کب آئے گی واپس حميّت ہماری ؟ ؟ ؟

جب عوام تحريک چلا کر اپنے لئے وطن کے نام پر زمين کا کوئی ٹکڑا حاصل کرنے کيلئے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے ہيں ۔ يقينی طور پر اور ميں بطور نو دس سال کے بچے کے اس کا شاہد ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی1946ء اور 1947ء ميں ايسا ہی کيا تھا ۔ دراصل وہ 1857ء سے وقفے وقفے سے اپنے خون کے نذرانے پيش کرتے آئے تھے ۔ لاکھوں بوڑھے ۔ جوان ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عزتوں کی قربانی کے نتيجہ ميں اللہ نے يہ وطن ہميں بخشا تھا کيونکہ ہم نے اس کا مطلب ” لا اِلَہَ اِلاللہ ” کہا تھا

جب وطن حاصل ہو جاتا ہے تو قوميں دن رات کی جاں فشانی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف رواں دواں ہوتی ہيں ۔ بلاشُبہ وطنِ عزيز کے پہلے چند سال ايسا ہی ہوا ۔ پھر انگريزوں کے ذہنی غلام اس نوزائدہ وطن پر حاوی ہو گئے اور اپنے ہی بھائيوں کا گوشت نوچنے لگے بلکہ اپنے وطن کے بھی بخيئے ادھڑنے لگے ۔ ہموطنوں کی کوتاہ انديشی اور آپا دھاپی کے نتيجہ ميں1971ء ميں مُلک کا ايک بڑا حصہ جاتا رہا اور اب اُس کا حال کچھ اس طرح بنا ديا ہے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ۔ ۔ ۔ ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا ۔ ۔ ۔ کنجشک فرومایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیاری و غدّاری و ہیجان ۔ ۔ ۔ اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو ۔ ۔ ۔ اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن ۔ ۔ ۔ مکاری و روباہی پہ اِتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔ ۔ ۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے ۔ ۔ ۔ ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور ۔ ۔ ۔ شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا ، گفتار کا ، اعمال کا مومن ۔ ۔ ۔ قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن ۔ ۔ ۔ ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تِنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر ۔ ۔ ۔ اب مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں ۔ ۔ ۔ اب ذوقِ یقیں سے کہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر ۔ ۔ ۔ شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔ ۔ ۔ تقدیرِ امم سو گئی ، طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے ۔ ۔ ۔ جمہور سے سلطانیءِ جمھور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا ۔ ۔ ۔ مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے ۔ ۔ ۔ اس بندہءِ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو ۔ ۔ ۔ اک بار میں ہم چُھٹے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

يومِ آزادی مبارک ۔ آيئے دعا کريں

my-id-pak
آج ہمارے ملک کی عمر 64 شمسی سال ہو گئی ہے اور قمری مہينوں کےحساب سے 65 سال سے 2 ہفتے کم ہے ۔ اس موقع پر ميں 3 تحارير شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اللہ نے توفيق دی تو آج اور کل شائع ہو جائيں گی

تمام پاکستانی بزرگوں بہنوں بھائيوں بچوں اور بچيوں کو يومِ آزادی مبارک

قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے [صوبے] بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی [ہندو] نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی 100فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اُڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے ۔ مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ” پاکستان

آيئے سب ميری اس دعا ميں شامل ہو جايئے

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے ۔ ۔ ۔ مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
ہو سکی تیرے رُخ پہ نہ قرباں اگر ۔ ۔ ۔ اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا ۔ ۔ ۔ تیرے گُل رنگ چہرے کی تابندگی
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑے ۔ ۔ ۔ اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
سبز پرچم تیرا چاند تارے تیرے ۔ ۔ ۔ تیری بزمِ نگاری کے عنوان ہیں
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
تیری گلیاں، تیرے شہر، تیرے چمن ۔ ۔ ۔ تیرے ہونٹوں کی جنبش پہ قربان ہیں
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
جب بھی تیری نظر کا اشارہ ملا ۔ ۔ ۔ تحفَہِ نفسِ جاں پیش کر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے

ہوشيار ۔ خبردار ۔ اور مدد درکار ہے

فدوی افتخار اجمل بھوپال ہر اُس آدمی سے معذرت خواہ ہے جسے لايعنی يا مخرب الاخلاق برقی چِٹھی [E-mail] فدوی کے نام سے ملی ہے ۔ ہر چند کہ يہ چِٹھياں فدوی کی رضا و رغبت يا رضامندی کے بغير ہر اُس شخص کو گئی ہيں جس کا پتہ ميرے ياہو کے حساب [Yahoo account] ميں موجود ہے ۔ فدوی کا اگر قصور ہے تو اتنا کہ فدوی اپنا وقت بہتر طريقہ سے استعمال کرنے کيلئے ايک کمپيوٹر استعمال کرتا ہے مگر يہ ناہنجار چِٹھياں چونکہ ميرے نام سے جا کر مکتوب عليہان کی دلآزاری کا باعث بنی ہوں گی اسلئے معذرت لازم سمجھی گئی

شيطان کا کام تو شيطانی کرنا ہی ہے مگر ايسا ميرے نام سے کيوں ہوا ؟

کمپيوٹر اور انٹرنيٹ استعمال کرنے والے کچھ معصوم لوگ شيطان کی موجودگی سے بے خبر اپنے تجسس کی تسکين کی خاطر اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے رہتے ہيں جس کے نتيجہ ميں شيطان اُن کے کمپيوٹر ميں آ بيٹھتا ہے اور شرارتيں شروع کر ديتا ہے ۔ مجھ سے غلطی يہ ہوئی کہ ايک مانوس بلکہ قريبی نام سے چِٹھی آئی ۔ بظاہر اُس ميں کچھ نہيں تھا اور جواب طلب تھی ۔ اسلئے ميں نے جواب لکھ بھيجا ۔ گويا اپنے پاؤں پر کُلہاڑا مار ليا ۔ اگلے روز لايعنی چِٹھياں ميرے نام سے چلی گئيں ۔ تحقيق کے بعد معلوم ہوا کہ ميرا ياہو کا حساب چوری [hack] ہو گيا ہے

ميں نے ياہو کے حساب کا شناختی لفظ [Password] بدل ديا ہے مگر چوروں نے سائنس ميں ہم سے زيادہ ترقی کر لی ہے اسلئے مستقبل کے ہر لمحے سے ڈر لگتا ہے

اتنی لمبی روئيداد يا تمہيد پيش کرنے کے بعد درخواست ہے اہلِ عِلمِ کمپيوٹر و انٹرنيٹ سے کہ مجھ” دو جماعت پاس ناتجربہ کار شہر ميں نووارد ديہاتی” کی رہنمائی فرمائيں ۔ اور کوئی مُجرّب مگر سہل طريقہ شيطانوں کی ايسی شرارتوں سے محفوظ رہنے کا بتا کر ميری دعاؤں کے حقدار بنيں ۔ بڑے شيطانوں سے تو ہم اللہ کی پناہ مانگ ليتے ہيں مگر چھوٹے شيطان کسی طرح چين سے نہيں رہنے ديتے

موت کے بيوپاری

پانی ميں آرسینک اور سوڈیم [Arsenic and Sodium] کی زیادتی کے باعث دل ۔ گردوں ۔ بلڈ پریشر ۔ اور جلد وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ۔ لاہور ۔ پشاور ۔ کوئٹہ ۔ راولپنڈی ۔ فیصل آباد ۔ سیالکوٹ ۔ ساہیوال ۔ ڈیرہ غازی خان ۔ بدین ۔ ٹنڈوجام اور ڈیرہ اسماعیل خان سے منرل واٹر کمپنیوں کے 77 نمونے حاصل کرکے ان کا لیبارٹری میں پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے معیار کے مطابق تجزیہ کیا گيا اور مندرجہ ذيل 12 کمپنيوں کا پانی کیمیائی طور پر مضر صحت پایاگیا ہے ۔ اِن اجزاء کی زيادہ سے زيادہ مقدار يہ ہے ۔ آرسينک [Arsenic]10 پی پی بی ۔ سوڈيم [Sodium] 50 پی پی بی اور فلورائيڈ [Fluoride
]0.7 پی پی ايم

نادق واٹر[Nadiq Water] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54 پی پی بی آرسينِک
پین پیور[Pan Pure] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 پی پی بی آرسينِک
آقوا ون[Aqua-One] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 پی پی بی آرسينِک
نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 پی پی بی آرسينِک
ہمالیہ[Hamaliya] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 پی پی بی آرسينِک
اکوا نیشنل[Aqua National] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 پی پی بی آرسينِک
پِنيو[Pineo] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 پی پی بی آرسينِک

نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 پی پی بی سوڈيم
میکس فریش[Max Fresh] ۔ ۔ ۔ 59 پی پی بی سوڈيم
مرجان[Marjan] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 53 پی پی بی سوڈيم
وینا[Vina] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 58 پی پی بی سوڈيم
اصل پیو نا[Asal Pio Na]۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120 پی پی بی سوڈيم

ایکٹو [Active] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.39 پی پی ايم فلورائيڈ

بشکريہ ۔ جنگ

روزہ يا فاقہ ؟

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا اور پياسا رہنے کا نام نہیں ہے
روزہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے

روزہ صرف پيٹ کا نہيں ہے ۔ نہ روزہ دوپہر کا کھانا چھوڑ کر سحری اور افطاری کے اوقات دوگنا کھانے کا نام ہے
روزہ زبان ۔ کان ۔ آنکھ ۔ ہاتھ۔ پاؤں ۔ غرضيکہ جسم کے ہر عضوء کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے بتائے ہوئے طريقہ پر عمل کا پابند کرنے کا نام ہے

کچھ لوگ اپنے روزے کو اپنی کم عِلمی کے سبب ضائع کر ديتے ہيں
ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے ۔ ان سے پوچھا گيا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟”
جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”
آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں ۔ گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر روزے کا وقت آسانی سے گذار لیتے ہیں

روزے کو فاقہ ميں تبديل کرنے کے عمل جن پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی
نماز نہ پڑھنا يا کچھ نمازيں چھوڑ دينا
جھوٹ بولنا
کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا
غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا
کسی لڑکی یا عورت کی طرف بُری نيت سے دیکھنا
لڑنا ۔ جھگڑنا ۔ کسی کے ساتھ بدتميزی يا زيادتی کرنا

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات 1 تا 11
بے شک ایمان والے رستگار ہوگئے ‏
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ‏
اور جو بےہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں ‏
اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ‏
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‏
مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ‏
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں ‏
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں ‏
اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ‏
یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں ‏
جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

اللہ ہميں روزے کی اہميت کو سمجھنے اور اسے صرف اللہ کی خوشنودی کيلئے رکھنے کی توفيق عطا فرمائے

يا حَیُّ یآ قیّوُم بِرَحْمَتِکَ آسْتَغِيث

ميں بہت احسانمند اور شکر گذار ہوں اُن قارئين کا جنہوں نے ميری بيگم کی جلد شفاء کيلئے دعا کی ہے ۔ اللہ کريم جزائے خير دے اور سب کو صحتمند ۔ خوش اور خوشحال رکھے ۔ آمين

کل يعنی رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو شام 6 بجے ميری بيگم کی طبيت پھر اچانک خراب ہوئی ۔ خون کا دباؤ تيزی کے ساتھ بہت زيادہ اور کم ہونے لگا ۔ دل کی دھڑکن کبھی بہت تيز ہو جاتی اور کبھی دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ۔ سانس لينے ميں دقت ہونے لگی

اُسی وقت ہسپتال بھاگنے کے سوا چارہ نہ تھا ۔ ميں اور بيٹی نے کسی طرح سنبھال کر اُسے پورچ ميں کھڑی کار ميں لٹايا اور 10 منٹوں ميں ہسپتال پہنچے جہاں اُسے سيدھا سخت نگہداشت کے کمرے ميں ليجايا گيا ۔ نرس نے فوراً آکسيجن لگا کر مانيٹر بھی لگا ديا ۔ ميڈيکل کالج کے ايک پروفيسر ماہر امراضِ قلب سے رابطہ کيا اور ھدايات ليتی رہی ۔ دوا دارو بشمول ايک ٹيکہ کے کيا گيا ۔ سوا 9 بجے رات طبيعت سنبھلی تو واپس گھر آئے

21 جون سے اب تک يعنی 44 دنوں ميں يہ صورتِ حال پانچويں بار ہوئی ہے ۔ صرف اس بار نبض 50 سے نيچے نہيں گئی تھی ورنہ پہلے 30 تک چلی جاتی تھی ۔ ميں پورے خاندان بلکہ برادری اور دوستوں ميں بہت حوصلہ مند ۔ بُردبار اور باتدبير مشہور ہوں مگر ايسی صورتِ حال ميں ميری بردباری ۔ تحمّل اور عقل بيکار نظر آنے لگتے ہيں کيونکہ ميں صورتِ حال ميں کوئی بہتری پيدا کرنے سے معذور ہوتا ہوں

ہمدرد قارئين سے استدعا ہے کہ اللہ تعالٰی کے حضور ميں دعا کرتے رہيں کہ اللہ ہماری غلطياں معاف فرمائے اور سب مريضوں کو شفاء مرحمت فرمائے

ميرا خيال تھا کہ بيگم اس سال رمضان ميں اپنے پر زيادہ بوجھ نہ ڈالے مگر عادت بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔ محلے کی چند خواتين کی فرمائش پر ہميشہ کی طرح عشاء کے وقت نماز تراويح کے ساتھ تفسير قرآن شريف شروع کر دی جس کا دورانيہ 2 گھنٹے سے کچھ اُوپر ہوتا ہے جو گذشتہ رات نہ ہو سکا ۔ دن ميں اپنے طور پر بھی تلاوت اور ملازمہ نئی رکھی ہے اُسے ھدايات بلکہ سر کھپانا ۔ ہمارے ہاں دی نيوز اور ڈان اخبار آتے ہيں جنہيں پڑھنا بھی لازمی سمجھتی ہے ۔ روزے نہيں رکھ رہی مگر نمازِ تہجد نہيں چھوڑتی ۔ اور پھر ميری فکر کہ سحری کو کھانا درست اور وقت پر مل جائے ۔ اللہ کی بندی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو کہتی ہے “ميں کيا کرتی ہوں ؟ آپ زيادہ تھکتے ہيں اپنی صحت کا خيال نہيں رکھتے”۔ اس پر الفاظ ميرے حلق ميں پھنس کے رہ جاتے ہيں

ناقابلِ فراموش اور دعا کی درخواست

وہ 4 اگست کو مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئی ۔ اُس کے والد صاحب کے آباؤ اجداد جس علاقہ میں رہتے تھے وہ 6 سال قبل پاکستان بن چکا تھا ۔ اُن کے دل میں پاکستان کی محبت نے زور کيا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر 1953ء ميں پاکستان آ گئے
وہ پاکستان کی کوئی زبان نہ بول سکتی تھی اور نہ سمجھ سکتی تھی
اُردو پڑھ لکھ نہ سکنے کی وجہ سے اسے چوتھی جماعت میں داخل کیا گیا
اس نے محنت کی اور چند ماہ میں تھوڑی بہت اردو بولنے لکھنے لگی ۔ وہ سب امتحانات ميں کامياب ہوتی چلی گئی اور 1964ء ميں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کی سند حاصل کر لی ۔ مگر اُردو بولتے ہوئے وہ ٹ ۔ چ ۔ ڈ ۔ ڑ ۔ چھ صحیح طرح نہیں بول سکتی تھی
وہ کم گو ۔ شرميلی اور صورت و سيرت کے حُسن سے آراستہ ہے

21 جون 2011ء کو شام 7 بجے اچانک اس کا خون کا دباؤ 186 ۔ 76 اور نبض 37 ہو گئی ۔ دل کی دھڑکن بہت تيز ہو گئی ۔ ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے اور ٹھنڈے پسينے آنے لگے ۔ ايمرجنسی میں ايک رات ہسپتال گذاری ۔ طبيعت سنبھلنے پر واپس آ گئی ۔ چند دن بعد پھر ہسپتال کے سخت نگہداشت کے کمرے ميں 2 دن رہنا پڑا جہاں ہر قسم کے ٹيسٹ کئے گئے ۔ علاج شروع ہے مگر ابھی تک حال تسلی بخش نہيں ہے ۔ علاج کی خاطر زندگی ميں پہلی بار اُسے روزے چھوڑنا پڑ رہے ہيں جس کا اُسے بہت دُکھ ہے

نيک دل خواتين و حضرات سے التماس ہے کہ اُس کی جلد مکمل شفا يابی کيلئے دعا کريں

46 سال قبل 14 اگست کو اُس کی منگنی ميرے ساتھ کر دی گئی اور ہمارا ملنا ممنوع قرار دے ديا گيا ۔ گو پہلے بھی ہم کوئی خاص ملتے نہ تھے مگر يہ پابندی مجھے محسوس ہوئی
ميں لڑکيوں کے ساتھ روکھا پيش آيا کرتا تھا اور گفتگو ميں بھی روکھا پن ہوتا تھا مگر منگنی کے بعد غير محسوس طور پر ميری عادت بدلنے لگی
10 نومبر 1967ء کو ہماری شادی ہوئی ۔ وہ میرے گھر آئی تو اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ میرے دل میں اس کے لئے قدر اور محبت جاگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ محبت و اُلفت کا يہ انداز نہ افسانوں ميں ملتا ہے نہ ناولوں ميں ۔ ايک راحت بخش مٹھاس ۔ ايک اطمينان بخش احساس ۔ ہمدردی جو الفاظ ميں بيان نہ کی جاسکے
اُس نے سُرخی پاؤڈر کا استعمال [make-up] ہميشہ غير ضروری سمجھا
اس کے ہاتھ سے پکے کھانے پاکستانی ہی نہیں چین ۔ مصر ۔ اٹلی اور ترکی کےبھی بہت اچھے اور مزے دار ہوتے ہيں۔ گلاب جامن ۔ رس ملائی ۔ سموسے اور کچھ عربی ميٹھے بھی بہت عمدہ بناتی ہے
کبھی کسی سے ناراض نہيں ہوتی ۔ دوسرا زيادتی کرے تو اس کا اثر بھی” رات گئی بات گئی” کے مصداق ہوتا ہے
پتہ چلے کہ عزيز و اقارب ميں کوئی آپس ميں ناراض ہيں تو صُلح کرا ديتی ہے ۔ اس کام کی ماہر سمجھی جاتی ہے
اپنے ملازمين اور دوسرے مساکين سے اُس کا برتاؤ نہائت مُشفقانہ رہا ہے
کوئی مزدور ۔ پلمبر ۔ اليکٹريشن يا مالی جو بھی گھر پر کام کرنے آئے ۔ اُجرت کے ساتھ اُسے شربت يا چائے بسکٹ يا کيک کے ساتھ۔ کھانے کا وقت ہو تو کھانا دينا اپنا فرض سمجھتی ہے ۔ پچھلے جمعہ ميں نے پلمبر کو کام کيلئے بُلايا تھا ۔ پہلے اُسے جامِ شيريں کا گلاس ديا ۔ پھر چائے کے ساتھ کچھ نہ تھا تو دودھ سويّاں اُسی وقت بنا کر ديں ۔ دوپہر کو کھانا اور جاتے وقت چائے پلا کر بھيجا

15 سال قبل اُس نے 12 ماہ پر محيط قرآن و سُنت کا زِيرک کورس کيا اور بچيوں اور خواتين کو قرآن شريف ناظرہ اور ترجمہ و تفسير کی تعليم شروع کی ۔ محلہ ميں لوگوں کی ذاتی ملازمائيں ۔ اُن کی بيٹياں اور اعلٰی تعليم يافتہ اور اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں کی بيوياں اور بيٹياں بھی قرآن شريف و ترجمہ پڑھنے آتی رہی ہيں
وہ میری ہر خوشی میں شامل رہی اور میرے غم میں میری ڈھارس بندھائی
ہمیشہ اس نے میرے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا ۔ جب ہم کراچی ميں رہائش پذير تھے تو 10 جنوری 2005ء کو ميرے شياٹيکا کے شديد درد ميں مبتلا ہونے کے دوران 3 ماہ اور پھر 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ ميں ميرے زخمی ہونے سے لے کر ہپيٹائٹس سی ميں مبتلا ہونے اور بحالی صحت تک 8 ماہ ميری خوراک ۔ علاج ۔ آرام اور خوشی کا جس طرح خيال رکھا شايد ہی کوئی بيوی اپنے خاوند کا اس طور خيال رکھ سکتی ہو گی
وہ مجھ سے 2 دن کم 5 سال چھوٹی ہے
اُس کا نام والدين نے نوال رکھا جس کا مطلب ہے تحفہ ۔ عطيہ ۔ ھديہ ۔ اُس نے ميرے لئے اپنے نام کو سچ ثابت کيا ہے
[اُوپر والی تصوير شادی کے چند دن بعد کی ہے اور نيچے والی 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے 20 دن بعد ميری پٹی کھُلنے کے بعد کی ۔ ساتھ ميرا بڑا بيٹا زکريا بيٹھا ہے]