روزے کا تقاضہ قسط 3 ۔ برتاؤ يا طرزِ عمل

سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا ‏

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيات ۔ 26 تا 29 ۔ اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کر لو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 53 ۔ اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ‏

سورت ۔ 24 ۔ النّور ۔ آيت ۔ 30 و 31 ۔ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش ( کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (چھنکار کی آواز کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور (مومنو!) سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 6 ۔ پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجرین سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب (یعنی قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 38 ۔ اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 40 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کر دے تو اسکا بدلہ خدا کے ذمے ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

سورت ۔ 46 ۔ الاحقاف ۔ آيت ۔ 15 ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں انکا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (و تقوٰی) دے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں

سورت ۔ 60 ۔ ممتحنہ ۔ آيت ۔ 8 ۔ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ‏

روزے کا تقاضہ قسط 2 ۔ رويّہ

ميں نے اس سلسلہ ميں پچھلی تحرير 17 اگست کو لکھی تھی ۔ آج کی تحرير شائع کرنے ميں 2 دن کی تاخير بحالتِ مجبوری ہو گئی ہے . پچھلے 2 دن يعنی ہفتہ اور اتوار بھی سختی کے رہے ۔ بيگم کی طبيعت بہت خراب رہی ۔ اتوار کو اسعاف [Ambulence] بُلا کر ہسپتال ليجانا پڑا ۔ اللہ ہماری خطائيں معاف کرے اور ہميں ہر امتحان ميں پورا اُترنے کی توفيق عطا فرمائے

اعتدال

اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے[سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 143]

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے [سورت ۔25 ۔ الفرقان ۔ آيت 67]

غرور

تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر گھمنڈ میں آجاؤ اور گھمنڈ اور شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا [سورت ۔ 57 ۔ حديد ۔ آيت 23]

اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبّر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 36]

اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں [سورت ۔ 93 ۔ ضحٰی ۔ آيت 10]

مذاق اُڑانا

مومنو ۔ کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد بُرا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں [سورت ۔ 49 ۔ الحُجرات ۔ آيت 11]

عيب جوئی

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو [سورت 104 ۔ الھُمَزہ ۔ آيت 1]

خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 148]

اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم کسی کی غیبت کرو ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت ۔ 49 ۔ حُجرات ۔ آيت 12]

مزاج

اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں [سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آيت 37]‏

اللہ ہميں قرآن شريف کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے تاکہ ہم مسلمان بن سکيں آمين يا رب العالمين

پريشانی ۔ پھر گھر ميں رونق

ميری بيگم کی طبيعت چند دن کچھ سنبھی تو روبصحت ہونے کی اُميد بندھی تھی ۔ بُدھ بتاريخ 17 اگست 2011ء طبعيت پھر زيادہ خراب ہونا شروع ہوئی اور جمعرات کی صبح بہت زيادہ خراب ہو گئی ۔ ساڑھے 9 بجے بمُشکل کار ميں ڈالا اور ہسپتال کی طرف بھاگا جہاں 10 بجے آئی سی يو ميں داخل کر کے ہارٹ اور بلڈ پريشر مَونيٹر اور آکسيجن لگا دی گئی ۔ بيٹی کو ٹيليفون پر اطلاع دی ۔ وہ دفتر سے چھٹی کر کے پہنچ گئی

ہسپتال ميں مختلف دوائياں ڈرِپ کے ذريعہ دی جانے لگيں مُختلف ٹيسٹ کئے گئے ۔ 4 بجے بعد دوپہر ڈاکٹر سے اجازت لے کر واپس گھر لوٹے ۔ 8 ہفتوں ميں يہ چھٹی بار تھی جن ميں سے ايک بار 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہی تھيں ۔ آئی سی يو ميں 1500 روپے فی گھنٹہ کے ساتھ ڈاکٹر کے ہر پھيرے کا 1000 روپيہ ۔ دوائيوں اور ٹيسٹوں کا خرچ الگ ہونے کی وجہ سے جب طبيعت کچھ سنبھل جائے تو ڈاکٹر گھر جانے کی اجازت دے ديتے ہيں

اس بار خيال کيا گيا کہ شايد دوائيوں کا ردِ عمل ہوا ہے جو 6 اگست کو پرانی بند کر کے نئی دی گئی تھيں چنانچہ وہ دوائياں بند کر کے کچھ نئی تجويز کی گئی ہيں ۔ ہميں پرائيويٹ ہسپتال ميں اسلئے جانا پڑ رہا ہے کہ سرکاری ہسپتال ميں اتنے زيادہ مريض ہوتے ہيں کہ علاج ميں تاخير کے سبب مريض کی حالت قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اللہ سب پر اپنا کرم کرے

ميں نے بيگم کے يومِ پيدائش پر دعا کی درخواست کی تھی اور اللہ کی مہربانی سے بہت سے قارئين نے نيک دعاؤں سے نواز کر مجھے احسانمند کيا تھا

گھر ميں رونق

جمعہ 19 اگست 2011ء کو ميرا چھوٹا بيٹا ” فوزی ” مع ميری چھوٹی بہو بيٹی اور ميرے پيارے پوتے ” ابراھيم ” کے صبح سويرے دبئی سے اسلام آباد ہمارے پاس پہنچ گئے اور اِن شااللہ عيدالفطر کے بعد واپس جائيں گے ۔ ماشاء اللہ گھر ميں بہت رونق ہو گئی ہے

ابراھيم اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھو کے پاس آ کر بہت خوش ہے ۔ ابراھيم کی عمر 2 سال 3 ہفتے ہے اور کوئی کوئی لفظ بولتا ہے مگر دادا ۔ دادو ۔ پھوپھو ۔ نانا ۔ نانی ۔ ماموں اُس نے بہت جلد سيکھ ليا تھا ۔ ماشاء اللہ خوش مزاج بچہ ہے ۔ سب کا دوست ۔ مگر دادا کے ساتھ دوستی کچھ زيادہ ہے ۔ مجھے اِدھر اُدھر ہونے نہيں ديتا ۔ يہ فجر کی نماز کے بعد کا وقت ہے اور ابراھيم سويا ہوا ہے ورنہ ميں يہ لکھ نہ سکتا

بيگم اس متواتر سمجھ ميں نہ آنے والی بيماری اور پے در پے شديد حملوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہيں ۔ اُميد ہے کہ پوتے کی موجودگی اور پوتے کے دادی سے پيار کے نتيجہ ميں بيگم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا ۔ اللہ اپنا کرم فرماتے ہوئے انہيں جلد مکمل شفا اور تندرستی عطا فرمائے آمين

روزے کا تقاضہ قسط 1 ۔ پرہيز لازم

کچھ قارئين نے فرمائش کی تھی کہ ميں اس ماہِ مبارک سے استفادہ حاصل کروں ۔ ميں ان کا مشکُور ہوں کہ انہوں نے مجھ سے اچھی بات کی توقع کی ۔ ميں نے “روضہ يا فاقہ” کے عنوان سے اس سلسلہ کا آغا کر ديا تھا البتہ معذرت خواہ ہوں کہ ذاتی مجبوريوں کے باعث مزيد لکھنے ميں تاخير ہو گئی ہے

وطن عزيز ميں عام تاءثر پايا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھ لئے تو فرض پورا ہو گيا ۔ صورتِ حال اتنی آسان نہيں ہے ۔ ويسے تو مُسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال اور ہر لمحے ميں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام کی تعميل کرے اور اُس کی خوشنودی کو مدِ نطر رکھے مگر روزے کے ساتھ اس کا اہتمام زيادہ اہميت اختيار کر جاتا ہے

ميں اِن شاء اللہ اپنی طرف سے يا اپنے الفاظ ميں لکھنے کی بجائے اللہ الرحمٰن الرحيم الکريم جو قادر اور مالک بھی ہے کے فرمان ہی کا ترجمہ بيان کرنے کی سعی کروں گا ۔ مطالعہ کا فہم بڑھانے اور اس کا بوجھ کم رکھنے کيلئے اسے چند اقساط ميں کچھ عنوانات کے تحت بيان کرنے کوشش کی جائے گی ۔ اللہ مجھے توفيق عطا فرمائے آمين ثم آمين

پرہيز کيجئے ۔ بچيئے

اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہو اور خدا کے عہد کو پُورا کرو۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [سورت ۔6 ۔ الانعام ۔ آيت ۔152]

اور جس چیز کا تجھے عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے ضرور باز پرس ہوگی۔ [سورت ۔ 17 ۔ بنی اسراءيل يا الاِسراء ۔ آيت36] ‏

اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت 49 ۔ الحجرات ۔ آيت ۔ 12]

جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے وہ تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے [سورت ۔ 53 ۔ النم ۔ آيت 32]

ظُلم جب حد سے گذر جائے

سُنا تھا کہ “ظُلم جب حد سے گذر جائے تو اللہ کا قہر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے”۔ فلک شگاف مہنگائی ۔ بجلی چوری اور غائب ۔ لوٹ مار کا بازار گرم ۔ دھماکے ۔ گولياں ۔ بت وقت بارشيں

کہيں يہ سب اللہ کا قہر ہی تو نہيں ؟

ہمارے کرتوت کيا ہيں ؟ لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک خاتون نے کتے کے آگے کھانا نہ ڈالنے پر 14 سالہ ملازم کو مبینہ طور پروحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ،جس سے بچے کی موت واقع ہو گئی،پولیس نے مقتول کے باپ کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔پولیس کو دی گئی درخواست کے مطابق

چنیوٹ کا رہائشی14سالہ تقی عثمان لاہور کے ایک پوش علاقے میں سعدیہ نامی خاتون کے گھر ملازم تھا ۔ سعدیہ تقی عثمان کو حکم دے کرکتے کو کھانا ڈالنے گھر سے چلی گئی ۔ واپسی پر اسے کتا بھوکا محسوس ہوا تو اس نے تقی عثمان کو کمرے میں بند کرکے مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے تقی عثمان کی موت واقع ہو گئی ۔ ہمسایوں کی اطلاع پر پولیس نے لاش برآمد کرکے اس کے باپ عطا محمدکو بُلا لیا اوراس کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دی ۔ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی

نئے صوبے ۔ چند حقائق

جب 1965ء کی جنگ ميں پورے پاکستان کے مسلمانوں نے ثابت کر ديا کہ ہم ايک ہيں نہ کوئی بنگالی ہے نہ پنجابی نہ کوئی سندھی ہے نہ بلوچی نہ کوئی پختون ہے نہ کشميری تو مطلب پرست لوگوں نے بنگالی اور پنجابی کا فتنہ کھڑا کيا اور نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام کے بھی ايک بڑے حصے کی عقل پر پانی پھر گيا اور لطيفے جو پہلے سکھوں کے ہوتے تھے بنگاليوں کے بنانے شروع کئے اور جرائد ميں چھپنے بھی شروع ہو گئے ۔ جائز مطالبات کو پسِ پُشت ڈال کر زور دار سے گٹھ جوڑ کيا گيا اور نتيجہ بنگلہ ديش کی صورت ميں نکلا

اس سے سبق سيکھنے کی بجائے مزيد قدم آگے بڑھنے لگے اور سندھی ۔ مہاجر ۔ پنجابی ۔ پختون اور بلوچ کے نعرے بلند کئے جانے لگے ۔ صوبہ سرحد جس ميں رہنے والوں کی اکثريت پختون نہيں ہے کو ذاتی مقاصد کيلئے پختون خوا کا نام دے کر لسانيت کو اُجاگر کيا گيا ۔ ہوس کی پياس پھر بھی نہ بُجھی تو سرائيکی اور ہزارہ کے نعرے بلند کرنا شروع کر ديئے

کچھ لوگ بڑے کرّ و فر سے پنجاب ميں کئی صوبے بنانے کا غوغا کرتے رہتے ہيں جس کيلئے بڑی بڑی دليليں دی جاتی ہيں جن ميں ايک “پنجاب کھا گيا” بھی ہے ۔ ماہِ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے وفاقی حکومت کے ترجمان نے صدرِ پاکستان کی طرف سے سرائيکی صوبہ کے حوالے سے خوشخبری کی پيشين گوئی کی تھی اور چند روز قبل اسی سلسلہ ميں صوبہ پنجاب کی اسمبلی ميں حزبِ اختلاف نے ہنگامہ کيا ۔ کوئی اتنا بھی نہيں سوچتا کہ نہ صرف پاکستان کا آئين تبديل کرنا ہو گا بلکہ اس سے قبل لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثريت سے منظوری دے

پنجاب کے ٹکڑے کرنے کے بعد کيا ہو گا اس پر کسی نے نہ سوچا ہے اور نہ سوچيں گے کيونکہ ہماری اکثريت کو ناک سے آگے ديکھنے کی کبھی فرصت ہی نہيں ملی ۔ کسی وجہ سے کوئی نعرہ زبان پر چڑھ جائے تو اسےلے اُڑتے ہيں ۔ دوسرے ممالک 50 سالہ منصوبہ بندی کرتے ہيں اور ترقی کا زينہ طے کرتے بلندی پر پہنچ گئے ہيں يا پہنچنے کے قريب ہيں ۔ وہ ممالک بھی جو 4 دہائياں قبل پاکستان کے دستِ نگر تھے آج پاکستان سے بہت آگے ہيں ۔ ان ميں شمالی کوريا قابلِ ذکر ہے ۔ ہم کم از کم پچھلی 4 دہائيوں سے “ڈھنگ ٹپاؤ” سے آگے نہيں بڑھے کيونکہ ہماری سوچ اپنے پيٹ اور دوسرے کی جيب سے آگے نہيں بڑھ پاتی ۔ پچھلے 6 ماہ ميں نئے صوبوں کے سلسلہ ميں کئی مضامين نظر سے گذرے ۔ ان ميں سے 2 سے اقتباسات نقل کر رہا ہوں

ايک خيال

تسلیم کرلیتے ہیں کہ بہاولپور کو اس کے تاریخی ماضی کے حوالے سے ون یونٹ کی پہلی والی سطح پر بحال کردینا درست اور جائز مطالبہ ہے لیکن پھر اسی سے ملتی جلتی بنیاد پر پختونخوا اور بلوچستان کی ان ضم شدہ ریاستوں کا کیا بنے گا جو قیام پاکستان کے وقت اپنا جداگانہ تشخص رکھتی تھیں اور ون یونٹ بن جانے کے بعد بھی 1971ء تک بیشتر کسی نہ کسی طور زندہ رہیں

اگر بہاولپور ایک الگ صوبے کے طور پر بحال ہوتا ہے تو بلوچستان میں بھی قلات ۔ مکران ۔ خاران اور لس بیلہ کی سابق ریاستوں کا جُداگانہ تشخص بحال کرکے انہیں صوبوں کا درجہ دینا ہوگا ۔ دریچہ کھُل گیا تو اسی طرح کا مطالبہ سوات ۔ چترال ۔ دیر وغیرہ کی ضم شدہ ریاستوں کے حوالے سے بھی اٹھے گا کہ ان کے ”شاہی پسماندگان“ بھی موجود ہیں ۔ قلات کے مرحوم والی میر احمد یار خان کے پوتے نواب سلیمان داؤد نے تو لندن میں باقاعدہ جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے

اگر پاکستان میں واقعی کسی ایک بھی نئے صوبے کی تشکیل ضروری ہے تو وہ وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقے پر مشتمل ہونا چاہئے جس میں کرم ۔ خیبر ۔ اورک زئی ۔ مہمند ۔ باجوڑ ۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان نامی سات ایجنسیاں شامل ہیں ۔ یہ ”وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ“ [FATA] کہلاتا ہے ۔ قائد اعظم نے ان قبائلیوں کو بڑی ٹھوس اور واضح ضمانت دی تھی کہ ان کے رسم و رواج ۔ ان کی تہذیب و ثقافت ۔ ان کے قبائلی نظم اور ان کے جُداگانہ تشخص کا تحفظ کیا جائے گا ۔ 6 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ کسی کو بابائے قوم کا یہ عہد یاد نہیں آیا ۔ وہاں کے قبائلی ایک کروڑ آبادی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ یہ مبالغہ ہوتو بھی 27000 مربع کلومیٹر پر محیط 7 قبائلی ایجنسیوں میں بسنے والوں کی تعداد 70 لاکھ کے لگ بھگ ضرور ہے ۔ یہ بلوچستان کی آبادی سے کچھ ہی کم ہوگی ۔ تمام آبادی ایک ہی زبان بولتی ہے ۔ سب کی بود و باش اور ثقافت ایک ہے اور وہ منفرد تشخص کا استحقاق رکھتے ہیں

جو اے ۔ این ۔ پی پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بینڈ ویگن پر سوار ہے وہ ”فاٹا“ کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا موقف رکھتی ہے ۔ خیبر پختون خوا میں ایک اور عجوبہ بھی موجود ہے جس کا نام ہے”پاٹا“ [PATA]۔ یہ صوبائی حکومت کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ علاقے تحلیل ہورہے ہیں لیکن آج بھی پورا مالاکنڈ ڈویژن ”پاٹا“ کا حصہ ہے ۔ خیبر پختونخوا کے تیسرے عجوبے کا نام ”فرنٹیئر ریجنز“ ہے جسے عُرف عام میں ایف ۔ آر [FR] کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جو صوبائی حکومت کے زیر انتظام اور قبائلی علاقوں کے درمیان ”بفرزون [Buffer Zone]“ کی حیثیت سے موجود ہیں ۔ ایف آر پشاور ۔ ایف آر بنوں ۔ ایف آر لکی مروت ۔ ایف آر ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسمٰعیل خان ایسے منطقے ہیں جو نہ فاٹا کے ذیل میں آتے ہیں نہ صوبائی حکومت کے ۔ ہاں وفاقی حکومت کا مقرر کردہ ایک اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ بھی بیٹھتا ہے اور صوبائی حکومت کا تعینات کردہ ڈپٹی کمشنر بھی ۔ یہ ایف ۔ آرز جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں پولیس کا کوئی گزر نہیں ۔ 63 سال سے یہ تماشا جاری ہے اور آج بھی صوبے اور مرکز کے فیصلہ سازوں کا دھیان فاٹا ۔ پاٹا اور ایف ۔ آرز کے بجائے پنجاب کے حصے بخرے کرنے پر مرکوز ہے

پیپلزپارٹی کے راہنما اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپيکر فیصل کریم کنڈی نے تجویز دی ہے “چونکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی ہے اسلئے اسے خیبر پختونخوا سے کاٹ کر سرائیکی صوبے کا حصہ بنادیا جائے ۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو سندھ اور پنجاب میں مقیم بلوچوں کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا جو بعض شہروں میں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جیکب آباد تو بلوچستان کی سرحد سے جڑا ہے اور شکارپور ۔ جیکب آباد سے ۔ نواب شاہ اور سانگھڑ میں بھی قابل ذکر تعداد میں بلوچ بستے ہیں ۔ بگٹی اور مری قبائل کی ہزاروں ایکڑ زمینیں بھی انہی علاقوں میں ہیں ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بلوچ غالب تعداد میں بستے ہیں۔ بات آگے چلے تو شاید ایک سندھی سرائیکی صوبہ بھی بنانا پڑے

مسلم لیگ (ق) کے راہنما چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے اور صدر زردای کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں جماعتیں پنجاب میں سرائیکی صوبہ قائم کریں گی۔ چوہدری صاحب کو شاید علم نہیں کہ موجودہ صوبوں کی جغرافیائی حدود میں کسی طرح کے ردوبدل کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ اگر پارلیمینٹ کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے پنجاب کے اندر ایک نیا صوبہ بنانے کی ترمیم منظور کرلیتے ہیں تو بھی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی توثیق کے بغیر ایسی ترمیم دستور کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ آئین کا آرٹیکل 239(4) بڑی وضاحت سے کہتا ہے

A Bill to amend the Constitution which would have the effect of altering the limits of a Province shall not be presented to the President for assent unless it has been passed by the Provincial Assembly of that Province by the votes of not less than two-thirds of its total membership.
ترجمہ ۔ آئین میں ترمیم کا ایسا کوئی بل جو کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی کررہا ہو ۔ اس وقت تک صدر کی منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جائے گا جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی اپنے مجموعی ارکان کی دو تہائی اکثریت سے اس بل کو منظور نہ کرلے

یہ مہم اس وقت تک خواب ہی رہے گی جب تک پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان میں سے کم از کم 248 ارکان اس کی توثیق نہیں کرتے

دوسرا خيال

جن اصولوں پر پنجاب تقسیم ہوگا ۔ انہی اصولوں پر سندھ ۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو بھی تقسیم کرنا ہوگا ۔ جو تقسیمِ پنجاب کی حمایت کرتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ تقسیم سندھ کی مخالفت کرے ۔ جو ہزارہ صوبے کا حامی ہے اسے بہاولپور کی بھی حمایت کرنی ہوگی لیکن یہاں تو عجیب تماشہ ہے ۔ ایم کیو ایم ہزارہ ۔ بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی حامی ہے لیکن سندھ میں نئے صوبوں کے مطالبے پر سیخ پا ہوجاتی ہے ۔ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کی تو مدعی بن گئی لیکن جب کراچی کی تجویز آئی تو برہم ہوکر غنڈہ گردی پر اترآئی ۔ مسلم لیگ (ن) نے بلاجواز پختونخوا نام کی مخالفت کرکے ہزارہ میں نئے صوبے کی تحریک کے لئے ماحول بنایا لیکن اب بہاولپور اور سرائیکی صوبوں کی تحریکوں سے پریشان ہے ۔ اے این پی نے سرائیکی صوبے کے قیام کو اپنے منشور اور دستور کا حصہ بنارکھا ہے لیکن ہزارہ صوبے کی بھی مخالف ہے اور خیبرپختونخوا کے سرائیکیوں کے سرائیکی صوبے کے ساتھ الحاق کی بھی ۔ جس طرح دیگر ایشوز پر سیاست ۔ اسی طرح یہاں بھی ہدف مسئلے کا حل نہیں ۔ اپنی اپنی سیاست کو چمکانا اور اپنے اپنے حلقے کے ووٹرز کو بے وقوف بنانا ہے

سوال یہ ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی بنیاد کیا ہو ؟ بہاولپور کا مطالبہ تاریخی بنیاد پر ہورہا ہے لیکن یہ کُلیہ صرف بہاولپور تک محدود نہیں رہے گا ۔ پھر اس کے دعویداروں کو سوات ۔ دیر ۔ چترال اور قلات وغیرہ کو بھی الگ صوبوں کی حیثیت دینی ہوگی ۔ ہزارہ کا مطالبہ لسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے لیکن ہزارہ کی حمایت کرنے والوں کو پھر لسانی بنیادوں پر سندھ ۔ بلوچستان اور پنجاب کی تقسیم کی بھی حمایت کرنی ہوگی ۔ اگر جواز یہ ہو کہ چونکہ رقبہ بہت زیادہ ہے ۔ ملتان اور بہاولپور لاہور سے یا پھر ایبٹ آباد پشاور سے دُور ہے ۔ اسلئے ان کو الگ صوبوں کی حیثیت ملنی چاہئے تو پھر اندرون سندھ کے لوگ کراچی سے اور مکران یاسوئی وغیرہ کے لوگ کوئٹہ سے بہت زیادہ دور ہیں ۔ پھر بہالپور ۔ ملتان اور ہزارہ سے پہلے بلوچستان اور سندھ میں نئے صوبے بنانے ہوں گے

اگر آبادی کو معیار بنا لیا جائے تو پھر سب سے زیادہ صوبے پنجاب میں بنیں گے لیکن دوسرے نمبر پر بہر حال سندھ آئے گا ۔ پھر سندھ میں بھی 3 سے زیادہ صوبے بنانے ہوں گے ۔ اگر سرائیکیوں کو الگ صوبہ قومیت یا لسانی بنیادوں پر دیا جائے گا تو پھر خیبر پختونخواہ کے سرائیکیوں کو بھی حق دینا ہوگا کہ وہ سرائیکی صوبے کے ساتھ مل جائیں ۔ پھر سندھ اور پنجاب میں رہنے والے بلوچوں کو بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ ملانا ہوگا ۔ پھر بلوچستان کے پختونوں کو نہ صرف الگ صوبہ دینا ہوگا بلکہ ان کے صوبے کو خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کے ساتھ ایک نئے صوبے کی صورت میں ضم کرنا ہوگا

اگر بنیاد یہ ہے کہ صوبوں کے اندر وسائل منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہیں ہو رہے ہیں اور پنجاب کا زیادہ تر فنڈ وسطی پنجاب میں خرچ ہوجاتا ہے تو کیا سندھ ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کیا سندھ کا جتنا بجٹ کراچی اور حیدر آباد میں خرچ ہوجاتا ہے اتنا ہی بجٹ سانگھڑ اور تھرپارکر کے حصے میں بھی آتا ہے ؟ کیا خیبر پختونخوا میں لاہور اور فیصل آباد کی طرح وادی پشاور کو یہ فوقیت حاصل نہیں؟ کیا یہاں چترال ۔ دیر ۔ کوہستان اور ڈيرہ اسماعيل خان کو وہی توجہ دی جاتی ہے جو پشاور ۔ مردان اورایبٹ آباد کو ملتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے شہریوں کو جو سہولیات میسر ہیں ۔ سبی اور کوہلو وغیرہ کے شہری اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے؟

شوق ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ نئے صوبے بنا دیجئے لیکن کُلیہ ایک ہی ہوگا۔ “میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو” والا معاملہ نہیں چلے گا ۔ اگر پنجاب کو کیک کی طرح کاٹ کر تقسیم کیا جائے گا تو پھر سندھ بھی کیک بنے گا بلوچستان بھی اور خیبر پختونخوا بھی ۔ اور اگر سندھ یا خیبر پختونخوا میں نئے صوبوں کی بات کو گالی بنا دیا جائے گا تو پھر پنجاب کی سرحدوں کو بھی اسی طرح مقدس سمجھنا ہوگا

یقینا بڑے انتظامی یونٹ مسائل کا باعث بنتے ہیں ۔ ا نتظامی یونٹ جتنے چھوٹے ہوں ۔ اتنے بہتر انداز میں چلائے جاسکیں گے ۔ یقینا آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا بہت بڑا ہونا باقی ملک کے لئے نہیں بلکہ خود پنجابیوں کے لئے بھی مسئلہ ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹے صوبے احساس محرومی کے شکار رہتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے پنجاب کو گالی پڑتی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نئے صوبے کس اصول کے تحت بنائے جائیں ۔ میرے نزدیک بہتر راستہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کا ہوگا ۔ ایک ممکنہ فارمولا قیام پاکستان کے وقت کے ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کا ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اس سے نفرتیں جنم نہیں لیں گی ۔ ہندوستان ۔ ایران اور افغانستان میں نئے صوبے بنے ہیں لیکن لسانی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بنے ہیں ۔ امریکا کی درجنوں ریاستوں میں کوئی ایک بھی ان بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی

ایک اور بات ہمارے سیاستدانوں کو یہ مدنظر رکھنی چاہئیے کہ اپنی روح کے لحاظ سے بہت اچھے کام بھی اگر غلط وقت پر کرنے کی کوشش کی جائے تو فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بنتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ وقت کیا نئے صوبوں کے قیام کے ایشو کو چھیڑنے کے لئے مناسب ہے ؟

آخر میں سرائیکی صوبے کا شوشہ چھوڑنے والے آصف علی زرداری صاحب سے یہ سوال کہ “جناب عالی ۔ اگر آپ کو واقعی نئے صوبوں کی فکر نے بے چین کررکھا ہے تو اس نیک کام کا آغاز آپ قبائلی علاقہ جات کو نیا صوبہ بنانے سے کیوں نہیں کرتے ؟ وہ قبائلی علاقے جن کے آپ براہ راست چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ جن کے تقریبا سو فی صد شہری الگ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ جن کی اس وقت کوئی آئینی حیثیت واضح نہیں ۔ ملتان ۔ ہزارہ اور بہاولپور کے لوگوں کو تو صرف مالی اور انتظامی معاملات میں محرومی کا شکوہ ہے لیکن شہریت کے لحاظ سے انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو اسلام آباد ۔ لاہور یا کراچی کے شہریوں کو حاصل ہيں تاہم فاٹا کے عوام کو تو ان کے بنیادی آئینی حقوق بھی حاصل نہیں ۔ اس خطے پر مُلکی قوانین کا اطلاق نہيں ہوتا ۔ نہ پارلیمنٹ ان کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے اور نہ وہ اپنے خلاف روا رکھے گئے کسی ظُلم کے خلاف کسی پاکستانی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ ہمت اور اخلاص موجود ہے تو بسم اللہ کیجئے ۔ قبائلی علاقہ جات کو صوبے کی حیثیت دے دیجئے ۔ نہیں تو خدارا سیاسی مقاصد کے لئے ڈرامہ بازی کا یہ سلسلہ ترک کردیجئے

ذرا سوچئے ۔ اگر میاں شہباز شریف نے پچھلے 3 سالوں میں پنجاب کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہ رکھا ہوتا تو کیا تماشہ لگتا لیکن صدر محترم آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد فاٹا کی ایک انچ زمین پر بھی قدم نہیں رکھا حالانکہ وہ اسی طرح فاٹا کے چیف ایگزیکٹیو ہیں جس طرح میاں شہباز شریف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ہیں ۔ پنجاب میں تو پھر بھی اسمبلی شہباز شریف کے ساتھ شریک اقتدار ہے لیکن فاٹا کے تنہا مختار صدر مملکت ہوتے ہیں۔ جس علاقے کے وہ چیف ایگزیکٹو ہیں اسے آج تک صدر صاحب نے دیکھا ہی نہیں ۔ یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ لیکن ظاہر ہے اس طرح کے تماشے صرف پاکستان میں ہی ہوسکتے ہیں

ايک اچھی کاوش

جشن آزادی کی خوشی میں کراچی کے ڈیفنس اسٹیڈیم میں 13 اور 14 اگست کی درميانی رات ہزاروں لڑکے لڑکياں اور بچے جمع ہوئے اور رات 12 بجے
کے بعد سب نے مل کر قومی ترانہ پڑھا

اس دوران تیز ہوائیں چلیں ۔ بجلی چمکی ۔ بادل گرجے پھر برسے اور بجلی غائب ہوگئی لیکن حوصلے پست نہ ہوئے

کہا جاتا ہے کہ 5885 لوگ جمع ہوئے جو فلپين ميں قائم ہونے والے ريکارڈ سے زيادہ ہے ۔ فلپين ميں 2009ء ميں 5248 لوگ جمع ہوئے تھے

اگر کوئی بلاگر يا قاری اس ميں شامل ہوا تھا تو اپنی رائے ضرور دے

اللہ کرے اگلے 14 اگست پر پاکستان کے ہر بڑے شہر ميں ہزاروں جوان اور پچے ايسی يکجہتی کا مظاہرہ کريں