ويکھ بنديا

ويکھ بنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی
ويکھ تے سہی کی کردے نيں
نہ او کردے رزق ذخيرہ
نہ او بھُکھے مردے نيں
کدی کسے نيں پنکھ پکھيرو
بھُکھے مردے ويکھے نيں ؟
بندے ای کردے رزق ذخيرہ
بندے ای بھُکھے مردے نيں

کلام بابا بھُلے شاہ

اُردو ترجمہ
ديکھ اے انسان آسمان پر اُڑتے پرندے
ديکھو تو سہی کہ کيا کرتے ہيں
نہ وہ کرتے ہيں رزق ذخيرہ
نہ وہ بھوکے مرتے ہيں
کبھی کسی نے پرندوں کو
بھوکے مرتے ديکھا ہے ؟
انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ
اور انسان ہی بھوکے مرتے ہيں

باپ اور بیٹے میں فرق

ایک 85 سالہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے پاس آ کر شور مچایا
باپ کو نجانے کیا سوجھی اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا “بیٹے یہ کیا چیز ہے ؟”
بیٹے نے جواب دیا “یہ کوّا ہے”
یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ کُچھ دیر بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا “بیٹے ۔ یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا “یہ کوّا ہے”
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا “ابا جی یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے”
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا۔ نہایت اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے اُس نے کہا “کیا بات ہے آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا ؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہيں ۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے ۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی سمجھ نہيں آرہا ہے يا آپ کو سُنائی دے رہا ہے ؟”
اس کے بعد باپ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ واپس آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے ۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے ۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا “بیٹے ۔ دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے ؟”
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا
“آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہو گئی ہے ۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہو رہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے ۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے ۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال 23 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے 23 بار ہی جواب دیا ہے ۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں ۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ سورت ۔ 17 ۔بنٓی اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23
وَقَضَی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ كِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
ترجمہ ۔ اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو

تحرير ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی تجربہ

شايد 1951ء کی بات ہے جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ميں کسی سلسلہ ميں راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوا ۔ ٹرين 8 بجے صبح روانہ ہوئی ۔ ہفتہ کے درميانی دن تھے اسلئے ٹرين ميں بھيڑ نہ تھی ۔ 4 سواريوں کی نشست پر ميں ايک بزرگ اور ايک تين ساڑھے تين سال کا بچہ بيٹھے تھے ۔ بچہ بزرگوار کا پوتا تھا ۔ جونہی ٹرين روانہ ہو کر پليٹ فارم سے باہر نکلی بچہ کھڑکی سے باہر ديکھنے لگ گيا
ايک کھمبہ نظر آيا تو دادا سے پوچھا “يہ کيا ہے ؟”
دادا نے بڑے پيار سے مسکرا کر کہا “يہ کھمبا ہے”

سب جانتے ہيں کہ ريلوے لائن کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھمبے ہوتے ہيں
بچہ ہر دوسرے تيسرے کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہتا “يہ کيا ہے ؟”
اور دادا اُسی طرح پيار سے مسکرا کر کہتے “يہ کھمبا ہے”

غرضيکہ جہلم تک جب بچہ تھک کر سو گيا تو ميرے حساب سے وہ يہ سوال ساٹھ ستّر بار دہرا چکا تھا اور بزرگوار نے اُسی طرح پيار سے اور مسکرا کر جواب ديا تھا

بچے کے سونے کے بعد ميں نے بزرگوار سے کہا “آپ کی ہمت ہے کہ آپ متواتر اتنے پيار سے جواب ديتے گئے ۔ آپ تھک گئے ہوں گے ؟”
وہ بزرگ بولے “اب سو گيا ہے ۔ ميں آرام کر لوں گا”

ميں مسکرائے بغير نہ رہ سکا کيونکہ بچہ اُن کی گود ميں سويا ہوا تھا ۔ وہ کيسے آرام کر سکتے تھے

قارئين متوجہ ہوں

پچھلے سال شکايات ملی تھيں کہ ميرا بلاگ نہيں کھُلتا ۔ يہ مسئلہ دبئی اور پاکستان ميں ہوتاہے کيونکہ دنوں جگہوں پر اتصالات کمپنی ہے ۔ ميں نے اس سلسلہ ميں پی ٹی سی ايل سے رابطہ کيا ۔ اُنہوں نے معاملہ پی ٹی اے پر ڈال ديا تو ميں نے پی ٹی اے کو تحريری شکائت کی جس پر اُنہوں نے کاروائی کی ۔ اس کے بعد مجھے کئی قارئين نے بتايا کہ ميرا بلاگ اُن کے ہاں کھُلنے لگ گيا تھا
اس کے بعد ڈائل اَپ کنکشن والے ايک دو قارئين نے بتايا کہ بلاگ کبھی کھُلتا ہے مگر عام نہيں کھُلتا تو ميں نے اپنے بلاگ سے جاوا سکرپٹ ہٹا دی اور بھی کئی تبديلياں کيں

کچھ دن قبل پھر ايک شکائت آئی کہ ميرا بلاگ نہيں کھُل رہا ۔ ميں نے اپنے انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر [مائيکرونيٹ] سے رابطہ کيا ۔ اُنہوں نے پڑتال کر کے بتايا ہے کہ مندرجہ ذيل عمل کيا جائے تو کوئی وجہ نہيں کہ ميرا بلاگ نہ کھُلے ۔ ميں نے اُن سے کہا کہ انٹرنيٹ استعمال کرنے والا ہر شخص ايسا کرتا ہو گا مگر اُن کا خيال ہے کہ بہت سے لوگوں کا اس کا علم ہی نہيں ہے ۔ اسلئے جن خواتين و حضرات نے پہلے ايسا نہيں کيا وہ اب کر ليں ۔ جنہوں نے پہلے کيا ہوا ہے وہ بھی ديکھ ليں کہ کہيں انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر نے ڈی اين ايس کے نمبر بدل تو نہيں ديئے

اپنے انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر سے مندرجہ ذيل معلومات ليجئے

Preferred DNS Server
Alternate DNS Server

مندرجہ بالا معلومات جو کہ ہندسوں ميں ہوں گی مل جانے کے بعد مندرجہ ذيل عمل کيجئے ۔ [پہلے دو مرحلوں کو چھوڑ کر براہِ راست تيسرے مرحلہ پر بھی جايا جا سکتا ہے]

1. In lower tool bar, or wherever it is, right-click on internet icon (blinking double-monitor)

2. Then, left-click on “Open Network Connections”

3. Then, right-click on “Local Area Connection”

4. Then, left-click on “Properties”

5. Then, double-click on “Internet protocol (TCP/IP)

اب جو مينيو کھُلے گا اس ميں مندرجہ ذيل کے سامنے وہ ہندسے لکھ ديجئے جو انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر نے بتائے تھے

Preferred DNS Server

Alternate DNS Server

معترف ۔ چاپلوس يا منافق ؟

ميں تلاش کچھ اور کر رہا تھا کہ ايک ايسے خط کا متن ہاتھ لگ گيا جس کے متعلق آدھی صدی قبل سُن رکھا تھا ۔ يہ خط ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے والد شاہنواز بھٹو کی وفات کے فوری بعد برطانيہ سے اُس وقت پاکستان کے حکمران اسکندر مرزا کے نام لکھا تھا ۔ خيال رہے کہ سکندر مرزا نے کبھی پاکستان کی فوج ميں شموليت اختيار نہيں کی تھی ۔ اُس نے برطانوی فوج ميں 1920ء ميں کميشن ليا مگر 1926ء ميں چھوڑ کر انڈين پوليٹيکل سروس سے منسلک ہو گيا تھا ۔ پاکستان ميں جب وہ سيکريٹری بنا تو خود ہی ايک نوٹيفيکيشن جاری کروا کر اپنے نام کے ساتھ ميجر جنرل لگا ليا تھا ۔ شاہنواز بھٹو 1957ء کے شروع ميں فوت ہوئے چنانچہ يہ خط اپريل 1957ء ميں لکھا گيا ہو گا ۔ اُردو ترجمہ اور خط کا انگريزی متن حاضر ہے

عزت مآب ميجر جنرل اسکندر مرزا
صدر اسلامی جمہوريہ پاکستان
کراچی
پاکستان

ميرے پيارے جناب
آپ کے علم ميں لانے کيلئے صرف چند سطور لکھ رہا ہوں کہ ميں يہاں پر اپنی بہترين قابليت کے مطابق اپنی ذمہ دارياں نباہ رہا ہوں ۔ پاکستان واپس آنے پر ميں آپ کو اپنے کام کی تفصيل سے آگاہ کروں گا ۔ مجھے يقين ہے کہ آپ ميری خدمات سے مطمئن ہوں گے جو ميں نے اپنے مُلک اور اپنے صدر کے بہترين مفاد ميں سرانجام دی ہيں

ميں اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی آپ سے گہری وفاداری کا يقين دلانا چاہتا ہوں

ميرے والد کی وفات سے ٹھيک 4 ماہ قبل اُنہوں نے مجھے نصيحت کی تھی کہ ميں آپ کا پکا وفادار رہوں کيونکہ آپ ايک فرد نہيں بلکہ ايک اتاليق ہيں

ميں محسوس کرتا ہوں کہ ميرے ملک کی بہتری کيلئے آپ کی خدمات ناگزير ہيں

جب کوئی معروضی [حقائق لکھنے والا] تاريخ دان ہمارے مُلک کی تاريخ لکھے گا تو آپ کا نام مسٹر جناح سے بھی پہلے آئے گا
جناب ۔ ميں يہ اسلئے کہہ رہا ہوں کہ ميں اس ميں يقين رکھتا ہوں نہ کہ اسلئے کہ آپ ہمارے مُلک کے سربراہ ہيں ۔ اگر ميں ايک وزيرِ اعظم کے ساتھ تنازعہ کھڑا کرنے کيلئے اعتماد اور حوصلہ رکھتا ہوں تو ميرا نہيں خيال کہ ميں چاپلوسی کا مرتکب ہو رہا ہوں

اگر آپ يا بيگم صاحبہ کو يہاں سے کسی چيز کی ضرورت ہو تو مجھے حکم دينے ميں نہ ہچکچايئے گا

آپ اور بيگم صاحبہ دونوں کيلئے دل کی گہرايئوں سے احترام کے ساتھ

آپ کا مخلص
ذوالفقار علی بھٹو

April, 1958
H.E. Major-General Iskander Mirza,
President of the Islamic Republic of Pakistan,
Karachi,
Pakistan.

My dear Sir,
Only a few lines to let you know that I am discharging my responsibilities here to the best of my ability.
I shall give you a detailed report of my work on my return to Pakistan and I am sure you will be satisfied with the manner in which I have done my humble best to serve the interests of my Country and my President.
I would like to take this opportunity to reassure you of my imperishable and devoted loyalty to you.
Exactly four months before the death of my late Father, he had advised me to remain steadfastly loyal to you as you were “not an individual but an institution”.
For the greater good of my own Country, I feel that your services to Pakistan are indispensable.
When the history of our Country is written by objective historians, your name will be placed even before that of Mr. Jinnah. Sir, I say this because I mean it and not because you are the President of my Country.
If I have the conviction and the courage to enter into a dispute with a Prime Minister, I do not think I could be found guilty of the charge of flattery.
If you and the Begum Sahiba require anything from here, please do not hesitate to order me for it.
With profoundest respects both to you and to the Begum Sahiba,
Yours sincerely,

(Zulfikar Ali Bhutto)

خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس ۔ دوسری اور آخری قسط

پچھلی قسط ميں سوال ” خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟” کے حوالے سے عقل ۔ منطق اور سائنس پر کچھ بات کی گئی تھی ۔ آج مزيد مثالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہيں

آج سے شايد 3 دہائياں قبل 24 دسمبر کو ايک ہوائی جہاز ايميزان کے جنگلوں کے اُوپر سے پرواز کے دوران لاپتہ ہو گيا ۔ تلاشِ بسيار کے باوجود نہ جہاز کا ٹکڑا ملا نہ کسی انسان کا مگر حادثہ کے 10 دن بعد ايک جوان لڑکی خود چلتی ہوئی جنگل کے محافظوں کے ايک خيمے تک پہنچ گئی اور بتايا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اُس ہوائی جہاز ميں سفر کر رہی تھی ۔ وہ بيہوش ہو گئی تھی ۔ ہوش آنے پر اُس نے اپنے آپ کو زمين پر پايا اور چلتی ہوئی وہاں پہنچی ہے

کيا عقل اور منطق سے ايسے واقعات کی تشريح ہو سکتی ہے ؟ نہيں ۔ اس عمل کا عامل وہی عقلِ کُل ہے جسے ہم خدا کہتے ہيں

عقل اور منطق کس کی مِلکيت ہے ؟

چھ سات دہائياں پيچھے کا واقعہ ہے کہ لندن کے دماغی امراض کے اسپتال کا سربراہ ڈاکٹر ايک دن شام کو کام ختم کر کے گھر جانے کيلئے سڑک پر کھڑی اپنی کار کے پاس پہنچا تو ديکھا کہ ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں [Nuts] غائب ہيں ۔ وہ پريشان کھڑا تھا کہ ہسپتال کی دوسری منزل سے آواز آئی
“ڈاکٹر کيوں پريشان ہو ؟”
ڈاکٹر “کوئی شرير لڑکا ميری کار کے ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں لے گيا ہے ۔ ميں گھر کيسے جاؤں گا”
وہ شخص “ڈاکٹر ۔ باقی تين پہيئوں سے ايک ايک ڈھبری اُتار کر اس ميں لگا لو اور گاڑی آہستہ چلاتے سپيئر پارٹس کی دکان تک چلے جاؤ ۔ وہاں سے 4 ڈھبرياں خريد کر پوری کر لينا”
ڈاکٹر “کمال ہے ۔ تم پاگل ہو کر بھی مجھ سے زيادہ عقل رکھتے ہو”

ايک صدی کے قريب پرانی بات ہے جب پہلا راکٹ بنانا شروع کيا گيا تھا ۔ تجربہ کيلئے جب راکٹ فائر کيا جاتا تو اُس کے پر اُکھڑ جاتے اور راکٹ ھدف تک نہ جاتا ۔ کئی ماہ مُلک کے عقلمند [Think Tanks] مختلف طريقے آزماتے رہے مگر کاميابی نہ ہوئی ۔ آخر تمام فيکٹريوں ميں کام کرنے والوں سے مشورہ لينے کا سوچا گيا ۔ ايک فيکٹری ميں ايک مزدور تھا جو اپنی نااہلی کی وجہ سے 14 سال سے فرش صاف کرنے سے آگے نہ بڑھ سکا تھا ۔ اُس کے فورمين نے اُس کی رائے پوچھی تو اُس نے کہا “اسے سوراخدار [Perforated] بنا دو”۔ اس پر عمل ہوا اور تجربہ کامياب ہو گيا ۔ اس مزدور کو انعام و اکرام سے نوازا گيا ۔ اس کے اعزاز ميں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کيا گيا ۔ وہاں اس سے کہا گيا کہ “جو تجويز بڑے بڑے عقلمند نہ دے سکے تمہارے دماغ ميں کيسے آئی ؟”وہ بولا “ٹائيلٹ پير کو نہيں ديکھا ؟ کبھی وہاں سے نہيں پھٹتا جہاں سوراخ ہوتے ہيں”

پہلی صورت ميں ايک پاگل کے پاس ايک ماہر اور تعليميافتہ ڈاکٹر کی نسبت زيادہ عقل نظر آتی ہے جبکہ دوسرے معاملہ ميں ايک جاہل کی بيوقوفی عقل کا نمونہ بن گئی ۔ ہم کس عقل کی بناء پر خدا کے وجود کے منکر بننا چاہتے ہيں ؟

تھوڑی سی بات سائنسی ترقی کی

آج کا انسان سمجھتا ہے کہ ترقی کے جس عروج پر آج وہ ہے ماضی کا انسان اس کی گرد کو بھی نہ پا سکا تھا ۔ يہی سوچ ہے جو آدمی کو انسانيت سے وحشت کی طرف ليجاتی ہے ۔ اگر سائنس آج ماضی کی نسبت بہت زيادہ ترقی کر چکی ہے تو اس کے پاس مندرجہ ذيل اور اسی طرح کے مزيد عوامل کا حل کيوں نہيں ہے ؟

سمندر کی تہہ ميں ايک ليبارٹری جس ميں خالص سونے کے ہاتھوں کی انگليوں پر رکھا خالص کوارٹز کا 5 سينٹی ميٹر قطر کا کُرہ کس نے بنايا اور سمندر کی تہہ ميں ليبارٹری کيسے بنی جو آج بھی ناممکن نظر آتا ہے ؟

سسلی کے قريب سمندر کی تہہ ميں پڑی بادبانی کشتی ميں سے لکڑی کا بنا ہوا کمپيوٹر ملا ۔ يہ کس نے بنايا اور اس سے کيا کام ليا جاتا تھا ؟

جنوبی افريقہ کے صديوں سے غير آباد علاقے ميں ايروڈروم [Aerodrome] جسے آجکل ايئرپورٹ کہا جاتا ہے کے آثار ملے ۔ يہ ايرو ڈروم کس نے بنائی اور يہاں سے کيا اُڑتا تھا ؟

اہرامِ مصر کی کيا ٹيکنالوجی تھی کہ کوئی سوراخ نظر نہ آنے کے باوجود اندر ہوا چلتی محسوس ہوتی ہے ؟

گرم حمام آگرہ کس طرح بنايا گيا تھا کہ اس ميں ہر وقت پانی گرم رہتا تھا ؟ اسے انگريزوں نے توڑا مگر پھر آج تک نہ بن سکا

تدبير کے پر جلتے ہيں تقدير کے آگے ۔ تدبير انسانی عقل ہے جو اللہ ہی نے تفويض کی ہے اور تقدير اللہ کی منشاء ہے ۔ انسان کی بدقستی يہ ہے کہ جس کام کيلئے عقل عطا کی گئی وہاں تو استعمال کرتا نہيں ۔ اُلٹا عقل تفويض کرنے والے کے خلاف عقل استعمال کرنا شروع کر ديتا ہے

اے انسان ۔ عقل کُل صرف اللہ کی ذات ہے وہی خالق و مالک ہے ۔ مان لے کہ تيری عقل ناقص ہے اور تيری جو بھی خُوبياں ہيں وہ سب اللہ کی تفويض کی ہوئی ہيں
سب کچھ ديا ہے اللہ نے مجھ کو
ميری تو کوئی بھی چيز نہيں ہے
يہ تو کرم ہے ميرے اللہ کا
مجھ ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے

خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس

خدا کی موجودگی کے متعلق باذوق صاحب نے ايک پُر مغز تحرير لکھی تھی ۔ بغير باذوق صاحب کی تحرير کا اثر لئے اور مسجد و منبر کو بھی ايک طرف رکھتے ہوئے منطق ۔ عقل اور سائنس کی بات کرتے ہيں

خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟ يہ يا اس قسم کے سوال اتنا ہی پرانے ہيں جتنی اس دنيا ميں آدمی کی آمد مگر اُردو بلاگو سفيئر پر اس طرح کے سوال کو دو بار موضوع بنايا گيا

سائنس کيا ہے ؟

سائنس کی بنياد يہ اصول ہے کہ ہر عمل کا کوئی عامل ہوتا ہے ۔ علمِ طبيعات ہو يا علمِ کيمياء يا سائنس کا کوئی اور شعبہ سب اسی اصول پر استوار ہيں ۔ طبيعات ميں آئزک نيوٹن کے مشہورِ زمانہ کُلياتِ حرکت اسی اصول کو واضح کرتے ہيں ۔ پہلا کُليہ ہے ” کوئی چيز جو ساکن يا متحرک ہے اُس وقت تک ساکن يا متحرک رہتی ہے جب تک کوئی باہر کی طاقت اس صورتِ حال کو نہ بدل دے ۔ يعنی کوئی عمل خود بخود نہيں ہوجاتا اس کے وقوع پذير ہونے کيلئے عامل کا ہونا لازمی ہے

عامل کی تلاش کو سائنس تحقيق کا نام ديتی ہے ۔ سائنس کے کچھ طالب علم محسوس يا غيرمحسوس طور پر اس مفروضہ سے ابتداء کرتے ہيں کہ وہ بذاتِ خود عقلِ کُل ہيں جس کا فطری نتيجہ خدا جو کہ عقلِ کُل ہے کا انکار ہوتا ہے ۔ معروف سائنسدان آئزک نيوٹن نے ہی کہا تھا
“انسان کے ايک ہاتھ کی ايک اُنگلی کی ايک پور کا مطالعہ ہی يہ باور کرنے کيلئے کافی ہے کہ خدا ہے”

پوری کائنات کی تخليق ايک عمل ہے ۔ اس کا عامل کون ہے ؟ عقل ۔ منطق اور سائنس يہ بتانے سے قاصر ہيں ۔ جب کوئی تسُونامی آتا ہے تو اس کا عامل زلزلے کو بتايا جاتا ہے ۔ زلزلے کا عامل بتانے کيلئے فالٹ لائنز دريافت کر لی جاتی ہيں ۔ فالٹ لائنز کے عمل کا عامل نہيں بتايا جاتا ۔ جو ثابت کرتا ہے کہ سائنس نامکمل اور عقل محدود ہے

کئی بار ايسے ہوا ہے کہ ايک آدمی کو سائنس مردہ قرا د دے ديتی ہے مگر بعد ميں وہ زندہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس ايک آدمی کا معائنہ کر کے اُسے سو فيصد تندرست قرار ديا جاتا ہے اور اُسی لمحے وہ مر جاتا ہے ۔ ايسے واقعات کے بارے ميں انسانی عقل اور منطق ناکام ہيں کيونکہ انسانی عقل ناقص ہے

کوئی 56 سال پرانی بات ہے جب ميں گارڈن کالج راولپنڈی ميں گيارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ اُس زمانہ ميں بھی خدا کا منکر بننے کيلئے سائنس کا سہارا لينے کا فيشن چلا تھا ۔ ايک دن آدھی چھُٹی کے وقت ميرے 2 ہمجماعت آپس ميں بات کر رہے تھے تو
ايک نے کہا “اس دنيا کا خالق خدا ہے”
پاس ہی ايک بارہويں جماعت کا لڑکا کھڑا تھا بول اُٹھا “يہ دنيا خدانے بنائی تو خدا کو کس نے بنايا تھا ؟”
پہلے والا بولا “آپ بتائيں يہ دنيا کيسے بنی ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “فضا ميں خُليئے تھے ۔ وہ جڑنا شروع ہوئے اور يہ کائنات وجود ميں آئی”
پہلے والا بولا “خُليئوں سے پہلے کيا تھا اور خُليئے کہاں سے آئے ؟”
بارہويں جماعت والا بولا “معلوم نہيں”
پہلے والا بولا “ناقص علم پر يقين کرنے والا ناقص العقل ہوتا ہے ۔ انسان کی عقل کامل نہيں ہے ۔ وہ خدا کو تسليم کرنے ميں اسلئے ہچکچاتا ہے کہ اسے ناقص العقل نہ سمجھا جائے”

منطق کيا ہے ؟

سادہ الفاظ ميں منطق کہتی ہے کہ 2 + 2 = 4
مگر آج سے 55 سال قبل بارہويں جماعت ميں ہميں ڈفرينشل کيلکولس [Differential Calculus] کا ايک کُليہ پڑھايا گيا تھا جس کے ذريعہ سے ثابت کيا جا سکتا تھا کہ ضروری نہيں 2 + 2 = 4 ہی ہو ۔ اسے سائنس کا ارتقاع کہا جاتا ہے مگر ساتھ ہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی منطق ہو يا عقل دونوں نامکمل ہيں اور اس کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے ۔ عقلِ کُل صرف وہ عامل [وَحْدَہُ لَا شَرِيْکَ لَہُ] ہے جس نے يہ ساری کائنات تخليق کی اور اسے چلا رہا ہے اور وہ خدا ہے

عقل کيا ہے ؟

يہ انسان کی سوچ ہے جو کہ محدود ہے مگر انسان اسے محدود ماننا اپنی توہين سمجھتا ہے ۔ اس کی کچھ مثاليں عملی زندگی سے ديکھتے ہيں

خليل اللہ سيّدنا ابراھيم عليہ السّلام کو منکرِ خدا آگ ميں پھينکتے ہيں مگر آگ اُنہيں کچھ نقصان نہيں پہنچاتی ۔ ايسے موقع پر عقل گُنگ ہو جاتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اسی واقعہ کے متعلق لکھا تھا

بے خطر کُود گیا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی

دوسری قسط اِن شاء اللہ جمعرات 14 اپريل کو