن اور بے قصور لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔

ہمارا قومی المیہ اور اُس کا حل

قدیم زمانہ کی ایک کہانی ہے کہ ایک مصوّر نے اپنی بنائی ہوئی بہترین تصوریر چوراہے پر یہ لکھ کر رکھ دی کہ اس میں غلطی بتائیں ۔ چند دن بعداُسے دیکھ کر جھٹکا لگا کہ تصوریر بے شمار لکیروں میں گم ہو گئی ہے ۔ پھر اُس نے ایک عام سی تصویر بنا کر ان الفاظ کے ساتھ رکھ دی کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اسے درُست کر دیں ۔ ایک ہفتہ بعد مصوّر آیا تو تصویر پر ایک نشان بھی نہ لگایا گیا تھا

یہ کہانی ہماری قوم پر صادق آتی ہے ۔ جسے دیکھو وہ دوسرے کی غلطیاں گِن رہا ہے مگر اپنی غلطی کی درُستگی کرنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ہر اُس آدمی یا جماعت یا گروہ کی کردہ اور ناکردہ غلطیاں گِنتے رہتے ہیں جن سے اُن کو ذاتی فائدہ نہ پہنچا ہو یا اُن کے غلط یا درست رویّے سے ان کو نقصان کا خدشہ ہو ۔ ایک عمل جو ہمارے ذرائع ابلاغ کو ہر وقت اور ہر دور میں خطرے کی جھنڈی لہراتا نظر آتا ہے وہ ہے دین اسلام اور اس پر عمل کی کوشش ۔ اخباروں میں ایسے اداریئے کئی بار شائع ہو چکے ہیں ۔ ہمارے اخبارات میں دین سے بیزار لوگوں کے مقالے اور دیگر مُخرب الاخلاق مضامین اور اشتہارات بڑے کرّوفر کے ساتھ چھاپے جاتے ہیں اور وقفے وقفے کے ساتھ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا بلکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے لادین ریاست بنایا تھا ۔ گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قائد اعظم خدانخواستہ قوم کو دھوکہ دیتے رہے ۔

دسمبر 2008ء میں ایک سب سے زیادہ اشاعت کے دعویدار اخبار میں اداریہ شائع ہوا کہ جماعت الدعوہ نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کر رہی تھی اور اس پر پابندی سے بہت سے سکول اور مُفت علاج کے مراکز بند ہو جائیں گے ۔ سب حقائق لکھنے کے بعد آخر میں ایک فقرہ چُست کر دیا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن جماعت الدعوہ مستفید ہونے والوں کو اپنا ہم خیال بنا لے گی اور انتہاء پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ۔ کوئی اس اخبار کے مالکوں اور مدیروں سے پوچھے کہ تم لوگ جو کروڑوں روپیہ بااثر اور مالدار لوگوں کی چاپلوسیاں کر کے اور فُحش اشتہارات چھاپ کر کما رہے ہو اس کا کچھ حصہ فلاحی کاموں پر لگا کر کیوں عوام کو اپنا ہم خیال نہیں بناتے ؟

تحریک پاکستان کی کامیابی کا سبب صرف مُخلص اور محنتی رہنما ہی نہیں تھے ۔ ان کے ساتھ مُخلص اور محنتی کارکُن اور چھوٹے چھوٹے دو تین اخبار تھے جو منافع کمانے کی بجائے اپنی محنت سے اخبار میں مسلم لیگ کی کارکردگی لکھ کر مسلمانانِ ہند تک پہنچاتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد سے ہمارے ذرائع ابلاغ نے جتنا ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے میں کردارادا کیا ہے اتنا کسی حکمران حتٰی کہ ڈِکٹیٹر نے بھی نہیں کیا ہو گا

جب پاکستان میں پہلی بار 1964ء میں لاہور میں ٹی وی کا اجراء ہوا تو لاہور کے ایک مشہور امام مسجد نے کہا تھا “شیطانی چرخہ آ گیا ۔ اُس کی عقل پر قہقہے لگائے گئے اور اُسے لعن طعن کیا گیا ۔ مجھے بھی یہ استدلال عجیب سا لگا تھا لیکن 44 سال بعد آج اگر ٹی وی کے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص دانا اور دُور اندیش تھا ۔ آجکل ٹی پر ایسے ایسے لچر قسم کے اشتہارات دِکھائے جا رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ماڈرن کہنے والے بھی تلملا اُٹھے ہیں ۔

ہماری قوم میں تین بڑی عِلتیں ہیں ۔ خودغرضی ۔ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر تنقید اور بے راہروی جو اخبارات ۔ ٹی وی چینلز ۔ موبائل فون اور سرکاری سرپرستی میں پرورش پا رہی ہیں اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حل صرف درست تعلیم و تربیت میں مُضمِر ہے لیکن شومئی قسمت کہ تربیتی نظام ہمارے ملک میں مفقود ہے ۔ رہی تعلیم تو اس سے حکمرانوں نے شاید قطع تعلق کیا ہوا ہے ۔ 35 سالوں سے تعلیم اُن لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جنہوں نے عُمدہ تعلیم کے نام پر مہنگے تعلیمی ادارے کھول کر اس مُلک کی دینی اور سماجی اقدار کو برسرِ عام پامال کرنا اپنا شیوا بنا رکھا ہے

تربیت کا گہوارہ ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد گھر کا ماحول اگر ایک ماں آزادی اور فلاح کے نام پر مجالس میں تو حاضری دے اور تقریریں کرے مگر گھر میں اپنے ملازمین کے ساتھ ظُلم کرے ۔ لوگوں کو نصائع کرتی پھرے اور اپنے بچے کی مناسب تربیت کیلئے وقت نہ نکالے تو بچے کا بگڑنا ایک عام سی بات ہے ۔

اسی طرح جس بچے کا باپ دیر سے گھر لوٹے ۔ شراب یا سگریٹ پیئے اور اپنے بچے کو کہے کہ بیٹا سکول سے سیدھا گھر آ جانا سگریٹ پینا بُری بات ہے ۔ کیا اُس بچے سے باپ کی بات کو اہمیت دینے کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ بچہ کتنا ہی اکھڑ مزاج کیوں نہ ہو اگر اُسے مناسب ماحول دیا جائے اُس کی طرف خلوصِ نیت سے توجہ دی جائے تو وہ درُست سمت میں چل سکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین کا غلط رویّہ ہی ان کے بچے کو اکھڑ بناتا ہے ۔ کوئی بچہ پیدائشی اکھڑ نہیں ہوتا

تربیت کا دوسرا اہم مرکز تعلیمی ادارے ہوتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کا ہمارے مُلک میں جو حال ہے کسی سے پنہاں نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی زبوں حالی ہے ۔ بجٹ کا سب سے کم حصہ تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں ضرورت کے مطابق لائبریری نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں اور اس پر طُرّہ یہ کہ اُن کی عزت محفوظ نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ جسے کوئی بہتر ملازمت نہیں ملتی وہ تعلیم اداروں کا رُخ کرتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اساتذہ کی عزت اور احترام طُلباء و طالبات اور بالخصوص اُن کے والدین کے دِل سے محو ہو چکا ہے ۔

تربیت کا تیسرا ادارہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا ماحول ہوتا ہے ۔ بچہ خواہ کتنے ہی محتاط اور اچھی تربیت والے گھرانے کا ہو جب وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے سے بہتر پہنتے بہتر کھاتے اور بغیر محنت کے کامیاب ہوتے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی اُن سا ہو جانے کی تمنائیں اُبھرتی ہیں جو موقع ملنے پر اُسے اُسی لاقانونیت کی دنیا میں لیجاتی ہیں جہاں وہ لوگ ہوتے ہیں

اگر ہمیں اپنی زندگی پیاری ہے اور اپنی حمیت کی قدر ہے تو ہمیں من حیث القوم وقتی مفاد سے نکل کر اپنی پوری زندگی کیلئے سوچنا ہو گا ۔ ہمارے آج نے تو جو بننا تھا بن چکا اسے تو تبدیل کرنا ناممکن ہے ۔ اگر آج کے وقتی مفاد کو بھُول کر دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو ہمارا مستقبل درست ہو سکتا ہے

ایک اور سدِ راہ ہے کہ بہت سے ہموطن اس سوچ میں مُبتلا نظر آتے ہیں “میں اکیلا کیا کروں ؟ سارا معاشرہ ہی خراب ہے”۔ جب تک ہر فرد اپنی سوچ کو بدل کر یہ ارادہ نہیں کرے گا کہ “یہ میرا کام ہے اور مجھے ہی کرنا ہے ۔ کوئی اور نہیں کرتا تو میری بلا سے مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہے”۔ معاشرہ میں بہتری کی کوئی صورت نہیں بن سکتی ۔ اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ نے فرمایا ہے

سُورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات 109 تا 111
اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں [کی رہنمائی] کیلئے ظاہر کی گئی ہے ۔ تم بھلائی کا حُکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً اُن کے لئے بہتر ہوتا ۔ اُن میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں
یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے ۔ پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گے

سُورت ۔ 3 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت 2 کا آخری حصہ
اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔ 177
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور [اﷲ کی] کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں [اپنا] مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور [غلاموں کی] گردنوں [کو آزاد کرانے] میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی میں اور مصیبت میں اور جنگ کی شدّت [جہاد] کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔44
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم [اللہ کی] کتاب [بھی] پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 135
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے