کيا ہم بہتری چاہتے ہيں ؟

اگر اپنے ہموطنوں سے پوچھاجائے ” کيا آپ بہتری چاہتے ہيں ؟”
تو 100 فيصد جواب ” ہاں” ميں ملے گا
پھر کہا جائے ” اس کيلئے کوشش کريں گے ؟”
تو جواب ماٹھا سا ہو گا ۔ بہت کم ہوں گے جو اس کيلئے کوشش کريں گے ۔ ميں اس سلسلہ ميں درجنوں واقعات سے گذر چکا ہوں جن ميں سے صرف 3 تازہ اور ايک پرانا يہاں لکھ رہا ہوں

ہم جولائی 2009ء ميں لاہور آئے تو ہماری رہائشگاہ کی بجلی جلتی بجھتی تھی ۔ محلے والوں سے پوچھا کہ ” بجلی کی شکائت کا دفتر کہاں ہے ؟” تو جواب ملا ” کوئی فائدہ نہيں جی ۔ يہاں کوئی نہيں پوچھتا ۔ اليکٹريشن کو بلا کر خود ہی درست کروا ليں”۔ اليکٹريشن کو بلايا ۔ سارے گھر کی چيکنگ اس نے کی اور پيسے لے کر کہنے لگا “خرابی گھر سے باہر ہے ۔ بجلی کمپنی والا آ کے ٹھيک کرے گا”۔ محلے ميں کسی کو معلوم نہ تھا کہ شکائت کا دفتر کہاں ہے ۔ ميں نکلا اور بڑی سڑک پر جا کر پوچھنا شروع کيا آخر ايک نوجوان نے مجھے ان کے دفتر کا پتہ بتايا ۔ ميں نے وہاں پہنچ کر شکائت درج کرائی ۔ اُسی دن آدمی آيا اور درست کر کے چلا گيا

سرديوں کا موسم آيا تو گيس کا پريشر بہت کم ہو گيا ۔ اس بار ميں نے محلہ والوں سے بات کرنے کی بجائے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھ کر شکائت درج کرائی ۔ اُنہوں نے کہا ” آدمی 48 گھنٹے کے اندر آئے گا”۔ ليکن آدمی 24 گھنٹے سے بھی پہلے اتوار کے دن آ گيا اور ٹھيک کر گيا ۔ دوسرے دن ايک محلے دار کا ٹيليفون آيا کہ “ہماری گيس بھی ٹھيک کروا ديں”۔ ميں نے اُن سے کہا ” اپنے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھيئے اور شکائت درج کروا ديجئے”۔ مگر انہوں نے کچھ نہ کيا

مئی جون 2010ء ميں سيور لائين بھری رہتی تھی اور گھر کے اندر تک يہی صورتِ حال ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسلخانہ ميں بدبُو آتی تھی ۔ ميں مقامی متعلقہ اہلکار کو بار بار کہتا رہا مگر کوئی فائدہ نہيں ہو رہا تھا پھر ميں نے اپنی گلی کے رہائشيوں سے رابطہ کيا ۔ انہوں نے بھی اس وجہ سے پريشانی ظاہر کی ۔ ميں نے اُن سے درخواست کی کہ ” آپ بھی متعلقہ اہلکار پر زور ڈالئے”۔ سب نے ہاں کہا مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ 10 دن انتظار کے بعد ميں نے کالونی کے ہيڈ آفس کا ٹيليفون نمبر معلوم کيا اور وہاں رابطہ شروع کيا ۔ ہوتے ہوتے پتہ چل گيا کہ ہماری کالونی کے انچارج کون ہيں ۔ وہ زيادہ تر دفتر سے باہر ہی رہتے تھے ۔ آخر دفتر والوں نے ان کا موبائل فون نمبر ديا ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو ساری بات بتائی ۔ اُسی دن یعنی 25 جون 2010ء کو صفائی ہو گئی اور اب تک سيور لائين ميں پانی کھڑا نہيں ہوا

ايک واقعہ پرانا ہے ۔ ہم 7 انجنيئرز کو 1976ء ميں ملک سے باہر بھيجا گيا ۔ تنخواہ ميزبان ملک نے دينا تھی ۔ تنخواہ ملنے پر معلوم ہوا کہ 20 فيصد ہماری حکومت نے کاٹ ليا ہے ۔ يہ پاکستان کے قانون کے خلاف تھا ۔ ميں نے باقی 6 ساتھيوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت کی کہ سب پاکستان ميں اپنے ادارے کو لکھيں کہ يہ پيسے نہ کاٹے جائيں مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ صرف ميں نے لکھ کر بھيج ديا ۔ ميں 1979ء کے آخر ميں پاکستان آيا تو اپنے ادارے سے معلوم ہوا کہ ميری درخواست پر کوئی کاروائی اسلئے نہيں کی گئی کہ ميرے 2 ساتھيوں نے لکھ کر بھيج ديا تھا کہ “ہميں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے”۔ خاصی تگ و دو کے بعد 1980ء ميں کاروائی شروع ہوئی ۔ 1983ء ميں جب ہم ملک ميں واپس آئے تو کيس چل رہا تھا مگر فيصلہ نہيں ہوا تھا ۔ منسٹری نے کچھ معلومات چاہئيں تھیں اور ايک اعتراض بھی تھا کہ 7 آدميوں ميں سے صرف ايک کی درخواست آئی باقی کيا کہتے ہيں ۔ ميں نے پھر سب کی منت کی کہ “اب ہی درخواست لکھ ديں ۔ کاروائی شروع ہو چکی ہے ۔ اِن شاء اللہ يہ کٹی ہوئی رقم واپس مل جائے گی”۔ صرف دو ساتھيوں نے لکھ کر ديا ۔ ہمارے ادارے نے لکھ بھيجا کہ 3 درخواستيں تحريری طور پر آئی ہيں باقی 4 زبانی بار بار درخواست کر چکے ہيں ۔ خير کيس چلتا رہا ۔ آخر 1990ء ميں نوٹيفيکيشن جاری کر ديا گيا ۔ اس وقت تک 4 ساتھی ريٹائر ہو چکے تھے ۔ جو موجود تھے اُنہوں نے خود رقم وصول کر لی ۔ باقيوں کو بنک ڈرافٹ کے ذريعہ رقميں بھجوا دی گئيں جو 70000سے 90000 روپے تک فی شخص تھيں

جن 2 ساتھيوں نے لکھ کر ديا تھا کہ اُنہيں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے اُن ميں سے ايک لاہور ميں تھے ۔ رقم ملنے کے بعد اُنہيں جو بھی ميرے ملنے والا ملا اُس سے کہا “اجمل ميرے پيسے کھا گيا ہے پورے نہيں بھيجے” ۔ ميرے ہاتھ ميں تو پيسے آئے ہی نہ تھے ۔ اکاؤنٹ آفيسر کہتا تھا کہ خود آ کر ليں ۔ ميرے منت کرنے پر بنک ڈرافٹ کی فيس اور رجسٹری کا خرچ کاٹ کر اُنہوں نے بھيج ديئے ۔ ان صاحب کی دريا دِلی کا يہ حال کہ 1989ء ميں ايک شخص آيا اور مجھے ايک سينٹی ميٹر يعنی آدھے انچ سے کم چوڑا اور 4 سينٹی ميٹر يعنی ڈيڑھ انچ سے کم لمبا کاغذ کا پرزہ ديا کہ يہ فلاں صاحب نے بھيجا ہے اور کہا ہے کہ in writing جواب لے کر آنا ۔ اس ننھے سے پرزے پر باريک سا لکھا تھا What about money ۔ ان 2 صاحبان کی وجہ سے کاروائی ساڑھے 3 سال کی تاخير سے شروع ہوئی چنانچہ کيس ٹائم بار ہو گيا اور جو منظوری 1985ء تک ہو جانا چاہيئے تھی وہ 1990ء ميں ہوئی

جس قوم کے اکثر افراد کی يہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے بھی ذرا سی تکليف نہ کريں مگر حصہ دو گُنا چاہيں تو اس مُلک ميں بہتری کيسے آ سکتی ہے ؟

کشمير ۔ کرفيو سے زندگی مفلوج

وادی کشمیر میں علٰحیدگی پسندوں کی ‘عید گاہ چلو’ کال کو انتظامیہ نے سخت ترین کرفیو نافذ کرکے ناکام بنادیا۔اس دوران وادی کے طول و ارض میں جمعہ کو کرفیو نافذ رہا اور پولیس ونیم فوجی دستوں کے اضافی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت متعدد مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم نماز جمعہ کے بعد کئی جگہ لوگوںنے فورسز کا محاصرہ توڑ کر مظاہرے کئے۔پولیس نے طاقت کا استعمال کر کے مظاہرین کومنتشر کر دیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں میں ٹیر گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے 100 سے زائد افرادافراد زخمی ہوگئے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

اہم معاشرتی اصول

يہ مردانہ باتيں ہيں خواتين نہ پڑھيں تو بہتر ہے

ملازمت کے صرف 2 اصول ہيں

1 ۔ باس [boss] کی بات درست ہوتی ہے
2 ۔ باس کی بات درست نہ ہونے کی صورت ميں ۔ پہلا اصول نافذ العمل ہو گا

ازدواجی زندگی کے صرف 2 اصول ہيں

1 ۔ بيوی کی بات ہميشہ درست ہوتی ہے
2 ۔ مياں بيوی کو آپس ميں مشورہ سے چلنا چاہيئے يعنی خاوند بات يا کام کرنے سے پہلے بيوی سے اجازت لے اور بيوی بات يا کام کرنے کے بعد اگر چاہے تو خاوند کو بتا دے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

جموں کشمير لہو لہان

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپورمیں9سالہ بچے سمیت5معصوم نوجوانوںکی ہلاکتوں کے بعد بھارت کے بے لگام فورسز نے منگل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبے میں2 طالب علموں سمیت 3نوجوانوں کو جاں بحق اور3کو شدید طور پر زخمی کر دیا.ان تازہ واقعات کے بعد تشدد کی خوفناک لہر نے شمالی کشمیر کے بعد اب جنوبی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

کچھ اور جبريں

ميں نے پہلی بار جبريں يکم جولائی 2010ء کو لکھی تھيں ۔ آج 2 تازہ جبريں ہيں
“زنانہ قبضہ گروپ” اور “پاکستان اول نمبر پر”

زنانہ قبضہ گروپ
کراچی سے جاوید نامی ایک صاحب نے 1990ء میں اسلام آباد دامن کوہ کے قریب موضع تلہاڑ میں 22.5 کنال زمين خریدی ۔ اس میں 5کمرے بنوائے اور کنواں بھی کھدوایا ۔ وہ ہر سال گرمیوں میں ایک دوماہ قیام بھی کرتے رہے
گزشتہ آٹھ نو ماہ سے ان کی زمین پر ملتان سے پیپلز پارٹی کی رُکن قومی اسمبلی نے قبضہ کر کے وہاں اپنی بیٹی کے نام کا بورڈ لگا دیا ہے
اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس کو منہ بولی بہن بنایا ہوا ہے بھلا پولیس کی مجال کہ کوئی کارروائی کرے
جاويد صاحب نے محکمہ مال کے پٹواری گرداور اور تحصیل دار سے داد رسی کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ملتان میں وہ ایم این اے اور یوسف رضا گیلانی ایک ہی گلی میں رہتے ہیں ۔ گیلانی صاحب جب ملتان میں ہوتے ہیں تو دوپہر کا کھانا اکثر اس خاتون کے گھر کھاتے ہیں ۔ ایوان صدر بھی اس کی پشت پر ہے
اسلام آباد کے قصبے سیدپور میں مقیم بعض ایسے لوگوں کو کوہسار پولیس نے 15 دن تک اپنی حراست میں رکھا کہ ان کا کسی نہ کسی طور پر کراچی میں جاوید صاحب سے رابطہ رہتا تھا۔ ان لوگوں میں ایک طالب علم نے بتایا کہ ” ہم لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں”
جاوید صاحب نے مزید بتایا کہ ان کی زمین اور گھر پر چند ملیشیاء کے لباس میں ملبوس گن مین کھڑے کر دیئے گئے ہیں اور اسلام آباد انتظامیہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ساری زمین اس خاتون کے نام منتقل کر ديں ورنہ عبرت ناک انجام کے لئے تیار ہو جائيں

پاکستان اول نمبر پر
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے وزیر ۔ 14
بھارت جس کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 5 گنا ہے کے وزير ۔ 32
برطانیہ کے وزير ۔ 12
امریکا جو سپر پاور ہے کے وزیر ۔ 14

چین بھارت برطانیہ اور امریکا چاروں ملکوں کو ملا کے کُل وزير ۔ 72

پاکستان کے وزیر اور وزرائے مملکت ۔ 96
ان 96 ميں مشیر ۔ ايڈوئزر۔ پارلیمانی سیکرٹری اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ شامل نہيں جنہیں وزراء جیسی سہولیات میسر ہیں

وزراء کو دی جانے والی مراعات میں بھی پاکستان نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے
کشکول لے کر ملکوں ملکوں فرینڈز آف پاکستان کی تلاش کرنے میں بھی پاکستان کا ثانی کوئی نہیں ہے
دیوالیہ پن کے قریب پہنچے ہوئے ملکوں میں بھی پاکستان پہلی صف میں کھڑا دکھائی دے رہا ہے 
ناکام ریاست کا اعزاز کتنی بار ملتے ملتے رہ گیا ہے
جعلی ڈگری ہولڈرز ۔ جعلی ادویات سازی ۔ جعلی پولیس مقابلے

کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان پیش پیش نہیں ہے ؟
پھر کہتے ہيں کہ پاکستان نے ترقی نہيں کی

SJK کون ہيں ؟؟؟ اور مدد کی ضرورت

جب مجھے اپنے بلاگ پر کوئی پرانی تحرير تلاش کرنا ہوتی تھی تو اس کا عنوان گوگل ميں لکھ کر تلاش کرتا تو اس کا ربط مل جاتا تھا ۔ کچھ دن قبل مجھے ضرورت پڑی تو ميں نے اسی طرح تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہيں ملا ۔ پھر ميں نے بلاگ کا عنوان ” ميں کيا ہوں” لکھ کر تلاش کيا تو بھی کچھ نہ ملا ۔ آج ميں نے اپنا نام اُردو ميں لکھ کر تلاش کيا تو کچھ پوسٹس ظاہر ہوئيں

ميں اس وقت حيران ہوا جب ميرے نام کے ساتھ اُردو مجلس کا نام بھی آيا جبکہ عرصہ ہوا احتجاج کے طور پر ميں نے اُردو محفل چھوڑ کر اپنی ساری تحارير مٹا دی تھيں ۔ اس ربط کو کھولا تو SJK صاحب نے ميرے بلاگ سے وہاں کافی ساری تحارير ميرے نام سے نقل کی ہوئی تھیں ۔ يہ ميرے مہربان کون ہيں ؟

مدد چاہيئے
کوئی صاحب اس سلسلہ ميں ميری مدد فرمائيں کہ کيا ہوا ہے جس کی وجہ سے ميرا بلاگ گوگل سرچ سے باہر ہو گيا ہے اور يہ کہ ميں کيا کروں کہ مجھے پہلے کی طرح بلاگ پر اپنی تحارير کے ربط گوگل سرچ پر مل جايا کريں ؟

کشمير ميں موت کا سفّاکانہ رقص جاری

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور میں فورسز کے ہاتھوں معصوم نوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف تشدد اور زور دار احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے بیچ سوموار سی آر پی ایف نے سوپور کی طرف مارچ کررہے دو جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے 9 سالہ کمسن بچے اور ایک 17 سالہ نوجوان کو موت کی ابدی نیند سلا دیا

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے