معذرت

محترمات قاریات و محترمان قارئین
السلام علیکم
سائنس بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے (گو انسانیت تنزل پذیر ہے) چنانچہ میرے اس بلاگ کے خد وخال پرانے زمانے میں شمار ہونے لگے تھے ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا کو میرا پرانا ہونا پسند نہیں اسلئے اپنی دوسری مژروفیات کت ساتھ ساتھ میرے بلاگ کی تجدید میں مصروف ہے

بایں وجوہ کوئی کوفت کا سامان پیدا ہو تو اس کیلئے پیشگی معذرت کر رہا ہوں

اُمید

میں نہیں جانتا لکھنے والا کون ہے ۔ میں نے کہیں یہ نظم پڑھی ۔ بار بار پڑھی ۔ اور ہر دم دل کی گہرائیوں سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا نکلتی رہی ”یا میرے مالک و خالق ۔ ایسا ہو جائے ۔ یا رب ذوالجلال والاکرام ۔ ایسا جلد ہو جائے ۔ اور یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرما“۔
اُمید کرتا ہوں کہ قارئین بھی صدق دل سے یہی دعا کریں گے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔ اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔ اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔ اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔ اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔ اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔ اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے ۔ دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔ جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔ یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اک بستی بسنے والی ہے

کہانی کیا تھی؟

قبل ازیں ”میں چور ؟” اور ”غیب سے مدد“ کے عنوانات سے ایک واقعہ مع پس منظر اور پیش منظر بیان کر چکا ہوں ۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے ۔ کہانی جس پر تفتیش شروع کی گئی یہ تھی

مُخبر نے بتایا ”اجمل بھوپال نے منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فورمین ”ح“ نے مدد کی ۔ گوڈؤن کیپر اور اُس کا ہیلپر(Helper) ہفتے کو ورکشاپ کے اندر ہی رہے ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منیجر ”ع“ اپنی سفید کار میں فورمین ”ت“ کو ساتھ لے کر آیا ۔ اندر سے بندوقیں گوڈؤن کیپر اور اس کے مددگار نے نکالیں ۔ چارجمین نے بندوقیں کار میں رکھنے میں مدد دی“

مُخبر کون ؟
متذکرہ بالا کہانی کا مُصنّف اور مُخبر ایک بدنامِ زمانہ ورکر تھا جو فیکٹری میں لیڈر بنا پھرتا تھا اور کاروبار اس کا تھا کہ ٹھرا (دیسی شراب) بیچتا تھا اور جُوے کا اڈا چلاتا تھا ۔ ایک بار اسے فیکٹری کے اندر جوا کھلاتے پکڑا گیا تھا ۔ میرے پاس لائے تو میں نے اُسے سخت تنبیہ کی تھی اور اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”ع“ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نظر میں رکھے جب تک وہ اپنا چال چلن درست نہ کر لے ۔ منیجر ”ع“ اُن دنوں اسسٹنٹ منیجر تھا ۔ فورمین ”ح“ اُس ورکشاپ کا فورمین تھا اور مُخبر کا بھی ۔ فورمین ”ت“ کا اس ورکشاپ سے تعلق نہ تھا مگر وہ نہ غلط کام کرتا تھا نہ کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ چارجمین کا بھی اس ورکشاپ سے کوئی تعلق نہ تھا

حقیقت
ہمارے لوگوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ کوئی کہے ”کُتا تمہارا کان لے گیا“ تو کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کان موجود ہے یا نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ہندوستان پر قابض انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ نظامِ پولیس جاری ہے جو کہ مزید خراب ہو چکا ہے ۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پھندا کس کے گلے میں ڈالنا ہے پھر ایک کہانی بنائی جاتی ہے اور اس کہانی کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے

موازنہ
اگر کوئی متذکرہ بالا کہانی کے حوالے سے زمینی حقائق پر سرسری نظر بھی ڈالتا تو کہانی غلط ثابت ہو جاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ

1۔ منیجر ”ع“ کے پاس کالے رنگ کی کار تھی اور وہ فیکٹری کار پر نہیں آتا تھا ۔ سفید کار جنرل منیجر کے پاس تھی جو کار پر فیکٹری آیا کرتا تھا مگر ان دنوں چھٹی پر تھا اور شہر سے باہر گیا ہوا تھا
2۔ ویپنز فیکٹری کے چاروں طرف خاردار تار کی دبیز باڑ لگی ہوئی تھی ۔ اس باڑ میں سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اسے کاٹا جائے اور یہ کہیں سے کٹی ہوئی نہیں تھی
3۔ صرف ایک گیٹ تھا اور اس پر فوج کا پہرا ہوتا تھا ۔ اوقاتِ کار کے دوران اس فیکٹری کے ملازمین پاس دکھا کر اندر آ سکتے تھے ۔ اوقاتِ کار کے بعد اُنہیں آرڈرلی آفیسر (Orderly) کو ساتھ لے کر آنا پڑتا تھا جو کہ تمام فیکٹریوں کا صرف ایک ہوتا تھا اور بغیر اچھی طرح چھان بین کے اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر اجازت دے تو اس کا اندراج وہ اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں کرتا اور گیٹ کیپر اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں ۔ مگر ایسا کچھ موجود نہ تھا
4۔ متذکرہ بالا باڑ کے علاوہ پی او ایف کے گرد 8 فٹ اُونچی دیوار تھی ۔ 3 گیٹ تھے ۔ اوقاتِ کار کے دوران پاس دکھا کر ان میں فیکٹری میں داخل ہوا جا سکتا تھا لیکن اوقاتِ کار کے بعد باقی گیٹ پکے بند ہو جاتے تھے صرف مین گیٹ کھولا جا سکتا تھا جہاں گیٹ سٹاف کے ساتھ سیکیورٹی والے اور فوجی بھی موجود ہوتے تھے ۔ ان دنوں میں اوقاتِ کار کے بعد نہ کوئی داخل ہوا اور نہ باہر نکلا تھا
5۔ ورکشاپوں کے تمام دروازوں کو بڑے بڑے تالے لگا کر چابیاں مین گیٹ پر جمع کرادی جاتی ہیں ۔ اوقاتِ کار کے بعد صرف آرڈرلی آفیسر مین گیٹ کے رجسٹر پر اندراج کر کے چابیاں لے سکتا ہے اور اس کیلئے معقول وجہ لکھنا ہوتی تھی ۔ مگر کسی نے چابیاں نہیں لی تھیں اور چوری کے بعد اگلے دن چابیاں ویپنز فیکٹری کا نمائندہ مین گیٹ سے لے کر آیا تھا

مندرجہ بالا حقائق ثابت کرتے ہیں کہ متذکرہ بالا کہانی بالکل غلط اور بے تُکی تھی اور اشارہ دیتے ہیں کہ مین گیٹ پر مامور لوگوں میں سے کوئی چور یا چور کا معاون تھا

چوری کیسے ہوئی اور کیسے پکڑی گئی ؟
پچھلی تحریر میں ورکشاپ کی دیوار میں سوراخ کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اس سوراخ والی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف سیڑھی لگائی گئی تھی ۔ اس سوراخ میں سے چادر کے ساتھ لٹک کر ایک آدمی جس کا شانہ 18 انچ سے کم تھا ورکشاپ میں اُترا اور بندوقیں چادر کے ساتھ باندھ باندھ کر باہر بھجواتا رہا ۔ تمام بندوقیں سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر پی او ایف کے اندر ہی مارشلنگ یارڈ میں چھُپا دی گئیں اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر سیکیورٹی والوں کا ڈرائیور پی او ایف سے باہر لے جاتا رہا تھا

ورکشاپ میں اُترنے والا وہی ورکر تھا جس کا نام میری دی ہوئی 7 مشکوک آدمیوں کی فہرست میں سب سے اُوپر تھا ۔ مجھے متعلقہ ورکشاپ کے سینئر مستری ۔ چارجمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور فورمین نے اپنی اپنی سوچ اور تحقیق کے مطابق کُل 15 نام دیئے تھے ۔ میں نے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تبادلہ خیال کیا اور 8 نام فہرست میں سے نکال دیئے تھے ۔ بقایا 7 میں سرِ فہرست ایک لیبر کا نام تھا جو سینئر مستری نے دیا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ نوجوان حُکم دیئے جانے کے باوجود کبھی ڈانگری نہیں پہنتا تھا اور عام طور پر کام کا وقت شروع ہونے کے ایک سے 5 منٹ بعد آتا تھا ۔ چوری کے بعد والے دن صبح وہ کام کے وقت سے کچھ منٹ پہلے ہی آ گیا ۔ اُس نے ڈانگری پہنی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر مچھروں کے کاٹنے کے نشان تھے جس کا بہانہ بنا کر وہ چھٹی لے کر چلا گیا تھا ۔ مستری کا خیال تھا کہ بندوقیں چوری کر کے مارشلنگ یارڈ میں چھپائی گئی ہوں گی جہاں مچھر بہت ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس نے ڈانگری پہنی اور وہیں سے اسے مچھروں نے کاٹا

مستری کا خیال درست تھا ۔ 2 ہفتے بعد جب میرے بتائے ہوئے کے مطابق تفتیش شروع کی گئی تو 12 بندوقیں مارشلنگ یارڈ سے ہی ملی تھیں ۔ باقی قبائلی علاقہ میں بیچ دی گئی تھیں جن میں سے 3 پیسے دے کر واپس لی گئیں اور باقی کا کچھ پتہ نہ چلا تھا

آخر ؟ ؟ ؟

مندرجہ ذیل اقتباس میاں عبدالوحید صاحب کی کتاب سے 25 فروری 2013ء کے جنگ اخبار میں نقل کئے گئے ہیں ۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان میں ایٹم بم کی تیاری کے چند تاریخی حقائق سے پہلی بار کسی نے پردہ اُٹھایا ہے ۔ درست کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت (1975ء) میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آئے لیکن اس پر کام 1977ء کے آخر میں ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا ۔ مزید اقتباس میں پڑھیئے

main6

main7

مُفلِسی کیوں ؟

بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں

متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں

پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی

حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے

بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے

حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے

وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا

حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے

ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا

غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے

تُسی کی کِیتا

اگر آپ کے کمپیوٹر پر ریئل پلیئر انسٹال ہے تو آگے بڑھیئے ورنہ پہلے یہاں کلک کر کے ریئل پلیئر ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کر لیجئے

اب اپنے کمپیوٹر کے سپیکر آن کر دیجئے

پھر نیچے دیئے گئے ربط پر کلک کرنے کے بعد ریئل پلیئر کے ذریعہ وِڈیو چلایئے
اور غور سے سُنیئے کہ ”بی مانو“ میرا کیا پیغام آپ کو دے رہی ہے

VID-20130214-WA0001

۔
۔
۔

قارئین کی فرمائش پر اُردو ترجمہ بھی لکھ دیا ہے

تُسی دُور گئے اَسی یاد کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ دُور گئے تو میں نے یاد کِیا
تُسی کول آئے اَسی پیار کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پاس آئے تو میں نے پیار کِیا
تُسی رُس گئے اَسی راضی کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ خفا ہوئے تو میں نے منایا
تُسی یاد آئے اَسی مِس کِیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ یاد آئے تو میں نے مِس (miss) کِیا
مِس کِیتا راضی کِیتا پیار کِیتا یاد کِیتا ۔ ۔ مِس کِیا منایا پیار کِیا یاد کِیا
سب کُج اسی کِیتا ۔ تُسی کی کِیتا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کچھ میں نے کِیا ۔ آپ نے کیا کِیا

میرا انگریزی میں بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter“ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ دنیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے لکھاریوں کے مندرجہ ذیل مضامین باری باری کلک کر کے پڑھیئے
Barak Obama’s Tears by George Monbiot
Sanctions on Iran by Brian Cloughley
Palestine and US Humbug by Brian Cloughley