امن ۔ مگر کيسے ؟ ؟ ؟

نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ ساری دنيا ڈھنڈورہ پيٹتی ہے کہ جنوبی ايشا ميں امن قائم ہونا چاہيئے ۔ مگر يہ امن کيسے قائم ہو ؟
امن کی چابی موجود ہے مگر اسے گھماتا کوئی نہيں
مندرجہ ذيل ربط پر کلِک کر کے پڑھيئے کہ امن کيسے قائم ہو سکتا ہے

The Only Guarantee for Peace

قصوروار کون ۔ حکمران يا قوم يا دونوں ؟

ہمارے حکمران بشمول وزير اعظم اور بالخصوص صدر آئے دن برملا جھوٹ بولتے ہيں ۔ عوام ميں اتنا دم خم ہی نہيں کہ اس کا سدِ باب کر سکيں ۔ آج صرف ايک جھوٹ کا ذکر ہو گا جو صرف ہمارے صدر آصف علی زرداری ہی درجن سے زائد بار بر سرِ عام بول چکے ہيں ۔ وہ جھوٹ ہے “ہم نے ايک آمر پرويز مشرف کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کيا”۔ حقيقت کھل کے سامنے آ رہی ہے آہستہ آہستہ

پہلا ثبوت
امريکا کے پچھلے صدر جارج ڈبليو بُش نے ” Decision Points ” کے نام سے ايک کتاب لکھی ہے ۔ اس کے صفحہ 217 پر لکھا ہے کہ “ميں نے اواخر 2007ء ميں پرويز مشرف سے کرسی چھوڑنے کا کہا اور اس نے وعدہ پورا کيا

دوسرا ثبوت
حاضر سروس کرنل الياس نے بتايا کہ وہ صدر کے ساتھ تعينات تھا اور صدر آصف علی زرداری نے اُسے بطور چيف سکيورٹی آفيسر ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کيا ہوا ہے ۔ کرنل الياس نے مزيد بتايا کہ اس کے علاوہ چار پانچ اور فوجی عہديدار بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ يہ لوگ اُن چار فوجی عہديداروں کے علاوہ ہيں جو جنرل اشفاق پرويز کيانی نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ کرنل الياس نے يہ بھی انکشاف کيا کہ ان سب کے علاوہ چار ايس ايس جی کے کمانڈوز بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں جنہوں نے اب ريٹائرمنٹ لے لی ہے ۔ کرنل الياس نے وضاحت کی کہ ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ حاضر سروس فوجی عہديدار صرف اتنے ہی تعينات کئے ہوئے ہيں البتہ ان کے علاوہ سويلين عہديدار ۔ ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور اور ايک پکاؤتا [Cook] صدر آصف علی زرداری نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ ان سب کو حکومتِ پاکستان تنخواہ ديتی ہے

سابق صدر رفيق تارڑ صاحب نے بتايا کہ ان کے ساتھ کوئی فوجی نہيں ہے ۔ قانون کے مطابق ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک پکاؤتا اور ايک پوليس گارڈ سابق صدر کو ديئے جاتے ہيں

مرحوم سابق صدر فاروق لغاری صاحب کے رشتہ داروں نے بھی يہی بتايا ہے ۔ مگر بتايا گيا ہے کہ يہ سٹاف صرف پاکستان ميں مہيا کيا جاتا ہے ۔ اگر سابق صدر ملک سے باہر رہے تو اُسے سٹاف دينے کا کوئی قانون نہيں ہے

سابق آرمی چيف مرزا اسلم بيگ نے بتايا ہے کہ سابق آرمی چيف کو ملک کے اندر بھی کسی قسم کا سٹاف مہيا کرنے کا کوئی قانون موجود نہيں ہے ۔ ملک کے باہر تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ۔ اُنہوں نے بتايا کہ ماضی ميں آرمی چيف کو ريٹائرمنٹ کے بعد ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک بيٹ مين [Batman] اور ايک ٹيليفون ديا جاتا تھا مگر بينظير بھٹو جب دوبارہ وزير اعظم بنيں تو اُنہوں نے آرمی چيف جہانگير کرامت کو حکم ديا کہ ايسی مراعات واپس لے لی جائيں ۔ يہ حکمنامہ آج تک نافذ العمل ہے ۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ موجودہ قوانين کے مطابق کوئی فوجی آفيسر يا جوان سابق آرمی چيف کے ساتھ تعينات نہيں کيا جا سکتا

سابق آرمی چيف عبدالوحيد کاکڑ کی پوتی نے بتايا کہ اُنہيں بھی اس قسم کی کوئی سہولت نہيں دی گئی

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس کا سبب صرف ايک ہے کہ قوم کی اکثريت خود بھی جھوٹ بولنا اور سننا پسند کرتے ہيں ۔ اسلئے ان ميں اتنی جراءت نہيں کہ کسی بھی جھوٹ کے خلاف آواز اُٹھا سکے

اللہ کا قانون اٹل ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شريف کو سچ سمجھے اور اس ميں ديئے گئے احکامات پر عمل کرے ۔ جب حشر کا سماں بندھے گا تو اس وقت کوئی مدد گار نہ ہو گا اور اپنے ہاتھ پاؤں بھی کہ جن کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کيا تھا اپنے ہی خلاف گواہی ديں گے

سورت 42 الشّورٰی ۔ آيت 30 ۔ ‏ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ۔ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے

سورت 53 النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت 24 النّور ۔ آيت 55 ۔ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں

حق پرست يہودی صيہونيوں کے زيرِ عتاب

يہ تو سب جانتے ہی ہيں کہ فلسطينی باشندے پچھلے 62 سالوں سے اسرائيل کی صيہونی حکومت کے ظُلم و ستم کا نشانہ بنتے آ رہے ہيں ۔ ايک حقيقت جو بہت کم لوگ جانتے ہيں يہ ہے کہ اسرائيل کے حق پرست يہودی باشندوں کو بھی صيہونی حکومت کے جھوٹے مقدموں کا شکار ہيں

يہاں کلک کر کے پڑھيئے اس کی ايک جھلک
Israel’s liberals face state prosecution

گاندھی ۔ نہرو ۔ پٹيل اور جنرل گريسی

وسط اکتوبر 1947ء ميں موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ تین دن کے متواتر کوشش کے بعد کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغير اطلاع اور اجازت کے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اُترنا شروع کر دیا ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ بھارتیہ مہاسبھا اور سکھوں کی اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے پہلے ہی جموں پہنچنا شروع ہو چُکے تھے

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس ڈيوڈ گریسی [Sir Douglas David Gracey] کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حُکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حُکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتا تو ايسا نہ کرتا اور بھارت جموں کشمير پر قبضہ نہ کر پاتا کيونکہ پاکستانی فوج کے جموں کشمير کے داخل ہونے کی خبر سنتے ہی پہلے سے جنگ آزادی لڑنے والے رياستی باشندوں کا ساتھ دينے کيلئے بڑی تعداد ميں رياستی باشندے اُٹھ کھڑے ہوتے

احوالِ قوم ۔ 6 ۔ روّيہ

اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دینا
مگر ہاں وہ سرمایہءِ دین و دنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ایک ایک لمحہ ہے اَنمول جس کا
نہیں کرتے خسّت اُڑانے میں اس کے۔ ۔ ۔ بہت ہم سخی ہیں لُٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم۔ ۔ ۔ تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم۔ ۔ یونہی گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیں کوئی گویا خبردار ہم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریئے کا وہ حُکم بردار کُتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بھیڑوں کی ہر دَم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتّے کا کھڑکا۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھِپرا
گر انصاف کیجئے تو ہے ہم سے بہتر۔ ۔ کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر

بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب ۔ ۔ ۔ لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر ۔ ۔ کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے ۔ مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

بدلہ انسانوں سے مگر ۔ ۔ ۔

ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی ميں خود ہی کچھ مفروضے بنا کر اپنا اوليں حق سمجھتے ہوئے اُن پر بے دھڑک عمل کرتے ہيں ۔ ان ميں سے ايک ہے بدلہ ۔ جب ہم کوئی بھی جنس ليتے ہيں مثال کے طور پر گوشت ۔ گاجريں ۔ سيب ۔ چنے کی دال ۔ وغيرہ تو اس کے بدلے ميں وہی کچھ ديتے ہيں جو اس جنس کے برابر ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر چنے کی دال کا نرخ اگر 50 روپے فی کيلو گرام ہے تو ايک کيلو دال کے بدلہ ميں ہم 50 روپے ہی ديں گے ۔ کبھی 51 روپے يا زيادہ دينا تو کُجا دينے کا سوچيں گے بھی نہيں

جب اختيار ہمارے ہاتھ ميں آجاتا ہے تو ہمارا طرزِ عمل يکسر تبديل ہو جاتا ہے مثال کے طور پر

انسانوں کے ساتھ سلوک
اگر کسی نے ايک گالی دی تو ہم جب تک اُسے حتٰی الوسعت دو چار گلياں دو چار تھپڑ دو چار گھونسے رسيد نہيں کر ليں گے ہمار بدلہ پورا نہيں ہو گا

کسی نے غلطی سے يا جان بوجھ کر ہمارے گھر کے آس پاس کوڑا پھينک ديا ۔ يہ ان کے نوکر کی غلطی ہو سکتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ہمسائے سے آرام سے بات کر کے اسے بہتری کی طرف مائل کريں ہمارا بدلہ کم از کم يہ ہوتا ہے کے ہمسائے کو بلا کر بے عزت کيا جائے يا گلی ميں اس کے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے گالياں دی جائيں

ہم اپنے گھر کے اندر سے ديوار کے اُوپر سے کوڑا لُڑھکا ديں ۔ وہ ہمسائے کے گھر کے اندر گرے اور ہمسايہ وہ کوڑا واپس پھينک دے تو ہمارے دل کو اس وقت تک اطمينان نہيں آتا جب تک اور کچھ نہيں تو دو چار گالياں واپس پھنکنے والے کو اس کے منہ پر نہ دے ليں

مندرجہ بالا واقعات سب حقائق کی بنياد پر ہيں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں سے متعلق ہيں ۔ اب ايک ايسا واقعہ جس نے مجھے ورطے ميں ڈال ديا تھا ۔ ہم 2005ء ميں ڈيفنس فيز 5 کراچی کی ايک کوٹھی ميں کرائے پر رہ رہے تھے ۔ ميں قريبی مارکيٹ سے ايک سرکٹ بريکر لينے گيا ۔ ميں سرکٹ بريکرز ديکھ رہا تھا کہ ايک گاہک نے آکر دکاندار سے کہا کہ “اليکٹريشن چاہيئے” ۔ دکاندار نے خشکی سے کہا کہ “نہيں ہے” ۔ گاہک نے برہمی دکھائی تو دکاندار نے اسے کھری کھری سُنا ديں ۔ نوبت گندھی گاليوں تک پہنچی ۔ جب گاہک چلا گيا تو ميں نے دکاندار کو کہا “ديکھئے آپ دکاندار ہيں ۔ آپ کو گاہک کے ساتھ ايسا سلوک نہيں کرنا چاہيئے”۔ دکاندار بولا “صاحب ۔ پچھلے ماہ انہوں نے اليکٹريشن مانگا ۔ ميں نے اُجرت طے کر کے بھيج ديا ۔ کام کرنے کے بعد اليکٹريشن نے اُجرت مانگی تو آدھے پيسے ديئے ۔ اليکٹريشن نے اسرار کيا تو اُسے تھوڑے سے اور پيسے دے کر دھکا ديا اور کہا جا اب يہاں سے ۔ اليکٹريشن نے پھر اسرار کيا تو تين بھائيوں نے مل کر اس کی درگت بنا دی اور دھکے دے کر باہر نکال ديا”

اللہ کا فرمان ۔ جسے ہم شايد زيرِ غور نہيں لاتے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ

اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں۔‏

یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔‏

سورت 2 البقرہ آيت 263 ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو ، اور اللہ تعالٰی بےنیاز اور بردبار ہے۔

سورت 41 حٰمٓ السّجدہ يا فُصّلَت آيات 34 تا 36 ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں ، اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

نظامِ حکومت

يہ تحرير ميں نے فروری 2010ء کے شروع ميں لکھی تھی مگر ميری غلطی کی وجہ سے کہيں اِدھر اُدھر ہو گئی اور شائع ہونے سے رہ گئی ۔ اس کی اہميت آج بھی اتنی ہے جتنی دس ماہ قبل تھی اسلئے شائع کر رہا ہوں

عدالتِ عظمٰی میں کچھ اعلٰی سرکاری ملازمین کی درخواست زیرِ سماعت تھی کہ اُنہیں نظرانداز کرتے ہوئے کچھ دوسرے حضرات کو فیڈرل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے جو اُن سے جُونیئر تھے ۔ 2 جنوری 2010ء کو حکومت کی طرف سے جواب داخل کیا گیا جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ اعلٰی عہدوں پر تقرری کا کُلی اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے اور وزیرِ اعظم ہی نے ان لوگوں کا تقرر کیا ہے اسلئے اس کے خلاف چارہ جوئی نہیں ہو سکتی ۔ اس پر کچھ پڑھے لکھے حضرات [بلاگر نہیں] نے تعجب کا اظہار کیا تو صورتِ حال کو واضح کرنے کا خیال آیا

ہمارے مُلک میں زیادہ تر قوانین تو جیسا سب جانتے ہیں وہی چل رہے ہیں جو ہندوستان پر قابض انگریزوں نے بنائے تھے ۔ 1955ء میں سرکاری ملازمت کے قوانین بنائے گئے تھے جن کی چار اہم خصوصیات تھیں

1 ۔ پرِیویلج لِیو [privilege] کا مطلب اختیاری چھٹی نہیں بلکہ استحقاقی رُخصت ہے جس کا ملازم کو حق ہے اور سوائے غیرمعمولی حالات کے ملازم کو یہ چھٹی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا
2 ۔ کسی عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُس کا اعلٰی عہدیدار لکھے گا تاکہ ذاتی چپقلش اور عناد کے اثر کو روکا جائے
3 ۔ سالانہ رپورٹ لکھتے ہوئے درجن بھر خصوصیات کی تشخیص لکھنا ہوتی تھی ۔ اگر کوئی کمی لکھی جائے تو اس کی وجوہات لکھنا ہوتی تھیں جن کی پڑتال کی جا سکتی تھی ۔ مرتبات صرف تین ہوتے تھے اوسط سے کم ۔ اوسط اور اوسط سے زیادہ ۔ اوسط عہدیدار کو بھی قابل اور ترقی کا اہل سمجھا جاتا تھا ۔ اِن قوانین کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ عام آدمی اوسط ہوتے ہیں ۔ اوسط سے اُوپر اور نیچے صرف چند ہوتے ہیں ۔ اگر صلاحیت کے خانے میں ناقابل لکھ دیا جائے تو اُس کی مضبوط وجوہات لکھنا ہوتی تھیں
4 ۔ تمام عہدیداروں کی ترقی اس کی سینیاریٹی اور قابلیت [Seniority cum fitness] کی بنا پر ہوتی

ایک عوامی دور آیا جس میں سارا نظام بدلا گیا اور 1973ء میں انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نام پر نئے قوانین بنائے گئے جن کے تحت مندرجہ بالا قوانین کی شکل کچھ یوں ہو گئی

1 ۔ چُھٹی صرف بڑے افسر کی مہربانی یا زور دار کا حق بن گیا ۔ استحقاق والی بات ختم ہو گئی
2 ۔ عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُسی کو لکھنے کا اختیار دے دیا گیا
3 ۔ سالانہ رپورٹ میں خصوصیات تو درجن سے زیادہ کر دی گئیں لیکن ترقی کیلئے صرف آخری خانہ جس میں ترقی کی اہلیت لکھنا ہوتی ہے حتمی قرار دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری رپورٹ میں عہدیدار کا کام بہت عمدہ لکھ کر قابلیت کے خانہ میں ناقابل لکھ دیا جائے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مرتبات تین سے بڑھا کر چھ کر دیئے گئے ۔ اوسط سے کم ۔ اوسط ۔ اوسط سے زیادہ ۔ اچھا ۔ بہت اچھا اور بے مثال ۔ چنانچہ جن کی سفارش جتنی بڑی ہوتی یا جو اپنے صاحب کی ذاتی خدمت سب سے زیادہ کرتا ہے اُسے اتنا اچھا لکھ دیا جاتا ہے ۔ باقیوں کو اوسط جس کا عِلم متعلقہ عہدیدار کو اُس وقت ہوتا ہے جب اس کی ترقی رُک جاتی ہے ۔ جس عہدیدار کو تین بار اوسط لکھ دیا جائے پھر چاہے وہ بہتر رپورٹیں لیتا رہے اُس کی ترقی اگلے دس سال میں ممکن نہیں ہوتی
4 ۔ فیڈرل سیکریٹری اور فیڈرل ایڈیشنل سیکریٹری اور ان کے متوازی عہدوں کو مکمل طور پر سربراہِ حکومت کے اختیار میں دے دیا گیا کہ جسے چاہے ان عہدوں پر بٹھا دے ۔ باقی عہدیداروں کی ترقی کیلئے بھی سینیاریٹی کو ثانوی حیثیت دے دی گئی
5 ۔ ایک بغلی داخلہ [lateral entry] کا قانون بھی بنایا جس کے تحت جسے حکمران چاہیں سڑک سے اُٹھا کر کسی بھی سرکاری عہدے پر بٹھا دیں

انتظامی اصلاحات 1973ء کی بدولت نااہليت اور اقرباء پروری نے روز افزوں ترقی کی اور اب يہ حال ہے کہ اکثر ذہین محنتی لوگ سرکاری ملازمت کرنا نہیں چاہتے