دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے سنّت سے انکار کا فتنہ اُٹھایا ۔ سبب یہ تھا کہ سنّت خوارج کے انتہاء پسندانہ نظریات کے پرچار کی راہ میں ایک مضبوط فصیل کی طرح حائل تھی جبکہ معتزلہ کم علمی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے عجمی اور یونانی فلسفوں سے متاثر ہو کر دین اسلام کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔ یہ دونوں فتنے کچھ مدت بعد اپنی موت آپ مر گئے جس کی بڑی وجوہ محدثین کا زبردست تحقیقی کام ۔ اہلِ عِلم کی طرف سے قرآن کی تصریحات اور اُمت کا اجتماعی ضمیر تھیں ۔ تیسری صدی ہجری کے بعد پھر صدیوں تک یہ فتنہ سر نہ اُٹھا سکا ۔
دوسری بار اس فتنے نے تیرہویں صدی ہجری [اُنیسویں صدی عیسوی] میں عراق میں سر اُٹھایا اور پھر ہندوستان میں اس کی بنیاد سر سیّد احمد خان [1817 تا 1898] نے ڈالی ۔ اُن کے بعد مولوی چراغ علی ۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی ۔ مولوی احمد دین امرتسری اور مولوی اسلم جیراج پوری یکے بعد دیگرے اس کے علمبردار بنے ۔ آخرکار اس کی ریاست چوہدری غلام احمد پرویز [1903 تا 1986] کے ہاتھ آئی جس نے اسے ضلالت کی انتہاء تک پہنچا دیا ۔ فی زمانہ اس کام کا بیڑہ جاوید احمد غامدی نے اُٹھایا ہوا ہے ۔ یہ صاحبان بھی معتزلہ کی طر ح یورپی اور امریکی فلسفہ سے متاثر لگتے ہیں ۔
دین میں ان حضرات نے کتنا غلو کیا ۔ اس کے متعلق علماء دین مفصل لکھ چکے ہیں ۔ دین اسلام کے علماء کی جو چند کتابیں میں نے ان صاحبان کے خیالات کے متعلق دیکھی ہیں ان میں زیادہ زور سنّت کی حیثیت پر دیا گیا ہے ۔ مودودی صاحب کی سنّت کی آئینی حثیت میں غلام احمد پرویز کے ایک پیروکار کے خطوط اور ان کے جامع جوابات رقم کئے ہیں اور اس سلسلہ میں تمام اعتراضات اور واقعات کا مختصر مگر جامع تجزیہ بھی کیا ہے ۔
میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ مجھے ان منکرینِ حدیث میں سے سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کی تحاریر پڑھنے کا موقع ملا ۔ ان صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازع بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے قرآن شریف بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟
حدیث کو متنازعہ بنانے کے علاوہ مجھے زمانۂ جدید کے ان مفکرین کی تحاریر میں دو باتیں نمایاں نظر آئیں ۔ ایک عورتوں کے پردہ کا نظریہ اور دوسرا جہاد کا جنہیں مغربیت کا لباس پہنانے کیلئے ان صاحبان نے قرآن شریف کی متعلقہ کچھ آیات کو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیّبہ کیلئے مخصوص کر دیا اور کچھ کا شانِ نزول اور سیاق و سباق سے قطع نظر جدید دور کے مطالبات کے مطابق اپنی مرضی کا ترجمہ کر لیا ۔ گویا پچھلی 14 صدیوں میں پیدا ہونے والے سینکڑوں اہلِ عِلم سے یہ صاحبان زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔ غور کیا جائے تو ان صاحبان کا مقصد مغربیت زدہ لوگوں کو جواز کج روی مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔
سنّت کے اتباع کی سند
سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔
ورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے ۔
سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے
سنّت کیا ہے ؟
سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔
حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے ۔
سنّت کی تین اقسام ہیں ۔ قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا ۔ عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا ۔
کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں ۔
حدیث کی تاریخ
آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔
حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھئیے ۔ دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک ۔
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں
ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]
دراصل سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے ۔