چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ احتساب

ہم دولت کی لوٹ مار اور احتساب [Corruption and Accountability] کے الفاظ روزانہ اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی سے سُنتے ہیں اور لوگوں کے منہ سے بھی یہ الفاظ عام طور پر سُنے جاتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ لوٹ مار کے جو قصے ہم پڑھتے اور سُنتے ہیں یہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ لوٹ مار اور ہیرا پھیری تو ازل سے ہے لیکن چار دہائیاں قبل وطنِ عزیز میں اس میں اضافہ شروع ہوا جسے روکنے کی کوشش کرنا تو درکنار اُلٹا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ عام آدمی کے ذہن کو درہم برہم [confuse] کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اُن لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جو اس جُرم میں ملوث نہ تھے

میرا یقین ہے کہ اگر آج بھی عوام میں سے 30 فیصد لوگ ہی دیانتدار اور معاشرے کو درست کرنے کی خواہاں ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے عہدیدار اور حکمران ہیرا پھیری کر سکیں ۔ ہماری قوم کا سانحہ [میں اسے سانحہ ہی کہتا ہوں] یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی لوٹ مار میں ملوث ہے اور جو نہیں ہیں وہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے روادار نہیں

رات میں ساڑھے دس بجے سونے کیلئے لیٹا ۔ میرا خیال ہے کہ گیارہ بجے تک میں سو گیا تھا ۔ آدھی رات پوَن بجے میری نیند کھُل گئی ۔ نمعلوم کیوں میرے ذہن میں کرپشن اور اکاؤنٹبِلیٹی آ گئی پھر میرے ذہن کے پردہ سیمیں پر ماضی کے نظارے گھومنے لگے ۔ سب نظارے گذرنے میں آدھا پونا گھنٹہ لگا ہو گا لیکن میرے ذہن کو اتنا مُنتشر کر گئے کہ میں پانچ بجے صبح تک جاگتا رہا اور نجانے کب نیند آئی کہ فجر کی نماز قضا ہو گئی ۔ سوچا ان میں سے چند واقعات لکھ دیئے جائیں ہو سکتا ہے اس سے کوئی نصیحت پکڑے ۔ نام سب فرضی لکھوں گا کیونکہ کسی کی تضحیک مقصود نہیں

میں نے یکم مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ اوائل 1965ء میں جب میں اسسٹنٹ ورکس منیجر سمال آرمز تھا میرے سینئر “ق” صاحب تھے جو بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے ۔ تمباکو کا پائپ پیتے تھے ۔ اُن کا تعلق ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے سے تھا ۔ جرمنی سے مال آیا تو اُس میں سے ایک چھوٹا سا بنڈل ہاتھ میں پکڑے ایک فورمین جا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا “یہ چھوٹا سا بنڈل کیا ہے ؟” مسکرا کر کہنے لگے “سر ۔ ان کا نام ریئر سائٹ کلینر [Rear Sight Cleaner] رکھا گیا ہے ۔ یہ جرمنی سے جی تھری کے نام پر درآمد کئے گئے ہیں مگر یہ ہیں پائپ کلینر جو میں “ق” صاحب کو دینے جا رہا ہوں”

کچھ ماہ بعد مجھے کسی دوسری فیکٹری کے اسسٹنٹ ورکس منیجر نے کہا “سُنا ہے آپ کی فیکٹری میں جرمنی سے کوئی سامان آیا ہے اُس میں شراب کی بوتلیں نکلیں ہیں”۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ دوسرے دن میں نے اپنے ساتھی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ بات درست ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ ہیں بس خاموش رہیئے

کچھ سال بعد ایک سٹور ہولڈر میرے پاس گبھرائے ہوئے آئے ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے “صاحب ۔ میرے ساتھ چلئے”۔ مجھے وہ اپنے سٹور میں لے گئے ۔ تالا کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی خود داخل ہو کر اندر سے کُنڈی لگا دی پھر ایک کریٹ [crate] کا اُوپر کا تختہ اُٹھایا ۔ اُس میں ایک ایلومینم کی فولڈنگ [folding] میز تھی ۔ سٹور ہولڈر نے بتایا کہ نیچے چار فولڈنگ کرسیاں بھی ہیں ۔ پھر بولا “صاحب ۔ میں غریب آدمی ہوں مُفت میں مارا جاؤں گا”۔ میں نے اُسے تسلی دی اور سیدھا جا کر اپنے سینیئر “ق” صاحب کو بتا دیا ۔ “ق” صاحب نے کہا “اچھا میں پتہ کرتا ہوں”۔ میری نظریں “ق” صاحب کے چہرے پر تھیں جس پر مکمل سکون رہا ۔ دو دن بعد میں کسی کام سے “ق” صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بڑے صاحب کیلئے تھے

میں پروڈکشن منیجر تھا کہ 1969ء کے اواخر میں خبر نکلی کہ لکڑ خانے [Wood Working Factory] سے 2250 سی ایف ٹی [Cubic Foot] اول درجہ سیزنڈ [seasoned] دیودار کے سلِیپر کم ہو گئے ہیں اور انکوائری کا حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں انکوائری کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ وہ لکڑی سالویج وُڈ [salvaged wood] کہہ کر سرکاری ٹرکوں پر راولپنڈی لیجائی گئی تھی جہاں ایک بڑے صاحب کا گھر بن رہا تھا ۔ میں نے کہا “پھر آپ نے کیا کیا ؟” جواب ملا بھائی غریب آدمی ہوں ۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ اس عمر میں نکال دیا گیا تو کہیں اور نوکری بھی نہیں ملے گی”

میں مارچ 1983 سے ستمبر 1985 تک جنرل منیجر اور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ ہر سال 200 بوائے آرٹیزن بھرتی کر کے اُنہین 3 سال تربیت دی جاتی تھی ۔ پہلے 2 سال ہر ایک کو 12 کاپیاں 96 صفحے یعنی 48 ورق والی دی جاتی تھیں ۔ 800 درجن کاپیاں خریدنا تھی ۔ میں اپنی ذاتی گاڑی پر واہ سے راولپنڈی گیا اور سٹیشنری کی دکانیں ديکھیں ۔ اُن سے بحث وغیرہ کر کے کوٹیشنز لیں ۔ سب سے سستی 26 روپے درجن ملی ۔ جب کاپیاں پہنچیں تو سٹاف اسسٹنٹ حيران ہوا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا “سر ۔ پچھلے سال 36 روپے درج خریدی تھیں”۔ میں نے متعلقہ سپلائر کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ ریکارڈ چیک کر کے بتائے کہ پچھلے سال اُس نے کاپیاں کیا بھاؤ دی تھیں ۔ دوسرے دن اُس نے بتایا “28 روپے درجن”۔ گویا پچھلے سال خریدنے والے کی جیب میں 6400 روپے گئے تھے

خاص قسم کی خراد مشینوں کیلئے آفرز مانگیں ۔ ان میں ایک میں لکھا تھا کہ “ایک سال قبل اُنہوں نے 10 مشینیں فلاں فیکٹری کو 12 لاکھ روپے فی مشین کے حساب سے سپلائی کی تھیں ۔ اب گو قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں مگر پرانی قیمت پر ہی سپلائی کریں گے” ۔ میں نے آئی ہوئی 6 آفرز کا پہلے فنی موازنہ اور پھر مالی موازنہ [Technical and Financial comparison] تیار کیا ۔ ان کی مشین سب سے اچھی تھی مگر قیمت صرف ایک ادنٰی مشین سے تھوڑی سی زیادہ تھی ۔ میں نے ان کے مندوب کو بلایا اور کہا “چائے کے وقت آپ آئیں گے تو میں چائے پلاؤں گا کھانے کے وقت آئیں گے تو کھانا کھلاؤں گا لیکن آپ سے میں پانی بھی نہیں پیئوں گا ۔ دیگر آپ کے بِل جمع کرانے کے 5 ہفتے کے اندر آپ کا چیک جاری ہو جائے گا ۔ آپ قیمت 30 فیصد کم کریں”۔ مندوب اپنی کرسی میں اُچھل گیا ۔ میں نے اُسے کہا کہ “یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ کراچی میں ہیڈ آفس والوں سے کہیئے کہ آپ کے پرنسیپلز کو لکھیں”۔ دوہفتے بعد وہ نئی کوٹیشن لے کر آیا فی مشین ساڑھے 9 لاکھ اور لمبی چوڑی کہانی سنائی ۔ ایک سال قبل جو 10 مشینیں آرڈر ہوئی تھیں اُس سودے میں 25 لاکھ روپیہ کس کس کی جیب میں گیا ؟

اسی دوران کی بات ہے کہ سی این سی مشینز [Computerised Numerical Control Machines] ٹریننگ سینٹر کیلئے آفرز منگوائی گئیں ۔ میں موازنہ تیار کر چکا تھا کہ بڑے باس کی طرف سے تجویز آ گئی کہ اس کمپنی کو آرڈر دوں ۔ میں نے آفر کا معائنہ کیا تو دُگنی قیمت ہونے کے علاوہ وہ آفر ہماری ضروریات پر پوری نہ اُترتی تھی اور مکمل بھی نہ تھی ۔ مین نے لکھ بھیجا ۔ پھر مشورہ آیا کہ اسے ہی آرڈر کروں ۔ میں نے خامیوں کی تفصیل کے ساتھ یہ بھی لکھ بھیجا کہ قیمت بہت زیادہ ہے اور ساتھ موزوں ترین آفر بھی لگا کر بھیج دی ۔ کچھ دن بعد میرا تبادلہ ہو گیا اور میری سالانہ رپورٹس اوسط ہونا شروع ہو گئیں جس کے باعث میری ترقی رُک گئی ۔ میرے بعد میں آنے والے صاحب نے اُس آفر کی سفارشات بنا کر بھیج دیں ۔ باس خوش ہو گئے اور اگلے سال اُن صاحب کی ترقی ہو گئی

فيصلے

لاہورہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے این اے123سے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی اہلیت کے خلاف شاہد اورکزئی کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا ہے ۔ درخواست میں موٴقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف نادہندہ ہیں اور ان پر سپریم کورٹ پر حملے کا بھی الزام ہے ۔ نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف سپریم کورٹ حملے پرملوث نہیں تھے اور مدعی کی درخواست مفروضوں اور بدنیتی پر مبنی ہے

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے این اے 123 سے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے پرویز ملک ضمنی انتخابات میں حصہ لیں گے ،نوازشریف کے دستبردار ہونے کے بعد اب اس حلقے سے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی تعداد 8 ہوگئی ہے

آزاد دہشتگرد

دبئی میں گزشتہ مہینے حماس کے اہم کمانڈر کو قتل کرنے والے افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کردی گئی ۔ Killersپولیس کا کہنا ہے کہ گیارہ رکنی قاتل اسکواڈ یورپی تھا اور انہوں نے بھیس بدل کر انتہائی منظم انداز میں کارروائی کی۔دبئی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس چیف لیفٹیننٹ جنرل داہی خلفان تمیم نے بتایا کہ حماس کے کمانڈر محمود المبحوح کو مبینہ طور پر قتل کرنیوالے یورپی پاسپورٹ کے حامل تھے۔ جنہوں نے بھیس بدلنے کیلئے وِگ، نقلی داڑھی اور ٹینس کے کھلاڑیوں جیسے لباس استعمال کیے۔ قاتل اسکواڈ میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔پولیس سربراہ کاکہنا تھا کہ ممکن ہے بعض ممالک نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حماس رہنما کے قتل کا حکم دیا ہو۔ اس موقع پر مبینہ قاتلوں کی جاری کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئیں اوران کی تصاویر اور پاسپورٹ کی تفصیلات بتائی گئیں جن کے مطابق ڈیتھ اسکواڈ میں شامل گیارہ افراد میں سے چھ برطانیہ، تین آئرلینڈ اور ایک ایک جرمنی اور فرانس کے پاسپورٹ پر دبئی پہنچے تھے۔ حماس نے بیس جنوری کو دبئی کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے اپنے کمانڈر محمود المبحوح کے قتل کا ذمہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

میں معافی مانگتا ہوں

ایک ساتھی کا ٹیلیفون آیا ۔ اطلاع دی کہ فلاں صاحب انتقال کر گئے ہیں ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَجِعُون کہنے کے بعد میں ٹیلیفون بند کر کے لیٹ گیا ۔ میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی ساتھ دِل بھی گریہ و زاری کرنے لگا ۔ اُن کی وفات پر کم کیونکہ مرنا ہر ایک نے ہے ۔ اپنے رب کے حضور معافی مانگنے کیلئے زیادہ کیونکہ کسی کی موت یا تکلیف دوسروں کیلئے عبرت کا نشان ہوتی ہے

سدا نہ مانِیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ حُسن اور جوانی نہیں رہتے]
سدا نہ صُحبت یاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ دوستوں کی صحبت نہیں ملتی]
سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ باغ میں بُلبُل نہیں بوتا ]
سدا نہ رَہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [اور نہ ہمیشہ بہا رہتی ہے]
دُشمن مرے تے خُوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [دُشمن کے مرنے پر خوش نہ ہو ]
سجناں وِی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [کہ پیارے بھی ایک دن مر جائیں گے]

نمعلوم کیوں میرے ذہن میں ماضی گھومنے لگا ۔ 1976ء میں ایک بڑے افسر کو اپنے کرتوت کی بناء پر ایک غیرمُلک سے ناپسندیدہ شخصیت [Persona non grata] قرار دے کر نکالا گیا ۔ میں اور دیگر تین ساتھی بھی اُسی مُلک میں تھے ۔ ایک ساتھی نے کہا “یہ ہمارے لئے مقامِ عبرت ہے ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟” میرے منہ سے نکلا “اپنے اللہ کے سامنے جھُک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہيئے”۔ چاروں نے وضو کیا اور باجماعت نوافل ادا کرنے کے بعد رو اور گڑگڑا کر اپنے مالک و خالق سے معافی مانگی ۔جمعرات کو فوت ہونے والے صاحب کے قلم کے استعمال کی وجہ سے کئی محنتی اور دیانتدار افسران مشکلات کا شکار ہوئے اور کئی نااہل موج میلہ کرتے رہے ۔ چنانچہ اب بھی یہی صورتِ حال ہے

میرے اللہ ۔ میرے خالق و مالک ۔ آپ قادر و کریم اور رحمٰن و رحیم ہو
میں جو کچھ بھی ہوں صرف آپ کی دی ہوئی توفیق سے ہوں
میں آپ سے انتہائی عِجز و اِنکساری کے ساتھ التجا کرتا ہوں کہ میری دانستہ اور نادانستہ غلطیاں معاف فرما
میری رہنمائی فرما اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں آپ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل سکوں جس کی آج تک میں نے کوشش کی ہے
میرے مالک مجھے مزید کوشش کیلئے ہمت و استقلال عطا فرما اور میری نیک کوششوں کو کامیابی عطا فرما
میں سب کے سامنے آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے بندے گواہ رہیں کہ میں حاضر ہوا

قارئین سے درخواست ہے کہ جب اپنے لئے دعا کریں تو میرے لئے بھی دعا کریں

صدر زرداری کا حُکم معطل

صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سمری مسترد کرتے ہو ئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کاقائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا

صدارتی تر جمان نے خبر کی تصدیق یا تر دید کرنے سے انکار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ نوٹیفکیشن وزارت قانون جاری کرتی ہے اس حوالے سے وہ ہی بہتر بتاسکتے ہیں

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس خواجہ محمد شریف اور جسٹس ثاقب نثار نے حکومتی فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ جیو نیوز کے سینئر رپورٹر عبدالقیوم صدیقی سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے یہ بات زور دے کر کہی کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے احکامات کے پابند ہیں اور ان کے خلاف کوئی کام نہیں کرینگے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے انہیں کل صبح حلف برداری کیلئے بلایا تھا، تاہم انہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے
صدرِ پاکستان کی جانب سے ججوں کی تقرری کے معاملے کی سماعت کرنے والے تین رکنی سپیشل بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا صدارتی حکم معطل کر دیا ہے

جسٹس شاکر اللہ جان کو اس سپیشل بینچ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جبکہ جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس جواد ایس خواجہ اس بینچ کے رکن تھے۔ اس بینچ نے معاملے کی سماعت سنیچر کی شام ہی شروع کر دی اور مختصر سماعت کے بعد اپنے عبوری حکم میں تقرری کے حکم ناموں کو معطل کر دیا

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں آئین کے آرٹیکل ایک سو ستّتر کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس ثاقب نثار تا حکمِ ثانی اپنے پرانے عہدوں پر ہی کام کرتے رہیں گے

میرے وطن کی سیاست

” میں ایوب خان کے دور میں تعلیم مکمل کر کے کالج سے نکلا تو دل میں ایک شدید آرزو تھی کہ اس نظام کو بدلا جائے، آمریت سے نجات حاصل کی جائے اور جمہوریت کے ذریعے ایسا نظام لایا جائے جو غریب عوام کے مسائل حل کرے، قومی دولت کو معاشرے کے تمام طبقوں میں منصفانہ انداز سے تقسیم کرے اور پسے ہوئے عوام میں زندگی کی لہر پیدا کرے۔ میں اور میرے دوست رات دن اسی موضوع پر بحث کرتے اور نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اچانک بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکارا اور غریبوں کا مسیحا بن کر ملکی اُفق پر ابھرا۔ ہمیں بھٹو کی شخصیت میں اپنی امیدوں اور توقعات کا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر آیا چنانچہ ہم من تن دھن کی بازی لگا کر دل و جان سے بھٹو صاحب کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور ان کے کارکن بن گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے دن رات بھٹو صاحب کے لئے دیوانوں کی مانند کام کیا۔ بھٹو صاحب انتخابی میدان میں اترے تو پی پی پی نے الیکشن جیتا اور بھٹو صاحب کے ساتھ نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی

ہمارے اس جذبے کو پہلی ٹھیس اس وقت لگی جب ہمارے مشوروں کے خلاف بھٹو صاحب نے 1977ء میں نظریاتی کارکنوں کو اِگنور کر کے وڈیروں، گدی نشینوں اور روایتی سیاستدانوں کو ٹکٹ دے دیئے۔ اس کے باوجود جب بھٹو صاحب جیل گئے تو ہم نے ضیاء آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، جیلیں اور قلعے دیکھے اور کوڑے کھائے

پھر ہم نے نہایت خلوص اور لگن کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا اور پی پی پی کا چراغ روشن رکھا۔ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد پی پی پی 1988ء کے انتخابات کے لئے میدان میں اتری تو ہمیں توقع تھی کہ بی بی پرانے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیں گی لیکن ۔ ۔ ۔ بی بی نے نظریاتی کارکنوں پر دولت مندوں اور پارٹی کو اور پارٹی قیادت کو بڑی رقمیں دینے والوں کو ترجیح دی۔ نتیجے کے طور پر دولت کے ذریعے ٹکٹ خریدنے والے ابن الوقت پارٹی پر حاوی ہو گئے اور نظریاتی کارکن بددل ہو کر سیاسی منظر سے غائب ہو گئے

آج یہ عالم ہے کہ صدر صاحب سے لے کر ان کے وزراء اور حواریوں تک ہر کوئی کرپشن کے الزامات میں ڈوبا ہوا ہے اور ایسے نئے چہرے پارٹی پر قابض ہو گئے ہیں جن کا ہم نے کبھی نام سنا تھا نہ چہرہ دیکھا تھا۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ اور دکانداری کی سیاست ہے۔ آپ نے وہ شعر تو یقینا سن رکھا ہو گا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں”

پورا انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

کہانی شیخ جی کے زخمی ہونے کی

پچھلے دنوں شیخ رشید احمد صاحب پر بقول ان کے حواریوں کے قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ زندہ بچ گئے مگر زخمی ہوئے ۔ میں سیاسیات میں جائے بغیر صرف شیخ صاحب کے مجروح ہونے کی تفصیل بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ حقیقت راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک پروفیسر ڈاکٹر کی زبانی ہے ۔

شیخ رشید کو سٹریچر پر ہسپتال لایا گیا ۔ وہ ہائے اف وغیرہ کر رہے تھے ۔ معائنہ کیلئے ٹانگ اوپر کی تو شیخ صاحب نے شور مچا دیا اف ہائے میری ٹانگ ۔ اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد دریافت ہوا کہ شیخ صاحب کے گھٹنے پر خراش آئی ہے جس سے خون بہا نہیں

البتہ شیخ صاحب کے حواریوں اور سیکیورٹی والوں کی مہربانیوں کے نتیجہ میں ہستال کے دوسرے مریض پانچ گھنٹے علاج سے محروم رہے