سُنّت اور حديث کی تکرار

روزِ اوّل سے ہی اللہ کے دين کو مُتنازعہ بنانے کيلئے ابليس کے نرغے ميں آئے ہوئے انسان اپنی تمام تر توانائياں صرف کرتے آئے ہيں ۔ اُردو بلاگستان ميں تيسری بار سْنّت و حديث کا ذکر آيا ہے ۔ اس سے پہلے انگريزی بلاگز پر يہ کاوشيں کئی بار نظر سے گذری تھيں ۔ اب کچھ وجوہات کی وجہ سے عمران اقبال صاحب نے ” سُنّت و حديث ميں فرق ؟؟؟؟” لکھا ہے جس پر اہلِ عِلم اپنے خيالات کا اظہار کر رہے ہيں ۔ 3 سال سے زيادہ گذرے اُردو بلاگز پر لکھنے والے عُلماء فلسفہ نے اسے موضوع بنايا تو ميں نے اپنی سی ايک کوشش کی تھی ۔ اُسی ميں سے اقتباس حاضر ہے

میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ کچھ صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازیہ بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے اللہ کا کلام “قرآن شریف ” بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب مانا جاتا ہے کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟
[دورِ حاضر کے ايک صاحبِ عِلم قرآن شريف کو بھی متنازعہ بنانے ميں اپنی سی کوشش ميں لگے رہتے ہيں]

سنّت کے اتباع کی سند

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے

سنّت کیا ہے ؟

سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔

حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے

کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں

سنّت کی اقسام

قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا
عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا
تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا

حدیث کی تاریخ

آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔

حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھیئے

دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں

ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]

جو لوگ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے [متذکرہ بالا] فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے

بات ہے سمجھنے کی

ميں ايک طوطا تھا
ميں ٹيں ٹيں کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک چڑيا تھا
ميں چُوں چُوں کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک کوئل تھا
ميں کُوووو کُوووو کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک فاختہ تھا
ميں کُکُو کُوو کُکُو کُوو کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک آدمی تھا
سب بولتے تھے
کوئی نہيں سُنتا تھا

ورلڈ ٹريڈ سينٹر اور اينتھراکس ۔ تاريخ کا ايک ورق

11 ستمبر 2001ء کے چونکا دينے والے ناجائز واقعہ کے بعد 30 گھنٹے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ سارے امريکا بلکہ دنيا کی ٹی وی سکرينيں 2 پائلٹوں کی تصويروں سے سيراب ہونا شروع ہو گئيں ۔ يہ 2 سعودی بھائيوں امير بخاری اور عدنان بخاری کی تصاوير تھيں ۔ يہ تصاوير ٹی وی سکرينوں پر بار بار کوندتی رہيں امريکی حکومت کے اس مسلک کے ساتھ کہ امريکی سواريوں والے ہوائی جہاز اغواء کر کے نيويارک ميں واقعہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے دونوں پائلٹوں کی شناخت کر لی گئی تھی اور وہ سعودی بھائی امير بخاری اور عدنان بخاری تھے

بعد ميں يہ حقيقت منظرِ عام پر آئی کہ امير بخاری ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے حادثہ سے ايک سال قبل قضائے الٰہی سے مر گيا تھا اور اس کا بھائی عدنان بخاری زندہ اور صحتمند تھا جبکہ اگر وہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے ہوائی جہاز ميں ہوتا تو جل کر خاک ہو چکا ہوتا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ جب عدنان بخاری کی تصوير بطور ہائی جيکر اور مُجرم ساری دنيا کے ٹی وی چينل دکھا رہے تھے اُس وقت عدنان بخاری اپنے خلاف ہونے والی بہتان تراشی کی ترديد يا اپنا دفاع نہيں کر سکتا تھا کيونکہ وہ ايک امريکی خفيہ ايجنسی کی حراست ميں تھا

عدنان بخاری کو اُس وقت رہا کيا گيا جب امريکی حکومت اُس کا ناکردہ جُرم دنيا پر درست ثابت کر چکی تھی ۔ پھر وہ بولا بھی ليکن حقائق کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی گئی

11 ستمبر کے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد دنيا کو يہ بھی بتايا گيا کہ امريکی حکومت نے باقی ہائی جيکروں کی شناخت بھی کر لی ہے ۔ وہ 19 مسلمان تھے جن ميں سے 11 سعودی تھے ۔ پھر اُن کے کوائف مع اُن کی تصاوير کے ذرائع ابلاغ کے ذريعہ نشر کئے گئے اور تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر ان کی تصاوير چسپاں کر دی گئيں

کمال يہ تھا کہ جن کی تصاوير چسپاں کی گئيں ان ميں سے کئی افراد نے امريکی استدلال کو رد کرتے ہوئے بيانات ديئے اور اخبارات سے رابطہ کر کے بتايا کہ وہ زندہ ہيں ۔ اگر ہوائی جہاز ميں ہوتے تو مر چکے ہوتے ۔ 10 دن ميں يہ حقيقت واضح ہو گئی کہ جن لوگوں کو ہوائی جہازوں کے ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا 11 ستمبر 2001ء کے بعد ان ميں سے کم از کم 8 زندہ تھے

نواں آدمی جسے 11 ستمبر 2001ء کا ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا امريکی حکومت نے اس کا پاسپورٹ بطور ثبوت پيش کيا تھا ۔ بتايا گيا تھا کہ يہ پاسپورٹ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے قريب سے ايک راہگير کو ملا تھا ۔ کمال يہ ہے کہ ٹکر مارنے والے جہاز ۔ جہازوں کے اندر بيٹھے لوگ اور ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارت جل کر خاک اور ملبہ کا انبار بن گئے ۔ کسی انسان کا کچھ بھی نہ مل سکہ مگر کئی دن بعد وہاں سے سڑک پر پڑا پاسپورٹ ايک راہگير کو صحيح سلامت مل گيا ۔ کيسے ؟

متذکرہ حقائق کے باوجود امريکا کی تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر مردہ قرار ديئے گئے زندوں کی تصاوير طويل عرصہ تک سجی رہيں ۔ ذرائع ابلاغ نے چُپ سادے رکھی ۔ سچ کے علمبردار يہ عالمی ذرائع ابلاغ جھوٹ مُشتہر کرتے رہے

ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر 11 ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد ابھی ايک ماہ بھی نہ گذرا تھا کہ اينتھراکس والے خطوط امريکی کانگرس کے ارکان اور امريکی صحافيوں کو بھيجے گئے جن پر لکھا تھا “اسرائيل مردہ باد ۔ امريکا مردہ باد ۔ اللہ اکبر”۔ اس پر امريکی سياستدانوں اور صحافيوں نے يہ دعوٰی کيا کہ “دہشتگردوں [مسلمانوں] نے بائيولوجيکل ہتھيار بنانے کی صلاحيت حاصل کر لی ہے اور انہيں استعمال کرنا بھی شروع کر ديا ہے ۔ اس دعوے نے امريکا کے ہر گھر ميں خوف و دہشت کی فضا قائم کر دی ۔ لوگ اس کے بچاؤ کيلئے متعلقہ ويکسين لگوانا شروع ہو گئے اور يہ ويکسين ناپيد ہو گئی

بھيد اُس وقت کھُلا جب بائيولوجيکل ہتھياروں کی ايک معروف ماہر باربرا روزنبرگ [Barbara Rosenberg] نے انکشاف کيا کہ متذکرہ بالا اينتھکراکس پاؤڈر دراصل امريکا کی ملٹری ليبارٹری ميں تيار کيا گيا تھا ۔ يہ حقيقت امريکا کے اس وقت کے صدر جارج واکر بُش کی حکومت کو اوّل روز سے معلوم تھی

امريکی حکومت جو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے سلسلے ميں سعودی پائلٹوں کا جھُوٹ بول چکی تھی حقائق کو چھپاتے ہوئے اُس کے يہ جھانسا دينے کے پيچھے کيا مزموم مقاصد تھے ؟
اور امريکی حکومت کے اُن سعودی باشندوں جو ابھی زندہ تھے کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو گرانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے پيچھے کيا مقاصد پنہاں تھے ؟

اگر امريکی حکومت کا استدلال درست تھا تو اسے ثابت کرنے کيلئے جھوٹ کا سہارا کيوں ليا گيا ؟

يہ سب کچھ اسلئے کيا گيا کہ امريکی حکومت مسلمانوں کی عزت کو کوئی اہميت نہيں ديتی اور مسلمان مُلکوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے کيلئے جھوٹ اور منافقت سے بھرپور کام لے رہی ہے

يہ ايک کتاب “سعودی عرب ميں مذہبی آزادی” سے ايک مختصر اقتباس کا ترجمہ ہے

نيچے ورلڈ ٹريد سينٹر کے ساتھ جو کچھ 11 ستمبر 2001ء کو ہوا اس کی چند تصاوير ہيں جنہيں غور سے ديکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُوپر کے حصہ ميں جہاں جہاز ٹکرائے وہاں سے کالا دھوآں نکل رہا ہے جبکہ کئی منزليں نيچے سفيد دھوئيں کے بادل ايکدم چاروں طرف سے نکلتے ہيں ۔ يہ نچلی منزلوں سے نکلنے والا دھوآں اور آگ جہاز کے ٹکرانے سے پيدا نہيں ہو سکتا بلکہ وہاں عمارت گرانے والے ايکسپلوسِوز پہلے سے نصب کئے گئے تھے جو جہاز ٹکرانے سے قبل ہی بلاسٹ کر ديئے گئے تھے ۔ امريکا کے زلزلہ پيما مرکز نے اس زبردست دھماکے کی خبر ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ہوائی جہاز ٹکرانے سے پہلے دے دی تھی







آيئے کچھ دير کيلئے سنجيدہ ہو جائيں

ميرے ہموطنوں کی اکثريت جن ميں حکمران بھی شامل ہيں سنجيدگی کو اپنے قريب نہيں آنے ديتی ۔ سنجيدہ ہوتے ہيں تو صرف اُس وقت جب اپنا ذاتی فائدہ ہو خواہ وہ ديرپا نہ ہو ۔ البتہ سنجيدہ موضوع پر غير سنجيدہ تبصرہ محبوب مشاغل ميں سے ايک ہے ۔ آيئے آج تھوڑی سی دير کيلئے سہی مگر سنجيدہ ہو کر سوچيں

سوال نمبر 1 ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں ميں خود کُش حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 2 ۔ پاکستان پر ڈرون حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 3 ۔ کراچی ميں آئے دن لاشيں گرتی ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 4 ۔ پاکستان کی پوليس يا رينجر يا فوج کاروائی کرتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟

مندرجہ بالا چاروں سوالات کا جواب ايک ہی ہے کہ نقصان پاکستان کا ہوتا ہے اور ہلاک بھی پاکستانی ہوتے ہيں

يہ کاروائی طالبان يا دہشتگردوں کی ہے يا طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے” کہہ دينے سے
کيا پاکستان کا نقصان پورا ہو جاتا ہے ؟
يا آئيندہ پاکستانی ہلاک ہونا بند ہو جاتے ہيں ؟
ايسا آج تک نہيں ہوا اور نہ ہونے کی توقع ہے

ابھی سنجيدہ ہی رہيئے

اپنے دماغ کو کھُرچئے اور دل کو ٹٹولئے اور بتايئے کہ
ہم کسے بيوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہيں ؟
اور کسے فائدہ پہنچا رہے ہيں ؟

ہم مانيں يا نہ مانيں ہم صرف اور صرف اپنے آپ کو بيوقوف ثابت کر رہے ہيں
اور اپنے اور اپنے مُلک کے دُشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہيں
اُن دُشمنوں کو کاميابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کر رہے ہيں جو ہمارا وجود [پاکستان] کو قائم ہونے سے پہلے ہی اِسے نابُود کرنے پر تُل گئے تھے

کيا ہمارے متعلق يہ درست نہيں ؟ جو ايک فلسفی نے کہا تھا [ميں قوموں کے نام بدل کر لکھ رہا ہوں]

جب فلسطين پر غاصبانہ قبضہ ہوا تو ميں نے کہا ميرا اس سے کيا تعلق ميں تو فلسطينی نہيں ہوں
جب افغانستان پر ناجائز حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ مُلا عمر جانے ۔ اُسے اُس کے کرتُوت کا بدلہ مل رہا ہے
جب عراق پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا صدام حسين تھا ہی بڑا جابر اور ظالم حُکمران ۔ اس کے ساتھ يہی ہونا تھا
جب لبيا پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ قذافی تو آمر ہے ۔ اپنے عوام پر 41 سال سے جمہوريت کی بجائے آمريت نافذ کی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ايسا ہی ہونا چاہيئے
جب ايبٹ آباد پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا اُسامہ بن لادن دنيا کا سب سے بڑا دہشتگرد تھا ۔ اُس کو اس کی سزا ملنا ہی تھی

کيا ہم اس وقت کی انتظار ميں ہيں ؟
پھر ايک دن آيا کہ دُشمن ميرے قريب پہنچ گيا ۔ ميں نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر مجھے بچانے والا کوئی نظر نہ آيا
اس کے بعد ميرا حال بتانے والا بھی کوئی نہ بچا تھا

انقلاب نہيں آئے گا

جب تک لال بتی پہ نہ رُکيں ۔ سبز والے کو رستہ نہ ديں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک اپنے حقوق کا روئيں ۔ دوسرے کا حق نہ پہچانيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک ہے آپا دھاپی ۔ ہر آدمی دوسرے پہ شاکی
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک نظر نہ آئے اپنی آنکھ کا شہتير ۔ دوسرے کا تِنکا ناپيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک بھُول کے قومی مفاد ۔ کھوليں انفرادی محاذ
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک اپنے کو پڑھا لکھا ۔ دوسرے کو جاہل جانيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چرغے کا منہ چڑھائيں ۔ کے ايف سی کو بھاگے جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک کراچی حلوے کی تحقير کريں ۔ والز بھر بھر کھائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چپل کباب بُرا ۔ ميکڈانلڈ پيٹ بھر کے کھائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چھوڑ کر سجّی ۔ بھاگے وِليج اور سب وے کو جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک کھير گنوار لگے ۔ ايوری ڈے کے نعرے لگائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک بيٹا ماں کی نہ سُنے ۔ بيٹی باپ کو جاہل جانے
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک شرم و حياء کو بھُولے ۔ لڑکا لڑکی برملا ناچيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

جب تک چھوڑ ذاتی بکھيڑے ۔ سب پاکستانی نہ ہو جائيں
انقلاب نہيں آئے گا ۔ انقلاب نہيں آئے گا

صدرِ پاکستان کا استقبال

ميں اس سلسلے ميں ايک تحرير بعنوان ” کيا ہم ہميشہ بے عزتے تھے ؟” لکھ چکا ہوں

اب ڈاکٹر وہاج الدين احمد صاحب [جو امريکا کے معروف نيورولوجسٹ رہ چکے ہيں اور آجکل امريکا ہی ميں ريٹائرڈ زندگی گذار رہے ہيں] نے ايک وڈيو فلم کا ربط بھيجا ہے ۔ يہ وڈيو فلم بعد ميں پہلے موجودہ صورتِ حال

صدر آصف علی زرداری حال ہی ميں روس گئے تو وہاں پر ان کا استقبال نائب وزيرِ خارجہ [Deputy Foregn Minister] نے کيا

اب ديکھئے کہ ماضی ميں صدرِ پاکستان کا استقبال کيسے ہوتا تھا ۔ ميں نے اس وڈيو کو اپنے اس بلاگ پر شائع  کرنے کی بہت کوشش کی مگر کاميابی نہ ہو سکی اسلئے اسے صدرِ پاکستان کا استقبال پر کلک کر کے ديکھئے ۔ وڈيو فلم کا دورانيہ 21 منٹ کے قريب ہے اسلئے جب وقت دے سکتے ہوں تو ديکھيئے گا

صدرِ پاکستان کا استقبال

يہ بھی پاکستانی ہيں

آج ايک پاکستانی خاندان کے متعلق کچھ حقائق جو عصرِ حاضر کی مادہ پرست دنيا ميں شايد ايک عجوبہ لگے مگر سوچنے والے کيلئے اس ميں بہت سبق ہے

يہ 1987ء کے دوسرے نصف کی بات ہے ۔ ميں اُن دنوں جنرل منيجر ايم آئی ايس تھا ۔ ايک دن کمپيوٹرائيزڈ اِنوَينٹری منيجمنٹ سسٹمز پروجيکٹ [Computerised Inventory Management Systems Project] نشو و نما اور تنفيذ [Development and implementation] پر گفت و شنيد کرنے ايک فيکٹری کے ايم ڈی صاحب کے پاس گيا ۔ انہوں نے اس پروجيکٹ کے سلسلہ ميں اپنی فيکٹری کی معلومات اکٹھا کرنے کيلئے ايک منيجر کو مقرر کيا ۔ وہ شخص آيا اور يوں اپنا تعارف کرايا

“السلام عليکم سر ۔ ميں عظيم الدين ہوں آپ کے بيٹے زکريا کے دوست انعام الحسن کا باپ”

انعام الحسن اور ميرا بڑا بيٹا زکريا اُن دنوں سر سيّد کالج واہ کينٹ ميں بارہويں جماعت ميں تھے ۔ اس ملاقات کے بعد عظيم الدين صاحب سے چند ايک بار سرکاری کام ہی کے سلسلہ ميں سرسری سی ملاقاتيں ہوئيں ۔ ميں اوائل 1988ء ميں دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا کہ باہر کی گھنٹی بجی ۔ زکريا جو اُسی وقت کالج سے گھر پہنچا تھا ديکھنے گيا ۔ واپس آيا تو کچھ پريشان لگا

ميں نے پوچھا “کون تھا؟”

بولا “انعام تھا ۔ اُس کے والد کو ہارٹ اٹيک ہوا ہے اور راولپنڈی لے گئے ہيں ۔ وہ راولپنڈی جا رہا ہے ۔ کہنے آيا تھا کل کالج نہيں آ سکے گا”

ميں نے پوچھا “کيسے جائے گا ؟”

زکريا کہنے لگا “بس پر”

ميں نے زکريا کو بھگايا اور پيچھے اپنی کار لے کے پہنچا ۔ انعام الحسن کو آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف کارڈيالوجی راولپنڈی لے گيا ۔ انعام الحسن ہی اُن کا سب سے بڑا بچہ تھا ۔ اس کے بعد 3 بيٹياں اور  ايک بيٹا

عظيم الدين صاحب بہار [بھارت] سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔ پاکستان ميں ايک اور مہاجر خاندان ہی ميں شادی کی تھی ۔ اُن کا پاکستان ميں سوائے سسرال کے اور کوئی رشتہ دار نہ تھا ۔ نہ اپنا کوئی گھر تھا نہ زمين ۔ تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذريعہ معاش نہ تھا ۔ وہ ايک نہائت شريف ۔ سفيد پوش اور باعمل مسلمان شخص تھے اور دين کی ترويج و تبليغ کيلئے بھی وقت نکالتے تھے

بيماری کے چند روز بعد عظيم الدين صاحب انتقال کر گئے ۔ انگريز ايک ظالم قانون بنا گئے تھے جسے آج تک ہمارے حکمرانوں نے قائم رکھا ہوا ہے کہ دوران ملازمت وفات پر گريجوئٹی نہيں ملتی ۔ اس کی بجائے صرف 4 ماہ کی تنخواہ ملتی ہے ۔ اُن کی ملازمت کا دورانيہ بھی 30 سال سے بہت کم ہونے کے باعث پنشن بھی بہت کم بنتی تھی ۔ کمانے والے کی وفات کے بعد 6 افراد کی روٹی اور 5 بچوں کی تعليم اور معمولی پنشن ۔ اس خاندان کيلئے مشکلات کا گويا پہاڑ آ سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ ميں ان خيالات ميں گُم اُن کے گھر پہنچا اور انعام کو گلے لگا کر دلاسہ دينے لگا تو انعام کے يہ الفاظ ميرے کانوں ميں پہنچے

“دعا کيجئے اَنکل ۔ اُن کيلئے دعا کيجئے”

نہ وہ چِلايا ۔ نہ اُس نے آنسو بہائے ۔ ميرے جسم کا ہر عضوء برملا کہہ اُٹھا “يہ ہيں اللہ کے بندے”۔ يہ تھا پہلا دن جب ہمارا عظيم الدين صاحب مرحوم کے خاندان سے تعلق پيدا ہوا

مگر بات يہيں ختم نہيں ہو جاتی ۔ اصل مشکلات تو ابھی شروع ہونے والی تھيں ۔ انعام الحسن کا بارہويں کا نتيجہ آيا ۔ راولپنڈی بورڈ ميں اُس کی چھٹی پوزيشن تھی ۔ اُسے راولپنڈی ميں فوج کے انجنيئرنگ کالج داخل کرايا گيا تاکہ وہ 4 سال ميں انجنيئر بن جائے ۔ باقی يونيورسٹيوں ميں ہڑتالوں کے باعث پانچ چھ سال لگتے تھے

ساری روئيداد لکھوں تو کتاب بن جائے گی ۔ انعام الحسن اور اس کی بہنوں نے کيا کيا پاپڑ بيلے اور کس طرح اپنی خوراک اور تعليم کے اخراجات پورے کئے يہ وہی جانتے ہيں يا اللہ جانتا ہے ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کے احکام پر عمل کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ اللہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا ہے اور ايسے وسيلے پيدا کر ديتا ہے جو مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ کچھ نيک دل افسران نے پوری کوشش کے بعد اس خاندان کو مکان کيلئے ايک چھوٹا سا پلاٹ سرکاری قيمت پر دلا ديا ۔ ايک ٹھيکيدار نے کہا کہ وہ بغير منافع کے صرف لاگت کی بنياد پر انکا مکان تعمير کروا  دے گا اور اُس نے ايسا کر دکھايا

کسی طرح 2 کمرے بغير پلستر اور اندرونی دروازوں کے بغير تيار ہو گئے اور وہ لوگ اس ميں رہنے لگے ۔ چھوٹے دو بہن بھائی کی تعليم ابھی باقی تھی کہ اُن کے پاس پيسے ختم ہو چکے تھے ۔ اللہ نے پھر مدد فرمائی اور اُنہيں قرضِ حسنہ مل گيا ۔ ملازمت حاصل کرنے کے بعد انعام الحسن نے پہلا کام يہ کيا کہ جہاں سے قرضِ حسنہ ليا تھا وہ واپس کيا

جس خاندان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل نظر آتا تھا اُس کے پانچوں بچوں نے ماشاء اللہ اعلٰی تعليم نہائت خاموشی سے حاصل کی ۔ کبھی ہم نے بيگم عظيم الدين يا اُن کے بچوں کے منہ سے بيچارگی کا لفظ نہ سُنا ۔ جب پوچھا جواب ملا ” اللہ کا کرم ہے”۔ انعام  الحسن نے ملازمت کے دوران ہی ايم ايس سی انجنئرنگ پاس کی ۔ دو بہنيں ڈاکٹر بنيں جن ميں سے ايک نے ايف سی پی ايس کيا۔ تيسری بہن نے ايم ايس سی پاس کی ۔ چھوٹے بھائی نے ايم بی اے پاس کيا ۔ يہ خاندان اب ايک گھر کا مالک بھی ہے جو کہ مکمل کيا جا چکا ہے اور سب بہن بھائيوں کی شادياں ہو چکی ہيں

عظيم الدين صاحب کے خاندان کے سب لوگ عملی طور پر پکے مسلمان ہيں ۔ انعام الحسن کی والدہ ۔ بہنيں اور دونوں بھائيوں کی بيوياں سب پردہ کرتی ہيں ۔ پچھلے 20 سال سے ہمارے ساتھ سب اپنے گھر والوں کی طرح ہيں ۔ اس کے باوجود انعام الحسن کی والدہ  سميت سب خواتين ہم سے پردہ کرتی ہيں

کيا پردہ تعليم يا ترقی کی راہ ميں رکاوٹ ہے  ؟

عظيم الدين صاحب کے متعلق ايک بات ميں نے جان بوجھ کر آخر ميں رکھی ۔ ميرے خالو جو پاکستان آرڈننس فيکٹريز سے بطور منيجر ريٹائر  ہوئے اور واہ چھاؤنی ہی ميں رہتے تھے نے رائے وِنڈ ميں تبليغی جماعت کے سالانہ اجتماع ميں شرکت کی ۔ جب وہ واپس تشريف لائے تو ميں ملنے گيا اور اس نئے تجربہ کا پوچھا ۔ اُنہوں نے پروگرام کے متعلق سرسری تفصيل بتانے کے بعد کہا کہ وہاں پہچنے والے لوگ ايک دوسرے کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ليکن دو آدميوں کيلئے تو ميرے دل ميں بے پناہ احترام و عزت پيدا ہو گئی ہے جن ميں سے ايک عظيم شخص واہ کے ہيں ۔ منيجر آرٹلری ايميونيشن عظيم الدين ۔ کہنے لگے “ميں نے ديکھا کہ سارا وقت يہ دونوں حضرات لوگوں کو کھانا کھلانے ميں لگے رہتے اور جب سب کھانا کھا چکتے تو جو پليٹيں واپس آ رہی تھيں ان ميں بچا ہوا کھانا وہ کھاتے جاتے اور پليٹيں صاف کر کے رکھتے جاتے ۔ ميں نے عظيم الدين صاحب سے بات کی تو کہنے لگے کہ حلال رزق کا ايک دانہ بھی جو ضائع ہو گا اس کی ہم سے باز پُرس کی جائے گی”