اسلام کی قیمت 20 پنس

برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا ۔ لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا

ایک دن یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے ، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا بیٹھے ۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے بقايا پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ 20 پنس زیادہ آگئے ہیں ۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے ۔ پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ 20 پنس وہ بس سے اُترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے ۔ پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے ۔ ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی ہے ۔ ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑے گا ؟ میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں

جب بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20 پنس واپس کرتے ہوئے کہا “یہ لیجئے 20 پنس ۔ آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے تھے”

ڈرائیور نے 20 پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا “کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں ؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا ۔ یہ 20 پنس میں نے جان بوجھ کر آپ کو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپ کا اس معمولی رقم کے بارے میں رویّہ پرکھ سکوں”

امام صاحب کو بس سے نیچے اُترتے ہوئے ایسے محسوس ہوا جیسے کہ اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے ۔ گرنے سے بچنے کیلئے
ایک کھمبے کا سہارا لیا ۔ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی “یا اللہ مُجھے معاف کر دینا ۔ میں ابھی اسلام کو 20 پنس میں بیچنے لگا تھا”

ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد عمل کی پرواہ نہ کرتے ہوں مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں ليکن زيادہ تر ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہيں ۔ ہم اگر مسلمان ہيں تو ہميں دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی ۔ صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر کہ کوئی ہمارے رویّوں کے تعاقب میں تو نہیں جو ہمارے شخصی عمل کو سب مسلمانوں کی مثال سمجھ بیٹھے یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے اعمال اور رویّئے کے مُطابق ذہن میں بٹھا لے

بشکريہ ۔ محمد سليم صاحب ۔ شانتو ۔ چين

لبيا کا کرزئی تياری ميں

دوسرا کرزئی جو تيار کيا جا رہا ہے کے ذکر سے پہلے موجودہ کرزئی يعنی افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے پسَ منظر کے متعلق معلوم ہونا ضروری ہے ۔ حامد کرزئی کے آباؤ اجداد افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے نمک خوار تھے ۔ حامد کرزئی نے بھارت سے ماسٹرز کيا اور امريکا کے ايماء پر 1980ء ميں روس کے خلاف جنگ کيلئے چندہ جمع کرنے کے نام پر پاکستان ميں مقيم ہوا ليکن دراصل وہ يہاں امريکی سی آئی اے کا رابطہ تھا ۔ انہی دنوں حامد کرزئی کا باقی خاندان امريکا منتقل ہو گيا تھا پھر جب ڈاکٹر عبداللہ امريکا سے لا کر افغانستان صدر بنانے کی کوشش ناکامم ہوئی تو حامد کرزئی کے حق ميں قرہ نکلا ۔ يہ تو سب جانتے ہيں کہ افغانستان کا صدر ہوتے ہوئے حامد کرزئی کے اختيار ميں کچھ بھی نہيں ۔ اُس کی حيثيت ايک کٹھ پُتلی سے زيادہ نہيں

لبيا ميں 1969ء کے انقلاب کے بعد امريکی اور يورپی کمپنيوں کو ملک سے نکال ديا گيا تھا ۔ 30 سال بعد فرانس کے صدر نے دوستی کا ہاتھ بڑھايا تو شايد مغربی دنيا کو خوش کرنے کيلئے معمر قذافی نے يورپی کمپنيوں کو لبيا ميں کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ عام رائے يہی ہے کہ شروع ميں فرانس کی خفيہ ايجنسيوں نے کام دکھايا اور پھر برطانيہ کی خفيہ ايجنسی ايم آئی 6 نے بات آگے بڑھائی ۔ ہر مُلک ميں کچھ لوگ حکمرانوں سے ناراض ہوتے ہی ہيں مزيد لبيا کی قبيلاتی طرزِ زندگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں کو راہ پر لگا ليا گيا ۔ يہ کام بنغازی ميں شروع کيا گيا جہاں معمر قذافی کا قبيلہ نہيں ہے ۔ برطانوی ايم آئی 6 کے لوگوں نے تو يہاں تک کيا کہ لبيا کے صدر معمر قذافی کو سپورٹ کرنے والے اعلٰی فوجی افسروں کو ٹيليفون پر بغاوت کا ساتھ دينے يا موت کيلئے تيار رہنے کا پيغام ديا اُسی طرح جيسے امريکی سيکريٹری آف سٹيٹ ريٹائرڈ جنرل کولن لوتھر پاول نے جنرل پرويز مشرف کو ٹيليفون پر کہا تھا “تم ہمارے ساتھ ہو يا ہمارے ساتھ نہيں ہو ؟ اگر ہمارے ساتھ نہيں ہو تو پتھر کے زمانہ ميں جانے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔ پرويز مشرف کی تو يہ سُنتے ہی پتلون گيلی ہو گئی تھی مگر ليبی فوجی افسر نہ ڈرے

بالآخر انسانيت کے نام پر امريکا ۔ برطانيہ اور فرانس نے اقوامِ متحدہ کی ايک مُبہم قرارداد کا سہارا لے کر لبيا پر حملہ کر ديا جس کی تياری اُنہوں نے بہت پہلے سے کر رکھی تھی ۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ سلامتی کونسل امريکا کے ہاتھ کا اوزار سے زيادہ حقيقت نہيں رکھتی ۔ مگر يہ سب کچھ اچانک نہيں ہوا ۔ پہلے مغربی ذرائع ابلاغ نے بالکل اُسی طرح معمر قذافی کے خلاف فضا قائم کی جس طرح 2003ء ميں عراق پر حملہ کرنے سے قبل ڈبليو ايم ڈی کا جھوٹ بول کر امريکا نے صدام حسين کے خلاف فضا قائم کی تھی

لبيا پر حملے کا مقصد بھی وہی ہے جو عراق پر حملہ کرنے کا تھا ۔ ان مُلکوں کی قدرتی دولت يعنی تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ۔ عراق ميں اپنے فوجی اُتار کر چونکہ بھاری نقصان اُٹھا چکے ہيں اسلئے لبيا ميں اپنی فوج اُتارنا نہيں چاہتے چنانچہ افغانستان کے حامد کرزئی کی طرح ايک اور کرزئی کی ضرورت تھی جو تلاش کيا جا چکا ہے ۔ وہ لبيا ميں فرنگی کی پشت پناہی سے چلنے والی نام نہاد تحريک انسانيت کا سربراہ “محمود جبريل” ہے جو عرصہ سے امريکا ميں رہائش پذير تھا اور اُس کے رابطے براہِ راست فرانسيسی انٹيلی جنس ۔ برطانوی ايم آئی 6 اور امريکی سی آئی اے سے ہيں ۔ ہاں اگر وہ ان کے سانچے ميں پورا نہ اُترا تو کسی اور کو لے آئيں گے

وجہ انسانی جانوں اور جمہوريت کو بچانا بتائی جا رہی ہے ۔ گويا ان بے مہار طاقتوں کے برسائے گئے بموں اور مزائلوں سے نہ تو کوئی انسان مر رہا ہے اور نہ ہی انسانوں کے اثاثوں کو نقصان پہنچ رہا ۔ جس معمر قذافی کو اب عفريت [monster] کہا جا رہا ہے اسی کے متعلق چند سال قبل امريکا کے صدر جارج ڈبليو بُش نے کہا تھا “قذافی دہشتگردی کے خلاف ہمارا قابلِ اعتماد ساتھی ہے”۔ انسانيت اور جمہوريت کا فريب رچا کر کسی خود مُختار مُلک پر حملہ کرنا منافقت اور جنگ جُوئی کے سوا کيا ہو سکتا ہے ؟ ان فرنگيوں کو انسانيت کی اتنی پروا ہے کہ ہر طرف انسانوں کی لاشيں بکھير رہے ہيں ۔ جمہوريت کی امريکا اتنی قدر کرتا ہے کہ ہميشہ آمريت کی پُشت پناہی کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے

دنيا والے کہتے ہيں کہ امريکا لبيا کے لوگوں کو قذافی سے بچائے گا مگر لبيا کے لوگ پوچھتے ہيں کہ “انہيں امريکا سے کون بچائے گا ؟” جب تجارت کو قوميايا گيا تھا تو چند ليبی تاجر بھی اس کی زد ميں آئے تھے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت کا بدلہ لينے کيلئے اُن کی اولاد بھی باغيوں کے ساتھ شامل ہو گئی ہو ۔ امريکا ۔ فرانس اور برطانيہ کے بموں اور مزائلوں سے جو لوگ ہلاک ہو رہے ہيں کيا وہ ليبی نہيں ؟ اور جو اثاثے تباہ ہو رہے ہيں کيا اس کا نقصان پوری ليبی قوم کو نہيں ہو گا ؟

معمر قذافی جو کچھ بھی ہے وہ ايسا اس سال يا پچھلے دو چار سالوں ميں نہيں بنا بلکہ شروع دن يعنی يکم ستمبر 1969ء سے ہی ايسا ہے ۔ جب اُس نے ادريس سنوسی کی حکومت کا تختہ ايک سُپر پاور کی پُشت پناہی سے اُلٹا تھا تو عوام جنہوں نے معمر قذافی کا ساتھ ديا تھا ان کو لبيا کے وسائل پر امريکا اور يورپ کا قبضہ نہ بھاتا تھا ۔ اس زمانہ ميں تيل کے کنووں پر امريکا کا قبضہ تھا اور تجارت پر اٹلی کا ۔ يکم ستمبر 1969ء کے انقلاب کے بعد ان غيرملکيوں کو نکال ديا گيا اور ان کی جگہ مصری ۔ فلسطينی اور بالخصوص پاکستانی تعليم يافتہ لوگوں کو بلايا گيا ۔ 1970ء ميں جنرل آغا محمد يحیٰ خان کے دور ميں معمر قذافی کی درخواست پر پاکستان سے گريجوئيٹ انجيئرز ۔ ڈاکٹرز ۔ ڈپلومہ انجنيئرز ۔ ليباريٹری ٹيکنيشيئنز اور نرسز کی پہلی کھيپ لبيا بھيجی گئی تھی ۔ اس کے بعد مختلف اداروں سے ماہرين بھيجے جاتے رہے

معمر قذافی کے زمانہ کی کچھ باتيں

آٹھويں جماعت تک تعليم بالکل مُفت ۔ اس کے بعد کی تعليم معمولی خرچ کے ساتھ اور ترقی يافتہ ممالک ميں اعلٰی تعليم کيلئے داخلہ حاصل کرنے والے طالب علموں کے سارے اخراجات بھی حکومت کے ذمہ
علاج معالجہ بالکل مفت ہسپتال ميں داخل مريضوں کو کھانا پينا بھی مفت ۔ ہر قسم کا علاج اور دوائی ہسپتال ميں ميسّر ہوتی ہے
بچے کی پيدائش پر 2 سال تک بچے کی خوراک کيلئے خُشک دودھ حکومت مُفت مہياء کرتی ہے
حکومت آٹا ۔ چاول ۔ چينی اور کچھ دوسری روزمرہ کے استعمال کی اشياء پر بھاری سبسڈی ديتی ہے
ہر خواہشمند بالغ ليبی کو ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
ايک انوکھے منصوبہ “بيت لساکنہُ” پر بھی عمل کيا گيا جس کے تحت ہر ليبی خاندان کو رہنے کيلئے مکان مہياء کيا گيا ۔ اس منصوبہ کے اعلان سے قبل سينکڑوں مکانات حکومت نے تعمير کروا لئے تھے ۔ مکان لينے والوں نے تعمير کی لاگت [بغير سود] 360 ماہانہ اقساط ميں تنخواہ ميں سے کٹوانا تھا يا اقساط نقددينا تھيں
لبيا کی فی کس سالانہ آمدن 12000 ڈالر ہے

بابری مسجد شہيد کرنے ميں امريکا کا کردار

بھارت کے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سولہویں گواہ ایودھیا کے مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت کے دوران اسپیشل جج وریندر کمار کی عدالت کو بتایا کہ “جب ان کی ملاقات اس وقت کے وزیراعظم نرسہماراؤ سے ہوئی تو سشل منی نے انہیں بتایا کہ “ویشوا ہندو پریشد نے بابری مسجد شہید کرنے کے لئے امریکی خفیہ ایجنسی [CIA] اور ایک امریکی کمپنی سے کروڑوں روپے لئے ہیں”

وکیل صفائی کے کے مشرا کے ایک سوال کے جواب میں مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے بتایا کہ “6 دسمبر کی صبح کارسہو کوں کا رویہ دیکھ کر واضح ہو گیا تھا کہ بابری مسجد اس روز شہید ہونے والی ہے”

مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے عدالت سے کہا کہ “ایودھیا میں موجود لوگوں کے لباس سے کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ کار سیوک کون ہے اور عام آدمی کون ہے”

مہنت یوگل کشور سرن شاستری کئی برس ویشوا ہندو پریشد کے رکن اور لیڈروں کے انتہائی قریب رہے ۔ بقول مہنت یوگل کشور سرن شاستری جب انہوں نے وی ایچ پی کا اصل چہرہ دیکھا جو رام جنم بھومی موومنٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہی ہے اور اس طرح ملک کو توڑنے کی سازش کررہی ہے تو انہوں نے ویشوا ہندو پریشد سے تعلق ختم کر لیا

بشکريہ ۔ جنگ

نئے ڈرامہ کے ذریعے عدلیہ، میڈیا اور قوم کا وقت برباد کرنے کا کیاجواز؟

سليم صافی کے مضمون کا درجِ ذيل حصہ ماضی ميں گذرے حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے وہی سمجھ سکتے ہيں جو اُس دور ميں بالغ النظر تھے

بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو 3 ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
پہلا دور ۔ 1968ء سے 1970ء تک ۔ جو نہایت بھرپور تھا اور جس میں وہ ایک انقلابی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ اس دور میں وہ متنازع بھی تھے لیکن مغربی پاکستان کی اکثریت کی صفوں میں نہایت مقبول بھی رہے

دوسرا دور ۔ ان کا اقتدار یعنی 1970ء سے 1977ء تک ۔ ان کا یہ دور نہایت متنازع ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھائی
اس دور میں
ڈاکٹر نذیر کی ہلاکت
لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ
ایف ایس ایف کی تشکیل
بلوچستان آپریشن اور
اسی نوع کے دیگر ہزاروں ناپسندیدہ واقعات ہوئے
اس دور کے بھٹو کے کارنامے بھی بہت ہیں لیکن اس کے شدید متنازع ہونے میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں
تیسرا دور ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کا دور ہے ۔ یہ دور نہایت تابناک اور شاندار ہے ۔ پھانسی نے بھٹو کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ اس دور میں وہ متنازع سے غیرمتنازع لیڈر بنتے گئے ۔ خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود جیسے ان کے شدید مخالفین نے بھی ان کو معاف کردیا اور ان کے بیٹے ۔ان کی بیٹی اور پھر داماد کے ہمسفر بن گئے ۔ بھٹو ایک جماعت کی بجائے قوم کے لیڈر بن گئے اور ہم [سليم صافی] جیسے طالب علم بھی ہر سال ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر ان کی یاد میں کالم لکھ کر ان کی پھانسی کو ملک و قوم کے لئے شدید نقصان قرار دینے لگے

لیکن افسوس کہ اب ان کے سیاسی جانشین [حادثاتی سہی] ان کو ایک بار پھر متنازع کرنے لگے ہیں ۔ اب جب ان کا مقدمہ دوبارہ زندہ ہوگا تو ان کے 1968ء سے لے کر 1977ء کے سیاسی دور کے واقعات بھی زندہ ہوں گے
اگر بھٹو کی قبر بولے گی
تو پھر ڈاکٹر نذیر اور ایف ایس ایف کے ہاتھوں مرنے والے دیگر لوگوں کی قبریں بھی خاموش نہیں رہیں گی
اور جب وہ بولیں گی تو بھٹو ایک بار پھر متنازع بنیں گے

حجامت اور سياستدان

ا يک پھولوں کی دکان کا مالک بال ترشوانے حجام کی دکان پر گيا ۔ بال ترشوا کر اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
دوسرے دن حجام دُکان پر آيا تو ايک شکريہ کا کارڈ اور درجن گلاب کے پھول دُکان کے سامنے پڑے تھے

اُس دن ايک پوليس والا بال ترشوانے آيا تو حجام نے اُسے بھی کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے روز حجام دکان پر آيا تو ايک پيسٹريوں کا ڈبہ اور ساتھ شکريہ کا کارڈ دُکان کے سامنے پڑے تھے

تيسرے دن ايک پاليمنٹيرين بال ترشوانے آيا ۔ جب وہ اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے دن جب حجام دُکان پر پہنچا تو درجن بھر پارليمنٹيرين بال ترشوانے کيلئے دُکان کے سامنے قطار لگائے ہوئے تھے

طالبان ۔ امريکا اور افغان

تاءثر يہی ديا جاتا ہے کہ امريکا کی تکليف صرف طالبان کو ہے کيونکہ امريکا افغانستان کو تعليم و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے مگر طالبان تعليم اور ترقی کے دُشمن ہيں ۔ يہ حقيقت کے برخلاف صرف معاندانہ بہتان تراشی ہے ۔ دہشتگرد طالبان نہيں بلکہ امريکا ہے ۔ بات افغانستان کی ہو رہی ہے ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان کی نہيں ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان امريکا کے زر خريد [mercenaries] ہيں اور انہيں يہ نام افغانستان کے طالبان کو بدنام کرنے کيلئے ديا گيا ہے ۔ اگر افغان مُلا عمر کے خلاف ہوتے تو مُلا عمر کب کا ہلاک يا گرفتار ہو گيا ہوتا

افغانستان ميں جمعہ يکم اپريل 2011ء کے واقعات کی جھلکياں

امریکی پادری کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے نذر آتش کئے جانے کے خلاف احتجاج کے دوران شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں مظاہرین نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوراٹر پر حملہ کیا ۔ اس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے 8 کارکنوں اور تین مظاہرین سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے۔ افغان پولیس کے ترجمان لعل محمد احمد زئی نے کہا کہ مظاہرین کے احتجاج میں ہلاک ہونے والے اقوام متحدہ کے تمام کارکن غیر ملکی تھے جن میں تین اہلکار اور پانچ نیپالی گارڈز شامل تھے اور ان میں سے دو کا گلا کاٹ دیا گیا۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد ایک ہزار لے لگ بھگ تھی ۔ مظاہرین نے جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج شروع کیا جو ابتدا میں پرامن تھا لیکن دو تین گھنٹے کے بعد مظااہرین اقوام متحدہ کے دفتر پر پہنچ گئے اور انہوں نے ہیڈ کورارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔ محافظوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں 3 مظاہرین ہلاک ہوگئے۔اس کے بعد دونوں جانب سے تشدد کا استعمال شروع ہوگیا۔ ہلاک شدگان میں ناروے، سویڈن اور رومانیہ کا ايک ايک اہلکار اور نیپال سے تعلق رکھنے والے 5 گارڈز شامل ہيں

امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے جلانے کے واقعہ کے خلاف کابل میں جمعہ کی نماز کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی عمارت تک مارچ کیا اور امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے

مظاہرین قرآن مجید کی بے حرمتی کے علاوہ افغانستان میں مستقل امریکی فوجی اڈوں کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص مولا داد نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور یہاں مستقل امریکی اڈے قطعی برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقرر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ فرعون ہاوٴس ہے

ہرات میں بھی ہزاروں مظاہرین نے امریکی پادری کی جانب سے قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف سڑکوں پر مارچ کرکے احتجاج کیا

مالی بے ضابطگياں امريکا کی سرپرستی ميں

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے انتہائی کرپٹ ممالک میں افغانستان کا نمبر صومالیہ کے بعد دوسرا ہے حالانکہ دونوں ملکوں میں قائم حکومتیں امریکی اتحادی ہيں اور امريکا کی ہی سرپرستی میں کام کررہی ہیں

[غور کيا جائے تو پاکستان میں مالی بے ضابطگيوں کی بنياد بھی امريکا نے رکھی اور مالی بے ضابطگيوں کی سرپرستی بھی کر رہا ہے]

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی