ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

بلا شُبہ عصرِ حاضر ميں سائنس کی پچھلی آدھی صدی ميں روز افزوں ترقی کے نتيجہ ميں کئی نئے علوم متعارف ہوئے ہيں ۔ ترقی نے زندگی بظاہر بہت آسان بنا دی ہے اور فاصلے بہت کم کر ديئے ہيں ۔ وہ زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے کراچی خط لکھ کر جواب کيلئے ايک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ يورپ ۔ امريکا يا جاپان کی صورت ميں چار چھ ہفتے معمولی بات تھی ۔ آج اسلام آباد ميں بيٹھے براہِ راست امريکا اور جاپان بات ہو سکتی ہے اور ايک دوسرے کو ديکھا بھی جا سکتا ہے ۔ بہت سی ديگر سہوليات بھی ميسّر ہو گئی ہيں ۔ يہ سب کچھ ہميں دساور سے دستياب ہوا ہے ۔ اس ميں اپنی محنت اول ہے ہی نہيں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ۔ ہم نے دساور سے ان سہوليات کے ساتھ فرنگيوں کی فضوليات تو بہت لے ليں ہيں مگر اُن کی خُوبيوں کو نہيں اپنايا

ميرا موضوع البتہ يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ کيا آج سے آدھی صدی قبل ہم زيادہ تربيت يافتہ تھے يا کہ آج ہم زيادہ تربيت يافتہ ہيں ؟

پانچ سال قبل زلزلہ نے ہميں پريشان کيا اور آج ہميں سيلاب نے اس سے بھی زيادہ پريشان کر ديا ہے ۔ پريشانی کی بنيادی وجوہ دو ہيں

ايک ۔ مال کی محبت نے بے راہ رَو بنا ديا ہے
دو ۔ مربوط عمل سے نا آشنائی

ہم ايسے نہ تھے بلکہ ايسے بن گئے ہيں
ہمارے دين نے ہميں سيدھی راہ اور مربوط عمل کا سبق ديا مگر ہم نے دين کو ترقی کی راہ ميں رکاوٹ سمجھنا شروع کر ديا
معمارانِ قوم جن کی فراست و محنت کے نتيجہ ميں اللہ نے ہميں يہ مُلک عطا کيا ہم نے اُن کے ترتيب ديئے ہوئے نظام کو نام نہاد ترقی کے نام پر تج ديا

آدھی صدی قبل کا طريقہ تعليم

چھَٹی جماعت سے ہی نصاب سے متعلق کُتب کے ساتھ ساتھ غير نصابی يا ہم نصابی کُتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔ خلاصہ يا ماڈل پيپر وغيرہ کسی طالبعلم کے پاس ديکھا جائے تو چھين ليا جاتا تھا
روزمرہ اور فلاحی کاموں ميں عملی تربيت کی ترغيب دی جاتی تھی جن ميں سے چند درج کر رہا ہوں

ايک رضاکار ادارہ ہوتا تھا “جنرل نالج سوسائٹی” جو معلوماتِ عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابيں شائع کرتا تھا اور ہر سال گرميوں کی تعطيلات ميں امتحان منعقد کيا کرتا تھا ۔ يہ کتب برائے نام قيمت پر دستياب ہوتی تھيں ۔ اساتذہ چھٹی جماعت سے ہی يہ امتحان پاس کرنے کی ترغيب ديتے ۔ ان امتحانات کی چار مختلف سطحيں ہوتی تھيں ۔ ہم لوگوں نے نويں جماعت تک تيسری سطح تک کے امتحان پاس کئے ۔ پاس کرنے کيلئے 80 فيصد نمبر حاصل کرنا لازم تھے ۔ يہ معلومات قومی تاريخ ۔ مشہور ملکی اور غيرملکی لوگ اور ان کے کارناموں ۔ تاريخی مشہور واقعات ۔ مشہور جغرافيائی مقامات اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہوتی تھيں

ايک سِول ڈيفنس کا ادارہ ہوتا تھا اور ايک فرسٹ ايڈ کا ۔ يہ بھی رضاکار ادارے تھے ۔ يہ ادارے آٹھويں سے بارہويں جماعت کے طلباء کو چھُٹيوں ميں يا سکول کالج کے وقت کے بعد آگ بُجھانے ۔ ہوائی حملہ کی صورت ميں اقدامات ۔ عمارت ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے ۔ زخميوں کو ابتدائی طِبی امداد دينے ۔ زخميوں کو ہسپتال پہنچانے ۔ وبائی امراض کی صورت ميں گھر گھر جا کر ٹيکے لگانے ۔ محلوں ميں لوگوں کو بچاؤ کے طريقوں پر معلومات فراہم کرنے کے بارے ميں تعليم و تربيت ديتے تھے
يہ بھی تربيت دی جاتی تھی کہ
اگر سٹريچر نہ ہو تو دو آدمی مل کر کس طرح سٹيچر کا کام کرتے ہيں
اگر ايمبولنس يا گاڑی نہ ہو تو دو بائيسائيکلوں کو جوڑ کر کيسے گاڑی بنائی جاتی ہے کہ زخمی کو ہسپتال پہنچايا جائے
اور اگر سٹريچر اور بائسائيکل نہ ہوں تو کيسے چار آدمی مل کر مريض کو ہسپتال پہنچاتے ہيں
مشق کيلئے جھوٹے فضائی حملے ہوتے اور جھوٹی آگ لگائی جاتی اور ہميں کام کرتے ہوئے ديکھا جاتا کہ تربيت مں کوئی کمی تو نہيں رہ گئی
ان کے تحريری اور عملی امتحانات ہوتے تھے
تربيت کے بعد محلوں کے گروپ بنا ديئے جاتے ہر گروپ کا ايک ليڈر ہوتا ۔ بلکہ وارڈ ہوا کرتے تھے جو بڑے محلوں ميں ايک سے زيادہ تھے
جب رضاکاروں کی ضرورت پڑتی سِول ڈيفنس والوں کے پاس فہرستيں ہوتی تھيں ہميں بُلا ليا جاتا تھا ۔ ہم سے مختلف فلاحی کام لئے جاتے ۔
کچھ محلوں ميں رمضان کے مہينہ ميں خود سے سب رضاکار مل کر سحری کيلئے لوگوں کو باجماعت بلند آواز ميں”جاگو جاگو” کہہ کر جگايا کرتے تھے

سکول اور کالج ميں بارہويں تک اخلاقيات کے ہفتہ وار ليکچر ہوا کرتے تھے جن ميں ہميں بتايا جاتا تھا کہ
گھر کے اندر کيسے رہتے ہيں
محلے ميں کيسے رہتے ہيں
دوسروں کے ساتھ کيسا سلوک کرنا چاہيئے
کمزور يا بوڑھے يا معذور آدمی کی مدد کرنا چاہيئے
پانی يا اناج ضائع نہيں کرنا چاہيئے
بس ميں کيسے سفر کرتے ہيں
پکنک پر کيا کرتے ہيں
اور کيا کيا نہيں کرنا چاہيئے

دو اصول ہميں بار بار ياد کرائے جاتے تھے

آدمی اپنی مدد تو کرتا ہی ہے ۔ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے
By being polite and saying thank you, you lose nothing but you may gain

مندرجہ بالا کے علاوہ
بيت بازی ۔ مضمون نويسی اور تقريری مقابلے ہوتے ۔ پہلے سيکشن ميں ۔ پھر پوری جماعت کا ۔ پھر پورے سکول يا کالج کا
سکول اور کالج ميں صبح سويرے پڑھائی شروع ہونے سے ايک گھنٹہ قبل جسمانی تربيت المعروف پی ٹی [Physical Training] کے لئے بُلايا جاتا اور پی ٹی کرائی جاتی
نصابی مضامين کی حاضری 80 فيصد اور ورزش کی حاضری 70 فيصد ہونا ضروری تھی بصورتِ ديگر سالانہ امتحان ميں بيٹھنے نہيں ديا جاتا تھا

مندرجہ بالا صورتِ حال اُس زمانہ کی ہے جو آج کے جوانوں کے مطابق شايد جاہليت کا دور تھا ۔ يہ نظام 1966ء ميں بے توجہی کا شکار ہونا شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں بجائے درستگی کے اسے ختم کر ديا گيا
آج کا پڑھا لکھا طبقہ ڈھيروں اسناد حاصل کر کے اچھی ملازمت کی تلاش ميں سرگرداں رہتا ہے مگر معاشرے کے فرد کی حيثيت سے اپنی ذمہ داريوں سے ناواقف ہے

This entry was posted in تاریخ, روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

  1. عدنان مسعود

    درست فرمایا اجمل صاحب۔ نا صرف یہ کہ ہم نے رضاکارانہ ادارے کھو دئے بلکہ تعلیم کو بھی ‘کرٹکل تھنکنگ’ سے نکال کر رٹافیکیشن تک محدود کردیا۔ آج سائنس سے ایف اے پاس طلبہ کی بھی جغرافیہ، عمرانیات اور دیگر ‘نان ٹیکنیکل’ موضوعات پر معلومات کیلکولس کی زبان میں ‘اپروچس ٹو زیرو’ ہوتی ہیں، اور ٹیکنیکل معاملات میں رٹافیکیشن پر مبنی۔ جیسے آپ نے کہا، سول ڈیفینس اور فرسٹ ایڈ کے رضاکارانہ ادارے کسی بھی قسم کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے تیاری کراتے ہیں۔ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر اونٹ کا گھٹنہ باندھنے کے مصداق ‘ڈیزاسٹر مینیجمنٹ’ کی تیاری سے ایک جان بھی بچائی جاسکے تو یہ یقینا یہ ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہی ہوگا۔

    پچھلے دنوں برادرم راشد کامران سے میراتھن دوڑتے ہوئے اسی بات کا ذکر چلا تھا کہ یہاں پر ہر رنگ و نسل کے لوگ صبح چھ بجے دوڑتے ہوئے اجنبیوں کو پانی پلانے سردی میں رضاکارانہ طور پر باہر کھڑے ہیں، ہمارے یہاں تو والدین یہ پوچھیں گے کہ بچہ کھڑا ہوگا تو پیسے ملیں گے کہ نہیں؟ آپ نے بجا فرمایا کہ رضاکارانہ کاموں کا تصور ہماری اجتماعی زندگیوں سے نکلتا جا رہا ہے۔

    میری ناقص رائے میں موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام میں ‘کرٹکل تھنکنگ’ کو اجاگر کیا جاے اور رضاکارانہ رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عدنان مسعود صاحب
    آپ نے بات چھيڑی ہے تو بتاؤں کہ ميں ايف ايس سی پاس کرنے تک رات نو بجے کے بعد کبھی نہيں جاگا تھا ۔ صبح پو پھٹتے ہی جاگ کر ايک دوست کے ساتھ تين چار کلو ميٹر کی تيز سير کر کے واپس آتا ۔ پھر نماز فجر کے بعد صبح تک پڑھتا ۔ سہ پہر کو ہاکی يا باسکٹ بال کھيلنے چلا جاتا تھا ۔ مسجد کميٹی ہو يا کوئی رفاہی ادارہ اس ميں ميرا نام آگے بڑھ کر کام کرنے والوں ميں ہوتا تھا ۔ فرسٹ ايڈ ميں درجنوں ٹيکے لگائے ۔ پٹياں کيں ۔ ايئر ڈيفنس ميں حصہ ليا ۔ خندقيں کھوديں ۔ 1965ء کی جنگ ميں مجھے اپنے دفتر کے کام کے ساتھ ساتھ سب سيکٹر کمانڈرلگا ديا گيا تھا ۔ 24 گھنٹوں ميں 18 گھنٹے سے 24 گھنٹے کام کيا ۔ يہ سب ہمارے اساتذہ کی دی ہوئی تربيت کا نتيجہ تھا

  3. Pingback: Tweets that mention Post: ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟ -- Topsy.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.