کراچی کے طالبان

میں نے ہفتہ عشرہ قبل ایک بارسوخ شخص کو ایک یاد داشت انگریزی میں لکھ کر دی تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ اس پر کوئی عمل ہوا ہے لیکن اتفاق سے ایسا عمل شروع کرنے کا نتیجہ سامنے ہے ۔ کیا یہی ہیں وہ طالبان جن کا ایم کیو ایم کے مُلک چھوڑ سربراہ ہر دوسرے چوتھے روز کرتے رہتے ہیں ؟

تفصیلات کے مطابق کے ای ایس سی کی ٹیم نے علاقہ پولیس کے ہمراہ بدھ کی دوپہر گلستان جوہر میں واقع پنک ریذیڈنسی کے غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ۔ جس پر غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کا مکینوں سے تصادم ہو گیا اور اُنہوں نے بعض کے ای ایس سی ملازمین کی پٹائی کر دی ۔ کے ای ایس سی نے 140 غیرقانونی کُنڈے کاٹ دیئے ۔ بعد میں کے ای ایس سی کو کچھ یا سب کنکشن بحال کرنا پڑے اور یہ بیان بھی دینا پڑا کہ کسی ملازم کی پٹائی نہیں ہوئی

ثقافت ۔ تغیّر پذیر یا جامد

ثقافت کے لُغوی معنی میں بیان کر چکا ہوں ۔ آج ثقافت کی تاریخ و صحت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ ہندوؤں کی ثقافت میں ناچ گانا شامل ہے تو یہ درست ہے لیکن ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان کی ثقافت کا صرف ایک جُزو ہے اور ان کی ثقافت میں کئی اور عادات بھی شامل ہیں ۔ ناچ گانا پوجا پاٹ کا حصہ بنا دینے کی وجہ سے ہندوؤں کی ثقافت میں شامل ہو گیا اور یہ ناچ گانا وہ بھی نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ۔ مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے اکثر ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ میں ایک عام فہم مگر کراہت آمیز مثال دینے سے قبل معذرت خواہ ہوں کہ شاید کسی کے ذہن پر ناگوار گذررے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں ثقافت کا حصہ بن چکی ہے

اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو اب یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ایک ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا سرا بائیں کندھے اور بائیں والا سرا داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

کسی گروہ یا قوم کی زبان یا بولی بھی ثقافت کا حصہ ہوتی ہے اور ذریعہ تعلیم بھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ہندسے عربوں نے بنائے وہ انگریزی بولنے والوں نے اپنا لئے اور اب جو ہندسے عربی میں استعمال ہوتے ہیں اُنہوں نے ہندوستان میں جنم لیا تھا

جو یورپ میں رومن ہندسے رائج تھے وہ لکھنے اور سمجھنے مشکل تھے

I – – II – – III – – IV – – V – – VI – – VII – – VIII – – IX – – X
XI – – XII – – XIII – – XIV – – XV – – XVI – – XVII – – XVIII – – XIX – – XX
XXI – – XXIX – – XXX – – XL – – L – – LX – – LXX – – LXXX – – XC – – C

جو ہندسے عربوں نے تخلیق کئے تھے لیکنیورپ اور امریکہ نے اپنا لئے یہ ہیں

1 – – 2 – – 3 – – 4 – – 5 – – 6 – – 7 – – 8 – – 9 – – 10
11 – – 12 – – 13 – – 14 – -15 – – 16 – -17 – – 18 – – 19 – – 20
21 – -29 – – 30 – – 40 – – 50 – – 60 – – 70 – – 80 – – 90 – – 100

جن ہندسوں نے ہندوستان میں جنم لیا اور عربوں نے اپنا لئے ۔

۱ ۔ ۔ ۔ ۲ ۔ ۔ ۔ ۳ ۔ ۔ ۔ ۴ ۔ ۔ ۔ ۵ ۔ ۔ ۔ ۶ ۔ ۔ ۔ ۷ ۔ ۔ ۔ ۸ ۔ ۔ ۔ ۹ ۔ ۔ ۔ ۱۰
۱۱ ۔ ۔ ۔ ۱۲۔ ۔ ۔ ۱۳ ۔ ۔ ۔ ۱۴ ۔ ۔ ۔ ۱۵ ۔ ۔ ۔ ۱۶ ۔ ۔ ۔ ۱۷ ۔ ۔ ۔ ۱۸ ۔ ۔ ۔ ۱۹ ۔ ۔ ۔ ۲۰
۲۱ ۔ ۔ ۔ ۲۹۔ ۔ ۔ ۳۰ ۔ ۔ ۔ ۴۰ ۔ ۔ ۔ ۵۰ ۔ ۔ ۔ ۶۰ ۔ ۔ ۔ ۷۰ ۔ ۔ ۔ ۸۰ ۔ ۔ ۔ ۹۰ ۔ ۔ ۔ ۱۰۰

متذکرہ بالا تو ثقافت کے وہ اجزاء ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی ب
ہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے ۔ مگر اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی نہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ کمپیوٹر کو فی زمانہ سب جانتے ہیں کہ بہت کارآمد آلہ ہے اور متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو کمپیوٹر خراب ہو جاتا ہے یا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اُن اقدار کو جو اس کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں سلوک ۔ عدل ۔ عبادت ۔ تعلیم ۔ انتظام ۔ وغیرہ

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

ہم کیا چاہتے ہیں ؟

تانیہ رحمان صاحبہ جو شاید ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں نے حُب الوطنی کے زیرِ اثر اُڑتی خبروں سے پریشان ہو کر ایک تحریر لکھی ہے جس پر مختصر تبصرہ بھی طوالت کا متقاضی ہے اسلئے میں نے اسے اپنے بلاگ پر شائع کرنا مناب سمجھا ۔ اُمید ہے کہ اس سے دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں گے ۔

میری ہر لکھاری سے درخواست ہے کہ لکھنے سے قبل دوسروں کی دی ہوئی خبروں کی بجاۓ اپنے طور پر حاصل کردہ معلومات پر انحصار کیا کیجئے ۔ اس سے اپنی اور قومی صحت بُرے اثرات سے بچی رہے گی

ویسے تو ہر سکول ۔ مدرسہ ۔ جامعہ یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے کو فارسی میں طالب کہتے ہیں جس کی جمع طالبان ہے لیکن جن کو پہلی بار سیاسی طور پر طالبان قرار دیا گیا ۔ ان کی ابتداء خواتین پر ظُلم بلکہ سنگین جرائم کے خلاف تحریک کے طور پر ہوئی چونکہ اس تحریک کو شروع کرنے والے لوگوں میں ایک مُلا عمر اُستاد تھا اور باقی آٹھ دس طالبان تھے اسلئے افغانستان کے لوگوں نے انہیں طالبان کا نام دے دیا ۔ ان طالبان کی نیک نیّتی کا نتیجہ تھا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقہ پر بغیر کسی مزاحمت کے ان کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ افغانستان منشیات کا گڑھ تھا اور 1988ء میں سوویئٹ فوجوں کے انخلاء کے بعد سے بدترین خانہ جنگی کا شکار تھا ۔ حکومت سنبھالنے کے بعد مُلا عمر نے افغانستان میں امن قائم کیا اور منشیات کا خاتمہ کر دیا ۔ یہ وہ کام ہیں جو ان کے علاوہ آج تک اور کوئی نہ کر سکا

عام تآثر یہی دیا جا رہا ہے کہ طالبان ضیاء الحق نے بنائے ۔ ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو ہلاک ہو گئے تھے جبکہ طالبان ضیاء الحق کی وفات کے چھ سات سال بعد بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت [19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء] میں نمودار ہوۓ ۔ ضیاء الحق نے افغانستان میں انجنیئر گلبدین حکمت یار اور یُونس خالص وغیرہ کی مدد کی تھی جن کا مُلا عمر اور نام نہاد پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق نہ ماضی میں تھا اور نہ اب ہے ۔ اصل طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک واضح فرق ہے ۔ اصل طالبان کی اکثریت کے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور کچھ موٹر سائکل یا پک اُپ پر سفر کرتے ہیں جبکہ نام نہاد طالبان یعنی بیت اللہ محسود وغیرہ اور ان کے ساتھی قیمتی گاڑیوں پر گھومتے ہیں

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی علاقے میں کوئی طالبان نہیں ہیں اور نہ پاکستان میں کی گئی کسی کاروائی سے طالبان کا تعلق ہے ۔ طالبان صرف افغانستان میں ہیں اور اُن کی تمام کاروائیاں افغانستان تک محدود ہیں اور وطن پر غیرمُلکی قابضوں کے خلاف ہیں ۔ پاکستان کے بیت اللہ محسود اور دیگر لوگ طالبان نہیں ہیں ۔ نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہ لوگ کبھی مدرسہ میں گئے تھے اور یہ لوگ قرآن شریف پڑھنا جانتے بھی ہیں یا نہیں ۔ ان کو طالبان کا نام کسی طاقت نے اپنے کسی مزموم مقصد کیلئے دیا اور پھر ان کا بُت دیو ہیکل بنانے میں مصروف ہے ۔ اس سب کی آڑ میں نجانے کونسی گھناؤنی منصوبہ بندی ہے
دو وجوہ جو میری سمجھ میں آتی ہیں یہ ہیں
ایک ۔ اصل طالبان اور اسلام کو کو بدنام کرنا
دو ۔ پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا تاکہ بڑی طاقت مداخلت کا جواز بنا کر پاکستان کے مغربی حصہ پر قبضہ کر لے تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں کی معدنیات کی ترسیل کے راستہ پر اُس طاقت کا قبضہ ہو جائے

امریکا بغیر ہوا باز کے ہوائی جہازوں سے مزائل چلا کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ امریکا کا ہر بار یہ دعوٰی ہوتا ہے کہ وہاں فلاں فلاں ہائی ویلیو ٹارگٹ [high value target] تھا جسے ہلاک کیا گیا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکا بقول اُمریکا ہی کے اتنے بڑے دہشتگرد بیت اللہ محسود پر مزائل حملہ نہیں کرتا جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے ؟

بر سبیلِ تذکرہ ایک اور بات یاد آئی ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق نے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا ۔ ضیاء الحق نے ایسا کیا یا نہیں میں اس پر بات نہیں کروں گا ۔ میں صرف کلاشنکوف اور کلاشنکوف برداروں کی بات کروں گا ۔ کلاشنکوف [Kalashnikov Submachine Gun] ایک اسالٹ رائفل [Assault Rifle] ہے جو دنیا کی 50 افواج کے زیرِ استعمال ہے جن میں پاکستان شامل نہیں ہے ۔ یہ چیکوسلواکیا میں پہلی بار 1947ء میں تیار ہوئی اسلئے اسے اے کے 47 [A K 47] کہا جاتا ہے ۔ 1974ء میں اس میں کچھ ترامیم کے بعد اسے اے کے 74 کا نام دیا گیا ۔ اے کے 47 سوویٹ یونین کی فوج کے زیرِ استعمال تھی اور افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنے زیرِ کمان آنے والے افغان فوجیوں کو بھی دی تھیں

رہے کلاشنکوف بردار تو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی یہ ثقافت بہت پرانی ہے کہ ہر مرد اور بہت سی خواتین بھی بندوق یا دوسرا اسلحہ استعمال کرنا سیکھتے ہیں ۔ جب گھر سے باہر نکلیں تو مرد اور بعض اوقات خواتین بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ مختلف قبیلوں کے باہمی تنازعات بھی ہو سکتے ہیں اور باہر کے دُشمن بھی ۔ قبائلی علاقوں میں بہت سے گھر اسلحہ کے کارخانے بھی ہوتے تھے جن کا میں خود شاہد ہوں ۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں رائفل جی تھری اور مشین گن ایم جی فارٹی ٹُو [Rifle G 3 and Machine Gun MG 42 Model MG1A3P] نے میرے زیر نگرانی پرورش پائی لیکن میں آفرین کہہ اُٹھا تھا جب میں نے 1974ء میں ان قبائلیوں کے گھروں میں صرف مردوں کو ہی نہیں خواتین ۔ نابالغ لڑکوں اور نابالغ لڑکیوں کو لکڑی کی چارپائی کے پائے بنانے والی ہاتھ سے چلنے والی خراد پر بندوق کی نالی [Barrel] بناتے دیکھا تھا ۔ اب شاید یہ کارخانے ختم ہو چکے ہوں کیونکہ بڑی طاقتیں اپنے مزموم مقاصد کیلئے ہر قسم کا اسلحہ مُفت تقسیم کرتی رہتی ہیں جو کبھی کبھی اُن کے اپنے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے

آج جسے دیکھو معاندانہ افواہ سازی کا شکار ہوا نظر آتا ہے کہ “وہ مدرسوں میں قرآن پڑھتے ہیں اور مدرسے اسلحہ کا گھڑ بن چکے ہیں”۔ کاش یہ افواہیں پھیلانے والے اور انہیں دہرانے والے کم از کم پاکستانی مسلمان کبھی ان مدرسوں میں سے کم از کم ایک کا چکر لگا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے اور وہاں اسلحہ ہوتا بھی ہے یا نہیں

اللہ مجھے اور میرے ہموطنوں کو سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

ثقافت ۔ مفروضے اور حقیقت

ثقافت کے بارے میں اخبارات ۔ رسائل اور ٹی وی پر لوگوں کے خیالات پڑھے یا سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے جن میں وہ بھی شامل ہیں جو ہر وقت ثقافت کی رَٹ لگائے رکھتے ہیں

ثقافت کیا ہوتی ہے ؟ جاننے کی جُستجُو مجھے اُنہی دنوں ہوئی تھی جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ میں نے اُنہی دنوں کے حوالہ سے ثقافت کے سلسلہ میں 30 جون 2006ء کو اپنی ایک تحریر شائع کی تھی جس میں ایک چُبھتا ہوا فقرہ ” اُہُوں ۔ کلچر کیا تھا ۔ نیم عریاں طوائفوں کا ناچ تھا” لکھا تھا ۔ اس تحریر کو 132 بار دیکھا یا پڑھا گیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی نے اپنا اظہارِ خیال نہ کیا ۔ بہر کیف یہ حقیقت ہے کہ اُس نوجوانی کے زمانہ سے سالہا سال بعد تک کی تگ و دو اور مطالعہ نے مجھے اس قابل کیا کہ سمجھ سکوں کہ ثقافت کس بلا کا نام ہے

پچھلی دو صدیوں مین لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حیسن حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب

ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ زراعت ۔ کاشت کاری
2 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
3 ۔ ماہرانہ فکر اور تربیت
4 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
5 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائینس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
6 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
7 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف
8 ۔ کسی گروہ یا ادارے کا باہمی رویّہ ۔ ترجیحات ۔ مقاصد اور عمل
9 ۔ ترجیحات ۔ رواج ۔ باہمی عمل ۔ طور طریقے کا مجموعہ ۔
10 ۔ کسی جاندار مادہ [جرثومہ ۔ وائرس] کی ایک خاص ماحول میں افزائش

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی
3 ۔ پودوں کی کاشت ۔ جانوروں کی پرورش یا مادی تخلیق
4 ۔ طِب میں کلچر کے معنی یہ ہیں ۔ ایک خاص افزائشی ماحول میں خُلیہ یا جرثُومہ کی پرورش

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

مندرجہ بالہ معلومات پر معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تعلیم پر ہو ۔ یعنی بُری عادات کو ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

جاری ہے ۔ ۔ ۔

قومی تعلیمی پالیسی اور لفافہ

لفافہ چِٹھی یا اجناس ڈالنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور از خود اسے خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔ اصل اہمیت اس چِٹھی یا جنس کی ہوتی ہے جو لفافے کے اندر ہوتی ہے ۔ اسی لئے بے عِلم یا بے عمل آدمی کو بھی لفافہ کہا جاتا ہے ۔ ہماری بار بار عوام دوست اور ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ایک لفافہ قسم کی قومی تعلیمی پالیسی وضح کر کے قوم کے بچوں کو لفافہ ہی بنانا چاہتی ہے

موجودہ حکومت نے دس سالہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کا مسؤدہ تیار کیا ہے جو بُدھ 8 اپریل 2009ء کو کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش ہونا تھی لیکن پیش نہ ہو سکی کیونکہ کئی وزراء اس کا مطالعہ کر کے نہیں آئے تھے ۔ اب اسے کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا ۔

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کی جو شِقات مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسؤدہ میں موجود نہیں ہیں
قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کا باب نمبر 3 جو خالصتاً اسلامی تعلیم کیلئے مختص ہے

قومی تعلیمی پالیسی 1999 ء میں ” اغراض و مقاصد“ کی دفعات جس کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے ریاست پوری کوشش کریگی کہ
الف ۔ قرآن کریم اور اسلامیات کو لازمی کرےا
ب ۔ عربی زبان سیکھنے کیلئے سہولت فراہم کرے اور حوصلہ افزائی کرے
ج ۔ قرآن کریم کی بالکل ٹھیک اور درست اشاعت و طباعت کرنے کا بندوبست کرے
د ۔ اسلامی اخلاقی اصولوں کی پابندی اور اتحاد کو فروغ دنے کا بندوبست کرے

قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدہ میں سے 1999ء کی پالیسی کی جو اولین بات غائب ہے

قرآنی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو نصاب کا جزلاینفک بنانا کہ [الف] قرآن کریم کے پیغام کو تعلیم و تربیت کے عمل میں فروغ دیا جا سکے [ب] پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کی ایک سچے باعمل مسلمان کے طور پر تعلیم و تربیت کی جائے ۔ تاکہ وہ نئے ہزاریئے [millennium] میں حوصلے ۔ اعتماد ۔ دانش اور متحمل ہو کر داخل ہو سکیں

قومی تعلیمی پالیسی کا باب 3 جو قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسودے سے مکمل طور پر غائب ہے وہ اسلامی تعلیم کیلئے مختص تھا ۔ اس حذف کئے جانے والے باب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے لہٰذا ملک کی تعلیمی پالیسی میں اسلامی نظریئے ۔ قرآن و سنت کی تعلیم کو محفوظ بنانا اور فروغ دیا جانا چاہیئے

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کم از کم 45 شقوں پر مشتمل ہے جس میں تفصیل سے اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ
الف ۔ پاکستان کے مسلمان کو کس طرح تعلیم دی جائے کہ وہ باعمل مسلمان بن سکیں اور اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں
ب ۔ پاکستان سیکولر ریاست نہیں ہے لہذا اس کا تعلیمی نظام لازمی طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیئے

اسی باب میں جو 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی کے مسؤدہ سے حذف کر دیا گیا ہے اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ طالب علم کو کس طرح قرآن کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے لئے حکمت عملی بھی تجویز کی گئی ہے

موجودہ وزارت تعلیم کے ترجمان کے مطابق قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدے پر بنیادی کام جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت میں اس پر ایک مرتبہ وفاقی اور تین صوبوں کے وزراء تعلیم نے تبادلہ خیال کیا تھا ۔ [پنجاب کے وزیر تعلیم جو اس وقت صوبے میں موجود تھے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا] ۔ ترجمان کے مطابق ان تین صوبوں نے اسلامی شقوں اور قومی تعلیمی پالیسی 1999ء سے اسلامی تعلیم کے مکمل باب کو نکالنے پر اعتراض نہیں کیا تھا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء درست اسلامی تعلیم کی راہ متعین کرنے والی تمام شِقات حذف کر کے مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے باب نمبر 2 ” انتہائی اہم چیلنجز اور ان کا جواب “ میں ایک اسلامی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ” قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس سلسلے میں اتفاق کئے گئے اصولوں پر کاربند ہے ۔ پالیسی میں تمام تر مداخلت 1973 ء کے آئین پاکستان کی دفعہ 29، 30، 33، 36، 37 اور 40 میں طے کردہ پالیسی کے اصولوں کے دائرہ کار کے اندر ہی رہے گی ۔ اس میں مسلمان بچوں کیلئے اسلامیات میں ہدایات فراہم کرنے کی ضرروت بھی شامل ہے تا کہ انہیں خود کو اچھا مسلمان بننے کے قابل بنایا جا سکے ۔ اسی طرح اقلیتوں کو بھی ان کے اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرنے سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں“

مجوزہ پالیسی میں اس تکلّف کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ کون کرے گا ؟ کس طرح کرے گا ؟ کہاں کرے گا ؟ یہ کون بتائے گا ؟
ہر وہ شخص جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اتنا تو جانتا ہے کہ اُسے اسلامیات پڑھنا ہے لیکن آج تک جو مسئلہ ہموطنوں کو درپیش ہے وہ قرآن شریف کی درست تعلیم اور مسلمان ہونے کی حیثیت میں درست تربیت کا ہے جس کا بندوبست پورے ملک میں کہیں نظر نہیں آتا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء [جس میں تعلیمی طریقہ کار کو پاکستان کے آئین میں دی گئی دفعات کے تحت ترتیب دیا گیا تھا] پر نواز شریف حکومت نے عمل شروع کر دیا تھا ۔ تاہم زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی تھی کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر اس پر عمل روک دیا تھا ۔ پھر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روشن خیال اعتدال پسندی [Enlightened Moderation] کے نام سے نئی تعلیمی پالیسی تیار کروائی تھی جس کی منظوری سے قبل ہی سالہا سال سے مروج اسلامیات کی کُتب سے جہاد اور یہود و نصاریٰ کے متعلق آیات حذف کر دی گئی تھیں ۔ اس پر والدین کی طرف سے شدید احتجاج کے باعث پرویزمشرف کی مجوزہ پالیسی منظوری کیلئے کابینہ کو پیش نہ کی گئی تھی سو اب موجودہ حکومے یہ سہرا اپنے سر پر سجانے کیلئے تیار ہے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

حسبِ حال

علامہ محمد اقبال نے لگ بھگ ایک صدی قبل جو ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق اللہ کی طرف سے جوابِ شکوہ لکھا تھا وہ آج بھی درست ہے ۔ چند اقتباسات

ہم تو مائل بہ کرم ہيں ۔ کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے ۔ رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی ۔ يہ وہ گل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں ۔ الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی ءِ پيغمبر ہيں
بُت شِکن اُٹھ گئے ۔ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر ۔ اور پسر آزر ہيں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں تم بھی نہيں
جذبِ باہم جو نہيں ۔ محفل انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تُم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تُم ہو

رہ گئی رسم اذاں ۔ روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ۔ تلقينِ غزالی نہ رہی

وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو ۔ مرزا بھی ہو ۔ افغان بھی ہو
تم سبھیي کچھ ہو ۔ بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟ يہ انداز مسلمانی ہے ؟

چاہتے سب ہيں کہ ہوں اَوج ثريا پہ مُقِيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلبِ سليم

جگ والا میلہ

یہ کہانی نہیں ۔ آپ بیتی ہے ایک خاتون کی جس کی پیدائش کے ساتھ ہی تقدیر سے مُڈبھیڑ شروع ہو گئی ۔ 2 سال کی تھی تو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ ضلع فیروز پور طے شدہ اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ ہونا تھا مگر بھارت کو جموں کشمیر کی طرف راستہ دینے کیلئے ضلع کو تقسیم کر دیا گیا جس کی خبر گورداسپور کے رہنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد ہوئی جب ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مار دھاڑ شروع کر دی ۔ اس کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ والدہ شہید ہو گئیں ۔ وہ اور اس کا 11 سالہ بھائی والد کے ساتھ پاکستان پہنچے ۔ ابھی 4 سال کی تھی کہ والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا ۔ بھائی بہن کو اُن کے ماموں اپنے ساتھ لے گئے ۔ بھائی نے کسی طرح ایف ایس سی پاس کی اور شپ یارڈ کراچی میں ملازمت کے ساتھ فاؤنڈری کا ڈپلومہ شروع کیا ۔ بھائی نے بہن کو اپنے ساتھ رکھا ۔ ڈپلومہ کرنے کے بعد بھائی کو پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو بھائی بہن واہ چھاؤنی منتقل ہو گئے

وہ محنتی اور شاکرہ لڑکی تھی ۔ کسی طرح ایم ایس سی میتھے میٹکس پاس کر لیا اور سرکاری سکول میں پڑھانا شروع کیا ۔ 1971ء میں بھائی نے اس کا نکاح ایک فوجی افسر سے کر دیا جو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا اور اور دو تین سال بعد معلوم ہوا کہ وہ وہاں شہید ہو گیا تھا ۔ اُس نے مزید شادی کی بجائے اپنی ساری توجہ دوسروں کی تعلیم پر لگا دی ۔ واہ میں جس لڑکی نے بھی اس سے پڑھا وہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ۔ اُس نے بہت سی بچیوں کو بغیر معاوضہ بھی پڑھایا ۔ اپنی محبت اس نے طالبات کے علاوہ اپنی ایک بھتیجی اور 2 بھتیجوں پر وقف کر دی ۔ کہا کرتی تھیں “میں نے ماں باپ نہیں دیکھے ۔ خاوند نہیں دیکھا ۔ میرا سب کچھ میرا بھائی ہے ۔ بھتیجی اور 2 بھتیجے ہی میرے بچے ہیں”

ریٹارئرمنٹ کے وقت سے کچھ سال قبل اُنہوں نے واہ میں اپنا مکان بنوایا اور اُس میں رہنے لگیں ۔ بہت سال ہیڈ مسٹریس رہنے کے بعد 2005ء میں ریٹائر ہوئیں تو وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایک اور صدمہ سے دوچار ہونے والی ہیں ۔ تین سال قبل عیدالاضحٰے کے دن اچانک ان کے بھائی راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ انہوں نے عام خواتین کی طرح واویلا نہ کیا مگر اس دن سے ان کے چہرے کی بشاشت اُن کا ساتھ چھوڑ گئی ۔ بھتیجے اور بھابھی اُن کے پاس جاتے رہتے تھے لیکن چند ماہ قبل انہوں نے اپنے دونوں بھتیجوں کو بالخصوص اکٹھے بُلایا اور انہیں کچھ کاغذات دے کر کہنے لگیں “میرا سب کچھ تم ہو ۔ یہ مکان میں نے تم دونوں کے نام کر دیا ہے ۔ تمہاری بہن کا نام نہیں لکھا کہ وہ تو امریکہ میں ہے”

ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تو ہم اتوار 5 اپریل 2009ء کو اسے ملنے گئے ۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ اپنے کمرے سے چل کر آئیں اور بیٹھک میں ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور ہم سے باتیں کرتی رہیں ۔ شام کو ہم واپس آ گئے ۔ آج فجر کی نماز سے قبل ان کے چھوٹے بھتیجے کا ٹیلیفون آیا کہ وہ راہی مُلکِ عدم ہو گئیں ہیں ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ مسلمان ہونے کی تمام صفات کی حامل خاتون پوری منصوبہ بندی کے ساتھ رخصت ہوئیں ۔ یہ ہماری عزیز اور ہردل عزیز خاتون میری بڑی بہو بیٹی کی پھوپھی تھیں ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا کرے ۔ آمین ثم آمین

جگ والا میلہ اے یارو ۔ تھوڑی دیر دا
ہسدیاں رات لنگے ۔ پتہ نئیں سویر دا