قانون اور ہموطن

یہ صد سالہ غلامی کا اثر ہے یا ہماری دین سے بیگانگی کہ ہموطنوں کی اکثریت میں ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری کا فُقدان ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ آئین و قانون کی مُخالفت پر فخر کیا جاتا ہے تو درست ہو گا ۔ میں دنیا کے کوئی درجن بھر ممالک میں گیا بلکہ رہا ہوں جن میں امریکہ ۔ برطانیہ ۔ افریقہ ۔ جزیرہ نما عرب اور یورپ کے متعدد ممالک شامل ہیں مگر یہ صفت وطنِ عزیز کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں دیکھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ ہموطن جواپنے عمل سے وطنِ عزیز میں آئین و قانون کی کھُلی مخالفت کرتے ہیں دساور کے ان ممالک میں وہاں کے آئین و قانون کی پاسداری کی پوری کوشش کرتے ہیں

ہموطنوں میں اس رویّہ کی بڑی وجہ حُکمرانوں کے آئین اور قانون کے ماوراء اقدامات اور آئین و قانون کی کھُلے عام خلاف ورزی ہے ۔ حُکمرانوں یعنی صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔ گورنروں ۔ وُزرائے اعلٰی ۔ چیئرمین سینٹ ۔ اسمبلیوں کے سپیکر ۔ وفاقی اور صوبائی وزراء ۔ سنیٹروں اور اسمبلیوں کے ارکان پر صرف آئینی و قانونی ہی نہیں اخلاقی پابندیاں بھی ہوتی ہیں ۔ اُنہیں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف قومی اور عوامی مفاد میں کام کرنا ہوتا ہے اور عوام کے سامنے اپنے کردار کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں کے اندر بھی وہ ان قوانین اور اقدار کے پابند ہوتے ہیں ۔

سنیٹر اور ارکان اسمبلی تو سیاسی ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اُن پر آئین کے مطابق دوسری جماعتوں کی آئینی و قانونی رائے کا احترام واجب ہوتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی منتخب کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد یہ پورے مُلک کیلئے ہوتے ہیں اور اُنہیں جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہی صورتِ حال اپنے اپنے صوبے کے لحاظ سے صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور وزرائے اعلٰی کی ہوتی ہے ۔

صوبائی گورنروں کو صدر نامزد کرتا ہے اسلئے وہ ذاتی لحاظ سے کچھ بھی ہوں حکومتی ذمہ داری کے لحاظ سے وہ کسی جماعت یا گروہ کے نہیں پورے صوبے کے نمائندہ ہوتے ہے ۔ چنانچہ آئین کے مطابق انہیں کسی مخصوص جماعت یا گروہ کی کسی ایسی حمائت کی اجازت نہیں ہوتی جس سے دوسری کسی جماعت یا گروہ کو نقصان پہنچتا ہو یا اُسکی دل آزاری ہوتی ہو ۔ گورنر اپنی تقرری پر حلف اُٹھاتا ہے کہ
وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور کام دیانتداری سے آئین و قانون کے مطابق کرے گا
وہ نظریہ اسلام کی پوری کوشش سے حفاظت کرے گا
وہ اپنی ذاتی دلچسپی کو اپنے دفتری کام اور کردار پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا
وہ ہر حالت میں بغیر کسی جانبداری یا میلان یا مخالفت کے قانون کے مطابق تمام قسم کے لوگوں کی بہتری کیلئے کام کرے گا

آئین کی شق 105 کے مطابق گورنر صوبے کی کابینہ یا وزیرِ اعلٰی کے مشورہ کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے ۔ گورنرکسی مشورے پر دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس بھیج سکتا ہے اور اگر وہ تجویز وزیرِ اعلٰی دوبارہ گورنر کو بھیج دے تو گورنر اُس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔

اصل صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں کے گورنر آئین و قانون کے مطابق کم اور آئین و قانون کے خلاف زیادہ عمل کرتے ہیں بالخصوص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے تو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ مختلف شہروں میں محفلیں منعقد کر کے اُن میں انتہائی گھٹیا بیان دینا ۔ گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلیں منعقد کرنا ۔ جو اراکانِ اسمبلی حکومت میں نہیں اُنہیں حکومت کے خلاف اُکسانا اور صوبائی اسمبلی کی بھیجی ہوئی سمری کو ہمیشہ کیلئے دبا کر بیٹھ جانا اُن کا طرّہ امتیاز ہے ۔

جب حُکمران کھُلے بندوں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کریں تو عوام سے آئین اور قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟

کیا قائداعظم دھوکہ باز تھے ؟

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری قوم کو انحطاط کے اس درجہ پر پہنچانے میں ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ کا بڑا ہاتھ ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنے آپ کو مفکّر اور تاریخ دان سمجھنے والے کچھ پاکستانی جو مُلکی ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں اپنی کج فہمی کی گندگی صاف شفاف کرداروں پر اُگلتے رہتے ہیں ۔ ان قوم دُشمنوں سے نبٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی مستند تاریخ کا خود مطالعہ کرے ۔ اس سلسلہ میں قائدِ اعظم اور علامہ اقبال پر اُچھالی گئی گندگی کی حقائق پر مبنی وضاحت معروف محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے اس مضمون میں ملتی ہے ۔

میرے بزرگ اور فاضل دوست جناب حقانی صاحب نے اپنے جمعرات کے حرف تمنا میں بعض ایسے سوال اٹھا دیئے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے ورنہ میں نے تو بحث سمیٹ دی تھی کیونکہ اول تو فلسطین میں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خون اور دوم ہندوستانی رویئے نے مجھ
پر اداسی طاری کرر کھی ہے۔ ان کے جمعرات والے دو حصوں پرمشتمل کالم کے بعض فقرے پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگاہے کہ اب یہ بحث ایک اندھی گلی میں داخل ہوگئی ہے اس لئے اسے آگے بڑھانا لاحاصل ہے۔

برادر بزرگ حقانی صاحب فرماتے ہیں ”میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے“۔ یہاں ذکر ہو رہا تھا 1946ء کے کابینہ مشن پلان کا اس لئے حقانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات کابینہ پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان کا یہ فقرہ پڑھ کر چکرا گیا کیونکہ علامہ اقبال 1938ء میں وفات پا گئے تھے اور اس سے قبل انہوں نے قائداعظم کے نام خطوط میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے جواز اور مطالبے پر زور دیا تھا بلکہ اس مطالبے کے لئے لاہوراور مارچ کا ماہ بھی تجویز کر دیا تھا جہاں ان کے انتقال کے بعد مارچ 1940ء میں قرارداد پاس کی گئی۔ اس دور میں پاکستان سے مراد وہ پاکستان تھا جس کا تصور چودھری رحمت علی نے پیش کیا تھا اور علامہ اقبال بوجوہ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“ میں موجود ہے۔ البتہ جب کیمبرج کے طلبہ نے علامہ اقبال کی توجہ لفظ پاکستان کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ اسے لکھ کر ان کے کمرے میں چھوڑ جائیں، وہ اس پر غور کریں گے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ گول میز کانفرنس کے لئے لندن میں موجود تھے۔ علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح گواہ ہیں کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے داعی تھے او رانہوں نے قائداعظم پر اس مطالبے کے لئے دلائل اور منطق کے ذریعے زور دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خطبہ الٰہ آباد کے کئی برس بعد کی ہے۔ اس ضمن میں میرے پاس خاصا مواد ہے لیکن کالم اس کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال موت تک مسلمانوں کے لئے علیحدہ اور آزاد وطن کے حق میں تھے اور وہ کبھی اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔

اب رہا معاملہ قائداعظم کا۔ میرے مہربان دوست حقانی صاحب کی تحقیق ہے کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قائداعظم نے کبھی مطالبہ پاکستان کیا ہی نہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ نے سرکاری طور پر علیحدہ وطن کا مطالبہ قرار داد لاہور کے ذریعے مارچ 1940ء میں کیا۔ 1940ء سے لے کر قیام پاکستان تک قائداعظم اور مسلم لیگ بار بار کہتے رہے کہ پاکستان کا حصول ہماری حتمی منزل ہے۔ کابینہ مشن پلان کی آمد سے قبل 46-1945ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات پاکستان کے نام پر اور نعرے پر لڑے گئے اور مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تمام مسلمان نشستیں جیت کر ثابت کر دیا کہ مسلمانانِ ہند پاکستان چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ان کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ کابینہ مشن مارچ 1946ء میں ہندوستان آیا۔ اس کے بعد اپریل 1946ء میں اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے مسلم لیگی اراکین کا کنونشن دہلی میں ہوا جس میں اراکین اسمبلی نے حصول پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا حلف اٹھایا۔

اگر قائداعظم کابینہ مشن سے پہلے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے تو
کیا 46-1945ء کے پاکستان کے منشورپر انتخابات اور مسلم لیگی اراکین اسمبلیوں کا حلف سب ڈرامہ تھا؟
کیا قائداعظم قوم کو دھوکہ دے رہے تھے کہ وہ خود تواس مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے لیکن قوم کو اس جنگ میں جھونک رہے تھے؟

یہ وہ الزام ہے جو قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان پر نہیں لگاتے۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اسکالرز اور کانگریسی ذہن کے مؤرخ یہ ضرور پراپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ دراصل پاکستان کانگریسیی ہٹ دھرمی سے بنا یا انگریزوں کی دین تھا اور اس پراپیگنڈے کا مقصد نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے بلکہ مسلمانوں کی قربانیوں اور قائداعظم کے قائدانہ کردار کی نفی کرنا بھی ہے۔ یہ ایک عجیب منطق بلکہ متضاد دلیل ہے کہ قائداعظم تقسیم ہند اور پاکستان کے حق میں نہیں تھے اور پاکستان کانگریس نے بنایا لیکن اس سے قائد اعظم کی عظمتِ کردار کو گرہن نہیں لگتا ۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان مسلمانان ہند کی قربانیوں کا صلہ تھا اور قائداعظم پاکستان کے بانی ہیں اور یہی ان کی عظیم قیادت کو خراج تحسین ہے۔ قائداعظم سے بانی ٴ پاکستان ہونے کا اعزاز چھین کر یہ اصرار کیا جائے کہ اس سے ان کی کردار کشی نہیں ہوتی تو پھرا ور کردار کشی کیا ہوتی ہے؟

برادر بزرگ حقانی صاحب کے کالم میں سیروائی اور خالد بن سعید کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ سیروائی کی کتاب کا اردوترجمہ میں نے اٹھارہ برس قبل کیا تھا جسے جنگ پبلشرز نے چھاپا۔ خالد بن سعید کی کتاب تقریباً نصف صدی پہلے شائع ہوئی تھی اور میں اسے کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اس کے بعد اس موضوع پر خاصی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ خالد بن سعید کا تھیسِس [thesis] یا نچوڑ یہی ہے کہ قائداعظم کبھی بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے اور انہوں نے کابینہ مشن پلان بھی اسی لئے قبول کیا کہ اس کے ذریعے انہیں پاکستان مل رہا تھا۔ کتاب کے آخری حصے میں نتائج اخذ کرتے ہوئے خالد بن سعید نے قائداعظم کے سیاسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کانگریسی پراپیگنڈہ کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے۔

”جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہندوؤں کے رویئے کے سبب معرض وجود میں آیا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف [Hostile] تھے تو مسلمان ہندوؤں کے خلاف تھے۔ دوئم یہ کہ یہ حضرات مطالبہ پاکستان کو اپنے تاریخی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر طویل عرصہ حکومت کی تھی اور انہیں ایسا جمہوری نظام قبول نہیں تھا جو انہیں اقتدار سے محروم کر دے۔ پاکستان کے مطالبے سے بہت قبل جناح نے انہی خطوط پر سوچنا شروع کر دیا تھا”

اختصار کا دامن پکڑتے ہوئے ایک ابہام کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اس جدوجہد میں ہندوستان کے مسلمان بھی ایک پارٹی تھے۔ بلاشبہ انہوں نے حصول پاکستان کے لئے تاریخی قربانیاں دیں۔ براہ کرم یہ بات ذہن میں ر کھیں کہ 46-1945ء میں مسلم لیگ کی کونسل 475 اراکین پر مشتمل تھی جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے منتخب اراکین شامل تھے۔ اس کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے جب جون 1946ء میں کابینہ مشن پلان قبول کرنے کی قرارداد پاس کی تو واضح طور پر یہ کہا کہ ہم اسے پاکستان کے حصول کی جانب اہم قدم کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 5,6 جون کو قائداعظم نے اسی کونسل کے سامنے یہ کہا کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان نظر آرہا ہے۔ میں قرارداد اور قائداعظم کی تقریر کے فقرے گزشتہ کالموں میں کوٹ کر چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ کونسل کے اراکین جو ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین نمائندے تھے اور جن میں منتخب اراکین اسمبلیاں بھی شامل تھے قوم کودھوکہ دے رہے تھے اور قائداعظم یہ کہہ کر کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کی بنیادیں نظر آتی ہیں ، مسلمانوں سے جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم سے ڈرامہ کررہے تھے؟ خدانخواستہ…!!

تاریخی پس منظر کے مطابق کابینہ مشن پلان کے ضمن میں مسلم لیگ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے 22مئی 1946ء کو کہا ”بنگال، آسام، پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، پاکستان زونز ہیں اور ان پر مشتمل ایک آزاد [Sovereign] ریاست بنائی جائے
اورپاکستان کے قیام کی ضمانت دی جائے۔ ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل ہے“۔ 5 جون کو مسلم لیگ کونسل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ ”مسلمان پاکستان حاصل کئے بغیر چین نہیں لیں گے۔ دراصل پاکستان کی بنیاد کابینہ پلان میں موجود ہے“ [تالیاں] مزید کہا ”دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان سے محروم نہیں کر سکتی“۔

حرف تمنا میں قائداعظم کے 29 جولائی کے بیان کو معنی خیز قرار دیا گیا جس میں قائداعظم نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی مکمل خود مختار ریاست کو ہندوستان کی جلد آزادی پر قربان کر دیا۔ اس ابہام کو رفع کرنے کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کے تحت مرکزی حکومت کو دفاع، خارجہ اور مواصلات دے کر گروپنگ کے اصول کو قبول کر لیا تھا کیونکہ ان گروپس میں مسلمان اکثریتی صوبے شامل تھے جن کی اپنی دستور ساز اسمبلی ہونی تھی اور جو دستور سازی کے بعد گروپ سے باہر نکلنے کا اختیار رکھتے تھے۔ قائداعظم کی حکمت عملی یہ تھی جس کی وضاحت ان کی تقاریر میں بار بار ملتی ہے کہ ایسا مرکز جس کے پاس ٹیکس لگانے، فنانس اور آمدنی کے اختیارات نہ ہوں وہ بے بس ہوتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ پلان ناقابل عمل ہے اور انہوں نے اس پلان کو اس لئے قبول کرلیا تھا کہ اس طرح وہ اپنے مقصد میں آئینی اور پُرامن انداز میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ کس طرح کامیاب ہوں گے اس کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ پہلے قدم کے طورپر گروپس معرض وجود میں آئیں گے اور دوسرے مرحلے میں ان گروپوں سے مسلم اکثریتی صوبے باہر نکل کر [optout] پاکستان حاصل کریں گے۔ اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن پاکستان بنگال او ر پنجاب کی تقسیم سے بچ جائے گا۔

ابہام یہ ہے کہ ہمارے محترم دانشور صرف پہلے مرحلے تک محدود رہتے ہیں اور اسی حوالے سے قائد کی تقریر کے چند فقرے کوٹ کرتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ قائد کے مطابق دوسرا مرحلہ مسلمان اکثریتی صوبوں کا اس اسکیم سے باہر نکل کر پاکستان قائم کرنا بھی تھا جن پر قائداعظم نے روشنی ڈالی تو مسلم لیگ کونسل کے 475 مسلمان زعماء نے اس کی تائید کی اور جب نہرو کو احساس ہوا کہ وہ گروپنگ اسکیم کے تحت پاکستان کو پورا بنگال اور پنجاب دے رہا ہے تواس نے کابینہ مشن پلان کو مسترد کردیا۔

موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے لیکن میں نے نہایت مختصر انداز میں وضاحت کر دی ہے۔ کئی باتوں کا جواب نہیں دے سکا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کس نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔

فرح کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ؟

پہلے ایک معذرت
کل کی تحریر کے ساتھ نقشہ نمبر 2 کسی وجہ سے شائع نہ ہوا تھا جو آج تحریر کے ساتھ شائع ہو گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے پاکستان کے [پی سی او] چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح کے بارہویں جماعت کے نمبر بڑھانے کے خلاف درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کے صفحہ 13 پر فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی اور اُردو کے سوال نمبر 2 کے جوابات کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ پرچوں کے نظری جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ۔ مزید لکھا ہے “مجھے باقی پرچوں میں بھی کوئی بے ضابتگی نظر نہیں آئی”

متذکرہ سوالات کے جوابات جو کہ عدالت کے ریکارڈ پر ہیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ [ نقل بمطابق اصل ہے]

فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی کا ایک جز

Question: A capacitor is connected across a battery: (b) Is this true even if the plates are of different sizes

Answer: No, the plates of capacitor is not of different sizes, however to decrease the electrostatic factor a dielectric medium is putted in between them

اس جواب پر ممتحن نے پہلے کاٹا لگایا اور صفر نمبر دیا
پھر ایک نمبر دیا اور
پھر بڑھا کر 2 نبر کر دیئے ۔

اُردو کے سوال نمبر 2 کے جواب

سوال ۔ بابر کی جفا کشی کی کوئی مثال دیں
جواب ۔
بابر کا تیر کے کمان سے بھی تیز چلنا اور کچھ ہی میل میں لمبا سفر تے کرنا
ایک شہر سے آگرہ پہنچ جانا اور گھوڑے کے بغیر گنگا میں ننگی تلوار ہاتھ میں پکڑے کود پڑنا

اس جواب پر پہلے ایک نمبر دیا گیا
پھر اسے بڑھا کر 2 کر دیا گیا

تبصرہ ۔
کالج میں فزکس پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب نے بتایا ہے کہ فزکس کے سوال کا جواب غلط ہے اور کوئی نمبر نہیں ملنا چاہیئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جواب کیلئے صرف ایک نمبر تھا اور جواب غلط ہونے کے باوجود 2 نمبر دیئے گئے
اُردو کے سوال کے جواب میں کیا لکھا گیا ؟ یہ نہ میری سمجھ میں آیا ہے اور نہ میرے ارد گرد کسی کی سمجھ میں آیا ہے البتہ لکھنے والی فرح عبدالحمید ڈوگر اور فیصلہ دینے والے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سمجھ آیا ہے ۔ اسی لئے اس جواب کےغلط اور بھونڈا ہونے کے باوجود 3 میں سے 2 نمبر دیئے گئے

برطانیہ کی بلا ۔ عربوں کے سر

برطانیہ کی عیّاری
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا اِس خیال سے کہ کہیں روس میں اُن کے قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوۓ ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا [دیکھئے نقشہ ۔ 2] ۔ چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے [جیسے آجکل یو این او کرتی ہے] 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی

یہودیوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق [جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی] 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 125کے قریب فلسطینی اور تقریباً اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جاۓ جبکہ کہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کُچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی

جو بوئے گا سو کاٹے گا

مثل مشہور ہے “جو بوئے گا سو کاٹے گا ” اور پنجابی میں کہتے ہیں “مُنجی بیج کے کپاہ نئیں اُگدی “۔ مطلب یہ ہے کہ جیسا کوئی عمل کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملتا ہے ۔ کچھ بزرگ کہا کرتے تھے “یہ سودا نقد و نقد ہے ۔ اِس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے”۔ دنیا میں ایسے عظیم لوگ بھی اللہ کے فضل سے ہیں جو اس عمل کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔

قانون کے مطابق میں نے 4 اگست 1999ء کو ملازمت سے ریٹائر ہونا تھا لیکن ذاتی وجوہ کے باعث 3 مئی 1991ء کو ریٹائرمنٹ کیلئے درخواست دے دی اور چھٹیاں گذار کر 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہو گیا ۔ ریٹائر ہونے کے کچھ سال بعد میں کسی کام کے سلسلہ میں ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس گیا اور کہا”جناب ۔ میں آپ کے کام میں مُخل ہو رہا ہوں ۔ آپ میرا یہ کام کروا دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا”۔ ڈائریکٹر ایڈمن ملازمت کے لحاظ سے مجھ سے جونیئر تھے ۔ وہ میرے طرزِ تخاطب پر برہم ہو گئے ۔ میں نے وضاحت کی کوشش کی “میں ریٹائرڈ آدمی ہوں اور اب آپ میرے افسر ہیں”۔ وہ کہنے لگے “دیکھئیے اجمل صاحب ۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ۔ آپ اب بھی ہمارے محترم ہیں ۔ آپ دوسرے ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو نہ ملائیں ۔ جو اُنہوں نے بویا وہ کاٹیں گے اور جو آپ نے کیا اُس کا صلہ اللہ آپ کو دے گا”۔

آجکل وزیرِ اعظم کے سابق مشیر برائے قومی تحفظ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے بیانات آ رہے ہیں کہ اُنہیں جلدبازی میں برطرف کر دیا گیا اور جس طرح اُنہیں بر طرف کیا گیا اُس سے اُنہیں دُکھ پہنچا ۔ میں نے 4 اگست 1992ء سے 3 اگست 1994ء تک میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے ماتحت بطور ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ کنٹریکٹ پر کام کیا ۔ یہ ادارہ نجی نوعیت کا تھا ۔

میجر جنرل محمود علی درانی صاحب وسط 1992ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین مقرر ہوئے ۔ اس تقرری کی مدت تین سال ہوتی ہے ۔ مجھے اپنی کنٹریکٹ کی ملازمت کے دوران 1994ء کے کم از 2 ایسے واقعات یاد ہیں جن میں میجر جنرل محمود علی درانی صاحب نے اپنے ماتحت افسروں کو بغیر کسی جواز کے صرف اور صرف اپنی انا کی خاطر بغیر کوئی نوٹس دیئے ملازمت سے نکال دیا تھا حالانکہ وہ اچھا بھلا اور محنت سے کام کر رہے تھے ۔ اب اتفاق سے وہی کچھ اُن کے ساتھ ہوا ہے تو بار بار شکایت کر رہے ہیں ۔

کاش لوگ اُس وقت سوچا کریں جب وہ خود کسی کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں

افسوس صد افسوس

صرف صد بار بلکہ ہزاروں بار افسوس ہے اپنی قوم کے ہر اُس فرد پر جو دوسروں کی کوتاہیاں ۔ غلطیاں اور بُرائیاں بیان کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن اپنا عمل یہ ہے کہ چند منٹ لگا کر اسرائیلی ظلم و دہشتگردی کے شکار فلسطینیوں کے حق میں ووٹ بھی نہیں ڈال سکتے

کل جب میں نے تمام بلاگرز اور قارئین سے ووٹ کی درخواست کی اس وقت فلسطین کے حق میں 56 فیصد سے زائد ووٹ ڈالے جا چکے تھے اور اسرائیل کے ووٹ 44 فیصد سے کم تھے ۔ اب حال یہ ہے کہ کہ فلسطین کے 49.1 فیصد ووٹ ہیں اور اسرائیل کے 50.9 فیصد

چاہیئے تو تھا کہ اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے قارئین اور عزیز و اقارب کو بھی فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہا جاتا لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ بہت سے خواتین و حضرات نے اپنا ووٹ بھی نہیں ڈالا یا پھر فلسطینیوں کو دہشتگرد سمجھ کر اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈال دیا ہے