انسانوں کی اکثريت کا سب سے بڑا مسئلہ يہ ہے کہ
وہ سُنتے آدھا ہيں
سمجھتے چوتھائی ہيں
سوچتے بالکل نہيں
ردِ عمل دو گنا ہوتا ہے
انسانوں کی اکثريت کا سب سے بڑا مسئلہ يہ ہے کہ
وہ سُنتے آدھا ہيں
سمجھتے چوتھائی ہيں
سوچتے بالکل نہيں
ردِ عمل دو گنا ہوتا ہے
آج صبح سويرے ميری بيگم بوليں “ٹی وی بتا رہا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ايبٹ آباد کے قريب ہلاک کر ديا گيا ہے ۔ ميرے مُسکرانے پر بيگم نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا “توبہ کرو ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ کہو”۔ ميں نے اسی وقت إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور بيگم سے کہا “يہ امريکا والے جھوٹ بول رہے ہيں اپنی عوام کو وقفے وقفے سے اسپرين کی گولی ديتے رہتے ہيں تاکہ انہيں درد کا افاقہ رہے”
ميں کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ميں نے کمپيوٹر چلا کر ای ميلز پڑھی تھيں کہ بجلی غائب ۔ ايک گھنٹے بعد بجلی آئی تو ميں سوچ چکا تھا کہ دوسرے خواتين و حضرات کا ردِ عمل ديکھا جائے ۔ صرف ايک تحرير آئی ۔ وہ بھی بطور خبر کے ۔ اس تحرير پر جو لکھنے گيا تھا اُس کی بجائے لکھاری کو دلاسہ دے کر آ گيا ۔ پھر اپنے مخزن مضامين کيلئے کچھ اور تحرير لکھنے ميں مشغول ہو گيا ۔ بجلی پھر چلی گئی ۔ پھر نيچلی منزل جا کے سارا اخبار پڑھ ڈالا ۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھايا ۔ قيلولہ کيا ۔ اوپر کی منزل پر آ کر کمپيوٹر چلايا اور خُرم صاحب کی متذکرہ بالا تحرير کو دوبارہ کھولا تو وہاں کئی تبصرے ديکھے جس سے محسوس ہوا کہ ميرے ساتھ اور لوگ بھی ہيں جو اس خبر پر يقين نہيں رکھتے ۔ ابھی ميں نے اپنے خيالات قلمبند کرنا شروع کئے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ بجلی آئی ہے تو لکھنے بيٹھا ہوں
ميرا موت ميں اتنا ہی يقين ہے جتنا اس ميں کہ ميں اس وقت لکھ رہا ہوں ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 156 ۔ ترجمہ ۔ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ مرنا بر حق ہے ۔ سوال صرف يہ ہے کہ کيا اُسامہ بن لادن مر گيا اور کب اور کہاں مرا ؟ ميرا جواب ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہے يا مر گيا ۔ رہا اُس کا پاکستان ميں ہونا يا مرنا تو يہ قرينِ قياس نہيں ہے ۔ اگر وہ پاکستان ميں ہوتا يا مرتا تو اس کی خبر بالخصوص موجودہ حالات ميں پاکستان آرمی کے آئی ايس پی آر سے آتی نہ کہ امريکا سے ۔ آئی ايس پی آر خاموش ہے اور حکومتی بيان مُبہم آيا ہے
امريکا کو افغانستان ميں شکست کا سامنا ہے جہاں فتح کا اعلان امريکی اہلکار کئی بار کر چکے ہيں ۔ دسمبر 2001ء ميں جب تورا بورا پر ڈيزی کٹر پھينک کر کارپٹ بومبنگ کی گئی تھی ۔ اُس وقت کے امريکی صدر جارج بُش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کيا تھا ۔ دراصل امريکی حکومت اپنی عوام کے درد کو کم کرنے کيلئے وقفوں سے اسپرين کی گولی ديتی رہتی ہے ۔ اُسامہ کی موت کی اس وقت خبر دينا بھی اسپرين کی ايک گولی سے زيادہ کچھ نہيں يا پھر ايسے وقت جب پاکستان کی فوج صرف اپنی شرائط پر مزيد تعاون کرنا چاہتی ہے پاکستانی حکومت يا فوج کو دباؤ ميں لانا مقصود ہو سکتا ہے ۔ امريکی حکمرانوں ميں عقل کی کمی ہے يا وہ بوکھلائے ہوئے ہيں کہ اپنے ہی مختلف بيانات سے خبر کو مکمل مشکوک بنا ديا ہے ۔ امريکی حکمرانوں کو چاہيئے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ق ليگ پنجاب کے صدر چوہدری پرويز الٰہی سے سيکھ ليں ۔ کس طرح اُس نے ہمارے ملک کے چالاک ترين آدمی آصف علی زرداری کو چاروں شانے چِت کر ديا ہے
حقيقت تو اللہ کو معلوم ہے اور امريکی بڑوں کو بھی معلوم ہو گی ۔ فرض کر ليتے ہيں کہ جس طرح اوبامہ نے کہا ہے امريکی ايجنسی نے کل کاروائی کر کے اُسامہ کو ايبٹ آباد ميں ہلاک کيا اور اس کاروائی ميں 2 ہيلی کاپٹروں نے حصہ ليا جن ميں سے ايک گر گيا يا گرا ليا گيا ۔ اب ان سوالوں کا کون جواب دے گا ؟
1 ۔ ايک دفاعی اہميت کے شہر “ايبٹ آباد” ميں اُسامہ قيام پذرير تھا ۔ اُسے خوراک اللہ کے فرشتے نہيں پہنچاتے تھے ۔ مگر وہ شخص جس کی شکل ٹی وی چينلز پر ديکھ ديکھ کر بوڑھوں سے بچوں تک سب کو ازبر ہو چکی ہے جان نہ سکے کہ اُسامہ اُن کے درميان رہ رہا ہے
2 ۔ حالانکہ عمارت بڑی تھی اور اس ميں کئی لوگ رہتے تھے پھر بھی فرض کر ليتے ہيں کہ کوئی نہ کبھی اس عمارت کے اندر گيا اور نہ کبھی باہر آيا ۔ پھر بھی يہ ممکن نہيں ہے کہ ايبٹ آباد کے لوگوں نے جستجو نہ کی ہو کہ اس بڑی عمارت ميں کون رہتا ہے جبکہ اگر ہميں پتہ نہ چلے کہ فلاں عمارت ميں کون رہتا ہے ؟ تو ہماری نينديں حرام ہو جاتی ہيں
3 ۔ پاکستان کی خفيہ ايجنسياں جو گڑے مُردے بھی سونگھ ليتی ہيں ۔ جہاں ان کی ذمہ دارياں سخت تھيں اسی علاقے ميں سب سے بڑا دہشتگرد مزے لُوٹ رہا تھا اور اُنہيں اس کی بھِنک نہ پڑی
4 ۔ کيا اس بات کی اجازت ہماری حکومت نے دے رکھی ہے کہ جس کا جی چاہے جہاں چاہے خُفيہ فوجی کاروائی کرے اور جسے چاہے جتنوں کو چاہے ہلاک کر دے اور اُن کے جسم بھی اُٹھا کر ليجائے ؟
5 ۔ بقول امريکی اہلکاروں کے جسم کو سمندر ميں پھينک ديا گيا ۔ کيوں ؟ اسے محفوظ کر کے امريکا ليجا کر اور اسے وہاں کے ٹی وی چينلز کو کيوں نہ دکھايا ؟ جبکہ عراق اور افغانستان ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں امريکی فوجيوں کی نعشوں کو اپنی عوام کے غيظ و غضب سے بچنے کيلئے کئی کئی سال تک عراق اور افغانستان محفوظ رکھا گيا اور تھوڑی تھوڑی نعشيں امريکا ليجائی جاتی رہيں
6 ۔ کيا پاکستانی حکومت اور ايجنسياں بالکل نااہل ہيں کہ ان کے ملک کے دفاعی اہميت کے شہر ميں ہيلی کاپٹروں کی مدد سے کاروائی ہوئی جو کم از کم 35 يا شايد 45 منٹ تک جاری رہی اور انہيں خبر تک نہ ہوئی ؟
7 ۔ لازمی امر ہے کہ ہيلی کاپٹر پاکستانی فضا ميں سينکڑوں کلوميٹر لمبا سفر طے کر کے ايبٹ آباد پہنچے ہوں گے ۔ کيا کسی ايجنسی کسی آرمی يا رينجرز فارميشن نے اُنہيں نہيں ديکھا ؟ گويا وہ سب بھی نشہ پی کر سوئے ہوئے تھے ؟
8 ۔ امريکا نے بقول امريکا افغانستان پر 2001ء ميں اسلئے حملہ کيا تھا کہ وہاں اُسامہ تھا جسے طالبان نے امريکا کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا اور وہ اُسامہ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ اُسامہ ہلاک ہو گيا ۔ اب امريکا اپنا بوريا بستر گول کر کے افغانستان سے کيوں نہيں چلا جاتا ؟
بات آخر ميں يوں بنتی ہے کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ۔ اپنے پياروں اور اپنی املاک کی حفاظت خود اپنے ہاتھ ميں لے ليں کيونکہ حکمران ۔ فوج ۔ رينجرز ۔ پوليس سب نااہل ہيں يا دشمن کے ايجنٹ ہيں ۔ ايسا نہيں ہو سکتا ايسا کبھی نہيں ہو سکتا
جب فرانسسکو مِترا 1981ء ميں فرانس کا صدر بنا تو فرانس نے مصر سے درخواست کی کہ فرعون [Ramesses II ] کی حنوط شدہ لاش تعليمی تحقيق کيلئے اُنہيں دی جائے
فرعون کی حنوط شدہ لاش فرانس پہنچی تو آثارِ قديمہ اور علم الاعضاء کے ماہرين سائنسدانوں نے اُس پر تحقيق شروع کی جن کا سربراہ پروفيسر مَورِيس بُوکيل [Professor Maurice Bucaille] تھا ۔ پروفيسر مَوريس کو صرف يہ دلچسپی تھی کہ اس فرعون کی موت کيسے واقع ہوئی تھی ۔ تحقيق کے بعد سب سائنسدان اس نتيجہ پر پہنچے کہ نعش کی کھال ميں نمک کی زيادتی اس بات کا کھُلا ثبوت ہے کہ موت کی وجہ سمندر ميں ڈوبنا تھی جہاں گلنے سڑنے سے قبل نعش کو نکال کر محفوظ کيا گيا ہو گا ليکن ايک حقيقت پروفيسر مَورائس کو پريشان کر رہی تھی کہ يہ نعش باقی سب حنوط شدہ نعشوں سے بہت زيادہ صحيح حالت ميں کيوں ہے جبکہ يہ تو سمندر سے نکالی گئی جس کی وجہ سے اسے زيادہ خراب ہونا چاہيئے تھا
سائنسدان اپنی تحقيق مکمل کر چکے تو فرعون کی نعش مصر واپس بھيج دی گئی ۔ پروفيسر مَورائس اپنی اور اپنی ٹيم کی تحقيقات پر مبنی حقائق کتاب کی صورت ميں تيار کر رہا تھا تو وہاں کسی نے اُس سے کہا کہ “مسلمان دعوٰی کرتے ہيں کہ اُنہيں فرعون کے ڈوبنے اور اسے محفوظ کرنے کے متعلق کچھ معلوم ہے”۔ پروفيسر مَورائس نے اس کی سختی سے نفی کی اور کہا کہ “سائنسی ترقی ۔ ہائی ٹيک ليبارٹری اور کمپيوٹر کے بغير اس قسم کی کوئی بھی معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے” ۔ پھر اُسے بتايا گيا کہ مسلمان قرآن نامی ايک کتاب ميں يقين رکھتے ہيں اور اس کتاب ميں فرعون کے ڈوبنے اور اس کی لاش کو انسانوں کيلئے نشانی بنانے کا ذکر ہے ۔ پروفيسر مَورائس بولا “يہ کس طرح ممکن ہے کہ 14 صدياں قبل لکھی گئی کتاب اُس نعش کی بات کرے جو 2 صدياں قبل ملی ۔ پروفيسر مَورائس سوچ ميں پڑ گيا “کيا يہ وہی شخص ہے انجيل کے مطابق جس نے موسٰی [عليہ السلام] کا پيچھا کيا تھا ؟ کيا يہ ممکن ہے کہ محمد [صلی اللہ عليہ و آلہ و سّلم] کو 14 صدياں قبل پتہ تھا ؟” پروفيسر مَورائس کی نيند حرام ہو چکی تھی ۔ اُس نے فيصلہ کيا کہ وہ سفر کرے اور جا کر عِلم الاعضاء کے مسلمان سائنسدانوں سے ملے ۔ جب اُس نے ايک مسلمان سائنسدان کے پاس جا کر اپنا سوال دہرايا تو بغير بولے وہ قرآن شريف اُٹھا لايا
سورت 10 ۔ يونس ۔ آيات 90 تا 92
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور تعدی سے ان کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ جب اس کو غرق (کے عذاب) نے آ پکڑا تو کہنے لگا میں ایمان لایا کہ جس (خدا) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ (جواب ملا) کہ اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا؟ تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کیلئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں
پروفيسر مَورائس نے جونہی مسلمان سائنسدان کی دکھائی ہوئی قرآن شريف کی آيت پڑھی وہاں موجود تمام لوگوں کو مخاطب کر کے بلند آواز ميں کہا
“ميں اسلام پر ايمان لاتا ہوں ميں قرآن پر ايمان لاتا ہوں”[سةبحان اللہ]
اس کے بعد وہ ملک واپس جا کر ايک دہائی تک قرآن شريف اور سائنس کا موازنہ کرتا رہا ۔ جو چيز قرآن شريف کے مخالف ہوتی اُسے رد کر ديتا ۔ آخر اس نے اپنا فيصلہ دے ديا
سورت 41 ۔ حٓم السجدہ [فُصلت]۔ آيات 41 و 42
جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا ۔ (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں) یہ با وقعت کتاب ہے ۔ جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے ۔ یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے
پروفيسر مَورائس نے ايک کتاب لکھی جس نے سارے يورپ کو ہلا کے رکھ ديا
“Quran, Torah, Bible and Science: A Study of the Holy Books in the Light of Modern Science”
مواد مہياء کرنے کيلئے ميں تحريم صاحبہ کا مشکور ہوں ۔ اللہ اُنہيں سدا خوش رکھے
پچھلے دنوں نعيم اکرم ملک صاحب نے علی الصبح کا ايک خوشگوار نظارہ لکھا تھا ۔ بات چل نکلی ہے تو اس سلسلہ ميں کچھ مزيد معلومات سپُردِ قلم کر رہا ہوں تاکہ کہيں کوئی يہ نہ سمجھ بيٹھے کہ يہ مُلک لُٹيروں اور اٹھائی گيروں کی حکمرانی کے نتيجہ ميں چل رہا ہے ۔ پہلے نعيم اکرم ملک صاحب کی تحرير پر ميرے تبصرہ کی تلخيص
بہت اچھا کيا آپ نے لکھ کر ۔ ميں سوچتا ہی رہا کہ لکھوں لکھوں ۔ آپ نے جس ريستوراں کا حوالاديا ہے وہ زين ہُوئی يا ضيافت ہے جہاں آپ 2 اور 3 سو روپے کے درميان اچھا کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ضيافت کے مالکان غُرباء کو صبح ناشتہ مُفت دينے کے ساتھ ساتھ دن ميں جو کھانا بچ جاتا ہے رات کو غرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ ريستوراں رات 10 بجے بند کر ديا جاتا ہے ۔ کراچی ميں عالمگير ٹرسٹ والے غريبوں کو بالخصوص رمضان کے مہينے ميں مفت کھانا کھلاتے تھے ۔ لاہور ميں تاجر لوگ يہ کام مختلف جگہوں پر کر رہے ہيں ۔ 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ کے بعد مجھے بيہوشی ميں لاہور جنرل ہسپتال پہنچا ديا گيا تھا ۔ 2 دن بعد ميں ہوش ميں آيا تو ميری بيٹی نے نرس سے کہا “ابو نے 2 دن سے کچھ نہيں کھايا ۔ کيفيٹيريا کہاں ہے ؟” نرس نے کہا “ان کيلئے ابھی ناشتہ آ رہا ہے”۔ ناشتہ ميں اُبلا انڈا کيک ۔ دودھ کی ڈبيہ اور چائے تھی ۔ بيٹی نے پوچھا “يہ سب ہسپتال والے ديتے ہيں ؟” تو نرس نے کہا “نہيں ۔ يہ مخيّر حضرات لاتے ہيں ۔ ايک صبح سب مريضوں کو ناشتہ ديتا ہے ۔ ايک دوپہر کا کھانا اور ايک رات کا کھانا”۔ جو لوگ دور دراز سے مريضوں کے ساتھ آتے ہيں وہ کھُلے ميدان ميں پڑے رہتے تھے ۔ پنجاب حکومت نے اُن کيلئے بند برآمدے بنا ديئے ہيں اور لوگ ديگيں پکا کر اُن کيلئے دے جاتے ہيں ۔ گورمے والے رات کو جو کچھ بچتا ہے اپنے چھوٹے ملازمين اور غُرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ يہی راولپنڈی اور اسلام آباد ميں راحت بيکرز والے کرتے ہيں ۔ بحريہ ٹاؤن والے بھی ايک ہسپتال ميں دوپہر کا کھانا ديتے ہيں
ايک صحافی اور رُکن قومی اسمبلی کی حيرت کا سبب
ڈاکٹرزکی ہڑتال کے دوران میں نے میو اسپتال کا دورہ کیا اور جب میں اسپتال کے باورچی خانے میں جا نکلا تو جو کچھ دیکھا وہ معجزے سے کم نہ تھا۔ باورچی خانہ مکمل صاف ستھرا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ 2002ء سے لے کر اب تک اسپتال کے تمام وارڈز میں موجود مریضوں، جن کی تعداد 1600 سے 1700 تک ہوتی ہے، کو کھانا مفت دیا جاتا ہے اور اُس کا اہتمام عوام کی طرف سے دیئے جانے والے عطیات سے کیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ ناقص خوراک ہو گی مگر جب میں نے اُس دن دوپہر کو دیئے جانے والے پالک گوشت کو چکھا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ میرے ساتھ موجود نوجوان ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کھانے کا معیار ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا یہاں آنا کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا اور نہ ہی میں کوئی لاٹ صاحب تھا کہ جس کے لئے کوئی اہتمام کیا جاتا۔ ناشتہ اس باورچی خانے میں تیار کیا جاتا ہے اور تمام اسپتال جو پاکستان یا شاید جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا اسپتال ہے، کے وارڈز میں تقسیم کیا جاتاہے۔ ہر روز ڈبل روٹی ”ونڈر بریڈ “ کی طرف سے مفت آتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گوشت ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے آتا ہے۔ مگر ہر روز تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کے لئے وحدت روڈ کے ایک شخص کی طرف سے آتا ہے جو گمنام رہنا پسند کرتا ہے
جتنا زیادہ میں اس معاملے کو جانتا گیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیلانی پلاسٹک جن کا رنگ روڈ پر کہیں پلانٹ ہے ہر ماہ 300,000 روپے ۔ فیصل آباد کے گوہر اعجاز 165,000 روپے ۔ بادامی باغ اسپئر پارٹس مارکیٹ کے مدثر مسعود 50,000 روپے اور برانڈ رتھ روڈ کے شاہد صدیق 25,000 روپے باقاعدگی سے بھیجتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور بھی ہوں گے مگر میں معذرت خواہ ہوں کہ اُن کے نام سے ناواقف ہوں۔ کچھ اور بھی ہیں جو گاہے بگاہے عطیات بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اب کی ہے مگر 2002ء سے لیکر 2008ء تک کھانے کا تمام بل ایل جی الیکٹرانکس والے ادا کرتے تھے۔ پھر بعض وجوہات کی بنا پر اُن کی طرف سے سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو بحران نے دیگر امکانات پیدا کر دیئے۔ 2010ء میں سیٹھ عابد نے ایک کروڑ روپے دیئے اور یوں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن جو ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے الحاق رکھتا ہے، بھی عوام کے چندے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کا شوکت خانم کینسر اسپتال بھی عطیات پر چل رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب لوگوں کو یقین ہو کہ اُن کا روپیہ خورد برد نہیں ہو گا تو وہ دل کھول کے دیتے ہیں
ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین کیوں نہیں کر سکتے؟
ہمارا حکمران طبقہ سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی توانائی اسکول اور اسپتال بنانے میں لگائیں
بلاگر کی گذارش
اب بھی وقت ہے کہ ہم کھوکھلی تقارير کرنے اور شور مچانے کی بجائے خاموشی سے ملک کی تعمير ميں حصہ ليں اور ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی سنورايں ۔ يہ کوئی مشکل کام نہيں ہے ۔ تھوڑا سا وقت نکال کر کسی بھی سرکاری ہسپتال ميں جائيں اور انجمن بہبود مريضاں [Patients Welfare Commitee] جو کم از کم پنجاب کے ہر سرکاری ہسپتال ميں ڈاکٹروں اور نرسوں نے بنائی ہوئی ہيں کا پتہ کريں کہ کس طرح غريب مريضوں کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ پھر چرغے اور پِزّے کھانے بند کر کے رقم بچائيں اور اپنی عاقبت بنائيں
اسی کام کی تعليم کے سلسلہ ميں بھی ضرورت ہے ۔ باقی صوبوں کا مجھے علم نہيں ۔ پنجاب ميں ايک ايجوکيشن فاؤنديشن اس سلسلہ ميں اچھی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس کے زيادہ تر اراکين نيک دل تاجر لوگ ہيں ۔ تعليم ميں حصہ ڈالنے کيلئے ان سے رابطہ کيجئے
پھر آپ فخر سے سينہ تان کر گا سکيں گے
ہم ہيں پاکستانی ہم تو جيتيں گے
تقریباً 7 سال قبل صدر پرویز مشرف نے سی آئی اے کی این سی ایس کے ساتھ بغیر پائلٹ طیاروں کے ذریعے اہم انسانی اہداف کو نشانہ بنانے کا معاہدہ کیا، 18 جون 2004ء کو این سی ایس کے خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے زیراستعمال بغیر پائلٹ طیارے نے جنوبی وزیرستان میں پہلا انسانی ہدف شکار کیا
صدر پرویز مشرف نے ایک اور بھی معاہدہ کیا جس کے تحت خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے سپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کو پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز کی تربیت کیلئے پاکستان آنے کی اجازت دی گئی
2005ء ۔ 2006ء ۔ 2007ء ۔ 2008ء اور 2009ء میں بالترتیب ایک ۔ 3 ۔ 5 ۔ 35 اور 53 ڈرون حملے ہوئے ۔ 2010ء میں 117 ڈرون حملے ہوئے جن میں سے 104 شمالی وزیرستان میں ہوئے
2004ء سے 2011 کے دوران حافظ گل بہادر کے علاقے کو 70 بار ۔ حقانی نیٹ ورک کو 56 بار ۔ ابوکاشہ العراقی کو 35 بار ۔ مُلا نذیر کے علاقے کو 30 بار اور محسود کے علاقے کو 29 بار نشانہ بنایا گیا
2010ء کے وسط تک سی آئی اے کے ایس اے ڈی اور ایس او جی نے امریکا کی ایس او سی (سپیشل آپریشنز کمانڈ) کے عناصر کے ساتھ مل کر سینکڑوں اضافی ایجنٹ بھیجنے شروع کردیئے ۔ سی آئی اے کے ان تمام ایجنٹوں نے پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں اور پاکستان کی جوہری تنصیبات کا سراغ لگانے کی سرگرمیاں شروع کردیں
2010ء کے آخر سے اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں شدید رسہ کشی جاری ہے ۔ 27 جنوری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس نے 2 پاکستانیوں کو قتل کردیا اور آئی ایس آئی نے واقعہ کو بڑی مہارت کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی شرائط دوبارہ طے کرنے کیلئے استعمال کیا
23 فروری 2011ء کو امريکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن افغانستان میں ایساف کمانڈر جنرل پیٹرس ۔ کمانڈر سپیشل آپریشنز کمانڈ ایڈمرل اولسن نے اومان میں آرمی چیف جنرل کیانی ۔ ڈی جی ایم او میجر جنرل جاوید اقبال (ان کو اب لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا ہے) سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں کچھ امور پھر سے طے ہوئے کیونکہ اس ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں تقریباً 30 سی آئی اے ایجنٹوں نے اپنی سرگرمیاں معطل کردیں ۔ 16 مارچ 2011ء کو ڈیوس کو رہا کردیا گیا اور یہ خبریں ہیں کہ 2 ہفتوں کے اندر 331 سی آئی اے ایجنٹ پاکستان چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں
7 اپریل 2011ء کو میرین کور کے جنرل جیمز میٹس نے کچھ مزید امور طے کرنے کیلئے آرمی چیف سے ملاقات کی اور 4 روز بعد غالباً شراکت داری کے کچھ نئے ضوابط طے کرنے کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے سی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا اور ایڈمرل مولن کے ساتھ ظہرانہ کیا ۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ یہ مذاکراتی عمل اچھا نہیں جا رہا ۔ آئی ایس آئی اس بات پر مصر ہے کہ 1979ء تا 1989ء والے ریگن دور کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے ۔ جس کے تحت سی آئی اے نے سعودی ادارے المخبرات الاماہ کے ذريعہ جنگ کیلئے مالی مدد دی اور آئی ایس آئی نے اس جنگ کا انتظام و انصرام کیا جبکہ دوسری طرف سی آئی اے کو آئی ایس آئی پر اب اعتماد نہیں رہا اور اسی پر ڈیڈ لاک ہے
واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی مرکز برائے امن و سٹرٹیجک سٹیڈیز کے پروفیسر کرسٹائن فیئر کے مطابق ”ان [پاکستان] کو انڈیا سے مقابلے اور معیشت کیلئے ہماری رقم اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے“ اور ”ہمیں ان [پاکستان] کے جوہری ہتھیاروں ۔ عسکریت پسندوں اور ان دونوں ميں باہمی ربط کی بنا پر ان کی ضرورت ہے“
تحرير ۔ ڈاکٹر فرخ سلیم
ڈاکتر فرخ سليم مرکز برائے تحقيق و تحفظاتی مطالعہ ۔ سياسی اور معاشی تحفظ مقامی و ماحولياتی مسائل کے ايگزيکٹِو ڈائريکٹر ہيں
ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری
نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ جراءت کہ خطروں کے میداں میں آئیں
نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں
نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا
نہیں کرتے کھیتی میں وہ جاں فشانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کہتے ہیں حق کی ہے نامہربانی
نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
کبھی کہتے ہیں ہیچ ہیں سب یہ ساماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں
دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں
ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا
مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے
سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے
ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر
نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ
نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ
وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
شیخ عبداللہ المطلق سعودی عرب کے بڑے علماء کی کمیٹی کے رُکن ہیں ۔ اُنکا شمار فی البدیہ اور فوراً فتویٰ دینے کے حوالے سے مشہور ترین علماء میں ہوتا ہے ۔ اپنی بذلہ سنجی ۔ ظریف اور پُر مزاح طبیعت کی وجہ سے عوام میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ براہ راست پروگراموں میں اُن سے پوچھے گئے سوالات کے جواب سننے کے لائق ہوتے ہیں
ایک سائل “شیخ صاحب کیا پینگوئن کا گوشت کھانا حلال ہے؟”
شیخ صاحب “اگر تجھے پینگوئن کا گوشت مل جاتا ہے تو کھا لینا”
ایک سائل “شیخ صاحب میں نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے ۔ اب کس طرح اُس سے رجوع کروں؟”
شیخ صاحب “میرے بھائی طلاق ہمیشہ ہی غصے کی حالت میں دی گئی ہے ۔ کیا کبھی تو نے ایسا سنا یا دیکھا ہے کہ کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ مزے سے بیٹھا تربوز کے بیج چھیل کر کھا رہا تھا ؟”
ایک سائل “شیخ صاحب ۔ میرے موبائل میں قرآن شریف کی بہت سی تلاوت بھری ہوئی ہے ۔ کیا میں موبائل کے ساتھ بیت الخلاء میں جا سکتا ہوں ؟”
شیخ صاحب “ہاں جا سکتے ہو ۔ کوئی حرج نہیں”
سائل “شیخ صاحب ۔ میں موبائل میں قرآن شریف کے بھرے ہونے کی بات کر رہا ہوں”
شیخ صاحب “میرے بھائی کوئی حرج نہیں ۔ قرآن شریف موبائل کے میموری کارڈ میں ہوگا ۔ تم اُسے ساتھ لیکر بیت الخلاء میں جا
سکتے ہو”
سائل “لیکن شیخ صاحب ۔ قرآن کا معاملہ ہے اور بیت الخلاء میں ساتھ لے کر جانا اچھا تو ہرگز نہیں ہے ناں”
شیخ صاحب “کیا تمہیں بھی کُچھ قرآن شریف یاد ہے ؟”
سائل “جی شیخ صاحب ۔ مُجھے کئی سورتیں زبانی یاد ہیں”
شیخ صاحب “تو پھر ٹھیک ہے ۔ اگلی بار جب تُم بیت الخلاء جاؤ تو اپنے دماغ کو باہر رکھ جانا”
ایک سائلہ “شیخ صاحب ۔ کچن میں برتن دھونے سے کیا میرا وضو ٹوٹ جائے گا ؟”
شیخ صاحب “کیا تیرے برتن پیشاب کرتے ہیں ؟”
ایک سائل “شیخ صاحب ۔ میری بیوی انتہائی موٹی اور بھدی ہے ۔ میں اُسکا کیا کروں ؟”
شیخ صاحب “میرے بھائی ۔ تیرے اُوپر اور میرے اُوپر اللہ تعالیٰ کی ایک جیسی رحمت ہے”
مکمل پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے