میں وطنِ عزیز کے حالات اور اس سلسلے میں ہموطنوں کے کردار کے بارے میں گاہے بگاہے لکھتا رہا ہوں ۔ آج جس حال کو وطنِ عزیز پہنچ چکا ہے اس کی ذمہ داری حُکمرانوں اور سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن اس سب کا بنیادی ذمہ دار کون ہے اس کا ادراک اور اصلاح ازحد ضروری ہے ۔ اصل وجہ کی طرف جانے کیلئے 62 سال کی سیاسی تاریخ کا مختصر سا جائزہ ضروری ہے
قوم 1947ء میں کئے گئے مسلمانوں کے قتل وغارت کے نتائج سے ابھی سنبھلی نہ تھی کہ قائداعظم چل بسے ۔ پھر پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم قتل کر دیئے گئے ۔ پھر پورے ہند کے مسلمانوں کی منتخب کردہ اسمبلی توڑ دی گئی ۔ وہ سیاستدان جنہوں نے صدق دل سے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا اُنہوں نے قانونی جنگ لڑی جو عدالتِ اعلٰی کی سطح پر جیت لی مگر عدالتِ عظمٰی کا سربراہ منیر جو گورنر جنرل غلام محمد کا ہم نوالا اور ہم پیالہ تھا ڈنڈی مار گیا ۔ اس کے بعد غلام محمد اور سکندر مرزا اپنی باری پر پُتلی کا تماشہ کرتے رہے ۔ 1958ء میں ایک پختون عبدالقیوم خان نے اس مطلق العنانی کے خلاف آواز اُٹھا کر پشاور سے لاہور تک 6 میل لمبا جلوس نکالنے کا اعلان کیا ۔ قوم تحریکِ پاکستان کے بعد پہلی دفعہ اُٹھی ۔ پشاور سے جلوس روانہ ہوا جہلم پہنچنے سے پہلے 21 میل لمبا ہو گیا ۔ حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔ ایک بار پھر قانون کا غلط استعمال ہوا اور اسے جائز قرار دیدیا گیا جو کہ آج تک معمول بنا رہا
سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کر کے نئی پنیری لگائی گئی ۔ دوستیاں نبھاتے ہوئے نئے چہرے سیاست میں متعارف کرائے گئے جن میں سکندر مرزا کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھا ۔ معاشی منصوبہ بندی کسی طرح پٹڑی پر رہی اور عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی رہی ۔ پھر جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کیا گیا اور نہ صرف ہزیمت اُٹھانا پڑی بلکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ افواج قوم کے تعاون سے بے جگری سے لڑیں اور ملک کو بچا لیا ۔ پہلی بار بڑی طاقت سوویٹ روس جو جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتی تھی اور کئی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے پر تیار ہو گئی ۔ یہ بات جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے کو پسند نہ آئی جس پر اُسے وزارت سے ہٹایا گیا ۔ اُس نے توڑ پھوڑ کی سیاست شروع کی جس کیلئے طلباء رہنماؤں کو 2000 روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا ۔ ان میں راولپنڈی کا شیخ رشید احمد بھی شامل تھا ۔ مارشل لاء پھر لگا دیا گیا ۔ اس دور میں ترقی رُک گئی اور ملک کے حالات بالخصوص مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے
ذوالفقار علی بھٹو کو قید کیا گیا تو اُسے غلام مصطفٰے گھر کی صحبت ملی اور وہ لیڈر بن گیا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آ کر اُسے رہا کیا گیا ۔ انتخابات کا اعلان ہونے پر مشرقی پاکستان میں “سونار بنگلہ اور پنجابی کھا گیا” کا نعرہ لگایا گیا اور مغربی پاکستان میں محروم عوام اور مادہ پرست لوگوں نے “روٹی کپڑا مکان” کے نعرے میں بہت کشش محسوس کی ۔ عام تاءثر ہے کہ 1970ء کے انتخابات منصفانہ تھے لیکن جو لوگ اس عمل سے منسلک رہے وہ جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن حکومتی اداروں کی بے رُخی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھونس دھاندلی کے ذریعہ بھاری اکثریت لے گیا ۔ مغربی پاکستان میں باقی علاقوں کا تو مجھے علم نہیں ضلع راولپنڈی کے کچھ علاقوں کا میں شاہد ہوں کہ کس طرح دھمکیوں کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈلوائے گئے ۔ نتیجہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے نامنظور کرتے ہوئے” اُدھر تُم اِدھر ہم ” کا نعرہ لگا دیا
حُکومتی اداروں کی خودغرضیوں اور بے حِسی کے سبب یحیٰ خان کے تین سالوں میں بھارت نے سرحدوں کی جغرافیائی موافقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں اپنے سینکڑوں ایجنٹ اور کمانڈو داخل کر دیئے تھے جن کیلئے مجیب الرحمٰن سودمند ثابت ہوا ۔ یحیٰ بھٹو گٹھ جوڑ کے بعد مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے کی بجائے قید کر کے مشرقی پاکستان میں اچھے اور بُرے کی تمیز کے بغیر فوجی کاروائی نے حالات خطرناک بنا دیئے ۔ موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے حملہ کر دیا ۔ نہ صرف حکمران بلکہ پاکستانیوں کی اکثرت امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا تصور لئے مطمئن بیٹھے رہے ۔ دیسی شیر کہلانے والے جرنیل نے قید کو شہادت پر ترجیح دیتے ہوئے 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار ڈال دیئے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق یحیٰ خان کو 12 دسمبر 1971ء کو صدارت سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ 12 دسمبر سے ذوالفقار علی بھٹو کے صدر بننے تک کون حکومت چلاتا رہا یہ راز بھی اُسی طرح نہیں کھُل سکا جس طرح غلام محمد کے مکمل مفلوج ہونے کے بعد سے سکندر مرزا کے گورنر جنرل بننے تک گورنر جنرل کے دستخط کون کرتا رہا ۔ قصہ کوتاہ ۔ مشرقی پاکستان میں صفر اور مغربی پاکستان میں سیاستدانوں کی ناچاقی کے نتیجہ میں 33 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو بقیہ پاکستان کا اکثریتی راہنما ٹھہرا اور پاکستان کا صدر اور دنیا کا پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بقیہ پاکستان کو بڑا پاکستان [Greater Pakistan] کا نام دیا
عوامی دور میں صنعتی اور تعلیمی ادارے ماسوائے اُن کے جو غیرملکی چلا رہے تھے بغیر مناسب منصوبہ بندی کے قومی تحویل میں لے کر اُنہیں چلانے والوں کو چلتا کیا گیا اور اُن کی جگہ سیاسی بھرتیاں کی گئیں ۔ دفاتر اور عدالتوں میں انتظامی اصلاحات کے نام پر اپنے حمائتیوں کو براہِ راست بھرتی کیا گیا جن کی اکثریت اس قابل نہ تھی ۔ اگلے انتخابات میں باوجود جیتنے کی اُمید ہوتے ہوئے لالچ کے تحت بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کی گئی ۔ احتجاج کو گولی کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی ۔ لاہور میں درجنوں لاشیں گریں ۔ احتجاج زور پکڑ گیا اور پھر مارشل لاء نافذ ہو گیا ۔ ضیاء الحق نے بڑی سیاسی غلطی یہ کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھوا دیا ۔ اس مارشل لاء کے دوران امریکا نے اپنے دیرینہ حریف کو نیچا دکھانے کی خاطر ہماری سرزمین ۔ عوام اور حکومت کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی ۔ اسی دوران ضیاء الحق نے افغانستان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو اُسے مع اُس کے قریبی ساتھیوں کے ہوائی حادثے میں مروا دیا گیا
پھر انتخابات ہوئے اور کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی ۔ صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے مطابق اکثریت دکھانے کی دعوت دینے کی بجائے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کر دیا اور بے پیندے کے لوٹے لُڑھک کر اُس کی طرف چلے گئے ۔ ابھی سال ہی گذرا تھا کہ مردِ اول کی کارستانیوں سے لوگ پریشان ہونے لگے ۔ وزیراعظم اور صدر کے اختلافات بڑھے اور حکومت جاتی رہی ۔ اگلے انٹخابات میں میاں محمد نواز شریف اکثریت لے کر آئے مگر جرنیل کی فرماں برداری نہ کرنے پر اُسے اور صدر دونوں کو گھر بھیج دیا گیا ۔ اگلی بار پھر بینظیر بھٹو کی حکومت بنی مگر اپنے بنائے ہوئے صدر اور مردِ اول کی جھڑپ کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور نواز شریف تین چوتھائی اکثریت سے سامنے آئے ۔ جرنیل نے قومی سلامتی کونسل کی تجویز پیش کی ۔ سیاستدانوں کو اس کی آڑ میں آئینی فوجی حکمرانی کو تحفظ ملتا محسوس ہوا ۔ اس پر جرنیل کو مستعفی ہونا پڑا ۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے اور پھر پاکستان کو دھمکیاں دینے کے نتیجہ میں ایٹمی دھماکہ کیا اور اور عوام نے بہت سراہا مگر کچھ ہموطنوں اور اُن کے غیرمُلکی آقاؤں کو یہ ادا پسند نہ آئی ۔ جب پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا گیا تو اُسے ہیرو بننے کی سوجھی ۔ کرگل کا محاظ کھول دیا اور ہزیمت اُٹھائی ۔ پارلیمنٹ میں انکوائری کی صدا بلند ہوئی تو ہائی جیکنگ کا جھوٹا بہانہ بنا کر وزیرِ اعظم اور اس کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا گیا ۔ امریکا کی تابعداری اختیار کی اور قوم اور مُلک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ صرف اسی پر بس نہ کیا ۔ جس کی طرف اشارہ ہوا اُٹھا کر امریکا کے حوالے کر دیا ۔ اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے اپنے ہموطنوں کا قتلِ عام شروع کیا یہاں تک کہ ڈاماڈولا کے مدرسہ کے 70 سے زائد کم سن لڑکوں اور اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی سو سے زائد 4 سے 17 سال کی بیگناہ بچیوں کو بھون کے رکھ دیا ۔ چودہ ماہ قبل کے انتخابات سے ایک بار پھر کم از کم نام کی جمہوریت آئی لیکن ابھی تک کوئی جمہوری کام ہوتا نظر نہیں آیا
اس سب ظُلم و ستم اور قوم و مُلک کے انحطاط کا بنیادی ذمہ دار کون ہے ؟
کیا بھارت ہے ؟ یا افغانستان ؟ یا امریکا ؟ ٹھیک ہے کسی حد تک یہ سب بھی ذمہ دار ہیں لیکن اُن کا تو یہ سیاسی منصوبہ اُن کے اپنے قومی یا سیاسی مفاد کیلئے منفی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ مگر وہ اپنی ان کاروائیوں میں کامیاب آخر کیونکر ہوئے ؟ اس کا بھی جائزہ ضروری ہے لیکن اب میں تھک گیا ہوں اور کچھ اور کام بھی کرنا ہے ۔ کل میں نے ہفتہ بھر کا سودا لانا ہے اور دوسرے کام بھی ہیں ۔ باقی اِن شاء اللہ بُدھ 29 اپریل کو