فرضی داستانيں اور حقيقت

مندرجہ ذيل ربط پر کلک کيجئے اور پڑھيئے کہ بھارتی حکومت کے جھوٹے واويلے کے مقابلے ميں حقيقت کيا ہے
Myth & Reality

اگر نہ کھلے تو مندرجہ ذيل يو آر ايل پر پڑھيئے

http://iabhopal.wordpress.com/2010/12/08

آسيہ ۔ عافيہ ۔ قانون ۔ انصاف

ميرے ہموطنوں کی اکثريت سنجيدہ قسم کی کُتب اور مضامين پڑھنے کيلئے وقت نکالنے سے قاصر ہيں ۔ ناول ۔ افسانے ۔ چٹخارے دار کہانياں پڑھنے اور مووی فلميں اور ڈرامے ديکھنے کيلئے اُن کے پاس وافر وقت ہوتا ہے ۔ البتہ بشمول سنجيدہ اور قانونی ہر موضوع پر تبصرہ کرنا اُن کے بائيں ہاتھ کا کھيل ہے ۔ چاہيئے تو يہ تھا کہ اس موضوع پر کوئی ماہرِ قانون جيسے شعيب صفدر صاحب قلم کاری کرتےليکن وہ شايد آجکل زيادہ اہم امور سے نپٹنے ميں مصروف ہيں

ميں قانون کا نہ تو طالب علم ہوں اور نہ ماہر مگر سرکاری ملازمت کی مختلف منازل [اسسٹنٹ منيجر ۔ منيجر ۔ پروڈکشن منيجر ۔ ورکس منيجر ۔ پرنسپل ۔ جنرل منيجر اور ڈائريکٹر] طے کرتے ہوئے اپنے تکنيکی کام کے ساتھ قانونی کاروائيوں سے بھی نبٹنا پڑتا رہا ۔ اس فرض کو بحُسن و خُوبی انجام دينے کيلئے قوانين کا مطالعہ کيا اور الحمد للہ کئی مشکل قانونی معاملات نبٹائے

آسيہ اور عافيہ کے مقدموں اور فيصلوں پر کئی خواتين و حضرات نے طويل جذباتی تحارير لکھيں ۔ ابھی تک اکثريت کے ذہنوں ميں ابہام ہے کہ دونوں کے مقدمات کے فيصلوں ميں سے کون سا درست ہے اور کون سا غلط ۔ اُميد ہے کہ مندرجہ ذيل قانونی صورتِ حال سے وضاحت ہو جائے گا

انسان کے حقيقی عمل سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ کوئی واقف نہيں ۔ عدالتيں شہادتوں کی بنياد پر قانون کے مطابق فيصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہيں ۔ اگر وہ ايسا نہيں کرتيں ہيں تو انصاف نہيں ہوتا بلکہ انصاف کا خون ہوتا ہے اور انصاف کا خون صرف وطنِ عزيز ميں ہی نہيں ہوتا رہا بلکہ دنيا کے تمام ممالک بشمول امريکا ميں ہوتا آيا ہے ۔ اس سلسلہ ميں اب امريکا انسانيت کی تمام حدود پار کر چکا ہے ۔ وہاں ملزم کو اپنی مرضی کی سزا دينے کيلئے نيا قانون بنا کر ملزم کے تمام انسانی اور قانونی حقوق سلب کر لئے جاتے ہيں

انصاف کيلئے قانون کا تقاضہ

فيصلہ کرنے کيلئے عدالت کا انحصار شہادتوں پر ہوتا ہے جو تين قسم کی ہوتی ہيں
1 ۔ مادی اور واقعاتی
2 ۔ دستاويزی
3 ۔ شخصی

آسيہ کے مقدمہ ميں چونکہ صرف زبان کا استعمال ہوا اور کوئی دستاويز يا ہتھيار استعمال نہيں ہوا اسلئے فيصلہ کا انحصار صرف شخصی شہادتوں پر تھا
واقعہ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے سب کو اکٹھا کيا جس ميں آسيہ سے جواب طلبی کی گئی تو آسيہ نے اقرار کيا کہ اُس نے توہينِ رسالت کا جُرم کيا ہے اور معافی کی درخواست کی
جُرم کسی شخص کے خلاف نہيں کيا گيا تھا بلکہ اللہ جل شانُہُ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے خلاف کيا گيا تھا جسے معاف کرنے کا کوئی انسان مجاز نہ تھا

آسيہ کے واقعہ کے سلسلہ ميں مروجہ قانون کے مطابق مندرجہ ذيل اقدامات لازم تھے

کسی ايک آدمی کی طرف سے متعلقہ تھانے ميں رپورٹ درج کرانا جسے ايف آئی آر کہتے ہيں ۔ جو کہ دو عورتوں نے درج کرائی جو عينی شاہد تھيں
چار پانچ سال قبل مقدمہ کی کاروائی سول جج کی عدالت ميں ہوا کرتی تھی جو قانون ميں تبديلی کے بعد ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج نے کرنا تھی اور ايسا ہی ہوا
چار پانچ سال قبل تفتيش متعلقہ تھانيدار کرتا تھا جو قانون ميں تبديلی کے بعد سپرنٹنڈنٹ پوليس کرتا ہے ۔ سيشن جج کے حکم پر تفتيش سپرنٹنڈنٹ پوليس نے کی جو عدالت ميں پيش کی گئی
مدعيان اور آسيہ نے عدالت ميں شہادتوں کے ذريعے اپنے آپ کو درست ثابت کرنا تھا ۔ مدعيان کی طرف سے آسيہ کے خلاف 6 گواہ پيش ہوئے جن ميں سے ايک کی گواہی عدالت نے مسترد کر دی ۔ آسيہ کی طرف سے کوئی گواہ پيش نہ ہوا
آسيہ کے وکيل نے صرف دو اعتراضات داخل کئے
تحقيقات ايس پی نے کرنا تھيں مگر ايس ايچ او نے کيں ۔ [يہ غلط تھا]
صوبائی يا وفاقی حکومت سے اجازت نہيں لی گئی [قانون کے مطابق اس کی ضرورت نہ تھی]

آسيہ کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالتِ اعلٰی ميں اپيل کرے جو شايد وہ کر چکی ہے

آسيہ کے برعکس عافيہ کے سلسلہ ميں ہتھيار يعنی بندوق استعمال ہوئی چنانچہ اس سلسلہ ميں تينوں قسم کی شہادتيں پيش ہو سکتی تھيں
مزيد چونکہ عافيہ کو موقع پر ہی گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ اسلئے فيصلہ ميں مادی اور واقعاتی شہادتوں کا وزن زيادہ ہونا لازم تھا

خيال رہے کہ عافيہ کو سزا القاعدہ سے تعلق يا عافيہ کے دہشتگردی ميں ملوث ہونے کی وجہ سے نہيں دی گئی

شخصی شہادت ميں جو کچھ سامنے آيا وہ يہ ہے
عافيہ نے بندوق اُٹھائی ہوئی تھی جس کا رُخ امريکی فوجی کی طرف تھا
اُس نے کارتوس چلائے مگر کوئی گولی امريکی فوجی کو نہ لگی

ميں شہادت کا باقی حصہ جو سراسر عافيہ کے حق ميں جاتا ہے فی الحال چھوڑ رہا ہوں ۔ قانون کے مطابق جو پاکستان ۔ امريکا اور باقی دنيا ميں بھی ايک ہی ہے لازم تھا کہ
عافيہ نے جو بندوق استعمال کی تھی اُسے بغير ننگے ہاتھ لگائے اس کی قسم ۔ پروڈکشن کا سال يا تاريخ اور سيريل نمبر ريکارڈ کر کے بندوق پر موجود اُنگليوں کے نشانات کے پرنٹ لے کر محفوظ کر لئے جاتے اس کے بعد بندوق کو ايک تھيلے ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا
جو کارتوس عافيہ نے چلائے تھے اُن کے خولوں کی قسم ۔ ان پر موجود پروڈکشن کا سال اور لاٹ نمبر [Lot n#] ريکارڈ کر کے محفوظ کر ليا جاتا اور پھر خولوں کو ايک تھيلی ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا

انصاف اور قانون کا تقاضہ تھا کہ مندرجہ بالا تينوں شہادتيں مقدمہ کے دوران عدالت ميں پيش کی جاتيں مگر ہوا يہ کہ جب عافيہ کے وکيل نے پوچھا “وہ بندوق کہاں ہے جو عافيہ کے ہاتھ ميں تھی ؟”
جواب ملا “وہ استعمال کيلئے فوجيوں کو دے دی گئی تھی نمعلوم اب کہاں ہے”
پھر عافيہ کے وکيل نے پوچھا “اس بندوق پر سے جو انگليوں کے نشانات لئے گئے وہ کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “بندوق پر انگليوں کے نشانات نہيں پڑتے”۔[يہ سراسر جھوٹ تھا کيونکہ دھات ۔ پلاسٹک اور پالِشڈ لکڑی پر انگليوں کے واضح نشانات بنتے ہيں اور بندوق آجکل لوہے کی بنی ہوتی ہے جس کے فورآرم اور بٹ [Forearm & Butt] پلاسٹک کے بنے ہوتے ہيں ۔ 30 سال قبل يہ پالشڈ لکڑی کے بنے ہوتے تھے
عافيہ کے وکيل نے مزيد پوچھا “جو کارتوس عافيہ نے چلائے اُن کے خول کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “پتہ نہيں وہ کہاں ہيں”

مندرجہ بالا جوابات کے بعد انصاف کا يہ تقاضہ تھا کہ ملزمہ عافيہ کو فوری طور پر رہا کر ديا جاتا مگر اُسے 76 سال کی قيد ہوئی جو يکے بعد ديگرے بھگتنا ہے

خيال رہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو جن تين اہم شہادتوں کی بنا پر مجرم ٹھہرايا گيا تھا اُن ميں سے ايک جائے واردات سے ملنے والے چلائے گئے کاتوسوں کے خول تھے

مقدمہ کی مزيد خامياں
گواہ غريب افغان ہے جو گواہ بننے کی حامی بھرنے کے بعد سے امريکا ميں ہے ۔ اسے امريکا کی شہريت دے دی گئی ہے اور ساری عمر وظيفہ کا وعدہ ہے
مشکوک شہادتی بيانات
عافيہ کے ہاتھ ميں بندوق تھی جو اس نے امريکی فوجی پر تانی ہوئی تھی ۔ عافيہ کھڑی تھی
دوسرے بيان ميں وہ چارپائی پر دو زانو تھی
افغان نے عافيہ کو دھکا ديا
جب تک عافيہ پر گولياں نہيں چلائی گئيں عافيہ سے بندوق چھينی نہيں جا سکی
امريکی فوجی جو عافيہ کی حفاظت پر معمور تھا اس نے وہاں بندوق رکھی جو عافيہ نے اُٹھا لی
دوسرا بيان ہے کہ عافيہ نے حفاظت پر معمور امريکی فوجی سے بندوق چھين لی

سوالات
جس امريکی فوجی کی لاپرواہی سے بندوق عافيہ کے ہاتھ ميں گئی تھی اُس کے خلاف کيا تاديبی کاروائی کی گئی ؟
[پاکستان ميں ايسے فوجی کا کورٹ مارشل کر کے اُسے ملازمت سے برطرف کر ديا جاتا]
عافيہ عورت تھی يا کہ ہاتھی کہ افغان جو جفاکش ہوتے ہيں نے عافيہ کو دھکا ديا مگر عافيہ کا توازن قائم رہا اور بندوق چھيننے کيلئے عافيہ کے پيٹ ميں گولياں مارنا پڑيں [ٹانگوں پر نہيں]

رہی امريکا کی انسانيت سے محبت اور قانون کی پاسداری تو يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھيئے کہ امريکی کتنے ظالم اور وحشی ہوتے ہيں ۔ يہ راز کھُل جانے پر امريکی حکومت نے تصاوير ميں واضح نظر آنے والے 4 فوجيوں ميں سے صرف ايک کے خلاف مقدمہ چلايا جو کہ پرائيويٹ کنٹريکٹ سولجر تھی اور اُسے صرف 3 ماہ قيد کی سزا دی جو بعد ميں کم کر کے ايک ماہ کر دی گئی

احوالِ قوم ۔ 5 ۔ سوچ

سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور نبی سے نہیں کام باقی

جہاں مختلف ہوں روایات باہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں

کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ۔ ۔ ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

تعصب کہ ہے دشمنِ نوعِ انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھرے گھر کئے سینکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے ۔ ۔ چھپا جس کے پردے میں اک ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا

نہرمیں خون

ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا

مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ياديں

انسان اپنی زندگی ميں بہت سے مشاہدات اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے مگر يہ سب وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہيں ۔ ليکن ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ظہور کے وقت غير اہم محسوس ہونے والا کوئی واقعہ انسان کے لاشعور ميں نقش ہو جائے ۔ پھر ذہن کی ہارڈ ڈرائيو [Hard Drive] چاہے کريش [crash] ہو جائے يہ واقعہ ريم [RAM] ميں موجود ڈاٹا [data] کی طرح گاہے بگاہے مونيٹر [Monitor] کی سکرين [Screen] پر نمودار ہوتا رہتا ہے

آج جبکہ ميں عمر کی 7 دہائياں گذار چکا ہوں بچپن ميں سُنی ايک آواز ہے جو ميرے کانوں ميں گاہے بگاہے گونجتی رہتی ہے اور مجھے سينکڑوں ہمرکابوں اور درجنوں اتاليقوں کی ياد دلاتی رہتی ہے ۔ يہ چار بچوں کی آواز کے بعد سينکڑوں بچوں کی ہم سُر آواز ہے ۔ ميں ايسی صورت ميں موجودہ دنيا سے گُم ہو جاتا ہوں اور اُس دنيا ميں پہنچ جاتا ہوں جس ميں محبت اور ہمدردی چار سُو چھائے ہوئے تھے ۔ آج کی طرح ہر طرف خودغرضی بُغز اور نفرت نہيں تھی بلکہ ان کی معمولی جھلک بھی اُن دنوں پريشان کر ديتی تھی

اپريل 1950ء سے مارچ 1953ء تک ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں زيرِ تعليم تھا ۔ وہاں صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل ہم دعا پڑھتے تھے اس طرح کہ چار اچھی آواز والے لڑکے سارے سکول کے لڑکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ۔ وہ بآوازِ بلند ايک مصرع پڑھتے ۔ ان کے بعد سکول کے تمام لڑکے پورے جوش سے ايک آواز ميں اسے دہراتے ۔ آج سکولوں کے بڑے بڑے اور غيرملکی نام ہيں ۔ عصرِ حاضر کے طالب علم سے اس دعا کا ذکر کيا جائے تو وہ مبہوت ہو کر تکنے لگتا ہے ۔ ہاں ان سے غير ملکی گانے سُنے جا سکتے ہيں

ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی

شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا لازوال تحفہ

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
دُور دنيا کا ميرے دم سے اندھيرا ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

ہو ميرے دم سے يونہی ميرے وطن کی زينت۔ ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
زندگی ہو ميری پروانے کی صورت يا رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب

ہو ميرا کام غريبوں کی حمايت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دردمندوں سے ضعيفوں سے محبت کرنا
ميرے اللہ! ہر برائی سے بچانا مجھ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نيک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو