اسلام کیا ہے ؟

اسلام ایک سرنامہ [label] نہیں ہے

اسلام ایک طرزِ زندگی ہے اسے اپنایئے

اسلام ایک سفر ہے اسے مکمل کیجئے

اسلام ایک تحفہ ہے اسے قبول کیجئے

اسلام ایک جد و جہد ہے اس میں ڈٹ جایئے

اسلام ایک منزلِ مقصود ہے اسے حاصل کیجئے

اسلام ایک بہترین موقع ہے اسے ضائع نہ کیجئے

اسلام گناہگاروں کیلئے نہیں ہے غالب آیئے

اسلام ایک کھیل نہیں ہے اس سے مت کھیلئے

اسلام ایک معمہ نہیں ہے اسے تھامیئے

اسلام بزدلوں کیلئے نہیں ہے مقابلہ کیجئے

اسلام مُردوں کیلئے نہیں ہے اس میں زندہ رہیئے

اسلام ایک وعدہ ہے اسے پوراکیجئے

اسلام ایک فرض ہے اسے سرانجام لایئے

اسلام زندگی کا ایک خوبصورت راستہ ہے اسے دیکھیئے

اسلام آپ کیلئے ایک پیغام ہے اسے سُنیئے

اسلام سراپا محبت ہے اس سے محبت کیجئے

جو چاہے کوئی کہے ۔ اسلام آج بھی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا نظريہ ہے

ہماری حالت ايسی کيوں ہے ؟

آج ہموطن عوام ميں سے اکثر پريشان ہيں کہ ہمارا حال ايسا کيوں ہے اور بہتری کی صورت کيوں نہيں بنتی ۔ ميں پچھلے سات آٹھ سال سے اسی سوچ ميں گم رہتے رہتے محسوس کرنے لگا ہوں کہ ميری یاد داشت متاءثر ہو گئی ہے ۔ مطالعہ ميری بچپن سے عادت ہے ۔ پچھلے دنوں جامع ترمذی ابواب الفتن ميں موجود ايک حديث مبارک پر نظر پڑی تو استغفار پڑھے بغير نہ رہ سکا کيونکہ اپنی موجودہ حالت کی وجہ سمجھ ميں آ گئی تھی

رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جب ميری اُمت يہ کام کرنے لگے تو ان پر مصيبتيں اُترتی رہيں گی

1 ۔ مسلمان حاکم مُلک کے لگان [tax] کو اپنی ذاتی دولت بنائيں گے
2 ۔ امانت کو مالِ غنيمت کی طرح حلال جانيں گے
3 ۔ لوگ زکٰوة کو تاوان سمجھ کر ادا کريں گے
4 ۔ عِلم صرف دُنياوی اغراض کيلئے سيکھا جائے گا
5 ۔ شوہر بيوی کی بے جا اطاعت کرے گا
6 ۔ اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے گی ۔ اپنے دوست کو قريب کرے گی اور اپنے باپ کو دور کرے گی
7 ۔ مسجدوں ميں کھيل کود کريں گے
8 ۔ خوف کی وجہ سے لوگوں کی آؤ بھگت اور تعظيم و تکريم کی جائے گی
9 ۔ قوم کے رہنما بہت لالچی ۔ رزيل اور بدخلق ہوں گے
10 ۔ گانے باجے ظاہر ہوں گے
11 ۔ شراب نوشی ہو گی
12 ۔ امت کی پچھلی جماعت پہلے لوگوں کو بُرا کہے گی ۔ اگلے لوگوں پر لعنت اور طعن زنی کرے گی
13 ۔ ريشمی لباس پہنے جائيں گے
يہ سب باتيں جب ہونے لگيں تو تم سُرخ آندھی کا انتظار کرو ۔ زلزلہ ۔ زمين ميں دھنسنا اور صورت کا بگڑنا اور آسمانی پتھراؤ اور ديگر نشانياں جو يکے بعد ديگرے ہونے لگيں گی

امريکا کی دہشتگردی ۔ مزيد معلومات

ميں نے کل امريکا کی پہلی دہشتگری کے عنوان کے تحت لکھا تھا اس پر عرصہ دراز سے جاپان ميں رہائشی ياسر صاحب اور ابو احمد صاحب نے مزيد معلومات فراہم کی ہيں جو نقل کر رہا ہوں

ياسر صاحب لکھتے ہيں
دھماکے کے بعد کالی بارش بھی ہوئی۔
چھ سے دس کلومیٹر سے زیادہ کاعلاقہ اس سےمتاثر ہوا جس کے متاثرین ابھی تک عدالت میں جا رھے ہیں کہ حکومت کے ریکارڈ میں اپنے آپ کو تابکاری کے متاثرین میں شامل کروایں۔ ان کے مطابق ان کی اولاد میں بھی اس تابکاری کے اثرات ہیں۔
جسے گلے کا کینسر وغیرہ۔

ابو احمد صاحب لکھتے ہيں
محترم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے سال گرہ مبارک!!!! اللہ کرے کہ آپ اچھی صحت، عافیت اور خوشیوں کے ساتھ تا دیر زندہ و سلامت رہیں۔
جاپان پر امریکی دہشت گردی پر آپ کی یہ پوسٹ خاصی معلومات افزا اور فکر انگیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہہ اس سوپر پاور ریاست کی بنیادوں میں ہی ظلم، ناانصافی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری شامل ہے۔ گوروں نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے کروڑوں کی تعداد میں اصل امریکی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا قتلِ عام کیا۔ اور تو اور ان اصل باشندوں کوبغیر جنگ کے بھوکا مارنے کے لیے کروڑوں بے زبان جنگلی بھینسے (bisons) شوٹ کرے کے انھیں گلنے سڑنے کو چھوڑ دیا۔ صرف اس لیے کہ انھی بھینسوں گوشت اور کھال وغیرہ پر ان نہتے ریڈ انڈنیز کا گزارا تھا۔
پھر افریقہ سے لاکھوں آزاد لوگوں، (زیادہ تر مسلمان قبائل) کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان سے جانوروں کی طرح مشقت لے کر اس ملک کی معاشی بنیادیں کھڑی کی گئیں۔
میرا خیال ہے کہ چھے اگست کا سانحہ امریکیوں کی اولین دہشت گردی نہ تھا۔ اس کا سلسلہ امریکہ کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بلا مبالغہ درجنوں ملکوں پر حملہ اور قبضہ کیا ہے۔ جنوبی امریکہ تو کل تک ان کا محفوظ پچھواڑا سمجھا جاتا رہا تھا، اس سلسلے میں امریکیوں نے منرو ڈاکٹرن بھی جاری کر رکھی تھی۔ یہ تو حال ہی میں لاطینی امریکی ملکوں میں جمہوری انقلابوں کے ذریعے امریکہ تسلط کے خاتمے کی شروعات ہو رہی ہیں ورنہ ان ملکوں میں امریکہ مخالف حکومتوں کا قیام اور استحکام ناممکن رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ نے وہاں پنوشے جیسے ڈکٹیٹروں کی خوب پشت پناہی کی۔
امریکہ کی عالمی دہشت گردی کی تاریخ کے حوالے سے کافی مواد اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
بہرحال میرا اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا اصلاً کوئی ارادہ نہ تھا۔ دراصل میں نے چند ہی روز قبل سرزمینِ بلاگستان پرایک قاری کی حیثیت سے قدم رکھا ہے اور یہ جان کر کافی مایوسی اور افسوس ہوا کہ سارے نہیں تو بہت سے پاکستانی بلاگر بھائی بہن اس وطنِ عزیز اور اس کے بنیادی نظریے سے یا تو نا بلد ہیں ، یا بوجوہ اس سے صرف نظر فرماتے ہوئے غیروں کے پراپیگنڈے کی جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلام کو حیلے بہانوںسے دورِ حاضر میں ناقابلِ عمل قراد دینا ان میں سے بعض کا مطمحِ نظر لگتا ہے۔ سیکولرزم، لبرلزم اور نیشنلزم کے لبادوں میں یہ لوگ در اصل امریکہ ایجنڈے کو ہی بڑھاوا دے رہے ہیں اور نتائج سے بے پروا ہو کر اُسی شاخ پر آرا چلا رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ ایسے میں آپ جیسے بزرگوں کا دم مجھے غنیمت لگا، جو اس نام نہاد ترقی کے دور میں بھی چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والے دینِ حق وانصاف و عدل کی بات کرتے ہیں۔ جو نام نہاد جدیدیت (در اصل مغربیت) کی آندھیوں کے مقابلے میں اسلامی مشرقی اقدار کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ بقولِ حضرت اقبال
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
میں پاکستان کی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔قیام ِ پاکستان کے وقت بھارت میں عرصہ حیات تنگ ہونے پر میرے ماں باپ نے اپنے والدین کے ساتھ خون کی ندیاں پار کر کے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔جو دل خراش کہانیاں ان سے سننے کو ملیں ان کی وجہ سے ہم جیسے گئے گزرے دنیا پرستوں کے دلوں میں بھی اپنی اصل اقدار اور وطنِ عزیز سے محبت کا کم از کم ایک چھوٹا سا ذرہ ضرور موجود ہے۔(عمل کا خانہ بھلے صفر ہی ہے)۔ اس بنا پر جہاں سے بھی ہمیں آوازِ دوست یا بوئے جوئے مولیاں آتی ہے اس طرف طبیعت ضرور لپکتی ہے۔ آپ کے صفحے پر آمد بھی اسی باعث ہوئی۔ ابھی تک مجھے آپ کے جیسا کوئی اور مخلص بلاگر نظر نہیں آیا۔ یقیناً اور بھی بہت سے دین و وطن دوست اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوں گے اور شاید ابھی میری ان تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں بھی آپ کی رہنمائی چاہوں گا۔ فی الحال میری طرف سےان سب کو یہ پیامِ محبت دے دیجئے
بہ آں گروہ کہ از ساغرِ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ، ہر کُجا ہستند
آخر میں ایک بار پھر آپ کی صحت ، عافیت ، درازی عمر اور نیکیوں کی قبولیت کی دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

پہلی دہشتگردی

ميں اتفاق سے 6 اگست کو پيدا ہوا تھا مگر کسی کے وہم و گماں ميں نہ تھا کہ امريکا ايک بڑی طاقت بن کر دنيا ميں بڑے پيمانے پر دہشتگردی کا آغاز کرے گا اور ميں اپنی پيدائش کے دن خوش ہونے کی بجائے مغموم بيٹھا کروں گا

امريکا جو امن کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے نے جب ايٹم بم بنانا شروع کيا تو معاندانہ طور پر اسے خُفيہ رکھا اور اس کا نام مين ہيٹن پروجيکٹ [Manhattan Project] اور کارخانہ کے علاقہ کا نام مين ہيٹن انجيئر ڈسٹرکٹ [Manhattan Engineer District.] رکھا ہوا تھا ۔
ليباٹری ميں پہلا کامياب تجربہ 16 جولائی 1945ء کو کيا گيا
اور
پہلا عملی تجربہ 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہيروشيما پر کيا گيا جہاں کی آبادی اُس وقت 3 اور 4 لاکھ کے درميان تھی ۔
بم گرانے کے بعد آگ کا اايک گولہ اُٹھا جس کا قطر 30 ميٹر تھا
اور درجہ حرارت 3 لاکھ درجے سَيلسيئس ۔
اس تابکاری بادل کی اُونچائی 17000 ميٹر تک پہنچی ۔
اس کے بعد کالی بارش ہوئی جس سے تابکاری فُضلہ [radioactive debris] ايک بہت بڑے علاقہ پر ايک گھنٹہ تک گرتا رہا

اس 3 لاکھ درجے سَيلسيئس حرارت کے نتيجہ ميں
بم گرنے کی جگہ کے گرد کم از کم 7 کلو ميٹر قطر کے دائرہ ميں موجود جانداروں کے جسم کی کھال جل گئی آنکھوں کی بينائی جاتی رہی ۔
2 کلو ميٹر قطر کے اندر موجود ہر جاندار جل کر راکھ ہو گيا ۔
گھروں کے شيشے اور ٹائليں پگھل گئيں ۔
جو کوئی بھی چيز جل سکتی تھی جل کر راکھ ہو گئی

اس دھماکے کے بعد ہوا کا دباؤ يکدم بڑھ کر 35000 کلو گرام فی سکوائر ميٹر ہو گيا
بعد ميں اس کے نتيجہ ميں طوفانی ہوائيں چليں جن کی رفتار 1584 کلو ميٹر فی گھنٹہ تھی ۔
دھماکہ کی جگہ کے گرد 5 کلو ميٹر علاقہ ميں تمام لکڑی کے مکان جل کر فنا ہو گئے
اور کنکريٹ کے مکانوں کے پرخچے اُڑ گئے ۔
6 سے 10 کلو ميٹر کے اندر موجود انسان تابکاری اثرات کی وجہ سے بعد ميں کينسر اور دوسری خطرناک بيماريوں سے ہلاک ہوتے رہے ۔
1976ء ميں اقوامِ متحدہ ميں ديئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 6 اگست 1945ء کو ہيرو شیما کے ايٹمی دھماکہ ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150000 کے قريب تھی
اور 1957ء کے قانون کے مطابق جن لوگوں کے پاس ہيلتھ کارڈ تھے 31 مارچ 1990 کو تيار کئے گئے ريکارڈ کے مطابق ايٹمی دھماکہ سے متاءثر 352550 لوگوں کو علاج کی سہولت مہياء کی گئی

تابکاری اثرات کے تحت کئی سال تک عجيب الخلقت بچے پيدا ہوتے اور مرتے رہے

ہيروشيہ پر ايٹمی دھماکے کے بعد کے چند مناظر

جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے ظاہر ہے

برہمنوں کا برتاؤ

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا

ایک دن ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا

جموں ميں تعلیم اور سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ميں جس سکول ميں پڑھتا تھا وہ ايک ہندو گُپتا خاندان کی ملکيت تھا اور وہی اسے چلا رہے تھے ۔ اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ 5 مسلمان اور 8 ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور 3 ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو مجھ سے 3 سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک 2 مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا ۔ خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے 3 اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں 8 سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔” لے کے رہیں گے پاکستان” ۔ “بَن کے رہے گا پاکستان” ۔ “پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلا اللہ” ۔ “تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 26 فٹ اُونچے پائپ پر لگایا

ہم کيا ہيں ؟

ملک و قوم کبھی تباہ کُن زلزلے کا شکار ہيں تو کبھی سيلاب کا ۔ دہشتگردی کہيں خود کُش حملہ کے نام سے ۔ کہيں ٹارگٹ کِلنگ کی صورت ميں اور کہيں برسرِ عام ڈکيتی بن کر مُلک اور عوام کا گوشت نوچ رہی ہے

جن کو ووٹ دے کر قوم نے اپنا نمائندہ بنايا وہ حُکمران بن کر عوام سے وصول کئے گئے ٹيکسوں کے بل بوتے پر عياشيوں ميں مشغول ہيں

خيبر پختونخواہ ميں سيلاب بڑے علاقے کو بہا کر لے گيا اور وہاں کے وزير اعلٰی کو پانچ دن تباہ شدہ علاقے کی خبر لينے ک فرصت نہ ملی

آزاد جموں کشمير کے دارالحکومت مظفرآباد ميں زلزلے کے 5 سال بعد بھی بہت سے لوگ چھپر نما عارضی مکانوں ميں رہ رہے تھے سيلاب کا ريلا وہ بھی بہا کر لے گيا اور ساتھ 53 انسان بھی ۔ وفاقی حکومت ابھی تک اس خوشی ميں مدہوش پڑی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کا حاکم وہاں بٹھا ديا ہے

خیبر پختونخواہ ۔ بلوچستان اور آزاد جموں کشمير کے بعد پنجاب بھی تباہی سے دو چار ہو گيا اور وزيِر اعظم کے شہر ملتان مں بھی پانی داخل ہو گيا مگر وزير اعظم صاحب کو اليکشن مہم سے فرصت نہ ملی ۔ چاروں طرف سے آوازے اُٹھنے لگے تو امدادی فنڈ کے سلسلہ ميں نيشنل بنک ميں اکاؤنٹ کھولنے کا اعلان ہوا مگر يہ نہ بتايا کہ اس ميں فنڈ آئے گا کہاں سے ؟

کراچی ميں ايک رُکن صوبائی اسمبلی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا ۔ اس کے بعد جو طوفان اُٹھا اس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 اور اور زخميوں کی تعداد 100 پر پہنچا دی ۔ يہی نہيں اس طوفان کی گھن گرج سے حيدرآباد اور سکھر بھی محفوظ نہ رہے ۔ جنگل اور جنگل کے قانون کی مثاليں دی جاتی ہيں مگر کراچی تو ترقی يافتہ شہر ہے جہاں خواندگی کا معيار بہت اونچا ہے

کراچی کی ہمدردی ميں وزير اعلٰی نے تحقيقات کا حکم دے کر اپنا فرض پورا کر ليا اور وفاقی وزير داخلہ نے سارا ملبہ سپاہِ صحابہ کے سر ڈال کر غُسلِ صحت کر ليا

صدرِ پاکستان ملک اور عوام کو ڈوبتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے بيٹے بلاول کی ليڈری کا اعلان کرنے براستہ فرانس لندن کے سفر پر روانہ ہو گئے

ہمارے معاشرے کا يہ حال ہے کہ کسی کو مُلا ايک آنکھ نہيں بھاتا تو کوئی دين اسلام کو موجودہ دور ميں ناقابلِ استمال قرار دينے ميں زمين آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور کوئی صوبائی تعصب پھيلانا فرضِ اوليں سمجھتا ہے

جو کام قوموں کے کرنے کے ہيں اُس کيلئے شايد کسی خلائی مخلوق کو لانا پڑے گا

ميں سوچتا ہوں “ہم کيا ہيں ؟”۔

آہ جاتی ہے فلک پر کا مصنف

ميں نے دعا لکھی
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

محمد اسد صاحب نے دريافت کيا کہ ” اس خوبصورت نظم کا لکھنے والا کون ہے؟” بات يہ تھی کہ نظم ميں نے زبانی لکھی تھی کيونکہ بچپن سے مجھے ياد ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے بزرگ کچھ شہيد ہوئے کچھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ۔ ميں ۔ مجھ سے بڑی دو بہنيں اور تين ہمارے رشتہ دار بچے اپنے بزرگوں سے عليحدہ ہو گئے تھے اور پيچھے رہ گئے تھے ۔ ہم دسمبر 1947ء کے آخر ميں پاکستان پہنچے ۔ سيالکوٹ ميں کچھ ماہ قيام کے بعد راولپنڈی ميں قيام کيا ۔ جہاں مجھے اسلاميہ مڈل سکول ۔ سرکولر روڈ ميں داخل کرا ديا گيا ۔ يہ اب اسلاميہ ہائی سکول ہے ۔ اس سکول ميں ہم سب طُلباء صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل يہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔ ميں نے يہ دعا سال بھر پڑھی پھر مسلم ہائی سکول چلا گيا

محمد اسد صاحب کی فرمائش نے مجھے شرمندہ کيا کہ جو دعا مجھے 60 سال بعد بھی ياد ہے اس کے مصنف کا نام معلوم نہيں ۔ ميں جب کسی قسم کی علمی پريشانی ميں مبتلا ہوتا ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری مدد فرماتا ہے اور ميرے ذہن کو تيز کر ديتا ہے ۔ گھنٹہ بھر ميرا ذہن چلتا رہا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی خلل واقع نہ ہوا اور ميں مُسلم قوم کے اس خادم تک پہنچ گيا

يہ دعا آغا محمد شاہ حشر المعروف آغا حشر کاشميری صاحب نے لکھی تھی ۔ آغا حشر کاشميری صاحب يکم اپريل 1879ء کو بنارس ۔ ہندوستان ميں پيدا ہوئے ليکن رہنے والے جموں کشمير کے تھے ۔ مشرقی تہذيب کے دلدادہ اور قومی آزادی کا جذبہ رکھتے تھے ۔ يہ دعائيہ نظم اُنہوں نے پہلی بار لاہور ميں انجمن حمائتِ اسلام کے جلسہ ميں پڑھی تھی

کوئی صاحب يا صاحبہ زيادہ جانتے ہوں تو مطلع فرمائيں ۔ مشکور ہوں گا