سفير کا خاندانی سکول

مُلک سُوريا جسے اُردو میں شام اور انگریزی میں Syria کہتے ہيں کے شہر دمشق میں ایک پاکستانی سکول کئی سالوں سے قائم ہے جو بنيادی طور پر پاکستانی بچوں کيلئے قائم ہوا تھا اس کے اعلٰی تدريسی معيار کی وجہ سے دوسرے ممالک کے بچے بھی اس سے مستفيد ہونے لگے تھے اور طلباء و طالبات کی تعداد 600 سے بڑھ کر 1100 تک پہنچ چکی تھی

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری صاحب نے ستمبر 2009ء ميں اپنے ایک چہيتے امين اللہ رئيسانی کو شام کا سفير بنا ديا ۔ امين اللہ رئيسانی نے بغير کسی جواز اور بغير کسی پيشگی اطلاع کے متذکرہ سکول کے سارے اساتذہ اور سٹاف کو فارغ کر کے تمام اساميوں پر اپنے قريبی رشتہ داروں کو دو سے تين گنا تنخواہوں پر تعينات کر ديا جس کی کچھ تفصيل يہ ہے

اپنی بہن سعيدہ ياسمين رئيسانی کو 6500 ڈالر ماہانہ پر سکول کا پرنسپل لگا ديا جبکہ سابقہ پرنسپل 2500 ڈالر ماہانہ ليتا تھا

اپنی دوسری بہن مسز عباس کو 3500 ڈالر ماہانہ پر اُردو کی اُستانی لگا ديا
اپنی دو بيٹيوں آمنہ امين اللہ رئيسانی اور قرة العين امين اللہ رئيسانی کو فی کس 3000 ڈالر ماہانہ پر اُستانياں لگا ديا
اپنی بہن کی پوتی نائلہ عتيق کو 3000 ڈالر پر رياضی کی اُستانی لگا ديا

متذکرہ بالا اساتذہ کی اساميوں پر سابقہ اساتذہ 1700 ڈالر ماہانہ ليتے تھے

اپنے بھتيجوں يا بھانجوں عتيق الرحمٰن اور سيّد محمد علی میں سے ہر ايک کو 3000 ڈالر ماہانہ پر بزنس ٹيچر تعينات کر ديا
اپنی بہن کے داماد علی عبداللہ اور کزن محمد احسن شفيق ميں سے ہر ايک کو 3000 ڈالر ماہانہ پر اُستاذ لگا ديا

متذکرہ بالا چاروں اساميوں پر سابقہ اساتذہ 1500 ڈالر ماہانہ پر کام کر رہے تھے

اپنے بہنوئی محمد اسحاق کو 3500 ڈالر ماہانہ پر اکاؤنٹنٹ بنا ديا جبکہ سابقہ اکاؤنٹنٹ 900 ڈالر ماہانہ کے عوض کام کرتا تھا

ماخذ ۔ دی نيوز

اظہارِ خيال کيجئے

مندرجہ ذيل خبر پر حقائق اور مُستند اعداد و شمار کے ساتھ اظہارِ خيال کيجئے
انتباہ ۔ جوشيلی يا جذباتی تقارير سے پرہيز کيجئے کہ یہ بے سود ہوں گی

حقيقت ۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں

خبر ۔ عالمی سطح پر بیشتر زبانوں کو لاحق خطرات میں یا تو اضافہ ہو رہا ہے یا وہ ناپید ہوچکی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی 36 فیصد مادری زبانوں کے خاتمے کا خطرہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پنجابی دنیا میں بولی جانے والی بارہویں اور اردو بيسویں بڑی زبان ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں چینی، ہسپانوی، انگریزی، عربی، ہندی اور بنگالی ہیں

مکمل مضمون يہاں پڑھيئے

گُمنام نظم

اس سے ملتی جلتی نظم میں 10 ماہ قبل يہاں پڑھی تھی ليکن بنيادی طور پر اصل نظم کسی گمنام شاعر نے لکھی تھی

جب باپ کی عزت کم ہو جائے ۔ ۔ ۔ جب قوم کی غیرت سو جائے
جب مرد و زن کلبوں کو جائيں ۔ ۔ ۔ اور بھائی بہنوں کا حق کھائيں
جب ماں کی نظریں جھُک جائیں ۔ ۔ ۔ الفاظ لبوں تک رُک جائیں
جب گھر گھر میں سُر تال چلے ۔ ۔ ۔ جب عورت ننگے بال چلے
جب رِشوت سر چڑھ کر بولے ۔ ۔ ۔ اور تاجر جان کے کم تولے
جب یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ رب غافِل ہے نہ سوتا ہے
جب وہ پھر پکڑ پہ آتا ہے ۔ ۔ ۔ قارون زمیں میں دھنس جاتا ہے
فرعون بھی غوطے کھاتا ہے ۔ ۔ ۔ عاد بھی زیر و زبر ہو جاتا ہے
قرآن میں اس کی خبر ہوئی ۔ ۔ ۔ یہ سب عبرت کو ہے کافی
آج مانگ لو اللہ سے معافی ۔ ۔ ۔ آج مانگ لو اللہ سے معافی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

ایک قابلِ غور تبصرہ

جاوید گوندل صاحب سیر حاصل تبصرے کرنے والے کے طور جانے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا تھا جسے میں اُن کی اجازت سے ایک عمومی مضمون کی صورت میں ڈھالنے کیلئے معمولی عبارتی ترامیم کے بعد نقل کر رہا ہوں ۔ مضمون کا مفہوم من و عن ویسا ہی ہے ۔ میں اسلام آباد چلا گيا تھا اسلئے لکھنے ميں دو ہفتے تاخير ہو گئی

نامعلوم کچھ لوگ کيوں جان بوجھ کر کسی بھی موضوع کو متنازع بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ توجہ دیں اور وہ کامیاب مصنف بن جائیں یا نہائت سادگی اور انجانے میں اسلام بیزار طبقے کی نمائندگی میں بہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کوئی بھی ہو کسی طرح گھسیٹ گھساٹ کر اُسے کچھ مشہور واقعات کو بیچ میں لاتے ہوئے پاکستان کے حوالہ سے اچانک جہاد اور دہشت گردی میں فرق بیان کئے بغیر ایسی تاویلات کو گھسیٹ لاتے ہیں جن کا کوئی سر پیر موضوع سے نہیں جڑتا اور پھر ایک ہی سانس میں ایک ہی پیرایہ میں حیات بعد از زندگی اور جہاد جیسی انتہائی حساس دینی اساس اور اسلام کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان کے جزو لاینفک کو نشانہِ ستم بنایا جاتا ہے

حالانکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد از زندگی کے علاوہ جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے دنیا میں زندہ رہنے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مزید لوازمات کے ساتھ تعلیم اور اعلٰی فکر بھی ضروری ہے اور اسلام بھی اسی بات کی دعوت فکر دیتا ہے ۔ نیز پاکستان میں جاری ننگی دہشت گردی سراسرغیر اسلامی ہے ۔ اس کا اسلام کے اہم فریضے جہاد سے کوئی تعلق نہیں

مناسب نہیں کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسلام کے نام لیواؤں پہ تنقید کرتا رہے کہ انہوں نے تعلیم کے لئے یہ نہیں کیا یا انہیں تعلیم کے لئیے یوں کرنا چاہئیے تھا ۔ جبکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ پاکستان کے وسائل پہ بلا شرکت غیرے تصرف اور دسترس رکھتا ہے ہر دم اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف چوکس رہتا ہے ۔ پاکستان میں یہ طبقہ پاکستان کے دوسروں شعبوں کی طرح پاکستانی تعلیمی شعبے میں بھی پاکستانی قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بدلے گرانقدر مشاہرے اور مراعات پاتا ہے یعنی اپنی قیمت پوری وصول کرتا ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان کے لئے کسی قابلِ عمل سرکاری تعلیمی پالیسی کو باسٹھ سالوں سے وضح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی نسبت سے جن پہ پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ کرنے کی پالسیز بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود انہوں نے پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں کسی میدان میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے بیان کیا جاسکےِ ؟

پاکستان میں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری مدراس یا ان لوگوں پہ نہیں آتی جو ریاست سے ایک پائی لئے بغیر اپنی سی سعی کر رہے ہیں بلکہ یہ ذمہ داری کسی بھی عام سے ملک کی طرح حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پہ عائد ہوتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں محض نمود نمائش یا من پسند افراد کا روزگار لگانے کے سہل طریقوں کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے شہریوں کو تعلیم و شعور سے روشناس کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں اور پچھلے باسٹھ سالوں سے پاکستانی حکومتوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح حصول تعلیم میں جو غفلت پاکستانی عوام کے بارے میں برتی ہے وہ ناقابل معافی اور ناقابلِ بیان ہے

یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ لندن میں دہشت گردی کے سانحے میں ملوث افراد کا پاکستانی مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ حال میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے جو پانچ امریکی گرفتار ہوئے وہ امریکن تھے اور امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کی ایک بڑی اکثریت مغربی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہے ۔ تو کیا ایسے افراد کو دہشت گردی پہ مائل کرنے میں مغربی یونیورسٹیز کو قصوروار گردانا جائے ؟ حکومت پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے امریکی اداروں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے خام مال بکثرت ملنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب غریبی ۔ مفلوک الحالی اور معاشرے میں پائی جانے والی شدید فرسٹریشن ہے ۔ اسکے باوجود تنظیم المدارس اور دوسری تنظیموں کا مؤقف یہ ہے اگر کسی ادارے کے کچھ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شُبہ ہو تو ان کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے مگر اسکا قصور پاکستان کے سب مدارس پہ مت ڈالا جائے

ان مدرسوں یا ان جیسے اداروں نے پاکستان کی غریب آبادی کی خاصی تعداد کو مفت رہائش اور مفت کھانے کے ساتھ تعلیم سے آراستہ کیا ہے جو کہ کُل خواندہ آبادی کا 35 فیصد بنتا ہے اور جو ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی ۔ کسی بھی معاشرے میں اگر ریاست کے اندر ریاست قائم ہوتی ہے یا لوگ قانون و عدلیہ پہ اعتماد کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگتے ہیں تو اس کا سبب ریاستی اداروں کی بدنظمی ، غفلت ، بد دیانتی اور نااہلی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست مطلوبہ فرائض پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور پاکستان میں باسٹھ سالوں سے ریاستی اداروں اور انکے وسائل پہ قابض لوگ کون ہیں اس بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ہوں مگر پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی نہیں کرتے مگر پاکستان کی اکثریت کے وسائل پہ بے جا تصرف رکھتے ہیں ۔ ہاں مدرسوں میں حصول تعلیم کے طریقہ کار پہ بحث کی جاسکتی ہے مگر مدرسوں کے منتظمیں کے خلوص نیت پہ شک نہیں کیا جاسکتا

پاکستان میں غرباء کی مدد کرنے والے بجائے خود غریب مگر مسلمان لوگوں کے خلاف اگر کسی کے کوئی ذاتی یا خاص مقاصد نہیں تو ایسے میں پاکستان میں مفت تعلیمی ادارے چلانے والوں کو الزام دینے کی بجائے ایسے فلاحی اداروں کی ستائش کرنی چاہئیے جو حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کے فرائض پورے کرنے میں ریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حکومت مناسب رہنمائی اور مدد کرے تاکہ یہ ادارے اور مدرسے پاکستان کی قومی اور تعلیم کی جدید اسپرٹ میں شامل ہو سکیں

ساڈا چوہدری شیر اے

پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے آج بدھ شام پونے سات بجے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ایک طویل ملاقات کے بعد چیف جسٹس کی سفارشات کو منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کے علاوہ جسٹس آصف کھوسہ کو بھی سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کو جو حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں ایک سال کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا وہ نوٹیفیکیشن جو پہلے جاری کیا گیا تھا اس کی جگہ ایک نیا نوٹیفیکیشن لے گا جو آج رات جاری ہو جائے گا ۔ وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ ججوں کی خالی آسامیاں کو فوراً پر کیا جا رہا ہے

پابندی ختم

اوّل میں اپنے اللہ کا شکر گذار ہوں جو مالک و قادر ہونے کے ساتھ مہربان اور رحم و کرم کرنے والا ہے
پھر تاخير کی معذرت کے ساتھ ميں اپنے مہربانوں کا شکرگذار ہوں جنہوں نے ميری مدد کی جن میں بالخصوص محمد اظہرالحق ۔ حيدرآبادی ۔ خرم شہزاد خرم ۔ عمر احمد بنگش ۔ ڈاکٹر ارشاد علی اور محمد سعید پالن پوری صاحبان شامل ہيں

وسط دسمبر 2009ء میں ميرے اس بلاگ پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں پابندی لگا دی گئی تھی ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کسی بارسُوخ مہربان نے شکائت کی تھی کہ ميرا بلاگ پورنوگرافک ہے ۔ محمد اظہرالحق صاحب نے نہ صرف اُنہیں لکھا بلکہ ٹيليفون پر بھی متعلقہ اہلکار سے بات کی جو بے نتيجہ رہی ۔ اُنہوں نے مجھے لکھا تو میں نے کئی بار اتصالات متحدہ عرب امارات کو لکھا اور عمر احمد بنگش صاحب نے بھی لکھا مگر بے سود ۔ اسی دوران سعودی عرب سے حيدرآبادی صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ ميرا بلاگ سعودی عرب میں نہیں کھُل رہا ۔ سعودی عرب کے ادارہ کو حيدرآبادی صاحب نے درخواست کی اور مجھے بھی ايسا کرنے کا مشورہ دیا پھر محمد سعید پالن پوری صاحب نے عربی میں سعودی عرب کے ادارہ کو درخواست لکھ بھیجی ۔ اللہ کے فضل سے سعودی عرب میں وسط جنوری میں پابندی ختم کر دی گئی مگر متحدہ عرب امارات میں پابندی قائم رہی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب نے اتصالات متحدہ عرب امارات کا کام اپنے ذمہ ليا اور بھرپور کوشش کی ۔ بالآخر الحمدللہ کچھ روز قبل متحدہ عرب امارات میں بھی ميرے بلاگ پر پابندی ختم ہوئی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب کا نام ہی ميں نے اُس وقت سُنا بلکہ پڑھا جب اُنہوں نے اس سلسہ میں ميری مدد کی پیشکش کی ۔ سُبحان اللہ

اَنت بھلا سو بھلا

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے