میں پاگل ؟

کیا میں پاگل ہوں ؟

بتایئے جلدی بتایئے

کیا کہا ؟ ”نہیں“

اگر میں پاگل نہیں تو کیا وفاقی وزیرِ داخلہ ۔ وزیرِ داخلہ سندھ اور سارے پولیس والے پاگل ہیں
اگر وہ پاگل نہیں تو پھر یہ کیا ہے ؟

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس نعمت اللہ پر مشتمل بنچ کے سامنے 21 فروری 2013ء کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے دو قیدیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی ۔ سماعت جاری تھی کہ اسی مقدمے میں مفرور مجرم معروف خان عدالت میں پیش ہوا اور سزا کیخلاف اپیل دائر کی ۔ عدالت کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ آئی جی آفس میں بطور پولیس اہلکار طویل عرصے سے کام کررہا ہے جس پر عدالت نے فوری طور پر اس کی گرفتاری کا حکم دیا

غیب سے مدد

اس سلسہ میں 4 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ اور ”میں چور ؟“ لکھ چکا ہوں

میں نے کچھ طوالت کے باعث اور کچھ تواتر ٹوٹنے کے خدشہ کے تحت اپنی تحریر ”میں چور ؟“ میں چند متعلقہ ظاہر اور پسِ پردہ واقعات رقم نہیں کئے تھے ۔ ان کے ذکر سے قبل ایک اہم حقیقت

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پر کامل بھروسہ رکھا جائے اور اُسی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلا جائے تو مدد غیب سے آتی ہے ۔ اس کیلئے گناہوں سے مکمل پاک ہونا ضروری نہیں ہے

چوری سے قبل
چوری سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل جب میں پروڈکشن منیجر تھا اور جنرل منیجر کا اضافی کام نہیں کر رہا تھا جس ورکشاپ سے چوری ہوئی تھی اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”د“ میرے پاس آئے کہ دیوار میں ایک سوراخ کرنا ہے اُس کی اجازت چاہیئے ۔ سوراخ زمین سے 10 فٹ اونچا ہونا تھا پھر بھی خطرناک تھا ۔ میں جواز سے مطمئن نہ ہوا اور اجازت نہ دی ۔ پھر مجھ سے بالا بالا جنرل منیجر یا اُس سے بھی اُوپر سے یہ حُکم میرے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو دیا گیا ۔ وہ میرے پاس صرف مطلع کرنے آیا ۔ میں نے اُسے بھی منع کیا لیکن اس نے کہا ”بڑے صاحب نے حُکم دیا ہے“ تو میں نے کہا ”اگر آپ نے حُکم ماننا ہی ہے تو 18 انچ ضرب 18 انچ بہت بڑا سوراخ ہوتا ہے ۔ سوراخ پر 3 انچ کا اینگل آئرن کا فریم لگا کر اس پر اینگل آئرن اور آدھ انچ کے سریئے جو تین تین انچ پر ہوں کی کھڑکی لگائیں جسے روزانہ چھُٹی سے قبل مضبوط تالہ لگایا جائے ۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کھڑی نہیں لگائی گئی تھی اور بندوقیں اسی سوراخ کے راستے چوری ہوئی تھیں

چوری کے بعد
میری لڑکپن کے زمانہ سے عادت ہے کہ صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ہوں ۔ چوری کے 6 دن بعد بروز ہفتہ میں ابھی جاگا نہیں تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے ٹیلیفون اُٹھایا تو آواز آئی ” سر ۔ آپ بچوں کو لے کر راولپنڈی اپنے گھر چلے جائیں اور روزانہ وہیں سے بس پر آیا کریں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ نماز کے بعد میں معمول میں لگ گیا اور ٹیلیفون ذہن سے محو ہو گیا ۔ سہ پہر کے وقت اچانک ٹیلیفون پر سُنا ہوا فقرہ میرے ذہن میں اُبھرا ۔ سوچا مشورہ درست ہے ۔ اپنی بیگم سے عمل کا کہا ۔ بیگم نے ٹکا سا جواب دیا ”آپ چھٹی لے لیں اور ہمارے ساتھ راولپنڈی میں ہی رہیں ورنہ میں یہیں رہوں گی“۔

میں نے ٹیلیفون اُٹھایا اور اپنے ماتحت منیجر ”ع“ کو حُکم دے ڈالا جو مجھے بطور مشورہ ملا تھا ۔ لیکن اُنہوں نے اپنی پرانی کار کی نوک پلک درست کرنے میں اتوار کا دن ضائع کر دیا اور رات آئی تو اُٹھا لئے گے جس کا مجھے پیر کی صبح پَو پھٹنے سے قبل ڈھائی بجے پتہ چلا

منگل کی صبح میں سویا ہوا تھا کہ پھر پَو پھٹنے سے کچھ پہلے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ اُٹھایا تو آواز تھی ”سر آپ گئے نہیں ۔ اب مہربانی کریں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں باہر نکلنے سے قبل چاروں طرف دیکھ لیں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ اس کے بعد میں سویا نہیں اور اس آواز پر بہت غور کرتا رہا مگر 2 بار سُننے کے باوجود میں نہ جان سکا کون تھا ؟ آج تک مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اللہ کا بندہ کون تھا ۔ بہر حال اُس کی نصحیت پر احتیاط کے ساتھ عمل کیا ۔ اللہ کے حکم کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آزاد رہا

ہماری فیکٹری کے 6 اہلکار اُٹھائے جانے کے بعد 4 دن تک میں تن تنہا لڑتا رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام بھی میری ذمہ داری تھی اور وہ بھی 3 آدمیوں کا (اپنا ۔ جنرل منیجر کا جو چھُٹی پر تھا اور منیجر کا جو اُٹھا لیا گیا) ۔ میں کوئی پہلو کمزور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ پانچویں دن دوسری فیکٹریوں سے اسسٹنٹ منیجر اور منیجر صاحبان کے ٹیلیفون آنے شروع ہوئے ۔ پورے ادارے میں طوفان اُٹھنے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب فورمین ۔ اسسٹنٹ فورمین ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپرز اور ورکمین کی ایسوسی ایشنز کے نمائندے الگ الگ میرے پاس آئے اور ہر ایک نے مختلف الفاظ میں کہا ”جناب ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ ہم انتہائی اقدام کیلئے بھی تیار ہیں“۔ میں نے ہر ایک وفد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا”متحد رہیں اور اللہ سے بہتری کی دعا کریں ۔ اپنا کام تندہی کے ساتھ کرتے رہیں“۔

وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چلے گئے ”ہمارا ایک ایک رُکن آپ کے ساتھ ہے ۔ آج سے آپ ہمارے لیڈر ہیں”۔ میں نے دل میں کہا ”اللہ تیری شان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار کام کی تاکید کرنے کے باعث میرے ساتھ ناراض رہتے تھے“ ۔

اُنہوں نے بغیر مجھے بتائے چوکھا چندہ اکٹھا کر لیا اور مجھے قانونی چارہ جوئی کیلئے کوئی بہت بڑا وکیل کرنے کا کہا ۔ میں پہلے ہی اپنے پاس سے خرچ کر کے منیجر اور دو فورمینوں کے لواحقین سے دستخط کروا کر حبسِ بے جا کا کیس عدالت میں داخل کروا چکا تھا ۔ اُنہوں نے تحمکانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے میں نے جو خرچ کیا تھا مجھے دے دیا ۔ کیس کی پہلی پیشی ہوتے ہی سب اہلکاروں رہا کر دیا گیا تھا

ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ؟

اگلے دن منیجر ”ع“ نے بتایا ”مجھے ایک کمرے میں ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا اور ایک بڑا سا بلب روشن کر دیا گیا تھا ۔ مجھے اُونگ آ جائے تو جھٹکا دے کر جگا دیتے تھے ۔ بلب پر آنے والے بیشمار پتنگے میرے اُوپر گرتے میرے اُوپر چلتے رہتے ۔ ایک دن مجھے ایک آڈیو ٹیپ سُنائی گئی جس میں گوڈاؤن کیپر نے اقبالِ جُرم کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بندوقیں منیجر ”ع“صاحب اپنی کار میں باہر لے کر گئے تھے جس کا رنگ سفید تھا ۔ کچھ دیر بعد گوڈاؤن کیپر کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور بولے بتاؤ ان کو ۔ گوڈاؤن کیپر بولا کہ ‘آپ بندوقیں لے کر گئے تھے اپنی کار میں’ ۔ میں نے غصے سے کہا کہ ‘کیا بکواس کر رہے ہو’ ۔ وہ گوڈاؤن کیپر کو چھوڑ کر چلے گئے تو وہ زمین پر گھسٹتا ہوا آیا اور میرے پاؤں چوم کر گڑگڑا کر کہنے لگا ۔ سر مجھے معاف کر دیں ۔ دیکھیں انہوں نے میری کیا حالت بنا دی ہے ۔ میں مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ اُنہوں نے جو کہا میں نے بول دیا“۔

فورمین ”ت“ (جو باعمل مسلمان تھا) نے بتایا ”صاحب ۔ میری داڑھی کھینچتے ۔ گالیاں دیتے ۔ مجھے ننگا بھی کیا ۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ ہم رہا ہو گئے ۔ اگر ایک دن اور رہ جاتے تو میں نے اقبالِ جُرم کر لینا تھا“۔
یہ فورمین محنتی اور دیانتدار تھے ۔ میں نے کہا ”ت ؟ یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟“
وہ بولا ”ہاں صاحب ۔ ایک دن قبل اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر تم نہیں مانو گے تو کل تمہاری بیٹیوں کو یہاں لے کر آئیں گے اور اُن کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے ۔ صاحب ۔ میری 20 اور 22 برس کی بیٹیاں ہیں جن کی شکل آج تک کسی غیر نے نہیں دیکھی ۔ میں اُن کی ناموس کی خاطر اپنی جان دے دیتا“

ہفتہ عشرہ بعد میں گوڈاؤن کیپر کا حال پوچھنے گیا تو اُس نے بتایا ”سر جی ۔ میرے ٹخنوں سے رسی باندھ کر مجھے اُلٹا لٹکائے رکھتے تھے ۔ دن میں ایک بار ایک لکھے ہوئے بیان کو بلند آواز میں پڑھنے کا کہتے تھے جس کے شروع میں تھا کہ میں حلفیہ بیان کرتا ہوں ۔ میں انکار کرتا تو مجھے پھر اُلٹا لٹکا دیتے ۔ میں پانی مانگوں تو پانی میرے چہرے پر پھینکتے ۔ کئی دن لٹکے رہنے کے بعد میرا دماغ کام نہیں کرتا تھا ۔ پھر ایک دن میں نے بیان پڑھ دیا ۔ میرے ٹخنے سُوج گئے تھے اور میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ ابھی بھی میں ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتا“۔

دونوں فورمینوں نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپر اور ورکر ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ منیجر صاحب نمعلوم کس طرح صاحب لوگوں کے منظورِ نظر بن گئے ۔ ان کی خاطر میں نے اپنا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا تھا اور بعد میں یہ صاحب در پردہ میرے خلاف بڑے افسروں کو لکھ کر دیتے رہے جو مجھے کسی نے میرے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد دکھایا

مسروقہ بندوقوں کا کیا ہوا ؟
ان لوگوں کے رہا ہونے کے ایک ہفتہ بعد مجھے کسی میجر صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ اُنہیں میری اعانت کی بہت ضرورت ہے اور مجھے گھر پر ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت دے کر نہ آئے اور اگلے روز بغیر بتائے آ پہنچے ۔ مجھ سے مدد چاہی ۔ میں نے کہا میرے پاس کچھ لوگوں کی فہرست ہے اور میرا دماغ کہتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک اس چوری میں ملوّث ہے ۔ دوسرے دن میرے دفتر آ کر اُنہوں نے مجھ سے وہ فہرست لے لی

چند دن بعد میجر ”ش“ صاحب جن کا دھمکیوں والا ٹیلیفون مجھے آیا تھا نے ٹیلیفون پر معذرت کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ میں چلا گیا اور اُن کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات ہوئی ۔ چوری سے چار ہفتے بعد میجر ”ش“صاحب نے میری دی ہوئی فہرست کے مطابق دو چور بتائے اور بتایا کہ ایک وہ ہے جس کا نام میں نے سرِ فہرست لکھا تھا ۔ اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ایک درجن بندوقوں کی برآمدگی کا بھی بتایا اور کہا کہ بقیہ بندوقیں بیچ دی گئی تھیں ۔ کہنے لگے ”سر ۔ میں تو باہر کا آدمی تھا ۔ آپ کے سکیورٹی والوں ( 2 میجر) نے من گھڑت کہانی کو سپورٹ کر کے سب کچھ خراب کیا ۔ ہم تمام بندوقیں برآمد کر سکتے تھے”۔

چند ماہ بعد میجر ”ش“ نے مجھے ٹیلیفون کیا ۔ بہت مایوس لگ رہے تھے کہنے لگے ”سر ۔ برآمد ہونے والی 12 بندوقوں کے نمبر میں نے خود آپ کی دی ہوئی فہرست سے ملائے تھے ۔ وہی بندوقیں پولیس کے حوالے کی تھیں ۔ پھر تھانے میں بندوقیں کیسے بدل گئیں ؟ اور سب مجرم رہا ہو گئے “۔
میں نے کہا ”ہمارے ہاں سے تو بندوقیں پہلی بار چوری ہوئی ہیں مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ بندوقیں کہیں اور سے چوری ہو رہی ہیں“۔
یہ میجر ”ش“ صاحب کا مجھے آخری ٹیلیفون تھا جس کا آخری فقرہ تھا ”سر ۔ پتہ نہیں اس مُلک کا کیا بنے گا“۔

اعترافِ گناہ

اُس نے لکھا ہے ”جیسے ہمارے مُلک میں کُنبہ پروری کا رواج چلتا ہے کہ اپنوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ویسے ہی فوج میں بھی ہے ۔ کہا جاتا ہے بڑا حوصلے والا شخص ہے ۔ یاروں کا یار ہے ۔ دوستوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ چاہے کسی اور کا گلا ہی کیوں نہ کٹتا ہو ۔ فوج میں عام رواج ہے کہ اپنی یونٹ کے لئے سب کچھ جائز ہے ۔ جھوٹ بھی دھوکہ بھی اور چوری بھی ۔ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا ۔ یہی دستور ہے“

اُس نے لکھا ہے ”پی ایم اے میں سب پر آگے بڑھنے کی جستجو اور محنت کا دباؤ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ فوج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بجائے ایک ہی مقصد کے لئے مل جل کر کام کرنے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ سبقت لے جانے کی کاوش انسان کی سیرت کو مَسَخ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی قوت ماند پڑ جاتی ہے ۔ یہ سوچ ذرا اور گہری ہو جائے تو جھُوٹ اور فریب کو جنم دیتی ہے اور بھائی چارے کی بجائے دشمنیاں پیدا کرتی ہے ۔ کمانڈر کے کردار میں ایسے نقائص جنم لیتے ہیں کہ وہ اچھا لیڈر نہیں بن پاتا ۔ میں نے پی ایم اے میں مقابلے کے اس ماحول کے بڑے کڑوے رنگ دیکھے ہیں ۔ پھر ساری عمر فوج میں جگہ جگہ اس کے دل سوز اثرات دیکھتا رہا“۔

ایک دن اُس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے متعلق کچھ باتیں بتا دیں۔ اس نے حکومت کے کچھ وزراء کے نام لئے اور کہا ”وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کا دباؤ ہے کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری روک دی جائے“۔

امریکی فوج اور خفیہ اداروں نے تین مرتبہ اُس کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی۔ لکھتے ہیں ”کمپنی کمانڈر کورس کرنے 7 ماہ کے لئے فورٹ بیننگ (Fort Benning) گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جائن کر سکتے ہو لیکن میں نے انکار کر دیا“۔

کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لئے پھر امریکا گئے ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر اُسے امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو اُس نے ٹھکرا دی ۔ پھر کہا گیا پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لئے کام کرو ۔ اُس نے انکار کر دیا ۔ اُس نے لکھا ہے ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے ۔ سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے ۔ کامیابی بھی پاتے ہوں گے ۔ تب ہی تو سلسلہ جاری تھا“۔ اُس نے لکھا ہے ”امریکا میں اس کورس کے اختتام پر پیرو کے ایک افسر نے مجھے فری میسن تنظیم میں شامل ہونے کی آفر کی لیکن میں شامل نہ ہوا“۔

ایک دن جنرل مشرف نے بلاکر کہا کہ لاہور ریس کورس میں چھ ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام ہے طارق عزیز چاہتے ہیں تم چیف گیسٹ بن کر انعامات تقسیم کرو۔ اُس نے کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے ۔ انکار کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے

لکھا ہے کہ فوجی و سیاسی حکمران ہمیشہ امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں

یہ چند اقتباسات تھے جنرل پرویز مشرف کے دست راست اور قریبی رشتہ دار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ سے

اس کتاب کے ”پیش لفظ“ کے آغاز میں لکھتے ہیں ”فوجی نوکری کے آخری ایام تک تو کچھ ایسا نہ کیا تھا جس پر اَن مِٹ ندامت ہوتی ۔ پھر جو کچھ اس درد دل کی خاطر کرگزرا اور جس انجام پر اس ملک کو پہنچایا ۔ آج اس کے بوجھ تلے پس رہا ہوں ۔ ویسے تو زندگی میں جو بھی کیا اکیلے ہی کیا۔ کوئی ساتھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہوتا تھا لیکن جو بھی کیا وقت نے اسے پھیر دیا ۔ کچھ بھی بدلا نہیں ۔ پھر بھی مجھ سے جو بن پایا میں کرتا رہا ۔ اکیلے ہی ۔ پھر فوجی زندگی کے آخری موڑ پر قانون توڑ کر کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا ۔ پاکستان کا مطلب بھی ہماری پہچان بھی قوم کی تقدیر بھی قبلہ بھی ۔ لیکن جو بدلنا چاہا تھا جوں کا توں ہی رہا بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے اس میں اندھیرے گھول دئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء ۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا ؟ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟

یہ موصوف نے 12 اکتوبر 1999ء کو سیاسی حکومت کا تختہ اُلٹانے کا ذکر کیا ہے

جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک (30 جنوری 2013ء) میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے واضح الفاظ میں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999ء کا واقعہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اسے کی بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے اور خیال تھا کہ شاید وہ ساتھ نہ دیں ۔ اسلئے ان کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو لایا گیا ۔ اس وجہ سے تاخیر ہوئی تھی

مزید لکھا ہے کہ کرگل آپریشن کا جنرل پرویز مشرف کے علاوہ صرف 3 اور جنرلوں کو علم تھا حتٰی کہ خود لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو بھی علم نہ تھا ۔ سیاسی قیادت اور سول بیورو کریسی کو بھی علم نہ تھا ۔ آپریشن 1998٭ میں شروع کیا گیا اور وزیر اعظم (نواز شریف) کو جولائی 1999ء میں بتایا گیا تھا

میں چور ؟؟؟

اس سلسلہ میں 3 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“اور ”گھر کی مرغی ؟“ لکھ چکا ہوں

ذرائع ابلاغ کے ذریعہ واقعات کا حال ہم تک مرچ مصالحے کے ساتھ پہنچتا ہے ۔ ہماری اکثریت حقائق سے واقف نہیں ہوتی اسلئے ان ظُلم کی داستانوں کا اثر وقتی ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر ”جس تن لاگے وہ تن جانے“ والی ہے جس سے میں نے سنسنی کو دُور رکھنے کی پوری کوشش کی ہے اور نہائت اختصار سے کام لیا ہے

میں نے اپنے والدین ۔ دادا اور اساتذہ سے تین عوامل سیکھے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی کہ ان پر عمل کرنے کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں میں آج تک سر اُٹھا کے چلتا ہوں

1 ۔ جھوٹ کبھی نہیں بولنا ۔ چاہے جان جائے
2 ۔ کسی کو گالی نہیں دینا ۔ خواہ وہ کتنا ہی ظُلم کرے
3 ۔ محنت کرتے وقت اپنے سے زیادہ محنت کرنے والے کو نظر میں رکھنا اور اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سے کم مراعات والے کو یاد رکھنا

میں ادارے میں 10 سال سے زائد ملازمت کر چکا تھا اور میری عادات سے میرے ماتحت کام کرنے والوں سے لے کر افسرانِ بالا تک سب واقف ہو چکے تھے ۔ بات ہے 1973ء کی جب میں پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ ایک دن میں دفتر پہنچا تو اسسٹنٹ منیجر ”ب“ نے آ کر اطلاع دی کہ تین درجن سے زائد بندوقیں غائب ہیں ۔ جہاں کبھی کوئی چھوٹی سی چیز غائب نہ ہوئی ہو تین درجن بندوقیں غائب ہونا ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں نے کہا ”اچھی طرح دیکھ بھال کریں ۔ ہو سکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو“ ۔ لیکن ایسا نہیں تھا بندوقیں سَچ مُچ غائب تھیں ۔ میں نے قوانین کے مطابق رپورٹ تیار کی اور جا کر ٹیکنیکل چیف کو دستی دے آیا

دو دن بعد معلوم ہوا کہ ایک گوڈاؤن کیپر اور ایک ورکر کو گھر سے لے گئے تھے اور واپس نہیں آئے ۔ مزید 5 دن بعد رات کو میں سویا ہوا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے مجھے جگا دیا ۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی دیکھی تو ڈھائی بجے تھے ۔ دل میں کہا ”یا اللہ خیر “ اور ٹیلیفون کان سے لگایا ۔ ایک خاتون کی آواز تھی ”بھائیجان ۔ رات 8 بجے ”ع“ صاحب (اُس کا خاوند ۔ میرے ماتحت منیجر) کو بُلا کر لے گئے تھے کہ پندرہ بیس منٹ کیلئے آ جائیں اور اپنا بیان لکھا کر واپس چلے آئیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے”۔ میں نے اُنہیں تسلی دی کہ صبح سویرے اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کروں گا ۔ صبح ساڑھے چھ بجے اُن کے گھر جا کر پوری تفصیل حاصل کی اور پونے سات بجے دفتر پہنچا ۔ 8 بجے تک معلوم ہو چکا تھا کہ فورمین ”ت“ ۔ فورمین ”ح“ اور ایک چارج مین بھی کچھ اسی طرح ہی گھروں سے اُٹھائے گئے تھے

میں دفتر سے نکلا اور ایک سنیئر افسر ”م“ کے پاس گیا جو پہلے میرے باس رہ چکے تھے اور منیجر ”ع“ اور فورمینوں ”ت“ اور ”ح“ کو جانتے تھے ۔ ”م“ صاحب نے ساری بات سننے کے بعد مجھے کہا ”تم ایک مُجرم کے گھر گئے ۔ مُجرم کو ملنے والا بھی مُجرم ہوتا ہے“۔
میں نے ان سے کہا ”پہلے کوئی ثبوت تو دیجئے ع کے مُجرم ہونے کا ۔ ابھی تو وہ ملزم بھی نہیں ہے کہ اس سلسلہ کی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی“۔ میری یہ بات ”م“ صاحب کو بہت ناگوار گذری

واپس آیا تو میرے براہِ راست ٹیلیفون کی گھنٹی بجی جو ایمرجنسی کیلئے ہوتا ہے یا جب ٹیکنیکل چیف یا ادارے کا چیئرمین براہِ راست خود ملائے ۔ میں نے اُٹھایا تو ایک اجنبی آواز آئی
”میں میجر ”ش“ بول رہا ہوں ۔ آپ میرے پاس آئیں میں نے تفتیش کرنا ہے“۔
میں نے بتایا ”میں تین آدمیوں کا کام کر رہا ہوں ۔ کہیں نہیں جا سکتا“۔
آواز ”آپ کو میرے پاس آنا ہو گا بیان دینے کیلئے“۔
میں ”جو کچھ میرے علم میں تھا میں لکھ کر اپنے افسران کو دے چکا ہوں ۔ اب کچھ کہنے کو نہیں ہے“
آواز ”آپ کو آنا ہو گا“۔
میں ”میں اپنے افسروں یا عدالت کے حُکم پر آپ کے پاس آ سکتا ہوں ۔ میں متاءثرہ فریق ہوں بیان لینا ہے تو یہاں آ کر لیں“
آواز ”آپ کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ آپ چور نہیں ہے“
میں ”تو گویا آپ یہی دیکھنے کیلئے بُلا رہے ہیں کہ میرے ماتھے پر کیا لکھا ہے ۔ پہلے آئینہ میں دیکھ لیں کہ آپ کے ماتھے پر کیا لکھا ہے“ اور میں نے ٹیلیفون بند کر دیا

کوئی گھنٹہ بعد ٹیلیفون آیا کہ چیف ایڈمن افسر بلا رہے ہیں ۔ ان کے دفتر میں داخل ہوا ہی تھا کہ اُلٹ پُلٹ باتوں کے ساتھ رُعب ڈالنے لگے ۔ میں یہ کہہ کر چلا آیا ”یہ اہم معاملہ ہے ۔ جو کچھ پوچھنا یا کہنا ہے لکھ کر دیجئے ۔ میں لکھ کر جواب دوں گا“

واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد پی اے نے بتایا کہ ”م“ صاحب بلا رہے ہیں ۔ اُن کے دفتر پہنچا تو گویا ہوئے
”تم اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتے ہو ۔ جانتے نہیں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔ تم لوگوں کو ہڑتال پر اُکسا رہے ہو“
میں ”میں نے کسی کو ہڑتا ل کا کہا ہے اور نہ مجھ سے کسی نے ہڑتال کی بات کی ہے ۔ میں لیبر نہیں ہوں سنیئر افسر ہوں اور ہڑتالوں کے خلاف ہوں“
”م“ ”ہم نے تماری گفتگو ریکارڈ کی ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو“
میں ”وہ گفتگو مجھے بھی سنوا دیجئے تاکہ معلوم ہو کہ کون جھوٹا ہے“
”م“ ”پکی بات ہے تم نے نہیں کہا ؟“
میں ”آپ اس ریکارڈ کو دوبارہ سن لیجئے تاکہ معلوم ہو کون آپ کو دھوکہ دے رہا ہے“

پھر بہت کچھ ہوا اور بالآخر چوری ہونے کے 12 دن بعد یعنی منیجر ع کے اُٹھائے جانے کے 5 دن بعد ان اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا ۔ رہا کرنے سے قبل ان سے چیف ایڈمن افسر صاحب نے زبانی معافی مانگی اور کہا کہ سب کچھ ”نیک نیتی“ سے ہوا تھا
گوڈاؤن کیپر چل نہیں سکتا تھا ۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ ظُلم ہوا لگتا ہے تو کہا گیا کہ اُس نے بھاگنے کیلئے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تھی