نادرا ۔ نا اہلی اور دہشتگردی

نادرا حکام نے انکشاف کیا ہے کہ مختلف طریقوں سے بنوائے گئے ساڑھے دس لاکھ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کر دیئے گئے ہیں جبکہ مزید 1 لاکھ 4 ہزار جعلی کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا پتہ لگایا گیا ہے جو اب بھی شہریوں کے زیراستعمال ہیں ۔ ان میں سے لاکھوں کارڈز 2005 میں ہونے والے بلدیاتی اور 2008 میں عام انتخابات میں بھی استعمال ہوئے۔ اب بھی ایک لاکھ سے زائد غیرقانونی ذرائع سے بنوائے گئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شہریوں کے زیراستعمال ہیں جو بینک اکاؤنٹس کھلوانے، موبائل فون کی سمز کے اجراء اور پاسپورٹس اور دیگر اہم دستاویزات بنوانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ دہری شناخت کے حامل ان شناختی کارڈز کے بارے میں جدید نظام کے ذریعے شناخت ہو چکی ہے اور ان افراد کو یہ شناختی کارڈ واپس کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے ورنہ ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں گے اور اگر اس میں نادرا کے عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تو ایسے افراد کو نہ صرف نوکری سے فارغ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جا ئے گی۔

کچھ سوال
کیا یہ سراسر نااہلی نہیں ہے ؟
جعلی کارڈوں کی واپسی کیلئے مزید تین ماہ کیوں دیئے گئے ہیں ؟
ایسے لوگوں کے خلاف قانون فوری طور پر کیوں حرکت میں نہیں لایا جا رہا ؟
کیا ایسا کسی خاص مقصد کیلئے کیا گیا تھا جو ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہوا ؟
کیا نادرا دہشتگردی کے فروغ میں مددگار نہیں ؟

قارئین کی فرمائش پر

نعمان صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ سوال اُٹھائے تھے ۔ میں دوسرے کاموں میں کافی مصروف تھا اسلئے جلدی میں جواب لکھا تھا جو کہ جامع نہ تھا ۔ کئی قارئین نے اصرار کیا کہ اسے میں سرِورق پر شائع کروں اور مکمل جواب لکھوں ۔ اب جواب مکمل کرنے کوشش کی ہے اور جوابات کی ترتیب سوالات کی ترتیب کے مطابق کر دی ہے

نعمان صاحب کا تبصرہ
قصہ مختصر صرف یہ لکھ دیتے کہ بھٹو فیملی ولن اور ضیا اور ان کی باقیات پاکستان کی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ اس تاریخ میں‌سے آپ کئی شاندار کارنامے جان بوجھ کر نظر انداز کرگئے۔ جیسے

1 ۔ پاکستان کے ایٹمی منصوبے کا آغاز اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس پر کام جاری رکھنا۔
2 ۔ قوم کو ایک متفقہ آئین دینا۔
3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد رکھنا۔
4 ۔ بڑے صنعتی اداروں‌ جیسے اسٹیل مل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا، بن قاسم بندرگاہ وغیرہ کا آغاز کرنا
5 ۔ ضیاالحق کے کارنامے جیسے امریکہ سے پیسے بٹور کر مجاہد تیار کرنا اور امریکہ کی فتح کے لئے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنا۔ پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کا گڑھ بنانا اور ایجنسیوں‌کو سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرنا وغیرہ۔
6 ۔ قرض‌اتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے کے گھپلے،
7 ۔ راؤنڈ اسٹیٹ کے بھارت کے ساتھ چینی اور پیاز کی تجارت سے کروڑوں‌ روپے کے منافعے۔ وغیرہ وغیرہ

میرا جواب
1 ۔ میں کسی طرح پروگرام کے شروع میں منسلک رہا تھا ۔ صرف اتنا بتا دوں کہ واویلہ بہت ہے لیکن سوائے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاکستان آنے کے اور کچھ نہیں ہوا تھا ۔ کام 1977ء کے آخر میں شروع ہوا ۔ آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کچھ دیا بھی ہے ۔ میری اُن سے سیاسی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے مجھے دو قومی سطح کے اہم پروجیکٹس سونپے تھے اور اللہ کے فضل سے میں اُن کے اعتماد پر پورا اُترا ۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کام کیا تھا تو میں نہیں بتاؤں گا

2 ۔ متفقہ آئین وقت کی مجبوری بن گیا تھا کیونکہ 1970ء میں مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کا ووٹ بنک 33 فیصد سے کم رہا تھا ۔ آئین منظور ہوتے ہی بھٹو صاحب نے سات ترمیمات کر کے جو متفقہ آئین کا حشر کر دیا تھا وہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا ؟

3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد بھٹو صاحب نے نہیں ضیاء الحق نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر رکھی تھی ۔ اور مکمل کامیابی نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوئی

4 ۔ سٹیل مل کو بغیر متعلقہ صنعتوں کے لگانا حماقت تھی جو ناجانے کس کے مشورہ پر بھٹو صاحب نے کیا وہ آدمی تو ذہین تھے پھر نامعلوم کیا مجبوری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سٹیل مل نقصان میں جا رہی ہے ۔ بعد میں سٹیل مل کی تباہی میں ایم کیو ایم کا کردار اہم ہے جس کے 2400 کارکُن ہر ماہ ایک دن کیلئے صرف تنخواہ لینے سٹیل مل جاتے تھے ۔ ان کو 1992ء کے بعد لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان نے فارغ کیا تھا جب جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے ۔ بن قاسم پورٹ سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا اسلئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا [ایچ آئی ٹی] کی منصوبہ بندی یحیٰ خان کے دور میں ہوئی لیکن قومی دفاعی ضرورتوں نے پی او ایف کی توسیع پر مجبور کیا اسلئے تاخیر ہوئی ۔ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایچ ایم سی اور ایچ ایف ایف میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے وہ خسارے میں جا رہی تھیں اسلئے فوج کا سربراہ ایچ آئی ٹی میں سیاسی بھرتیوں کے خلاف تھا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایچ آئی ٹی پر کام ضیاء الحق کے دور میں ہوا

5 ۔ ضیاء الحق کی خامیاں بطور فوجی ڈکٹیٹر وہی تھیں جو باقی سب ڈکٹیٹرز کی تھیں اور اُن کو اتنا مشتہر کیا جا چکا ہے کہ میرےبتانے کی ضرورت نہیں رہی البتہ اُس پر چند الزامات صرف بُغز کی بنا پر ہیں ۔ پاکستان میں بندوق کلچر کی ابتداء ایف ایس ایف [Federal Security Force] سے شروع ہوئی جسے بھٹو صاحب نے پولیس اور رینجرز کے مقابلے میں آوارہ قسم کے جیالے اور دوسرے مجرم پیشہ جوانوں کو بھرتی کر کے تیار کیا تھا اور جس کے ایک جتھے نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کیلئے فائرنگ کی تھی اور ہلاک اُس کا باپ ہوا ۔ اسی کو بہانا بنا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی ۔ ضیاء الحق نے امریکہ کو براہِ راست پاکستان تو کیا افغانستان میں بھی مداخلت نہ کرنے دی جس کا مالی اور سیاسی فائدہ پاکستان کو ہواتھا ۔ ہوسکتا ہے کہ راستے [pipe line] میں کچھ فوجیوں نے بھی جیبیں بھری ہوں ۔ہیروئین کس نے اور کیوں بنائی میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اگر آپ درست کہتے ہیں تو یہ بتائیں ہیروئین اس وقت افغانستان میں کیوں سب سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان میں مْلا عمر کے دور میں بالکل بند ہو گئی تھی اور اب پاکستان میں نام نہاد طالبان ہونے کے باوجود اس کی پیداوار نہیں ہے ؟ سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے ایجنسیوں‌کا استعمال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا اور پھر بڑھتا ہی گیا ۔ بھٹو کے حُکم پر اس کے کئی شکار ہوئے جن میں غلام مصطفٰے کھر اور افتخار کھاری مشہور ہیں

6 ۔ قرض‌ اتارو ملک سنوارو کے سلسلہ میں اربوں روپے جمع ہی نہیں ہوئے تھے ۔ اس نعرے کا تعلق میاں نواز شریف سے ہے اگر گھپلا ہوا ہوتا تو بینظیر اور پرویز مشرف نے اتنے جھوٹے مقدمے نواز شریف کے خلاف بنائے تھے ایک سچا بنا کر اُس پر فتح حاصل کر لیتے

7 ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور شروع ہوا تو بازار میں پیاز ایک روپے کا 2 کلو ملتا تھا ۔ ایک سال بعد پیاز 5 روپے فی کلو ہو گیا ۔ لوگ کہتے تھے “واہ بھٹو ۔ سچ کہا تھا جب میری حکومت آئے گی تو کوئی غریب مزور پیاز سے روٹی نہیں کھائے گا “۔ [بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران ٹیکسلا میں ہونے والے جلسہ میں یہ کہا تھا] ۔ ہر سال پیاز کی فصل مڈل مین پیشگی بہت سستے داموں خرید لیتے ۔ فصل ہونے پر گوداموں میں ڈال دیتے اور دس گُنا قیمت پر بیچتے ۔ جو پیاز بچ جاتا اُسے نالوں میں پھینک دیا جاتا ۔ چینی ۔ گھی ۔ وغیرہ کا حال پیاز سے صرف اتنا مختلف تھا انہیں پھینکا نہیں سرحد پار بیچا جاتا تھا ۔ ضیاالحق کے زمانہ میں پیاز اور چینی پہلے سے کم داموں پر بکتی رہی ۔ دکانداروں کی منافع خوری روکنے کیلئے جمعہ بازار شروع کئے جہاں صرف کاشتکاروں اور آڑھتیوں کو اجازت تھی کہ سبزیاں ۔ پھل اور دوسری اشیاء بیچیں جس سے چیزیں سستی دستیاب ہونے لگیں ۔ بھارت سے آلو کی درآمد بینظیر بھٹو کے دور میں ہوئی جس پر جیالوں نے مال بنایا ۔ نئی فصل کی قیمت پر خریدا ہوا پرانا آلو بہت جلد خراب ہو گیا اور نقصان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کے کارندوں نے مہنگے داموں گھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو دیا ۔ عوام نے شور کیا تو بینظیر بھٹو نے کم قیمت پر بیچنے کا حُکم دیا ۔ یہ نقصان بھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ وہ دن اور آج کا دن اس ادارے کی حالت پتلی ہے

نعمان صاحب کی بلاگ پر بھی میرے تبصرے پڑھ لیجئے

عقل ہے پریشان

عقل ہے پریشان سمجھ کی نا سمجھی پر
ہنسوں اپنی سوچ پہ یا اُن کی عقلمندی پر

یہ شعر خود بخود میرے دماغ نے بنا دیا اور لکھتے ہی بنی ۔ آپ بھی مُلک کے حالات پر نظر ڈالنے کے بعد نیچے لکھی خبر پڑھیئے ۔ شاعری دماغ سے خود بخود نہ نکلے تو ۔ ۔ ۔

خبر
اقوم متحدہ کے امدادی اداروں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ متاثرہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ متاثرین کی بحالی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو ۔ دوسری جانب عالمی ادارہ ریڈ کراس کے چیف نے دورہ پاکستان میں اعلیٰ پاکستانی حکام اور ملٹری آفیشلز سے ملاقات کی اور بحرانی انسانی صورتحال پر گفتگو کی ۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے نمائندوں اور پاکستانی سفارتکاروں کے ہمراہ ایک اجلاس میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں آپریشن سے متعلق صورتحال پر گفتگو کی گئی

کراچی کے طالبان ۔ 3

بروز بُدھ بتاریخ 29 اپریل
نارتھ کراچی میں زرینہ کالونی میں صبح دو گروپوں میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد دونوں جانب سے لوگ مورچہ بند ہوگئے اور ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے رہے ۔ فائرنگ کے باعث علاقہ خوفناک آوازوں سے گو نجتا رہا ۔ زرینہ کالونی میں دو طرفہ فائرنگ سے محمد شاہد ۔ محمد خلیل۔ جمعہ خان اور دوست علی ہلاک ہوگئے ۔ ان ہلاکتوں کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا اور نامعلوم مسلح افراد نے موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر رکشے والوں ۔ ٹھیلے والوں اور د کانداروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ۔

نامعلوم مسلح افرا د کی فائرنگ سے سچل رینجرز کا صوبیدار ذوالفقار ڈوگی ۔ خواجہ اجمیر نگری کا سب انسپکٹر معین الرحمن اور پی سی سجاد زخمی ہوگئے جبکہ خواجہ اجمیر نگری کے علاقے میں فائرنگ سے سوہنی خاتون ۔ یاسر ۔ رحیم ۔ عامر ۔ محمد سلیم ۔ محمد امیش ۔ 12 سا لہ اقراء اور 5 سا لہ مقصود زخمی ہوگئے ۔ شرپسندوں نے شا ہ فیصل کالونی میں محمد دین کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا جو زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا ۔ اس پر لوگوں نے علاقے کی دکانیں بند کرادیں اور گاڑیوں پر پتھراؤں کیا ۔ گلستان جوہر میں نامعلوم افراد نے منی بس کے ڈرائیور راج ولی کو گاڑی سے اتا ر کر گولی مار کر ہلاک کردیا اور منی بس کو نذرآتش کردیا اور پرفیوم چوک پر ایک ہوٹل کو آگ لگادی ۔ اس و قت فائرنگ کا بھی تبادلہ ہوا ۔ مختلف فلیٹوں کی چھتوں سے بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔

نیو کراچی صنعتی ایریا میں نامعلوم مسلح افراد نے دو رکشوں کو روک کر ڈرائیوروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا ۔ نارتھ ناظم آباد جے بلاک میں مکئی کے دانے فروخت کرنے والے نو جوان کو موٹر سائیکل سوار نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا جو زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا ۔ سرجانی ٹاؤن میں نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے وحید اللہ ۔ سلیم خان ا ور پھل فروش زمرد خان کو زخمی کردیا ۔ نامعلوم مسلح افراد نے پھل فروشوں کی دکانوں کو نذرآتش کردیا ۔ سرسید ٹاؤن کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے منی بس پر فا ئرنگ کی جس سے ڈرائیور ہلاک ہوگیا ۔ گاڑی کو آگ لگادی گئی ۔ اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کرکے خوف و ہراس پھیلادیا اور فائرنگ کی جس سے 5 افراد فتح جان ۔ خیر خان ۔ رکشا ڈ رائیور آدم خان اور ایک راہگذر زخمی ہوگیا ۔ کئی ٹھیلوں کو نامعلوم مسلح افرا د نے آگ لگادی ۔

عباسی شہید اسپتال میں فائرنگ سے ہلا ک کئے جا نے والوں کی 13 اور جناح اسپتال میں12 لاشیں لائی گئیں جبکہ ہلاک ہونے والے دیگر افر اد کی لاشیں مختلف اسپتالوں میں لائی گئیں ۔ مختلف علاقوں میں خدا بخش ۔ شا ہ خا لد ۔ ظہور شاہ ۔ انور، موسیٰ خان ۔ ز ر گل ۔ 9 سالہ تعاون خان ہلاک ہو ئے ۔ پیالہ ہوٹل کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 30 سالہ شخص ہلا ک ہوگیا ۔ کورنگی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے طوری خان کو زخمی کردیا اور موٹر سائیکل چھین لی ۔

سرجانی ۔ نیو کراچی ۔ نارتھ ناظم آباد ۔ اورنگی ٹاؤن ۔ پیر آباد ۔ کورنگی ۔ حیدری ۔ ناظم آباد ۔ کورنگی ۔ گلستان جوہر ۔ گلشن اقبال ۔ پاک کالونی ۔ بفرزون ۔ لیاقت آباد ۔ سائٹ ۔ شاہ فیصل کالونی ۔ اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے بسوں ۔ منی بسوں ۔ ٹرکوں ۔ سوزوکیوں ۔ موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کر دیا ۔

بُدھ 29 اپریل اور جمعرات 30 اپریل کی درمیانی رات

کراچی کے مختلف علاقوں میں رات گئے تک وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا ۔ کراچی میں مختلف علاقوں میں رات گئے آتشزدگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں ۔ذرائع کے مطابق نامعلوم افراد نے منگھوپیر میں واقع فیکٹری ۔ گلشن اقبال میں بیت المکرم مسجد کے قریب دکان ۔ شاہ فیصل کالونی میں رنگ ساز کی دکان اورگارڈن فوارہ چوک پر ایک مسافر بس کو آگ لگا دی

نامعلوم = یہ اُس گروہ کے لوگ ہیں کہ اگر اخبار والے اس کی نشاندہی کر دیں تو اُن کا دفتر اور اپنی جانیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ ان کی کچھ تشریح اس ضرب المثل سے ہوتی ہے “بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام ”

کراچی کے طالبان ۔ 2

بروز منگل بتاریخ 28 اپریل لیاری میں ایک گروپ نے کچھ دکانداروں کو بھتے کی پرچیاں دیں جس پر وہاں لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے مزاحمت کی جس پر جرائم پیشہ افراد نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس پر لوگ ہتھیار بند ہو کر بیٹھ گئے اور جب جرائم پیشہ افراد فائرنگ کرتے ہوئے آئے تو وہاں موجود افراد نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی جس کے بعد دو طرفہ فائرنگ شروع ہوگئی جس کے بعد علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور مسلح افراد جدید اسلحہ سے لیس ہو کر ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہے ، فائرنگ کے باعث سنگھو لائن پرانا کمہار واڑہ میں گولی لگنے سے 18 سالہ انعم دختر رجب علی ہلاک ہوگئی وہ گھر کی بالکونی میں موجود تھی، اور احمد شاہ بخاری روڈ پر 11سالہ آمنہ دختر ابراہیم فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی اور وہاں موجود اسد، ذیشان، اطہر، ندیم، کریم، بشیر اور محمد فاروق زخمی ہوگئے

آگرہ تاج کالونی میں بابو ہوٹل کے قریب 35 سالہ محمد انور گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا، 25 سالہ ندیم بلوچ، اور 22 سالہ اسد ولد پیر محمد ہلاک ہوگیا اور احمد شاہ بخاری روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 55 سالہ آدم ہلاک ہوگیا اور نور زیب، اسلم اور عامر زخمی ہوگئے ۔ نامعلوم افراد نے راکٹ فائر کیا جو مچھر کالونی میں صدام چوک کے قریب عبدالرشید کے گھر پر گرا جس سے خوفناک دھماکہ ہوا راکٹ چھت کو چیرتا ہوا گھر میں داخل ہوا جس سے مکان تباہ ہوگیا اور وہاں موجود 5 سالہ حیات اللہ ہلاک ہوگیا، 2 سالہ منورہ، 45 سالہ انوری بیگم،23 سالہ خدیجہ، راشدہ ستارہ خاتون اور حافظہ خاتون زخمی ہوگئی

اس واقعہ کے بعد علاقے کے لوگوں نے شدید احتجاج کیا اور پولیس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی جبکہ لیاری میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مچھر کالونی میں سلمان زخمی ہوگیا ، لیاری میں نامعلوم افراد نے مختلف مقامات پر ہینڈ گرینیڈ پھینک کر خوف و ہراس پھیلا دیا اور جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی ، پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، فائرنگ کے دوران کئی مساجد سے امن کیلئے اعلانات بھی کئے گئے اور فائرنگ بند کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

لیاری اور شاہ بخاری سے 3افراد کی لاشیں ملیں جن میں سے دو جلی ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں غنی، آفتاب اور ایک 30سالہ شخص شامل ہے۔ آفتاب اور غنی کرین آپریٹر ہیں دونوں گاڑی کھڑی کرکے آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے اغوا کرکے قتل کردیا

نامعلوم = یہ اُس گروہ کے لوگ ہیں کہ اگر اخبار والے اس کی نشاندہی کر دیں تو اُن کا دفتر اور اپنی جانیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ ان کی کچھ تشریح اس ضرب المثل سے ہوتی ہے “بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام “

بلوچستان ۔ اسلام آباد کسی کی نہیں سُنتا

سرکاری بیان
صدر صاحب اور دیگر حکومتی افراد نے بار بار کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ صوبائی گورنر کا تقرر صدر کرتا ہے اور وہ صدر ہی کا صوبے میں نمائندہ ہوتا ہے [گورنر وفاق کا نمائندہ اُس وقت بنے گا جب پارلیمنٹ کے اختیارات جو پچھلے صدر نے غصب کئے تھے وہ آئینی ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے جائیں گے] ۔

حقیقت
بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا ہے کہ اسلام آباد کسی کی بات نہیں سنتا ۔ معاملات کو اگر نہ سنبھالا گیا تو بلوچستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ نواب یا سردار حل نہیں کرسکتا بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وہ بلوچستان کے سلسلے میں وفاقی حکومت کو تجاویز دیتے ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام سے کی جانی والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے ۔ بلوچ جو مسائل بتا رہے ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلے بعد میں بڑے مسائل بن جاتے ہیں جس سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں مرکز کا نمائندہ ہوں لیکن مرکز نے کبھی بھی مجھے بلوچستان کے مسائل پر اعتماد میں نہیں لیا جب وہ مجھے اعتماد میں لیں گے تو ضرور بلوچستان اور یہاں پر رہنے والوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بات کروں گا

صوبہ سرحد ۔ اصل حُکمران کون ؟

سرکاری بیان
حکومتی اہلکاروں اور وزراء نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ دیر میں کاروائی وہاں کے عوام کی درخواست پر شروع کی گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹی وی پر اس کاروائی کے حق میں جن عوام کو بولتے دکھایا گیا اُن میں شامل تھیں اسلام آباد کی روشن خیال خواتین جو دوپٹے اور بالوں کو بوجھ سمجھ کر اُتار چُکی ہیں اور کنیئرڈ کالج لاہور کی طالبات جو اُردو کم اور انگریزی زیادہ بول رہی تھیں

حقیقت
دیر کے علاقے میدان میں فوجی آپریشن اور اس میں بے گناہ عوام کی ہلاکتوں کے خلاف منگل کے روز تیمرگرہ اور چکدرہ میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ اور شٹرڈاؤن کیا۔ مظاہرین نے کئی گھنٹے تک چترال روڈ بلاک کردی اور چکدرہ بازار میں دھرنا دیا۔تیمر گرہ میں مظاہرہ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق نے منعقد کیا جس سے تیمرگرہ امن جرگہ کے صدر حاجی محمد رسول خان، مظفر سعید و دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں دیر آپریشن کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ، آپریشن بند نہ کیا گیا تو عوام فوج کے خلاف اسلحہ اٹھانے پرمجبور ہوجائیں گے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور فوجی قیادت پر عائد ہوگی۔ مقررین نے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار کے اس بیان کی سخت مذمت کی کہ دیر میں فوجی آپریشن نہیں ہورہا ہے صرف جوابی کارروائی ہے۔

چکدرہ سے نمائندہ کے مطابق میدان میں فوجی آپریشن کے خلاف عوامی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ علاقے کے تمام چھوٹے بڑے بازار بند رہے، مظاہرین نے پیدل مارچ کرکے چکدرہ بازار میں دھرنا دیا اور مین چترال روڈ کو کئی گھنٹے بلاک کیا۔ احتجاجی مظاہرے سے سینیٹر مولانا گل نصیب خان، چیئرمین قومی جرگہ ہمایوں خان ایڈووکیٹ و دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے حکومت کی طرف سے ملاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشن کے عملی نفاذ میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے حکومت کو امن وامان تباہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہاکہ عوام افواہوں پر نہ جائیں ،جمہوری حکومت ڈکٹیٹر سے آگے بڑھ گئی اور انہوں نے ضلع دیر لوئر و اپر سے منتخب ہونے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے دو دن کے اندر میدان آپریشن بند کرنے اور مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل ریگولیشن کے عملی اقدامات فوری طورپر کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا بصورت دیگر ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا