بھارت اور بھارتی ۔ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں

اُن دنوں [1976ء سے 1983ء تک] میں حکومت پاکستان کی طرف سے لِبیا کا الخبِیر لِلمنشآت صناعیہ تعینات تھا انگریزی میں Advisor, Industrial Planning and Development ۔ اس دور میں مجھے اپنی حکومت کی طرف سے دو بلامعاوضہ ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں ۔
ایک ۔ لبیا میں موجود پاکستان کی تربیّتی ٹیموں اور لِبیا کے متعلقہ عہدیداران کے درمیان رابطہ افسر
دوسری ۔ لِبیا میں ذاتی طور پر آئے ہوئے پاکستانیوں کے مسائل اور کردار پر نظر رکھنا ۔ اُن کا تدارک کرنا اور سفیر صاحب کو باخبر رکھنا

جس لِیبی ادارے کے ساتھ میں کام کرتا تھا اُس میں بہت سے اہلکار مخابرات [Military Intelligence] سے تعلق رکھتے تھے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی ہوئی کہ اس ادارے میں مجھے ایک سال کے اندر ہی بہت عزت مل گئی باوجویکہ میں نے وہاں کے افسروں کے ساتھ کئی بار تکرار کر کے پاکستانی بھائیوں کے سرکاری اور ذاتی کام کروائے ۔ ایک لِیبی افسر جس کا تعلق مخابرات سے تھا سمجھدار ۔ ہوشیار اور باخبر تھا میرا دوست بن گیا

شائد 1978ء کا واقعہ ہے کہ اُس لِیبی افسر نے آ کر مجھے بتایا “میں نے سُنا ہے کہ ایک پاکستانی نرس ایک لِیبی جوان کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑی گئی ہے ۔ آپ سفارتخانہ کے ذریعہ کچھ کر لیں تاکہ معاملہ رفع دفع ہو جائے”۔
میں نے کہا “میں اس طرح منہ اُٹھائے تو سفیر کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ مجھے کچھ تفصیلات لا کر دیں”۔
وہ افسر بولا “میں تو کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہا ہوں ۔ جس نے مجھے بتایا ہے اُسے آپ کے پاس بھیجتا ہوں”۔

کچھ دیر بعد ایک رئیس العُرفا جسے ہمارے ہاں صوبیدار میجر کہتے ہیں میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا کام ہے ۔ میں اُسے بھی جانتا تھا ۔ اُس کا بھی مخابرات سے تعلق تھا ۔ اُسے میں نے کہا کہ مجھے فوری طور پر اس نرس کا نام ۔ لبیا اور پاکستان میں اُس کا پتہ اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ چاہئیں ۔ دوسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا “میں کل اُسی وقت اُس پولیس افسر کے پاس گیا اور تمام تفصیل پوچھیں ۔ اُس نے بتایا کہ نرس اُن کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی پھر اُنہوں نے بھارت کے سفارتخانہ سے رابطہ کیا تو سفارتخانہ کے اہلکار نے کہا کہ نرس پاکستانی ہے ۔ اس کے بعد نرس بھی کہنے لگ گئی کہ وہ پاکستانی ہے اور لاہور کی رہنے والی ہے ۔ کل بعد دوپہر بڑی مشکل سے نرس نے طرابلس میں اپنی رہائش کا پتہ بتایا جس پر پولیس نے نرس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور وہاں سے نرس کا پاسپورٹ مل گیا جس کے مطابق وہ جنوبی بھارت کی رہنے والی ہندو ہے”۔

میں ایک دن قبل سفیر صاحب کو اس افواہ کی خبر دے چکا تھا اسلئے اُسی وقت دفتر کی کار لے کر سفارتخانہ پہنچا جہاں سفیر صاحب کو اپنا مُنتظر پایا ۔ اُنہیں صورتِ حال بتا کر درخواست کی پاکستانی کرتا دھرتا لوگوں کو بُلا کر اس معاندانہ پروپیگنڈہ کا توڑ کیا جائے ۔ اگلے دن وہ لوگ سفارتخانہ آ گئے اور سفیر صاحب نے اُنہیں ہدایات دے دیں ۔ مگر ان تین دنوں میں پورے طرابلس میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ پاکستانی نرس ایک لِیبی کے ساتھ پکڑی گئی ۔ میرے علاوہ دوسرے کئی محبِ وطن پاکستانیوں نے اس کا شدت سے توڑ کیا اور ساتھ ہی افواہ کا منبع تلاش کرتے رہے ۔ جہاں جہاں سے بھی یہ غلط خبر ملی تھی اُس کی جڑ بھارتی سفارتخانہ ہی میں نکلی ۔

لِیبی مخابرات کے افسر کی بروقت اطلاع ۔ پاکستانی سفیر امیر علی شاہ صاحب کی ذاتی دلچسپی اور پاکستانیوں کی کوشش اور اللہ کے فضل و کرم سے لِبیوں کی نظر میں پاکستانی سُرخرُو ہوئے اور بھارتی نرسوں کی نگہداشت کی جانے لگی ۔

ننگِ دین ننگِ قوم ننگِ وطن کیا انہی لوگوں کو کہا گیا تھا ؟

سلامتی کونسل کی وہ قرارداد جو امریکہ نے جولائی یا اس سے قبل پیش کی تھی اور چین نے پاکستان کا ساتھ دیدتے ہوئے ویٹو کر دی تھی وہ 10 دسمبر کو کیونکر منظور ہو گئی اور پاکستان کے نامور رفاہی اداروں پر پابندی لگ گئی ۔ چین کا یہ عمل مجھے پریشان کئے ہوئے تھا ۔ میں نے ایک باخبر شخص سے بُدھ یا جمعرات یعنی 17 یا 18 دسمبر 2008ء کو اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو میں دنگ رہ گیا تھا جب اُس نے کہا “صدر زرداری نے امریکہ کے دباؤ کے تحت چین سے درخواست کی تھی کہ اب اُس قرارداد کو ویٹو نہ کیا جائے”۔ اس انکشاف نے مجھے شدید شش و پنج میں مبتلا کئے رکھا تھا کہ آج یہ بات اخبار کی زینت بن گئی

سلامتی کونسل کی ایک پندرہ رکنی کمیٹی کی جانب سے 10دسمبر کو پاکستان کے تین افراد اور تین تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ قومی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں اب تک موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور یہ امر بھی ان کے لئے خاصا حیران کن ہے کہ چین جو اب تک اس نوع کی قراردادوں کو 7 مرتبہ ویٹو کر چکا ہے اس نے اس نازک مرحلے پر پاکستان کی حمایت سے دست کشی اختیار کر کے اس قرارداد کے متفقہ طور پر منظور کئے جانے کی راہ کیوں ہموار کی۔ اقوام متحدہ کے سفارتی حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ چین کے بارے میں یہ تاثر کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی ہمالہ سے زیادہ بلنداور سمندر سے زیادہ گہری دوستی کے تمام تر دعووں اور ہر دو ممالک کی دیرینہ دوستی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر مغرب کا ساتھ دیا، کسی طرح درست نہیں اور حقائق یہ ہیں کہ بیجنگ نے یہ قدم بھی اسلام آباد سے باقاعدہ مشورے اور اس کی طرف سے کئے جانے والے اصرار کے بعد ہی اٹھایا ہے اس لئے اسے یہ الزام ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کو کسی طرح زک پہنچائی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی مذکورہ کمیٹی قرارداد نمبر 1267 کے تحت کوئی 9 سال پیشتر قائم کی گئی تھی لیکن جب بھی وہ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے بیش رفت کرتی تو چین ہر مرتبہ اس کے راستے میں حائل ہو جاتاکیونکہ وہ کسی صورت یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ پاکستان کسی طرح اس کی زد میں آئے اور یوں اس سلسلے میں ہونے والی ساری پیش رفت بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ جاتا۔ امریکہ اور بھارت نے گزشتہ مئی میں اس بارے میں اپنی سفارتی کوششوں میں تیزی لانے کا آغاز کیا اور اپنی جدوجہد کو نہایت مربوط طریقے سے آگے بڑھانے میں لگے رہے

امریکہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کو کس طرح نظر انداز کر سکتا تھا اس لئے اس نے اپنی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کو بھارت کے ہنگامی دورے پر روانہ کر دیا جہاں سے واپسی پر وہ 4 دسمبر کو اچانک اسلام آباد وارد ہوئیں اور صدر زرداری سے ایک اہم ملاقات میں دوٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف نئی دہلی سے مکمل، شفاف اور عملی تعاون کی خواہش کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اپنے دوست ملک چین سے سلامتی کونسل کی دہشت گردی کے خلاف قرارداد پر کئی ماہ سے لگایا گیا ٹیکنیکل ہولڈ ختم کرنے کے لئے کہے تاکہ اس قرارداد کے پاس ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔

اس امریکی مطالبے کی پذیرائی اس رنگ میں ہوئی کہ ایوان صدر سے چین کو فوراً یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاطر لگایا گیا ”ٹیکنیکل ہولڈ“ ہٹا لے، سو چین نے اگلے ہی روز یعنی 5 دسمبر کو اپنے سفارتکاروں کو یہ ہدایت کر دی کہ وہ اس پابندی کو جاری و ساری رکھنے کے سلسلے میں کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ 6 اور 7 دسمبر کو اقوام متحدہ میں ہفتہ وار تعطیل تھی اور پھر پاکستان کے سفارتی مشن کو 7دسمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے حقوق انسانی کے ایوارڈ کی وصولی کی تیاریاں بھی کرنی تھیں اس لئے وہ ادھر جُت گیا اور سلامتی کونسل کی کمیٹی کے سیکرٹریٹ کا عملہ اس قرارداد کو بغیر کسی ادنیٰ رکاوٹ کے پاس کرانے کے لئے متحرک رہا اور چونکہ اب کسی بھی رُکن ملک کو اس پر کوئی اعتراض نہیں رہا تھا اس لئے اسے متفقہ فیصلے کے طور پر جاری کر دیا گیا۔

یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین سے ٹیکنیکل ہولڈ ہٹا لینے کی جو درخواست کی گئی اس کا نہ تو وزارت خارجہ کو کوئی علم ہوا اور نہ ہی نیو یارک میں پاکستانی مشن کو اس کی کوئی خبر ہو سکی اور سب کچھ مبینہ طور پر امریکہ اور ایوان صدر کے درمیان بالا بالا ہی طے کر لیا گیا۔

ممبئی دہشتگردی ۔ اصل مُجرموں کی پردہ پوشی

مندرجہ ذیل خبروں سے ثابت ہوتا ہے کہ ممبئی میں جو ڈرامہ بظاہر 26 نومبر 2008 کو شروع ہوا اُس کی تیاری 15 نومبر سے بھی پہلے شروع ہو چکی تھی اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دہشتگرد کون تھے ؟ ان حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھارتی خفیہ ادارہ بھی اس میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے حقائق پر پردہ ڈال کر سارا ملبہ پاکستان پر گرایا جا رہا ہے تاکہ عوام کا دھیان اس دہشتگردی کے حقائق کی طرف نہ جانے پائے جس میں بھارتی پولیس کا ایک زیرک اعلٰی عہدیدار بھی مارا گیا ۔

سی بی سی نیوز [کنیڈین برادکاسٹنگ کارپوریشن]
ایک آزاد صحافی ارون اشتھانا نے نریمان گیسٹ ہاؤس کے باہر سے سی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا “کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے حملوں سے 15 یوم قبل گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور اُن کے پاس بہت زیادہ بارود اسلحہ اور خوراک تھی”

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
مقامی لوگوں نے بتایا کہ نریمان ہاؤس کے مالک ایک اسرائیلی یہودی خاندان ہے جو اس کے فلیٹ مذہبی یہودیوں کو کرائے پر دیتے تھے”

مِڈ ڈے نیوز
اس حملہ ڈرامہ میں نریمان ہاؤس کا کردار پریشان کن ہے ۔ گذشتہ رات [نریمان ہاؤس کے] رہائشیوں نے لگ بھگ 100 کلو گرام گوشت اور کھانے کی دوسری اشیاء منگوائیں جو کہ ایک فوج کیلئے یا پھر چند لوگوں کی 20 دن کیلئے کافی تھا ۔ اس کے کچھ دیر بعد 10 کے قریب عسکریت پسند [نریمان ہاؤس میں] داخل ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اشاء خوردنی اُن کی آمد کو مدِ نظر رکھکر منگوائی گئی تھیں

ڈی این اے انڈیا
موکوند شلکے جو کولابا مارکیٹ میں دکاندار ہے نے بتایا کہ اُن لوگوں نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے سے قبل کافی خوردنی سامان خریدا جو ان کیلئے 3 ہفتوں کیلئے کافی تھا ۔ اُنہوں نے دو پیٹیاں مرغی کا گوشت کوئی 25000 روپے کی شراب کولابا کی دو دکانوں سے خریدے ۔

مِڈ ڈے نیوز
اس علاقہ کے ایک ماہی گیر وِتھال ٹنڈل نے کہا “بدھ [26 نومبر] کے روز شام کے وقت میں نے چھ سات کشتیاں آتے دیکھیں جن میں سے کوئی دس آدمی بہت زیادہ سامان کے ساتھ اُترے اور اُن کو آہستہ آہستہ نریمان ہاؤس کے اندر لے گئے ۔ اس عمارت [نریمان ہاؤس] میں کافی کمرے ہیں جو مسافروں کیلئے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے کسی کو اُن لوگوں کے نام معلوم نہیں ہیں ۔

ایک ٹی وی صحافی ورندرا گھناوت بدھ سے نریمان ہاؤس پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔ پولیس والے بھی اس سلسلہ میں گم سم تھے

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
وہ سمندر کے راستے سے آئے اور اندھیرے میں قدیم کولابا کی تنگ گلیوں سے گذرتے ہوئے چہ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس میں چلے گئے ۔ یہ بندوق بردار لوگ وہاں رہے اور بعد میں اندر سے محاصرہ کر لیا

دی نیو یارک ٹائیمز
جب دہشتگرد دھانور کی کشتی کے قریب اُترے تو وہ نریمان ہاؤس کی تنگ گلی سے صرف تین عمارتیں دور تھے ۔ پانچ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس جس میں ایک جوان ربی گافریل ہولٹسبرگ اور اس کی بیوی رفقہ جو نیو یاکر سے آئے ہوئے ہیں ایک یہودی سینٹر چلاتے ہیں

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
ایک پولیس مین جس نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی بتایا ۔ گذشتہ رات میں عمارت کے اندر گیا ۔ میں یہ جان کر دنگ رہ گیا کہ وہ لوگ سفید فام ہیں ۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہماری طرح کے ہوں گے ۔

بی بی سی
مشرہ کی یاد داشت کے مطابق “پھر غیر ملکی سفید فاموں نے مار دھاڑ جاری رکھی” ۔

مسٹر امیر نے کہا “وہ ہندوستانی نہیں لگتے تھے ۔ وہ غیر ملکی تھے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایک سنہرے بالوں والا تھا ۔ دوسروں نے واہیات طریقہ سے بال بنائے ہوئے تھے”

ڈی این اے انڈیا
نریمان ہاؤس کے سامنے والی عمارت کے رہائشی انند راؤرین نے جب پولیس کے سربراہ [جو تفتیش کر رہا تھا] کے مارے جانے کی خبر ٹی پر آئی تو ہم نے فلیٹ [نریمان ہاؤس] سے شور سنا جیسے لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں

یوروشلم پوسٹ
نینی [آیا] جس نے دوسالہ موشے ہولٹز برگ کو ممبئی کے چاباد ہاؤس سے جمعرات کو بچایا وہ جمعرات کو اسرائیل پہنچ رہی ہے ۔ اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ موشے کے ساتھ اس خصوصی پرواز پر اسرائیل واپس آنا چاہتی ہے جو اسرائیل کی فضائیہ نے بھیجی ہے ۔
بچہ جمعہ کو اپنے دادا دادی کے پاس پہنچ گیا ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “اس کی وزارت آیا کو اسرائیل لانے کیلئے کام کر رہی تھی اور اس نے وزارتِ داخلہ کو درخواست کی ہے کہ آیا کو اسرائیل میں رہنے دیا جائے ۔

خیال رہے کہ جب نریمان ہاؤس بھارتی سکیورٹی فورسز کے محاصرہ میں تھا ۔ نریمان ہاؤس کے مالکوں کے بچے کی آیا [جو کہ بھارتی ہے] اُن کے بچے کو ساتھ لئے ہوئے باہر نکل آئی تھی جس پر یہی باور کیا جا سکتا ہے کہ اُسے بحفاظت باہر بھیجا گیا ۔

انڈین ایکسپرس
دو سالہ موشے اور اس کی آیا ساندرا سیموئل اپنے نانا نانی کے ساتھ اسرائیل کے خصوصی فوجی طیارہ میں آج رات اسرائیل چلے گئے

دی انڈیا ٹیلی گراف
یکم دسمبر ۔ اسرائیل بھارتی آیا کو رہائشی اجازت نامہ دے رہا ہے ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کابینہ کو بتایا کہ اس کی وزارت آیا ساندرا سیموئل کو رہائشی ویزہ دلوانے کا انتظام کر رہا ہے ۔

دی انڈیا ٹیل گراف
اسرائیل نے بھارت سے درخواست کی ہے کہ نریمان ہاؤس میں مارے جانے والے اسرائیلی باشندوں کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے ۔ اسرائیلی مشن کے مطابق مارے جانے والے 9 افراد میں سے 7 اسرائیلی تھے ۔

سوچنے کی بات ۔ دو تو نریمان ہاؤس کے مالک پولیس مقابلہ میں مارے گئے ہوں گے ۔ باقی 5 اسرائیلی کہاں سے آئے ؟
گذارش ۔ میں اُن نوجوانوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے یہ خبریں اکٹھا کرنے میں میری مدد کی ۔

تازہ ترین

آج سپریم کورٹ نے فرح ڈوگر کیس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے خلاف دائر پٹیشن خارج کر دی ہے اور اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی سنگل بینج کے جسٹس زوار حسین کی جانب سے جاری کردہ حکم امتناعی بھی ختم ہو گیا ہے۔ بینج کی سربراہی جسٹس فقیر کھوکھر کر رہے تھے جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس جاوید بٹر اور جسٹس اعجاز یوسف شامل تھے۔ بینج نے اٹارنی جنرل پاکستان لطیف کھوسہ، فیڈرل بورڈ کے وکیل آغا طارق اور پٹیشن کی پیروی کرنے والے وکیل راجہ عبد الرحمن کے دلائل اور آراء سننے کے بعد اپنے ریمارکس میں کہا کہ تمام ادارے آئین اور قانون کے تحت متعین کردہ حدود میں کام کرنے کے پابند ہیں۔کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ درخواست قبل از وقت دائر کی گئی اور پہلے درخواست گذار کو اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کرنا چاہیئے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق فرح حمید ڈوگر کو اضافی نمبرز کے معاملے پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا زیر التوا اجلاس پیر کو دن گیارہ بجے پارلے منٹ ہاؤس میں ہوگا ۔ میڈیا کو اس کی مکمل کوریج کی اجازت دی گئی ہے ۔ اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین عابد شیر علی کریں گے

ممبئی حملے ۔ ایک دلچسپ حقیقت

بھارت نے ممبئی میں دہشتگردی کا مرتکب پاکستان یا پاکستانیوں کو قرار دیا ہے جسے بھارت کا پیش کردہ واحد ٹھوس ثبوت ہی جھوٹا ثابت کرتا ہے ۔ ممبئی کے واقعہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دہشتگردوں میں سے ایک نے بھارت کے ایک ٹی سٹیشن کو فون کیا اور صحافیوں سے بہت لمبی بات کی اور زیادہ تر بار بار دہرائی گئیں جو کہ دہشتگردوں کے رویہ کا غماز نہیں ۔

زیادہ اہم وہ گفتگو ہے جو عمران نامی دہشتگرد نے ٹی وی سٹیشن پر موجود صحافیوں سے کی ۔ نہ صرف عمران کا طرزِ گفتگو کسی پاکستانی علاق سے مماثلت نہیں رکھتا بلکہ اُس کے بولے ہوئے بہت سے الفاظ پاکستان کے کسی علاقہ میں نہیں بولے جاتے ۔ بقول عمران وہ نریمان ہاؤس میں موجود تھا ۔ عمران کی گفتگو سے سے لئے گئے کچھ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں جو پاکستان کے کسی علاقہ کی زبان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ کچھ ایسے ہیں جن کا مطلب کسی پاکستانی کو معلوم نہیں ہو گا

1 ۔ پری وار ۔ کون پاکستان میں یہ لفظ استعمال کرتا ہے ؟
2 ۔ جُلم ۔ پاکستان میں ظُلم کہا جاتا ہے
3 ۔ جیاتی ۔ پاکستان میں زیادتی کہا جاتا ہے
4 ۔ جِندگی ۔ پاکستان میں زِندگی کہا جاتا ہے
5 ۔ نَیتا ۔ پاکستان میں سیاستدان کہا جاتا ہے
6 ۔ اتہاس ۔ پاکستان میں تاریخ کہا جاتا ہے
7 ۔ شانتی ۔ پاکستان میں امان کہا جاتا ہے ۔ شانتی ہندو لڑکی کا نام سمجھا جاتا ہے
8 ۔ پرسارن ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
9 ۔ اتنک وادی ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
10 ۔ کھلنائک ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
11 ۔ انائے ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟ البتہ آدھی صدی قبل امرتسر ریڈیو پر ایک گانا نشر ہوتا تھا ۔ حق دُوجے دا مار مار کے بن گئے لوک امیر ۔ میں ایہنوں کہندا انیائے لوکی کہن تقدیر ۔ اس سے لگتا ہے کہ انیائے کا مطلب گناہ یا ظُلم ہو گا
12 ۔ سکول کو پاٹ شالا کہا ۔ پاکستان میں سکول کو مدرسہ تو کہہ سکتے پاٹ شالا نہیں
13 ۔ شکشن ۔ پاکستان میں سیکشن کہا جاتا ہے
14 ۔ میرے کو ۔ پاکستان میں” مُجھے” کہا جاتا ہے
15 ۔ تمارے کو بول رہے ہیں نا ۔ پاکستان میں “تمہیں کہہ رہا ہوں نا” کہا جاتا ہے
16 ۔ مدھبھیر ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟

اب متذکرہ گفتگو سُنیئے ۔ اس آڈیو ریکارڈ کی بھارتی حکومت کی طرف سے تردید نہیں کی گئی ۔
watch?v=QhO6rynb1C8

سیّد سبط الحسن ضیغم نے لکھا تھا

میرے مخزن میں 4 اور 5 نومبر 2004ء کے نوائے وقت میں نوابزادہ لیاقت علی کے متعلق دو اقساط میں شائع ہونے والی سیّد سبط الحسن ضیغم کی ایک تحریر موجود ہے جو میں نے مندرجہ ذیل روابط سے حاصل کی تھیں اور تقریباً ایک سال قبل تک وہاں موجود تھیں مگر اب کھُل نہیں رہیں ۔
http://www.nawaiwaqtgroup.com/urdu/daily/nov-2004/04/idarati.php
http://www.nawaiwaqtgroup.com/urdu/daily/nov-2004/05/idarati.php
یہ تحریر میں نے قارئین کیلئے اَپ لوڈ کر دی ہے



پردان منتری جواب دیں

اجمل قصاب سمیت اور کئی لوگوں کو 2006ء سے قبل نیپالی فورسز کی مدد سے انڈین ایجنسیز نے کٹھمنڈو سے اٹھایا تھا اجمل قصاب وہاں پر بزنس ٹور کے سلسلے میں گیا تھا۔اجمل کے علاوہ دیگر پاکستانیوں کو بھی نیپال میں گرفتار کیا گیا تھا، اس حوالے سے بھارتی ہائی کمیشن کے خلاف نیپالی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں نیپالی فورسز اور انڈین ہائی کمیشن سے جواب طلب کیا گیا ہے۔ جیو نیوز سے کی گئی بات چیت میں پاکستانی وکیل ایڈووکیٹ سی ایم فاروق نے بتایا ہے کہ اجمل قصاب سمیت تقریباً 200 لوگوں کو نیپالی فورسز نے 2006ء سے پہلے سے اٹھایا ہوا ہے۔ اور اس حوالے سے ان کی درخواست نیپالی سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے جس میں نیپالی فورسز اور انڈین ہائی کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے کہ انہوں نے اجمل سمیت اور کئی پاکستانی انہوں نے گرفتار کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستانی اور انڈین گورنمنٹ کو خطوط لکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے نیپال میں ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی جس میں میں نے بتایا تھا کہ نیپالی فورسزنے اجمل سمیت کئی پاکستانی اٹھا کر غائب کردیئے ہیں اور یہ کسی بھی برے وقت پر ان کا غلط استعمال کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران ان کا اجمل قصاب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں اس کیس کی پیروی ابھی بھی کررہا ہوں اور اس مہینے کے آخر میں میں اس پٹیشن کے حوالے سے میں دوبارہ نیپال جاؤں گا۔نیپالی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں بار بار نوٹسز بھیجے ہیں کہ آ کر اس کا جواب دیں مگر انہوں نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ ایڈوکیٹ سی ایم فاروق نے بتایا کہ میں نے فروری 2008ء کے شروع میں نیپالی سپریم کورٹ میں یہ کیس فائل کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میری این جی اوVoice of the human and prioner rights ہے۔اس حوالے سے ان کے والدین نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں کیونکہ ہم نے تو پاکستانی حکومت سے بھی فریاد کی ہے۔یہ لوگ لیگل ویزے پر بزنس کے لئے گئے تھے مگر انڈین ایجنسیز کی یہ عادت ہے کہ نیپال سے اٹھالیتے ہیں پاکستانیوں کو اور اس کے بعد انہیں ایسے ہی کسی واقعے میں ملوث کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں