سيلاب ۔ امداد کا حُجم اور انتظامات

ذيل ميں سيلاب سے متاءثرين کيلئے درکار مدد اور حکومت پاکستان کے انتظامات کا خاکہ نقل کر رہا ہوں
اللہ متاءثرين کی مدد فرمائے

اقوام متحدہ کے امدادی پروگرام کے ترجمان موریزیو گیلانیو نے گزشتہ روز اسلام آباد بین الاقوامی میڈیا کو سیلاب کی صورتحال سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پانی سے پھیلنے والے امراض باعث تشویش ہیں ۔ ان حالات سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں
اموات کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے جسے روکنا سب سے اہم ہے
پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے 60 لاکھ زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں
ٹائیفائڈ، ہیپاٹائٹس اے اور ای ان علاقوں میں پھیل سکتے ہیں
35 لاکھ بچوں کی زندگی کو سنگین خطرہ ہے
اس وقت اسہال اور ممکنہ طور پر ہیضے کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کو روکنا ہو گا
عالمی ادارہ صحت ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو امداد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے
تاہم حکومت پاکستان نے ابھی تک کسی کیس کی تصدیق نہیں کی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی ترجمان ایلزبتھ بائرز نے بتایا کہ
عالمی سطح پر پاکستان کی خراب ساکھ کے باعث سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ریلیف پہنچانے والی ایجنسیوں کو فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ہم نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہے کہ مغربی رائے عامہ میں پاکستان کی ساکھ خراب ہے جس کے نتیجے میں پاکستان یمن کی طرح ان ممالک میں شامل ہے جن میں سرمایہ کاری بہت کم کی جاتی ہے

ہومنٹیرین گروپ کئیر انٹرنیشنل [humanitarian group CARE International] کی ترجمان میلانی بروکس نے کہا کہ
اقوام متحدہ کو امداد دینے والی ریاستوں پر واضح کرنا ہوگا کہ ملنے والی امداد طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جارہی۔ اقوام متحدہ کو بتانا ہوگا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کسان ، خواتین ، بچے اور غریب ہیں لیکن بد قسمتی سے ماضی میں پاکستان کو تعلق طالبان اور دہشت گردی سے ہی جوڑا جاتا رہا ہے
دیہی علاقوں کی تعمیر نو ، انفراسٹرکچر اور فصلوں کی تباہی سے ہونیوالے نقصان کو پورا کرنے کیلئے کھربوں روپے کی ضرورت ہوگی

حکومتِ پاکستان کے انتظام کی حالت روزانہ نجی ٹی وی چينل پر جو پيش کی جا رہی ہے اس کے علاوہ دی نيوز کے مطابق

نواز شریف کے ہمرا ہ اسلام آبا د میں بروز ہفتہ 14 اگست 2010ء کو کی گئی مشترکہ کانفرنس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیلاب ریلیف فنڈ کو کنٹرول کرنے اور اس کے اخراجات کو مانیٹر کرنے کے لئے آزاد کمیشن کے قیام کے سلسل میں 3 ناموں کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ان اشخاص سے مشاورت کے بعد کميشن کے نام سامنے لائے جائینگے ۔ وہ 3 نام جن کا وزیراعظم نے اعلان کیا جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس ہیں جنہوں نے رابطہ کرن پر بتايا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ان سے رابطہ نہيں کيا

مسلم لیگ ن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ وزر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نواز شریف کے ہونے والی ملاقات کے دوران مذکورہ ناموں پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا اور دونوں رہنماؤں کو اس امر پر اتفاق ہوا تھا کہ کمیشن کا جتنی جلدی ممکن ہو سکے اعلان کر دیا جائے۔مسلم لیگ ن کو امید تھی کہ حکومت کی جانب سے کمیشن کا پیر تک اعلان کر دیا جائے گا۔ اسحق ڈار سے کہا گیا ہے کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت سے مسلسل رابطے میں رہیں

مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ دیگر کو بھی کمیشن کی تشکیل کیلئے ایگزیکٹیو آرڈر یا صدارتی آرڈیننس کا انتظا ر ہے تاکہ کمیشن کام کا آغاز کرے

خیا ل کیا جا رہا ہے کہ کمیشن کیلئے جن نامور اور اہم شخصیات کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے وہ کمیشن کا حصہ نہیں بنیں اگر حکومت نے صرف ان کے ناموں کو فنڈ جمع کرنے کیلئے استعمال کیا اور ان کو فنڈز کے استعمال کی اجازت نہ دی اگر ان افراد کو کرپشن روکنے اور شفّافیت برقرار رکھنے کا اختیار نہ ہوا تو بھی یہ مجوزہ کمیشن میں شامل نہیں ہو نگے

سيلاب ۔ بين الاقوامی ريڈ کراس کا بيان

لندن…انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے سیکریٹری جنرل بیکلے گیلیٹا نے برطانوی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں کہا کہ

اب تک مطلوبہ ہنگامی امداد کا صرف ایک چوتھائی ہی پہنچ سکا ہے
عالمی برادری تباہی کو اموات کی تعداد سے جانچنے کی کوشش نہ کرے
سیلاب سے فصلیں برباد ہوگئی ہیں
نہری اور آب پاشی نظام سمیت زرعی اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے
اس پورے نظام کی بحالی میں کم از کم پانچ سال کاوقت لگ سکتا ہے
بیرونی ممالک سے ہنگامی اور طویل مدتی امداد کے وعدے ناکافی ہیں
پاکستان جیسے ملک کیلئے سیلاب کی تباہ کاری سے اکیلے نمٹنا تقریباً ناممکن ہے
مقامی اور عالمی سطح پر سنگین صورت حال پر توجہ برابر مبذول کرانے کیلئے میڈیا کچھ عرصے تک سیلاب کو نمایاں کوریج دیتا رہے

گیلیٹا نے خدشہ ظاہر کیا کہ
اگر مطلوبہ امداد فوری طورپرنہ ملی تو صورت حال نہایت سنگین ہوسکتی ہے
وبائی امراض پھوٹنے اور غذائی قلت سے خاص کر بچے اور معمر افراد کی اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔

ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

بلا شُبہ عصرِ حاضر ميں سائنس کی پچھلی آدھی صدی ميں روز افزوں ترقی کے نتيجہ ميں کئی نئے علوم متعارف ہوئے ہيں ۔ ترقی نے زندگی بظاہر بہت آسان بنا دی ہے اور فاصلے بہت کم کر ديئے ہيں ۔ وہ زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے کراچی خط لکھ کر جواب کيلئے ايک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ يورپ ۔ امريکا يا جاپان کی صورت ميں چار چھ ہفتے معمولی بات تھی ۔ آج اسلام آباد ميں بيٹھے براہِ راست امريکا اور جاپان بات ہو سکتی ہے اور ايک دوسرے کو ديکھا بھی جا سکتا ہے ۔ بہت سی ديگر سہوليات بھی ميسّر ہو گئی ہيں ۔ يہ سب کچھ ہميں دساور سے دستياب ہوا ہے ۔ اس ميں اپنی محنت اول ہے ہی نہيں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ۔ ہم نے دساور سے ان سہوليات کے ساتھ فرنگيوں کی فضوليات تو بہت لے ليں ہيں مگر اُن کی خُوبيوں کو نہيں اپنايا

ميرا موضوع البتہ يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ کيا آج سے آدھی صدی قبل ہم زيادہ تربيت يافتہ تھے يا کہ آج ہم زيادہ تربيت يافتہ ہيں ؟

پانچ سال قبل زلزلہ نے ہميں پريشان کيا اور آج ہميں سيلاب نے اس سے بھی زيادہ پريشان کر ديا ہے ۔ پريشانی کی بنيادی وجوہ دو ہيں

ايک ۔ مال کی محبت نے بے راہ رَو بنا ديا ہے
دو ۔ مربوط عمل سے نا آشنائی

ہم ايسے نہ تھے بلکہ ايسے بن گئے ہيں
ہمارے دين نے ہميں سيدھی راہ اور مربوط عمل کا سبق ديا مگر ہم نے دين کو ترقی کی راہ ميں رکاوٹ سمجھنا شروع کر ديا
معمارانِ قوم جن کی فراست و محنت کے نتيجہ ميں اللہ نے ہميں يہ مُلک عطا کيا ہم نے اُن کے ترتيب ديئے ہوئے نظام کو نام نہاد ترقی کے نام پر تج ديا

آدھی صدی قبل کا طريقہ تعليم

چھَٹی جماعت سے ہی نصاب سے متعلق کُتب کے ساتھ ساتھ غير نصابی يا ہم نصابی کُتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔ خلاصہ يا ماڈل پيپر وغيرہ کسی طالبعلم کے پاس ديکھا جائے تو چھين ليا جاتا تھا
روزمرہ اور فلاحی کاموں ميں عملی تربيت کی ترغيب دی جاتی تھی جن ميں سے چند درج کر رہا ہوں

ايک رضاکار ادارہ ہوتا تھا “جنرل نالج سوسائٹی” جو معلوماتِ عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابيں شائع کرتا تھا اور ہر سال گرميوں کی تعطيلات ميں امتحان منعقد کيا کرتا تھا ۔ يہ کتب برائے نام قيمت پر دستياب ہوتی تھيں ۔ اساتذہ چھٹی جماعت سے ہی يہ امتحان پاس کرنے کی ترغيب ديتے ۔ ان امتحانات کی چار مختلف سطحيں ہوتی تھيں ۔ ہم لوگوں نے نويں جماعت تک تيسری سطح تک کے امتحان پاس کئے ۔ پاس کرنے کيلئے 80 فيصد نمبر حاصل کرنا لازم تھے ۔ يہ معلومات قومی تاريخ ۔ مشہور ملکی اور غيرملکی لوگ اور ان کے کارناموں ۔ تاريخی مشہور واقعات ۔ مشہور جغرافيائی مقامات اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہوتی تھيں

ايک سِول ڈيفنس کا ادارہ ہوتا تھا اور ايک فرسٹ ايڈ کا ۔ يہ بھی رضاکار ادارے تھے ۔ يہ ادارے آٹھويں سے بارہويں جماعت کے طلباء کو چھُٹيوں ميں يا سکول کالج کے وقت کے بعد آگ بُجھانے ۔ ہوائی حملہ کی صورت ميں اقدامات ۔ عمارت ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے ۔ زخميوں کو ابتدائی طِبی امداد دينے ۔ زخميوں کو ہسپتال پہنچانے ۔ وبائی امراض کی صورت ميں گھر گھر جا کر ٹيکے لگانے ۔ محلوں ميں لوگوں کو بچاؤ کے طريقوں پر معلومات فراہم کرنے کے بارے ميں تعليم و تربيت ديتے تھے
يہ بھی تربيت دی جاتی تھی کہ
اگر سٹريچر نہ ہو تو دو آدمی مل کر کس طرح سٹيچر کا کام کرتے ہيں
اگر ايمبولنس يا گاڑی نہ ہو تو دو بائيسائيکلوں کو جوڑ کر کيسے گاڑی بنائی جاتی ہے کہ زخمی کو ہسپتال پہنچايا جائے
اور اگر سٹريچر اور بائسائيکل نہ ہوں تو کيسے چار آدمی مل کر مريض کو ہسپتال پہنچاتے ہيں
مشق کيلئے جھوٹے فضائی حملے ہوتے اور جھوٹی آگ لگائی جاتی اور ہميں کام کرتے ہوئے ديکھا جاتا کہ تربيت مں کوئی کمی تو نہيں رہ گئی
ان کے تحريری اور عملی امتحانات ہوتے تھے
تربيت کے بعد محلوں کے گروپ بنا ديئے جاتے ہر گروپ کا ايک ليڈر ہوتا ۔ بلکہ وارڈ ہوا کرتے تھے جو بڑے محلوں ميں ايک سے زيادہ تھے
جب رضاکاروں کی ضرورت پڑتی سِول ڈيفنس والوں کے پاس فہرستيں ہوتی تھيں ہميں بُلا ليا جاتا تھا ۔ ہم سے مختلف فلاحی کام لئے جاتے ۔
کچھ محلوں ميں رمضان کے مہينہ ميں خود سے سب رضاکار مل کر سحری کيلئے لوگوں کو باجماعت بلند آواز ميں”جاگو جاگو” کہہ کر جگايا کرتے تھے

سکول اور کالج ميں بارہويں تک اخلاقيات کے ہفتہ وار ليکچر ہوا کرتے تھے جن ميں ہميں بتايا جاتا تھا کہ
گھر کے اندر کيسے رہتے ہيں
محلے ميں کيسے رہتے ہيں
دوسروں کے ساتھ کيسا سلوک کرنا چاہيئے
کمزور يا بوڑھے يا معذور آدمی کی مدد کرنا چاہيئے
پانی يا اناج ضائع نہيں کرنا چاہيئے
بس ميں کيسے سفر کرتے ہيں
پکنک پر کيا کرتے ہيں
اور کيا کيا نہيں کرنا چاہيئے

دو اصول ہميں بار بار ياد کرائے جاتے تھے

آدمی اپنی مدد تو کرتا ہی ہے ۔ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے
By being polite and saying thank you, you lose nothing but you may gain

مندرجہ بالا کے علاوہ
بيت بازی ۔ مضمون نويسی اور تقريری مقابلے ہوتے ۔ پہلے سيکشن ميں ۔ پھر پوری جماعت کا ۔ پھر پورے سکول يا کالج کا
سکول اور کالج ميں صبح سويرے پڑھائی شروع ہونے سے ايک گھنٹہ قبل جسمانی تربيت المعروف پی ٹی [Physical Training] کے لئے بُلايا جاتا اور پی ٹی کرائی جاتی
نصابی مضامين کی حاضری 80 فيصد اور ورزش کی حاضری 70 فيصد ہونا ضروری تھی بصورتِ ديگر سالانہ امتحان ميں بيٹھنے نہيں ديا جاتا تھا

مندرجہ بالا صورتِ حال اُس زمانہ کی ہے جو آج کے جوانوں کے مطابق شايد جاہليت کا دور تھا ۔ يہ نظام 1966ء ميں بے توجہی کا شکار ہونا شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں بجائے درستگی کے اسے ختم کر ديا گيا
آج کا پڑھا لکھا طبقہ ڈھيروں اسناد حاصل کر کے اچھی ملازمت کی تلاش ميں سرگرداں رہتا ہے مگر معاشرے کے فرد کی حيثيت سے اپنی ذمہ داريوں سے ناواقف ہے

پاکستانی ابھی زندہ ہے

آج کے دبئی کے انگريزی اخبار “گلف نيوز” ميں ايک خبر پڑھ کر تازہ ہوا کا جھونکا آيا اور سينہ کشادہ ہو گيا ۔ ايک 32 سالہ پاکستانی بايزيد شفارس خان 2003ء سے متحدہ عرب امارات ميں ٹيکسی چلا کر اپنی روزی کما رہا ہے اور پاکستان ميں اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے ۔ پچھلے ماہ اپنے کمرے ميں آرام کر رہا تھا کہ ايک ساتھی نے بتايا کہ تين آدميوں نے ايک چور کو پکڑ ليا ہے ۔ بايزيد باہر نکلا تو ديکھا کہ چور ان کی گرفت سے نکلا جا رہا ہے ۔ اُس نے جاکر چور کو قابو کيا ہی تھا کہ وہ تين لوگ چھوڑ کر چلے گئے

بايزيد خان کہتا ہے کہ “ارد گرد کے لوگوں پر مجھے حيرت ہوئی کہ وہ کہہ رہے تھے چھوڑ دو ۔ خواہ مخوا اپنے گلے کيوں مصيبت ڈالتے ہو ۔ اُس کے ساتھی کل کو تُم سے بدلہ ليں گے ۔ ہم نے تو اچھائی کا ساتھ دينا اور برائی کو روکنا سيکھا ہے ۔ اس لئے ميں نے اسے نہ چھوڑا حالانکہ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی ۔ پوليس کو آنے ميں دير لگی مگر ميں نے اُسے نہ چھوڑا”

کاش ميرے ہموطن اس غريب ٹيکسی ڈرائيور سے ہی کچھ سبق سيکھيں جس نے غير ملک ميں بھی اچھائی اور برائی کو درست طريقہ سے ياد رکھا

يومِ آزادی ۔ کچھ حقائق

my-id-pak
ميں نے کل يہ تحرير صبح سويرے ہی شائع کر دی ۔ بعد ميں ديکھا تو تحرير ميرے بلاگ سے غائب ہو گئی تھی مگر اُردو سيّارہ پر موجود تھی ۔ بڑی تگ و دو کے بعد دوبارہ شائع کی تو درست نہ کيا ہوا مسؤدہ شائع ہو گيا ۔ وہ نامعلوم کہاں سے آ گيا تھا ۔ اب ميں نے درست تحرير شائع کر دی ہے اور عنوان بھی درست کر ديا ہے

آج ہمارے ملک کی عمر 63 شمسی سال ہو گئی ہے اور قمری مہينوں کےحساب سے 64 سال سے تين ہفتے کم

تمام پاکستانی بزرگوں بہنوں بھائيوں بچوں اور بچيوں کو يومِ آزادی مبارک ۔ اس وقت پورے ملک کی 10 فيصد آبادی صدی کے بدترين سيلاب سے متاءثر ہو چکی ہے جن ميں ايک کروڑ صرف پنجاب ميں متاءثر ہوئے ہيں اور 40 لاکھ بچے متاءثر ہوئے ہيں ۔ بقايا 90 فيصد ہموطنوں کا فرض ہے کہ اپنے ان بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور بچوں کی ہر طرح سے مدد کريں ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی ديانتداری سے اپنے فرائض جلد از جلد پورے کرنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين

1946ء کے بلوچستان ۔ سندھ ۔ خيبر پختونخواہ ۔ پنجاب اور بنگال کے علاوہ باقی ہندوستان سے پاکستان آئے ہوئےچند مسلمان يا اُن کی اولاد جن ميں الطاف حسين صاحب جيسے روشن خيال اور محمود مدنی صاحب جيسے مُلا بھی شامل ہيں تحريکِ پاکستان اور پاکستان کے قيام کے بارے ميں اُؤٹ پٹانگ بيانات ديتے رہتے ہيں ۔ اسلئے قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے [صوبے] بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی [ہندو] نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی سو فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے ۔ مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ”پاکستان”

15 اگست 1947ء کو مولانا ظفر علی خان کا لکھا ہوا مندرجہ ذيل قومی ترانہ نشر ہوا تھا . ميری عمر اس وقت دس سال تھی ۔ مجھے پہلا مصرع اور چند اور مصرعے ياد تھے ۔ مکمل مہياء کرنے کيلئے ميں شکر گذار ہوں فرحت کيانی صاحبہ کا

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

معنی بشکريہ محمد وارث صاحب
ملا ۔ ظاہر ۔ واضح
خلا ۔ غائب
گٹکری ۔ وہ سریلی اور پیچ دار آواز جو کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے اپنے حلق سے نکالتے ہیں

وقت گذارنا ؟

رمضان المبارک کا مہينہ شروع ہو چکا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حضور ميں عرض ہے کہ ہميں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے اور ہر بُرائی سے بچنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ يونہی ياد آ گيا کہ ميرے ہموطن بعض اوقات اپنے بھولپن کی وجہ سے اپنی عبادت کو ناقص بنا ديتے ہيں

آدھی صدی قبل کی بات ہے جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا کہ رمضان مبارک کے مہينےميں ايک دن ميں اور ايک ہم جماعت شاہ عالمی سے کچھ سامان لے کر واپس ميکلوڈ روڈ سے ريلوے سٹيشن کی طرف جا رہے تھے ۔ سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا ۔ اچانک ايک سنيما سے لوگ باہر نکلے ۔ ان ميں ايک ميرے ساتھی کا واقف کار بھی تھا

ميرے ساتھی نے پوچھا “فلم ديکھ کر آ رہے ہو ؟”
اس نے کہا “ہاں يار ۔ روزہ رکھا ہوا ہے وقت گذارنے آ گيا تھا”

تين دہائياں گذريں رمضان المبارک ميں سہ پہر کو ايک صاحب کے گھر کسی کام سے جانا پڑا ۔ صاحبِ خانہ آنکھيں مسلتے ہوئے تشريف لائے
ميں نے شرمندہ ہو کر کہا “ميں معافی چاہتا ہوں آپ کے آرام ميں مُخل ہوا ۔ عصر کا وقت ہو گيا تھا ۔ ۔ ۔”
صاحبِ خانہ بولے “ٹی وی پر ڈرامہ ديکھ رہا تھا ۔ روزے ميں ذرا وقت گذر جاتا ہے”

رمضان المبارک ميں روزہ کے دوران وقت گذارنے ک بہترين طريقہ تلاوت قرآن شريف ہے ۔ تلاوت کرتے تھک جائيں تو آرام کيجئے تاکہ عشاء کے بعد نماز تراويح ميں نيند نہ آئے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ھدائت نصيب فرمائے اور سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

رمضان مبارک

سب بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائیوں ۔ بھتیجیوں ۔ بھتیجوں ۔ بھانجیوں ۔ بھانجوں ۔ پوتيوں ۔ پوتوں ۔ نواسيوں ۔ نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان مبارک

اللہ آپ سب کو اور مجھے بلکہ تمام مسلمانوں کو رمضان کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے۔

اللہ سُبحانُہ و تعالٰی کا فرمان ہے

شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيہِ الْقُرْآنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَھِدَ مِنكُمُ الشَّھْرَ فَلْيَصُمْہُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللُّہ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللَّہ عَلَی مَا ھَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ ۔ رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ

ايک قدر والی رات بھی اسی مبارک مہينہ ميں ہے جس کے متعلق فرمانِ باری تعالٰی ہے

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے