ایک تبصرہ

میں نے “اصل خطرہ پاکستان” کے عنوان سے جو بی بی سی کی خبر نقل کی تھی اُس پر ایک قاری کا اس تبصرہ اُمید ہے کہ باقی قارئین بھی مستفید ہوں گے

اسرائیل کے بڑوں نے تبھی ہی سے ہمیں اپنا پکے والا دشمن قرار دے دیا تھا جب اقوام متحدہ کا رُکن ہونے کے ناطے پاکستان نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی شد و مد سے مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے شمال اور مشرقی سرحدوں پہ ہونے والی “گریٹ گیم” میں امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی شروع دن سے اپنا لُچ تل رہا ہے۔ خاصکر بھارت کے قبضے میں کشمیر کی وجہ سے آجکل “انڈیا اسرائیل ہنی مون” میں ممبئی دہشت گردی جیسے واقعات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انڈیا نے اسرائیل کے سامنے مکمل طور پہ گھُٹنے ٹیک دئیے ہیں اور اسرائیل بھارت کا دوسرا بڑا اسلحے کا سپلائیر ہے

ویسے بھی برھمن اور یہودی فطرت ایک جیسی ہے بلکہ یہود بڑے کی افرادی طاقت بہت کم ہونے کی وجہ سے ایک عرصے تک یہود ھنود کو موسٰی علیہ السلام کے دور میں اپنا گمشدہ قبیلہ قرار دیتے رہے ہیں جس میں ھنود کا سبزی خور ہونا ایک بڑی دلیل گردانتے رہے ہیں ۔ بقول یہود کے جب مذکورہ قبیلہ موسٰی علیۃ والسلام سے بد عہدی اور نافرمانی کی وجہ سے صحرا میں گم ہو گیا تھا تو اس وقت بنی اسرائیل پہ گوشت حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ بھارت کی آزادی کے شروع ادوار میں موہن داس کرم چند گاندھی (جسے ھندو مہاتماکہتے ہیں) اور تب کے کانگریسی رہنماؤں نے معروف “چانکیہ اصولِ سیاست” کے تحت اسرائیلی قیام کی حمایت نہیں کی تھی کیونکہ تب ایک نیا عالم تعمیر ہو رہا تھا جس میں نئی نئی آزاد ہوتی قومیں اور ممالک اسرائیل کے قیام کے سخت مخالف تھے ۔ اس لئے اسرائیل کے گمشدہ قبیلے والا قصہ تب اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا ۔ مگر اس کے باوجود اسرائیل نے بھارت سے ایک قدیم یہودی قبیلہ ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ سب کو علم ہے کہ وہاں یہود تعطیلات کے نام پہ گلچھڑے اُڑانے جاتے ہیں۔ جس میں شراب و شباب دونوں کا بند وبست ہوتا ہے

اسرائیلی وزیرِ خارجہ افِگدور لِبر مین [Avigdor Liberman] روسی یہودی ہے اور یہ سابقہ سویت یونین مولداویا میں پیدا ہوا اور یہ 1978ء میں روس سے اسرائیل منتقل ہوا۔ روسی یہودی مسلمانوں کے بارے میں انتہائی گھٹیا خیالات رکھتے ہیں۔ لِبرمین انتہائی دائیں بازو کا کٹڑ انتہا پسند ہے اور اس نے اپنے موجودہ الیکشن کمپین [election campaign] میں اسرائیل کے دس لاکھ سے زیادہ عرب اسرائیلی شہریوں کو اسرائیل سے باہر نکال دینے کا انتخابی نعرہ لگایا تھا اور یہ اس کے پارٹی منشور کا حصہ ہے۔ بہر حال یہ فیشن سا بن گیا ہے کہ کہ کمزور اقلیتوں کو دبانے کے نام پہ الیکشن جیتا جائےاور یہی بھارت کے الیکشن میں ہوتا رہا ہے اور یورپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کا میڈیا ٹرائیل[media trial] بھی صرف اپنے آڈِئینس [audience] میں اضافے کیلئے کیا جاتا ہے کہ یہ آسان اور کم قیمت نسخہ رہا ہے مگر ان ممالک کے عام عوام کو بھی اس بات کا ادارک ہو چلا ہے کہ یہ صرف الیکشن جیتنے کا ایک مسکینی طریقہ ہے۔ یا اپنے ریڈیو ٹی وی کے ناظرین بڑھانے کا ایک نہائت گھٹیا اور اخلاق سے گرا حربہ ہے۔ اس لئے لِبرمین کی یہ باتیں اور شوشے اپنے ووٹروں اور یہودیوں کے لئے ہیں۔ اس کے اس بیان سے پاکستان کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا

لِبر مین کے پورے بیان میں صرف ایک بات نئی ہے جس پہ ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو زیادہ غور کرنا چاہیئےکہ اس دفعہ اسرائیل نے پاکستان پہ طالبان کے تخیّلاتی قبضے کے پروپیگنڈے کے پس منظر میں پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کے ناخوش ہونے کی بات کی ہے۔ جو ایک نئی بات ہے۔ کیا یہ لِبر مین کی لن ترانیوں میں سے ایک ہے یا اس بیان کے پیچھے چین کی تحفظات کی کوئی سنجیدہ صورت ہے ؟ یہ جاننا اور اس کا سدِباب ہمارے ذمہ دار لوگوں کو ابھی سے کرلینا چاہیئے۔ اس پہلے کہ پاکستان مخالف مختلف لابیاں پاکستان کی مخالفت اور چین کی حمایت میں تصوارتی خطرات کے پروپیگنڈا کا آسمان سر پہ اٹھا لیں۔ بھارت اور اسرائیل ۔ ھندو مہاجن اور یہودی کارباری فطری حلیف ہیں۔ اس میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے دفاع کی اپنی سی تیاری ہمیشہ رکھنی چاہیئے اور اپنے گھر میں ہر طرف لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا بندوبست بدستور کرتے رہنا چاہیئے

خیراندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

ایک بات جو جاوید گوندل صاحب نے نہیں لکھی یہ ہے کہ جب سیّدنا موسٰی علیہ السلام کسی وجہ سے اپنے علاقہ سے باہر گئے ہوئے تھے تو یہودیوں نے گائے کی پوجا شروع کر دی تھی جس کا مکمل ذکر قرآن شریف میں ہے ۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں

میاں نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے امریکہ کے صدر کو کیا لکھا تھا ؟ پہلی دفعہ منظرِ عام پر آتا ہے ۔ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

علامہ آج بھی زندہ ہیں

دنیا میں کئی لوگ آئے جنہوں نے خدائی تک کا دعوٰی کیا لیکن اُن کا نام و نشان مٹ گیا ۔ ہمیش زندہ رہتا ہے نام اُن کا جو زندگی اپنی قوم یا انسانیت کی بھلائی کیلئے وقف کر دیتے ہیں ۔ گو کہ وطنِ عزیز کے خودغرض حُکمرانوں کی ترجیحات کے نتیجہ میں نصابی کُتب میں سے معروف شاعرِ مشرق کے کلام کی جگہ نام نہاد ترقی پسند شعراء کا کلام داخل کر دیا گیا ۔ ایسے لوگ جن کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔ اور جدیدیت کا شکار ہموطنوں نے بھی اُنہی شعراء کے قصیدے کہنے شروع کر دئیے ۔ اس سب کے باوجود جب تک یہ اللہ کا دیا ہوا مُلک پاکستان زندہ رہے گا اور اِن شاء اللہ زندہ رہے گا تب تک علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام بھی زندہ رہے گا جنہوں نے اس مُلک کا تخیّل ہنِد کے مسلمانوں کو دیا اور اُن میں ولولہ پیدا کیا جس کے نتیجہ میں یہ مُلک پاکستان معرضِ وجود میں آیا

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جنہوں نے ہندوستان کے انگریز حُکمرانوں کا دیا ہوا سَر [Sir] کا خطاب واپس کر دیا تھا ۔ بہت عمدہ شاعر ہی نہیں فلسفی بھی تھے ۔ یہ صرف میں یا پاکستانی ہی نہیں کہتے بلکہ جرمنی کی ایک جامعہ [university] کے کمرۂ مجلس [Assembly Hall] میں اُن کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا میں نے 1967ء میں دیکھا تھا ۔ علامہ صاحب کا ایک ایک شعر اپنے اندر پُر زور اور عمدہ پیغام رکھتا ہے ۔ علامہ صاحب کے پیغام سے صرف چند اشعار دورِ حاضر کے قوم کے جوانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں بشرطیکہ ان کی سمجھ میں آ جائے بات

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالم ہے مجبور ۔ تو عالمِ آزاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ’ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

اصل خطرہ پاکستان ہے

وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبے ایک روسی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اویگدور لیبر مین کا کہنا تھا

” اگرچہ ایران کی صورت میں اسرائیل کے لئے ایک ممکنہ جوہری خطرہ موجود ہے لیکن اس وقت اسرائیل کے لئے سب سے بڑا سٹریٹیجک خطرہ اب ایران نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان ہیں ۔ پاکستان ایک غیر مستحکم جوہری طاقت ہے جبکہ افغانستان کو طالبان کے ممکنہ قبضے کا سامنا ہے اور ان دونوں ملکوں کے اشتراک سے انتہاپسندی کے زیر اثر ایک ایسا علاقہ وجود میں آ سکتا ہے جہاں اسامہ بن لادن کے خیالات کی حکمرانی ہو ۔ اس خیال سے چین ۔ روس اور امریکہ میں سے کوئی بھی خوش نہیں”

پاکستان کے ثقافتی ہٹلر

میں ثقافت کے متعلق چار مضامین لکھ چکا ہوں ۔ اب حاضر ہے ثقافت کا حال ثقافت سے منسلک ایک نامور شخص کے الفاظ میں

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد ،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فیض احمد فیض کی سربراہی میں قائم ہوا۔ اسکامقصد پاکستان میں فن اور فنکاروں کی فلاح اور بہبود کیلئے کونسلنگ کرنا تھا۔ ادارے کا مونو مسز ایلس کے کہنے پہ میں نے ڈیزائن کیا ۔ پہلے یہ منسٹری آف ایجوکیشن کے ماتحت تھا، اسکے بعد منسٹری آف کلچر کے تحت ”اپنا کام “کرنے لگا۔فیض صاحب کے جانے کے بعد یہ ادارہ آرٹ اورآرٹسٹوں کی بھلائی کی بجائے وفاقی حکومتوں کا بھرتی دفتر بن گیا ۔

نیشنل کونسل آف آرٹس کے دفاتر پچھلے پینتیس سالوں سے اسلام آباد میں کرائے کے مکانوں میں قائم تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس کا اپنادفتر بنا جو باہر سے اتنا ہی بدنما ہے جتنا اندرسے خوبصورت ہے۔دفتر کی افتتاحی تقریب میں انہی لوگوں کو مدعو کیا گیا جوپرویز مشرف کے منظور نظر تھے۔آرٹس کونسل کی افتتاحی تختی پرویز مشرف کے نام کی بنوائی گئی جسے آنے والے وقت میں یا دور میں ہٹا دیا جائے گا یا اسے چھپا دیا جائے گا۔اچھاتویہ ہوتا اگرافتتاح کسی نامور فنکار سے کرایا جاتا جسے عوام چاہتے ہیں یا جو سیاسی لیڈروں کی طرح متنازع نہیں، تو تختی ہٹانے پہ شرمندگی نہ ہوتی۔

اگر فیض صاحب کے بعد پاکستان نیشنل کونسل سیاسی بھرتی دفتر نہ بنتا تو آج شائد ہم فلم، تھیٹر،موسیقی اور فنون لطیفہ میں زوال پذیر نہ ہوتے۔ہم عدلیہ کو آزاد کرانے کیلئے جلوس تو نکالتے ہیں مگر خود کہیں بھی عدل نہیں کرتے۔یہی وجہ ہمارے معاشرے میں فنون لطیفہ کے فیل ہونے کی ہے۔ ثقافت عوام سے بنتی ہے اور عوام ہی اسے پروان چڑھاتے ہیں۔جس معاشرے میں ثقافت کی منسٹری ہو اورجہاں ایک جنرل ثقافتی ادارے کا افتتاح کرتا ہو وہاں کی ثقافت کاوہی حال ہوگا جو آج کل ہمار ی ثقافت کاہے۔

لوک ورثہ:اسلام آباد میں عکسی مفتی نے اپنے سرکاری ٹورز کیلئے ایک ادارہ بنوایا جسے لوک ورثہ کہا جاتاہے۔ اس دفتر میں بھی ہم نے دس سال کام کیا اور لوک ورثہ میوزیم کی بنیاد ڈالی۔ہم اکثر ان سے کہتے تھے کہ آپ نے دستکاروں کا ساز و سامان تو سجا لیا ہے کبھی انکے دستکاروں کا حال بھی پوچھ لیجئے جوکس مپرسی کی حالت میں برائے نام زندہ ہیں۔ لوک ورثہ بھی سیاسی بھرتی دفتر بنا رہا اور تیس سال تک اس ادارے کا سربراہ ثقافتی ہٹلر بن کے اس پر حکومت کرتا رہااور پھر اسی کے چہیتوں نے اس کا تختہ الٹ کر لوک ورثہ پہ قبضہ کرلیا۔ بقول سرگم، لوک ورثہ عوام کا نہیں بلکہ ادارے کے سربراہ کا ورثہ ہے ۔ اس ورثے میں پچھلے دنوں پرویز مشرف اور انکی بیگم کے بڑے بڑے پورٹریٹ لگے ہوئے تھے جو حکومت کے تبدیل ہوتے ہی ہٹادیئے گئے۔

جب ہم کبھی لوک ورثہ میں تھے تو ایک دن ہمیں منسٹری آف کلچر کے جائنٹ سیکرٹیری کا فون آیا اور ہم سے کہا گیا کہ ہماری فیملی نے لوک ورثہ کی سیر کرنی ہے اسلئے لوک ورثہ کی سرکاری گاڑی بھجوائی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ لوک ورثہ کہاں واقع ہے؟ہم بڑے حیران ہوئے کہ ہمارے ہی محکمے کے افسر اعلیٰ جو کئی سالوں سے اس پہ حکومت کر رہے ہیں انہیں لوک ورثے کا محل وقوع معلوم نہیں۔ ہمارے خیال میں لوک ورثہ کا اصل مقصد غیر ملکی سربراہان کی بیویوں کا سرکاری دورں کے دوران انکا وقت پاس کرانا ہی ہے۔

وفاقی فلم سنسر بورڈ:اسلام آباد میں ایک فلم سنسر بورڈ بھی ہے جو دوسرے ثقافتی اداروں کی طرح سیاسی رشوت دینے کے کام آتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اب برائے نام فلمیں بنتی ہیں لہٰذا فلم سنسر بورڈ کے چیئر مین کا کام ایر کنڈیشنڈ دفتر میں میں بیٹھ کر کافی پینا یا فلمی اداکارؤں سے سرکاری فون پر بات کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ہم چونکہ پاکستانی فلموں پہ تنقید کیا کرتے تھے چنانچہ ہمیں سزا کے طور پہ فلم سنسر بورڈ کا ممبر بنا دیا گیا۔ ہم اب پاکستانی فلموں پہ اتنی ہی تنقید کرتے ہیں جتنی کہ ملک میں فلمیں بنتی ہیں۔ سنسر بورڈ کے پروجیکشن ہال کا وہی حال ہے جو ہماری فلموں کا ہے۔ ہال میں جب کبھی کبھار کوئی فلم آتی تو حال میں سنسر کرنے والے چند وہ لوگ اونگتے نظر آتے جن کا فنون لطیفہ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ ایک بار ہم نے سنسر بورڈ کا ہال فل دیکھا تو پتہ چلا کہ آج انڈین فلم مغل اعظم لگنی ہے جس میں چیئر مین صاحب کے منظور نظر لوگوں کوخاص طور پہ دعوت دی گئی ہے۔

راولپنڈی آرٹس کونسل: فنون لطیفہ کے نام پہ قائم کی گئی یہ کونسل بھی پنجاب حکومت کے ماتھے پہ ایک بدنما داغ ہے۔ اس ادرے پہ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں ایک ہی ڈائریکٹر نے حکومت کی۔ہم بھی اس ادارے کے ڈرامے کے بورڈ ممبر رہے۔اسکا سالانہ بجٹ آرٹ کی ترویج سے زیادہ اسکے انتظامی امور کا ہے۔ سال میں ایک دو عورتوں کی کُکنگ کلاسوں اور تصویری نمائشوں کے علاوہ یہ بھی اپنے نو تعمیر شدہ ڈرامہ ہال کی طرح بنجر ہی رہتی ہے۔اس ادارے میں بھی لوکل فنکاروں کے بجائے ادارے کے ملازمین کی فلاح و بہبود کا کام بڑی محنت اور تسلسل ہوتا ہے۔ ادارے میں ڈائریکٹر تو موجود ہے مگر فنکاروں کی کوئی ڈائریکٹری نہیں ، اگر ہوتی تو ہمارا نام بھی کبھی کسی فنکشن میں مدعو کرنے کیلئے ہوتا۔تو جناب پاکستان نے جتنی ثقافتی ترقی کرنی تھی وہ اسنے ان لوگوں کے دور میں کر لی جن کی پیدائش پاکستان بننے سے پہلے کی ہے۔ 62سالوں میں ہم نے نہ تو یہ فیصلہ کیا کہ ہماری سیاست کیا ہے اور ثقافت کیا ہے؟ ہم گانے والوں کو کنجر مراثی بھی کہتے ہیں اور انہیں پرائڈ آف پرفارمنس بھی دیتے ہیں

تحریر ۔ پُتلی تماشہ کے فاروق قیصر کی

یہ کراچی ہے

گلستان جوہر بلاک13 اور18 اور پہلوان گوٹھ میں جاری دو گروہوں کے درمیاں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر شدت آگئی جس کے نتیجے میں جوہر چورنگی سے پہلوان گوٹھ اور جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو ملانے والی شاہراہ کو بلاک کردیا گیا
سٹرک پر مسلح افراد کھُلے عام فائرنگ کرتے رہے ۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ لوگ گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے اور علاقے میں شدید خوف وہراس پھیل گیا
مشتعل شرپسندوں نے ایک پانی کے ٹینکر سمیت 9 گاڑیوں کو آگ لگا دی اور سٹرک پر کھڑی دو درجن سے زائد گاڑیوں کے بھی شیشے توڑ دیئے
پولیس کو جائے وقوعہ پر طلب کیا گیا لیکن پولیس اہلکاروں نے ہنگامہ آرائی کی جگہ پر جانے سے گریز کیا
نامعلوم افراد نے رابعہ سٹی میں واقع فلیٹ میں گھس کے45 سالہ محمد شفیق کو گولیاں مار کر زخمی کردیا جسے تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا

گھڑی نہ ہو تو بچت کیسے ہو ؟

وزیر برائے پانی و بجلی کے 15 اپریل سے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا حُکم صادر کیا جواز یہ تھا کہ اس سے بجلی کے استعمال میں بچت ہو گی ۔ ایک معصوم سے شخص نے پوچھا ” جس غریب کے پاس گھڑی ہی نہ ہو ۔ وہ بجلی کی بچت کیسے کرے ؟” میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔

ہمارے حُکمرانوں کی نفسیات کچھ ایسی ہو چُکی ہے کہ ہر وہ عمل جو فرنگی اختیار کرے اُسے بغیر سوچے سمجھے اختیار کرنے میں بہتری خیال کرتے ہیں ۔ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ دوسرے کا منہ سُرخ دیکھ کر اپنا تھپڑ مار مار کر سُرخ کر لینا ۔ فرنگیوں کے جغرافیائی اور ترقیاتی حالات وطنِ عزیز اور اس کے گرد و نواح کے حالات سے مختلف ہیں اس لئے یورپ اور امریکہ بجلی کی بچت کیلئے نہیں بلکہ قدرتی روشنی سے مستفید ہونے کیلئے گرمیوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر لیتے ہیں اور سردیوں میں واپس ۔ ان ممالک کے لوگ گھڑیاں آگے اور پیچھے کرنے کی بجائے اوقاتِ کار آگے پیچھے کر سکتے تھے مگر اُن کا زیادہ تر دفتری کاروبار کمپیوٹرائزڈ [computerised] ہوتاہے ۔ بالخصوص ملازمین کی حاضری اور تنخواہ کا نظام ہر محکمہ میں کمپیوٹرائزڈ ہے ۔ اوقاتِ کار بدلنے سے سب محکموں کے کمپیوٹروں کے پروگرام میں مناسب تبدیلیاں سال دو بار کرنا پڑتیں جو کہ وقت طلب عمل ہے اور بعض اوقات مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے ۔ اسلئے ان ترقی یافتہ ملکوں میں گھڑیاں آگے پیچھے کرنا ہی مناسب ہے ۔

وطنِ عزیز میں تو کمپیوٹرائزیشن برائے نام ہے ۔ پھر اوقاتِ کار بدلنے میں پریشانی کیوں ؟ وطنِ عزیز میں کم از کم 1973ء تک تمام تعلیم اداروں اور دفاتر کے اوقاتِ کار یکم اپریل اور یکم اکتوبر کو تبدیل ہوا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ حکومت نے آج سے تیس پینتیس سال قبل ختم کر دیا ۔ دکانین صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک کھُلتی تھیں ۔ بعد میں دکانداروں پر نجانے کونسا بھوت سوار ہوا کہ اُنہوں نے دکانیں دوپہر کو کھولنا اور آدھی رات کو بند کرنا شروع کر دیں

بھارت سائنس اور کمپیوٹر میں عملی طور پر وطنِ عزیز سے بہت آگے ہے لیکن وہاں کسی نے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے کا نہیں سوچا ۔ نہ سری لنکا میں ایسا ہوا ہے ۔ یہ عقلمندی صرف وطنِ عزیز کی حکومت کو ہی کیوں سُوجھی ہے ؟ یہ بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ ہمارے ہموطنوں کی اکثریت وقت دیکھنا بھی نہیں جانتی ۔ میرے ساتھ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی راہگذر نے وقت پوچھا ۔ میں نے کہا میرے پاس گھڑی نہیں ہے تو اس نے اپنی گھڑی والی کلائی میرے سامنے کر دی

گھڑیوں پر وقت تبدیل کرنے کے احکامات پر ہموطنوں کی اکثریت عمل نہیں کرتی ۔ نجی ادارے اور دکاندار سرکاری حُکم سے بے نیاز اپنے معمول پر قائم رہتے ہیں ۔ سرکاری اداروں کا یہ حال ہے کہ ملازمین دفتر پہنچتے تو پرانے وقت کے مطابق ہیں اور چھٹی نئے وقت کے مطابق کرتے ہیں یعنی روزانہ ایک گھنٹہ کم کام کرتے ہیں یعنی اُلٹا چھ گھنٹے فی ہفتہ کا نقصان ۔ پھر اس سارے تکلف کا فائدہ ؟

جب پچھلی حکومت نے گھڑیاں آگے کرنے کا حُکم جاری کیا تھا تو میں نے کچھ تجاویز وزیر پانی و بجلی کو بھیجی تھی اور اخباروں کو بھی لکھا تھا ۔ ڈان اور دی نیوز میں میرا خط چھپا بھی تھا ۔ پچھلے سال بھی میں نے موجودہ حکومت کو وہی تجاویز بھیجی تھی ۔ لیکن کون سنتا ہے عام شہری کی بات ۔ اس بار میں نے وہی تجاویز لکھ کر بڑے لوگوں سے میل ملاپ رکھنے والے ایک شخص کو دی تھیں ۔ یہ تجاویز مندرجہ ذیل ہیں

فوری اقدامات

1 ۔ بجلی کی ترسیل کا غیر قانونی کُنڈے نظام جہاں جہاں بھی ہے اُسے ختم کیا جائے ۔ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ نظام عام ہے ۔ لائین مین کھُلے بندوں کنڈا لگانے کا 1500 روپیہ مانگتے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں ۔ دوسرے شہروں میں بھی یہ ناسُور موجود ہے ۔ دیہات میں بھی بارسوخ لوگ بجلی کا بڑا استعمال میٹر سے مبرا ہی کرتے ہیں ۔ اسے بھی کُنڈا ہی کہنا چاہیئے

2 ۔ وزراء اور اعلٰی سرکاری ملازمین کو بے تحاشہ زیادہ بجلی مفت مہیا کی جاتی ہے اور ان لوگوں کی ماہانہ تنخواہیں اور دوسری مراعات بھی بہت ہیں ۔ واپڈا کے ملازمین کو بھی بجلی کے استعمال کی کافی چھوٹ دی گئی ہے ۔ ایک مثال ۔ واپڈا کے سکیل ۔ 19 کے ریٹائرڈ ملازم کو ساری زندگی کیلئے ماہانہ 450 یونٹ تک مفت بجلی استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔ دوسری طرف مُلک ڈُوب رہا ہے اور یہ سب حضرات موج میلا لگائے ہوئے ہیں ۔ ان سب کی مفت بجلی کی حدوں کو کم از کم آدھا کر دیا جائے

3 ۔ تمام دکانداروں کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ مذاکرات کر کے اُنہیں احساس دلایا جائے کہ وہ دکانیں صبح 8 بجے کھولیں اور رات 8 بجے بند کریں

4 ۔ تمام کارخانوں کے اوقاتِ کار ترتیب دیئے جائیں کہ ہر کارخانہ 24 گھنٹوں میں 8 گھنٹے اس طرح کام کریں کہ کسی بھی وقت بجلی کا خرچہ کم سے کم ہو یعنی کچھ کارخانے صبح 8 سے بعد دوپہر 2 بجے تک کام کریں ۔ کچھ بعد دوپہر 2 بجے سے رات 10 بجے تک اور کچھ رات 10 بجے سے صبح 8 بجے تک ۔ متواتر چلنے والے کارخانوں کو دورانیہ ایک ہفتہ مقرر کیا جائے اس طرح ترتیب دیا جائے کہ کسی بھی وقت بجلی کا خرچہ کم سے کم ہو

5 ۔ پیداواری منصوبہ بندی

بھاشا ڈیم جیسے ایک یا دو بہت بڑے پراجکٹس کی بجائے بہت سے چھوٹے اور درمیانے حُجم کے منصوبے شروع کئے جائیں ۔ ایسے ہر منصوبے کی لاگت بہت کم ہو گی اور یہ بہت جلد مکمل بھی ہو جائیں گے ۔ سب سے بڑی بات کہ ایسے منصوبوں کو کسی صوبے کے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کیلئے بھی استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان میں جو پانی پیچھے سے آئے گا وہ آگے نکل جائے گا ۔ ایک ایسا ہی چھوٹا منصوبہ عرصہ دراز سے گجرات کے قریب شادی وال میں کام کر رہا ہے ۔ ایسے منصوبے دریائے سندھ اور جہلم کے علاوہ کئی نہروں پر بھی ایک دوسرے سے 20 سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر لگائے جا سکتے ہیں

آہ ۔ میری ڈائری اور میرا خزانہ

رات میں سونے کیلئے بستر پر دراز ہوا تو ماضی کی ایک یاد داشت کی تلاش میں ماضی میں بہت دُور نکل گیا اور کچھ دیر بعد بے ساختہ گنگنانے لگا

میری دنیا لُٹ گئی تھی مگر میں خاموش رہا
ٹکڑے اپنے دل کے چُنتا کس کو اِتنا ہوش تھا

لُٹا تھا کس طرح ؟

میرا خیال ہے کہ مناسب ماحول ملے تو ہر لکھنا جاننے والا ڈائری لکھے ۔ میں نے کتنی عمر میں ڈائری لکھنا شروع کی مجھے یاد نہیں ۔ میرے انجیئر بن جانے کے بعد میرے بزرگوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں جب تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا تو 1946ء کی گرمیوں میں جموں سے سرینگر اور واپسی کے سفر کا حال جو میں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا وہ زبردست تھا ۔ یہ ڈائری تو 1947ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کے وقت جموں میں ہی رہ گئی تھی کہ ہم تین کپڑوں میں اپنی جان بچا کر نکلے تھے ۔ مجھے یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا ۔ اتنا یاد ہے کہ سفر دلچسپ تھا جو راستے میں بس خراب ہوجانے کی وجہ سے شاید بڑوں کیلئے پریشانی لیکن میرے لئے مزید دلچسپ بن گیا تھا

ہمارا سالانہ امتحان فروری یا مارچ 1947ء میں ہونا تھا لیکن فسادات شروع ہونے کی وجہ سے سکول بند ہو گئے ۔ میں وسط دسمبر 1947ء میں پاکستان پہنچا اور مجھے 1948ء میں سکول داخل کرایا گیا ۔ اس طرح میرا پڑھائی کا ایک سال ضائع ہو گیا ۔ 1948ء کے آخر میں ہم راولپنڈی آ گئے جہاں مجھے اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ داخل کرا دیا گیا ۔ سکول کے کام کی مشق کرنے کیلئے کاغذ کا دستہ لے کر آیا ۔ میں نے تین ورق نکال کر ان سے سوا چار انچ ضرب ساڑھے تین اِنچ کی ڈائری بنائی ۔ پھر جو نئی چیز نظر آتی یا جو چیز پسند آتی ۔ شعر ۔ سائنس کی وہ باتیں جو ہماری کتاب میں نہ تھیں اور سفر کا حال وغیرہ سب کچھ میں اس میں لکھتا رہتا

میں جب آٹھویں جماعت میں تھا تو دوسرے ممالک کے متعلق جاننے کا شوق ہوا ۔ میں نےترکی ۔ اٹلی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ اور ہالینڈ کے سفیروں کو انگریزی میں خط لکھے کہ میں ان کے مُلک میں دلچسپی رکھتا ہوں اور تعلیم اور سیر و سیاحت کے مواقع جاننا چاہتا ہوں ۔ ان سفیروں نے مجھے رنگین تصاویر والی کُتب اور رسالے بھیجے جن میں تعلیم اور سیاحت کی سب معلومات تھیں ۔ میری الماری ان کتابوں اور رسالوں سے بھر گئی جو میں پڑھتا رہتا تھا اور میرے دل میں ان ممالک کی سیر کی زبر دست خواہش پیدا ہوئی ۔ اس کے علاوہ میں اخباروں کے تراشے بھی جمع کرتا رہتا تھا جن میں حافظ مظہرالدین صاحب کی جموں کشمیر اور تحریکِ پاکستان کے متعلق نظمیں بھی شامل تھیں

دسویں میں کامیابی کے بعد مجھے ہر سال کہیں نا کہیں سے خوبصورت ڈائری مل جاتی تھی سو مجھے سہولت ہو گئی ۔ میرا ڈائری لکھنے کا شوق ہمیشہ قائم رہا ۔ میں نے انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ راولپنڈی پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ملازمت کی ۔ یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی اور واہ چھاؤنی میں اپنی بڑی بہن کے پاس رہنے لگا

سیٹلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارا گھر تیار ہونے پر میرے گھر والے یکم اگست 1964ء کو جھنگی محلہ راولپنڈی سے سیٹلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے ۔ یہ منتقلی اچانک ہی ہوئی تھی ۔ مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ۔ 1948ء سے لے کر اُس وقت تک میں نے اپنی ساری کتابیں ۔ نوٹس ۔ ڈائریاں ۔خاص خاص رسالے ۔ اخباروں کے تراشے اور متذکرہ بالا معلوماتی کتب سب سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔ دو بڑی الماریاں بھری پڑی تھیں ۔ صرف انجنیئرنگ کی کُتب میں اپنے ساتھ واہ چھاؤنی لے گیا تھا ۔ میرے چھوٹے ماشاء اللہ تین بھائیوں نے سمجھا یہ سب ردی ہے کیوں نہ بیچ کر جیب خرچ بنایا جائے ۔ یوں 1964ء میں میری دنیا لُٹ گئی اور میرا دل اور جگر اندر ہی اندر خون کے آنسو روتے رہے مگر زبان کچھ کہہ نہ سکی ۔ خاموش نوحہ میں ہی عافیت سمجھی ۔

اُس دن مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ ہمارے مُلک میں علم کی کوئی قدر نہیں ۔صرف سندیں حاصل کرنا ہی تعلیم کا مقصد ہے علم حاصل کرنے کیلئے نہیں ۔ ایک میں ہی بیوقوف ہوں جو بچپن سے اب تک علم سیکھنے کے پیچھے پڑا رہتا ہوں