کیری لوگر لاء ۔ ڈی ایچ اے اور غریب

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں کے کنارے پرویز مشرف دور میں قائم کی جانے والی ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم جس میں صرف بڑے بڑے دولتمند ہی پلاٹ خرید کر سکتے ہیں اس میں امریکی امداد سے غریب بچوں کیلئے سکول اور غریبوں کیلئے ہسپتال بنانا ایک لطیفہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے ۔ ایک حقیقت کا انکشاف

انہوں نے بتایاکہ کیری لوگر بل کے تحت ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی راولپنڈی میں غریبوں کے لئے اسکول اور اسپتال بنایا جائے گا تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟
میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ہے؟
موصوف نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ سینیٹر جان کیری کے دوست شاہد احمد خان کا ہے جو بوسٹن میں رہتے ہیں اور انہوں نے کیری لوگر بل کی منظوری میں دن رات ایک کردیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کیری لوگر بل کے اس حامی سے پوچھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں غریبوں کی خدمت کرنے کے لئے آپ غریب کہاں سے لائیں گے؟”
یہ سن کر وہ بھائی صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ شاہد احمد خان کروڑوں ڈالر راولپنڈی لارہا ہے اور آپ اس کا مذاق اڑارہے ہیں ۔ آپ دراصل پاکستانیوں کو قومی غیرت کے نام پرگمراہ کررہے ہیں اور ”غیرت لابی“ پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے

میں نے جواب میں کہا کہ ”غیرت لابی“ کی مخالف تو کوئی ”بے غیرت لابی“ ہوسکتی ہے یہ بتایئے کہ آپ کون سی لابی میں شامل ہیں؟
یہ سن کر انہوں نے فتویٰ صادر کیا کہ ”غیرت لابی“ کی وجہ سے پاکستان بہت جلد ٹوٹ جائے گا اور یہ کہہ کر وہ انگریزی میں اول فول بکتے ہوئے میرے دفتر سے چلے گئے

مجھے شاہد احمد خان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن وہ صرف جان کیری کے نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری کے بھی دوست ہیں لہٰذا انہیں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کو دیئے جانے والے فنڈز سے دور رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ یہ احتیاط نہیں کرسکتے تو پھر انہیں یا کیری لوگر بل کے فنڈز سے مستفید ہونے والی این جی اوز کو ”غیرت لابی“ اور ”بے غیرت لابی“ کی بحث نہیں چھیڑنی چاہیئے

مندرجہ بالا چند سطور ہیں ایک مضمون کی جو یہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

ہم بھی اہلِ قلم ہو گئے

آج میں انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہا تھا کہ نظر آیا “تحریک آزادی جموں کشمیر”۔ یہ میرے محبوب موضوعات میں سے ایک ہے سو تلاش کو چھوڑ کر اسے پڑھنے لگا اور خود پر ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔ کیوں ؟ یہاں کلِک کر کے معلوم ہو سکتا ہے

اُس نے دسویں پاس کی تو 11 سال کی تھی

خاتون کی تفصیل رقم کرنے سے پہلے کچھ قوانین کا حوالہ ضروری ہے ۔ جس زمانہ کا یہ ذکر ہے اُن دنوں 13 سال سے کم عمر کے طالب یا طالبہ کو دسویں جماعت کا امتحان دینے کی اجازت نہ تھی ۔ سرکاری ملازم 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتا ہے

اُسے 2008ء میں ریٹائر کیا گیا تو اُس نے فیڈرل سروس ٹربیونل میں درخواست دائر کر دی کہ اُسے وقت سے قبل ریٹائر کر دیا گیا ہے
محکمہ نے ثبوت پیش کیا کہ محترمہ نے ملازمت شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ سے جو فارم پُر کیا تھا اُس میں اپنی تاریخ پیدائش 23 مارچ 1948ء لکھی تھی
اُس کا خاوند وقت کے حاکم کے بہت قریب تھا چنانچہ اس وقت کی عدالت [پی سی او ججز] سے فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا
محکمہ نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کر دی
اس نے عدالت میں بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس میں اس کی تاریخ پیدائش 22 مارچ 1952ء درج ہے جس کی بنیاد پر اس نے پی سی او چیف جسٹس کی وساطت سے بغیر اس سرٹیفیکیٹ کی پڑتال کے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا
ابھی مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ہونا تھی کہ دنیا نے پلٹا کھایا اور 15 مارچ 2009ء کو پی سی او ججز برطرف اور اصل ججز بحال ہو گئے
محکمہ کے پاس بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کا جاری کردہ سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ ہے جو اس نے ملازمت شروع کرتے وقت محکمہ میں جمع کرایا تھا جس پر تاریخ پیدائش 22 مارچ 1946ء لکھی ہے

تو جناب اب بنے گا کیا محترمہ فہمیدہ کے ساتھ جو اپنے آپ کو حق کا علمبردار کہنے والے ماہرِ قانون احمد رضا قصوری کی بیوی ہے

مزید تفصیلات 13 نومبر 2009ء کے اخبار “دی نیوز” میں پڑھیئے

تم جو بھی ہو ۔ ۔ ۔

میں نے 9 نومبر 2009ء کو اپنے بڑے بیٹے زکریا کے دوست انعام الحسن کے خاندان کا ذکر کیا تھا ۔ انعام الحسن کی ایک بہن جو سپیشلسٹ ڈاکٹر [Consultant Endocrinologist, The Aga Khan University Hospital, Karachi] ہیں اور کراچی میں رہتی ہیں نے تین چار ہفتے قبل ایک نظم بھیجی تھی جو نظرِ قارئین ہے

اس گلشن ہستی میں لوگو۔ تم پھول بنو یا خار بنو
تم جو بھی ہو ۔ تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

دنیا میں رستے دو ہی تو ہیں
اک کُفر کا ہے اک اسلام کا ہے
یا کُفر لگا لو سینوں سے
یا دین کے پہرے دار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

کیوں حیراں ہو دوراہے پر
اک راہ پے تم کو چلنا ہے
اسلام کا ۔ یا تو نام نہ لو
یا جراءت کا معیار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

ذلت سے جہاں میں جی لو تم
یا جامِ شہادت پی لو تم
یا بُزدل ہو کے چھپ جاؤ
یا ہمت کی تلوار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

اک سمت گروہ فرعون کا ہے
اک سمت خدا کے عاشق ہیں
تم حق والوں سے مل جاؤ
یا باطل کے دلدار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

اک سمت روش بو جہل کی ہے
اک سمت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اُسوہ ہے
یا جھیلو آگ جہنم کی
یا جنت کے حقدار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

یہ وقت نہیں ہے چھپنے کا
اب اصلی روپ میں آ جاؤ
تم دین کے پہرے دار بنو
یا فرعونوں کے یار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

یہ ذوق تمہارا کتنا ہے
یہ فیصلہ اب تو ہو جائے
یا ساغر آب کوثر کے
یا مغرب کے مہ خوار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

دہشتگرد کون ؟

پاک بحریہ نے 1994ء میں تین فرانسیسی سب میرین خریدی تھیں ۔ ایک فرانسیسی اخبار کے مطابق صدر زرداری نے ان سب میرینوں کی خریداری پر 43 لاکھ ڈالرز وصول کیے۔ رپورٹ کے مطابق سال2001 میں برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کے قومی احتساب بیورو کو بھیجی گئی دستاویزات میں صدر زرداری کے سوئس بینک اکاؤنٹس میں لبنان کے سرمایہ کار عبدالرحمان العسیر کے ذریعے بڑی رقم منتقل ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا ۔ یہ رقم سال1994ء اور1995ء کے دوران ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی تھی ۔ فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے سابق ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ فرانس کے حکام نے العصیر کو اس ڈیل میں مددگار کے طور پر چنا تھا ۔ جس نے مبینہ طور پر معاہدے سے ایک ماہ قبل 15 اگست1994 سے 30 اگست کے دوران صدر زرداری کے اکاؤنٹس میں 13 لاکھ ڈالرز جمع کرائے ۔ معاہدے پر دستخط کے ایک سال بعد 12 لاکھ اور 18 لاکھ ڈالرز جمع کرائے گئے ۔ طے کی گئی رقم مکمل ادا نہ کرنے پر ہی کراچی میں8 مئی2002 کو فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے 11 ملازمین کو دہشتگرد حملے میں ہلاک کردیاگیا ۔ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی کمپنی کے ملازمین نے دہشت گردی کے اس واقعہ کی تفتیش کے دوران بتایا کہ معاہدے کے تحت خریدی جانے والی آبدوزوں کی قیمت کا 10 فیصد حصہ کمیشن کے طور پر دیا جانا تھا ۔ جس میں 6 فیصد یعنی49.5 ملین ڈالرز فوج اور 4 فیصد یعنی33 ملین یوروز سیاسی حلقوں کو کمیشن کے طور پر دینا تھا ۔ سال 2001ء میں پاک بحریہ کے سابق چیف آف اسٹاف منصور الحق کو اس ڈیل میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر ستر لاکھ ڈالرز واپس دینے کے لیے دباؤ بھی ڈالاگیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر آصف زرداری ملک کے امیر ترین آدمی ہیں ایک اندازنے کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت1.8 ارب ڈالرز ہے۔آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے سے چند ماہ قبل اپریل2008 میں ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیے گئے تھے

بشکریہ ۔ جنگ

عورت ۔ ۔ ۔ مرد کی زندگی میں

جب میں اس دنیا میں آیا تو عورت نے مجھے گود لیا ۔ ۔ ۔ میری ماں
جب میں اپنے پاؤں چلنے لگا تو عورت نے میرا خیال رکھا اور میرے ساتھ کھیلا ۔ ۔ ۔ میری بہن
جب میں پڑھنے لگا تو مجھے عورت نے پڑھنا سکھایا ۔ ۔ ۔ میری اُستاذہ
جب میں جوانی میں دُکھ کا شکار ہوا تو میرا غم عورت نے بانٹا ۔ ۔ ۔ میری بیوی
جب میں بڑھاپے میں چڑچڑا ہوا تو مجھے مسکراہٹ عورت نے دی ۔ ۔ ۔ میری بیٹی
جب میں مروں گا تو مجھے عورت ہی اپنی آغوش میں لے لے گی ۔ ۔ ۔ میرے وطن کی مٹی

اللہ کے بندے

ساڑھے 21 سال قبل ہمارا ایک خاندان سے تعارف ہوا اور چند ہی سالوں میں وہ لوگ ہم سے گھُل مِل گئے ۔ عظیم الدین صاحب کی وفات کا سُن کر جب ہم ان کے گھر پہنچے تو وہاں کسی کے رونے کی آواز نہیں آ رہی تھی اور گھر میں سب قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے ۔ اُن کے بیٹے انعام الحسن سے گلے مل کر میں نے دکھ کا اظہار کیا تو اُس نے کہا ” اللہ کی مرضی ہے ۔ بس آپ دعا کیجئے”۔ بعد میں بھی جب ملاقات ہوئی تو ان کے گھر کے ہر فرد نے یہی کہا “دعا کیجئے”۔

عظیم الدین صاحب اول درجہ کے شریف اور قناعت پسند شخص تھے اور ویسا ہی میں نے ان کے بچوں کو پایا ۔ عظیم الدین صاحب تبلیغِ دین کے رسیا تھے اور اُن کے بعد یہ کام اُن کے بیٹے انعام الحسن نے اپنا فرض سمجھا

انعام الحسن میرے بڑے بیٹے زکریا کا سکول کے زمانہ میں بارہویں تک ہمجماعت تھا [اب بال بچے دار ہے] ۔ وہ بہت ذہین اور محنتی طالب علم تھا ۔ انعام الحسن کے والد عظیم الدین صاحب جن سے بچوں کی وجہ سے میری علیک سلیک ہو چکی تھی 1988ء میں اچانک دل کا دورہ پڑنے کے دو دن بعد فوت ہو گئے ۔ عظیم الدین صاحب بھارت کے صوبہ بہار سے 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور اُن کا بیوی بچوں کے علاوہ پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہ تھا اور نہ کوئی جائیداد تھی ۔ انعام الحسن بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور جب اس کے والد فوت ہوئے تو ابھی اس کا بارہویں جماعت کا نتیجہ نہیں آیا تھا ۔ والد کی تنخواہ کے علاوہ اُن کے خاندان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ۔ وہ سرکاری گھر میں رہتے تھے جو انہیں 6 ماہ بعد خالی کرنا تھا

ایسی صورتِ حال میں بظاہر چاروں طرف اندھیرا تھا لیکن اس خاندان نے اللہ پر بھروسہ رکھا اور ہمت باندھ کر محنت کی ۔ خاص کر انعام الحسن کا کردار بہت عمدہ رہا ۔ اللہ کی مہربانی سے یہ گھرانہ مثالی ثابت ہوا اور ظاہر ہے کہ اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اللہ پر یقین رکھیں اور اپنی مدد آپ کریں ۔ انعام الحسن کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ دو بہنیں ڈاکٹر ہیں جن میں سے ایک سپیشلسٹ ہے ۔ ایک بہن ایم ایس سی ہے ۔ بھائی نے بی سی ایس کیا اور خود انعام الحسن ایم ایس سی انجنیئرنگ ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟ یہ سمجھ آنا تو مشکل ہے ہی ۔ اس کی تفصیل بیان کرنا بھی مشکل ہے ۔ علامہ اقبال صاحب کے شعر کو مروڑ کر میرا دسویں جماعت میں بنایا ہوا شعر شاید کچھ اشارہ دے سکے

یقینِ مُحکم عملِ پَیہم پائے راسخ چاہئیں
اِستقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو