عجب اتفاق

جب سمندر سکون ميں ہو تو کبھی کبھی کوئی مچھلی اچانک پانی ميں سے اُچھل کر فضا ميں بلند ہونے کے بعد واپس پانی ميں گر جاتی ہے ۔ مچھلی کا يہ عمل لمحہ بھر کيلئے ہوتا ہے ليکن اس کے اس عمل سے سمندر کی سطح پر پيدا ہونے والا ارتعاش کئی منٹ تک قائم رہتا ہے

مچھلی کے اس فعل کا سبب تو مچھلی ہی جانتی ہو گی ليکن يہی عمل کچھ انسان بھی دہراتے ہيں اور جديد دنيا کی بڑے بڑے حکومتی اور نجی ادارے يا تنظيميں مخصوص مقاصد کی برآوری کيلئے اس عمل کا استعمال باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرتے رہتے ہيں ۔ وطنِ عزيز ميں بھی يہ عمل وقفوں سے ديکھنے ميں آتا رہتا ہے ۔ کوئی شخص ايسا عمل يا بات کرتا يا کرتی ہے جس سے معاشرے ميں کسی حد تک ارتعاش پيدا ہوتا ہے جس کا مقصد شايد صرف ارتعاش پيدا کرنا يا اپنے وجود کا احساس دلانا يا اپنی کسی خامی سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے

وطنِ عزيز ميں کبھی کبھی کوئی شخصِ واحد بھی ايسا عمل يا بات کرتا يا کرتی ہے جس سے معاشرے ميں کسی حد تک ارتعاش پيدا ہوتا ہے جس کا مقصد شايد صرف ارتعاش پيدا کرنا يا اپنی کسی خامی سے توجہ ہٹانا يا اپنے وجود کا احساس دلانا ہی ہوتا ہے

يہ سطور لکھتے ہوئے ميں ماضی کو دہرانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وائے حادثہ جس نے سر پر شديد چوٹ لگا کر ميری ياد داشت گُم کر دی ۔ کچھ حوالہ ياد نہ آيا ۔ پھر وَيب گردی کی ۔ چند واقعات سامنے آئے جن ميں سے ايک سب پر حاوی تھا ۔ عجب اتفاق ہے کہ يہ واقعہ ايک بلاگر [جو محفل گرم رکھنے کے سلسلہ ميں مشہور ہيں] سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ممکن ہے کہ دونوں کردار ايک ہی آدمی ہو ۔ واقعہ کا خلاصہ کچھ يوں ہے

“مئی 2007ء ميں فيڈرل اُردو يونيورسٹی آف آرٹس سائنس اينڈ ٹيکنالوجی کراچی کی ايک سابقہ پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ نے ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان سے شکائت کی کہ يونيورسٹی کے اعلٰی عہديدار ” مرد ” اُس کے کام ميں روڑے اٹکاتے تھے اور اس کے خلاف سِنڈيکيٹ ميں ايک خط پيش کيا گيا جس ميں اس پر ناشائستہ حرکات يا بد انتظامی کا الزام لگايا گيا تھا ۔ اس طرح اسے پريشان کر کے مستعفی ہونے پر مجبور کيا گيا تھا ۔ متذکرہ پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ کے مطابق وجہ يہ تھی کہ وہ تعليم کے متعلق ترقی پسند رويّہ رکھتی ہيں
سِنڈيکيٹ کے ايک رُکن نے رابطہ کرنے پر بتايا کہ متذکرہ بالا پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ کے ساتھ کسی قسم کا امتياز نہيں برتا گيا اور ان کی ملازمت مروجہ قوانين کے مطابق ختم کی گئی

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں 6 ستمبر 1965ء کو؟
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب ميجر عبدالعزيز بھٹی توپوں سے درست نشانے لگوانے کيلئے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے 3 دن اُونچی جگہ پر کھڑے ہو کر نشانے لگواتا رہا اور بالآخر شہيد ہو گيا
جب ايک پاکستانی طيّار ايم ايم عالم نے بھارت کے 11 طيارے مار گرائے تھے
جب ايک پاکستانی طيّار بھارت ميں ايمونيشن سے بھری ٹرين کا درست نشانہ لينے کيلئے اتنا نيچے چلا گيا تھا کہ ٹرين کے دھماکے کے ساتھ وہ خود بھی شہيد ہو گيا
جب بھارت کے دندناتے طياروں کو لاہوريئے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کے للکارتے تھے
جب لوگ پلاؤ وغيرہ کی ديگيں محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا “آپ جو کام کر رہے ہيں وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں”
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا
جب بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا

جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچی ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

يا اللہ ۔ وہ دن پھر سے لادے ۔ يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

آزاد دنيا اور اس کا ميڈيا

6 ہفتے قبل ايک غير مُسلم گورے نے اوسلو [ناروے] ميں پہلے بم دھماکہ کيا اور پھر ڈيڑھ گھنٹہ فائرنگ کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں 93 افراد ہلاک ہوئے ۔ اُس کے متعلق ميڈيا نے کيا کہا

رائٹر نے کہا ۔ حملہ آور [an ‘Assailant’, ‘Attacker’]
بی بی سی نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
سی اين اين نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
الجزيزہ نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
امريکا کا سرکاری بيان ۔ زيادتی کا عمل[an ‘Act of Violence’]

26 دن قبل امريکی ریاست اوہائیو کے کوہلی ٹاؤن شپ کے علاقے میں ایک مسلح شخص [غير مُسلم گورے] نے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو گولی ماری ۔ اس کے بعد وہ اپنے محلے میں واقع ایک گھر میں داخل ہوا جہاں اس نے اپنی گرل فرینڈ کے بھائی سمیت 6 افراد کو ہلاک کيا ۔ ملزم فائرنگ کرتے ہوئے ایک اور گھر میں داخل ہوا جہاں فائرنگ سے اس نے ایک اور شخص کو ہلاک کر ديا ۔ ہلاک ہونے والوں ميں ايک 11 سالہ لڑکا بھی شامل ہے ۔ اسے کسی نے دہشتگردی تو کيا انتہاء پسندی بھی نہيں کہا ۔ پولیس کے مطابق واقعہ گھریلوں تنازع کا شاخسانہ ہے اور ميڈيا نے بھی اسے ذاتی معاملہ قرار ديا

25 دن قبل جو فساد برطانيہ ميں شروع ہوا اُسے بھی کسی نے دہشگردی يا انتہاء پسندی نہيں کہا

کيا دہشتگرد کا لفظ صرف مسلمانوں کيلئے مخصوص ہے ؟
کيا يہ صريح منافقت نہيں ہے ؟

اس نام نہاد آزاد دنيا کی چکا چوند ميں عقل کھونے والے مسلمانوں ۔ ہوش ميں آؤ

اللہ کے بندے

بہت مخلص اور پاک بندے خدا کے ۔ نشاں جن سے قائم ہیں صدق و صفا کے
نہ شہرت کے خواہاں نہ طالب ثنا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمائش سے بیزار دشمن ریا کے
ریاضت سب ان کی خدا کیلئے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشقت سب ان کی رضا کیلئے ہے
کوئی ان میں ہے حق کی طاعت پہ مفتوں ۔ کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں
کوئی زہد و صبر و قناعت پہ مفتوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پند و وعظِ جماعت پہ مفتوں
کوئی موج سے آپ کو ہے بچاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ناؤ ہے ڈوبتوں کی تراتا

کسی پر سختی صعوبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو غم و رنج کلفت ہے ان پر
کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر
کسی پر چلیں تیرا آماج ہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ
یہ ہیں حشر تک بات پر اڑانے والے ۔ یہ پیماں کو میخوں سے ہیں جڑنے والے
یہ فوجِ حوادث سے ہیں لڑنے والے ۔ ۔ ۔ یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑے والے
اُمنڈتا ہے رکنے سے اور ان کا دریا ۔ جنوں سے زیادہ ہے کچھ ان کا سودا

جماتے ہیں جب پاؤں ہٹتے نہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر قدم پھر پلٹتے نہیں یہ
گئے پھیل جب پھر سمٹتے نہیں یہ ۔ جہاں بڑھ گئے بڑھ کے گھٹتے نہیں یہ
مُہم بِن کئے سر نہیں بیٹھتے یہ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اُٹھتے ہیں اُٹھ کر نہیں بیٹھتے یہ
خدا نے عطا کی ہے جو ان کو قوت ۔ سمائی ہے دل میں بہت اس کی عظمت
نہیں پھیرتی ان کا منہ کوئی زحمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کرتی زیر ان کو کوئی صعوبت
بھروسے پہ اپنے دل و دست و پا کے ۔ سمجھتے ہیں ساتھ اپنے لشکر خدا کے

تُمہِیں اپنی مشکل کو آساں کروگے ۔ ۔ تُمہِیں درد کا اپنے درماں کرو گے
تُمہِیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے ۔ ۔ کروگے تُمہِیں کچھ اگر یاں کروگے
چھپا دست ہمت میں زور قضا ہے ۔ مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

عيد الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر
سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین

ابراھيم نے يومِ آزادی کيسے منايا ؟

ميرے پيارے پوتے ابراھيم کی عمر 14 اگست 2011ء کو 2 سال 3 ہفتے ہوئی ۔ ابراھيم ماشاء اللہ بہت پيارا اور دوستی بنانے والا بچہ ہے ۔ اُس نے دبئی ميں اپنے مُلک پاکستان کا يومِ آزادی کچھ اس طرح منايا

خالص پاکستانی لباس پہنا

ابراھيم يا اس کی عمر کا ہر بچہ سالگرہ کا مطلب اتنا جانتا ہے کہ اُس دن ايک کيک کاٹا جاتا ہے
ابراھيم کو جب بتايا گيا کہ پاکستان کی سالگرہ ہے تو کيک ہونا ضروری ٹھہرا

سالگرہ کا کيک کاٹ کر تالياں بجائی جاتی ہيں اور سالگرہ مبارک کہا جاتا ہے مگر يومِ آزادی پر کيک کاٹنے سے پہلے ابراھيم نے ” پاکستان زندہ باد ” کا نعرہ پورے جوش سے لگايا

19 اگست سے ابراھيم اور اُس کے والدين ہمارے پاس اسلام آباد ميں ہيں ۔ عيد کے بعد واپس دبئی جائيں گے ۔ آجکل ابراھيم کی توجہ کا مرکز دادا ۔ دادی اور پھوپھو ہيں ۔ اسلئے ہر وقت دادا ۔ دادو اور پھوپھو کی گردان ہوتی رہتی ہے

جب ابراھيم 19 اگست کو پہنچا تو دادی کو بستر پر بے حال ليٹا ديکھ کر اُس کے قريب کم ہی جاتا تھا ۔ چند دن سے ابراھيم کی دادی نے بيٹھنا شروع کيا ہے تو ابراھيم بہت جوش و خروش ميں ہے

ہمارے پاس پلاسٹک کی کرسياں ہيں ۔ ايک ايک کر کے گھسيٹ لاتا ہے اور دادی کے بستر کے پاس پہلی رکھ کر کہتا ہے ” دادا کرسی ۔ دادا بيٹھيں”۔ دوسری لاکر کہتا ہے ” ابراھيم کرسی اور خود بيٹھ جاتا ہے”

جہاں ميرا موبائل فون ۔ تسبيح يا عينک پڑے ديکھتا ہے اُٹھا کر ميرے پاس پہنچ جاتا ہے اور ميرے ہاتھ ميں ديتے ہوئے کہتا ہے “دادا فون يا دادا تسبيح” ۔ عينک کہنا نہيں جانتا تو کہتا ہے ” دادا يہ”

کلمہ گو ۔ يا ۔ مسلمان

زندگی ميں بارہا بار يہ فقرہ سُننے ميں آيا “ميں کلمہ گو ہوں” يا “ميں مسلمان ہوں”

ہاں ۔ کلمہ [دِل سے] پڑھا جائے تو آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ۔ مگر بات يہاں ختم نہيں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے

کلمہ اسی طرح ہے جيسے بچہ سکول ميں داخل ہونے کيلئے ابتدائی لوازمات پورے کر لے ۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ پڑھنا لکھنا سيکھا جاتا ہے ۔ کچھ یاد کيا جاتا ہے ۔ کئی امتحانات دیئے جاتے ہيں ۔ 10 سال کی محنت کے بعد میٹرک پاس کی سند ملتی ہے

میٹرک کی بنیاد پر پيٹ پالنے کيلئے شايد ہی کوئی ملازمت ملے چنانچہ مزيد پڑھا اور ياد کيا جاتا ہے اور اسے جاننے کے ثبوت کے طور پر امتحانات دے کر اِن ميں کاميابی حاصل کی جاتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے جاتے ہيں اور بعض اوقات رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو جاتا ہے ۔ پھر کہيں جا کر ايک خاندان پالنے کيلئے مناسب ملازمت کی توقع بنتی ہے ۔ مگر ملازمت حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہيں ہوتا ۔ ملازمت مل جانے کے بعد بھی محنت جاری رکھنا پڑتی ہے اور ڈانٹيں بھی برداشت کرنا پڑتی ہيں

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی يہ سمجھا جائے کہ والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور جنت کا حقدار بھی چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کرے ۔ سچ نہ بولے ۔ انصاف نہ کرے ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کرے ۔ دوسروں کا حق مارے ۔ ظُلم کرے ۔ وغيرہ

افسوس کہ ہمارے ہاں عام طور پر کچھ ايسا ہی عقيدہ پايا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ مسلمان تھوڑی سزا کے بعد جنت ميں چلے جائيں گے

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ جسے معبود مان ليا اُس کا ہر فرمان کے مطابق حاضر دماغی کے ساتھ عمل فرض بن جاتا ہے ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے ناول پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ؟

مسلمان کون ہوتا ہے ؟ اس کی تشريح قرآن شريف ميں جا بجا موجود ہے ۔ اختصار کی خاطر قرآن شريف کے صرف وہ حوالے جہاں مسلمان کے کچھ اوصاف اکٹھے رقم کئے گئے ہيں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) ۔ یقیناً اللہ تعالٰی تکبّر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آيت ۔ 112 ۔ وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (یا راہ حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ۔ اور ایسے مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے ‏

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات ۔ 1 تا 9 ۔ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں ۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں

علامہ اقبال نے سچ کہا ہے

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے