قومی الميہ

درجہ اوّل ميں کامياب ہونے والے انجنيئر ۔ ڈاکٹر ياسائينسدان بنتے ہيں

درجہ دوم ميں کامياب ہونے والے ايڈمنسٹريٹر بنتے ہيں اور درجہ اوّل والوں پر حُکم چلاتے ہيں

درجہ سوم ميں کامياب ہونے والے سياستدان بن کر وزير بنتے ہيں اور درجہ اوّل اور دوم والے دونوں پر حُکم چلاتے ہيں

جو تعليم ميں ناکام رہتے ہيں جرائم پيشہ بنتے ہيں اور سياستدانوں پر حُکم چلاتے ہيں

اور جو تعليم کے قريب جاتے ہی نہيں وہ سوامی ۔ گُورُو يا پِير بنتے ہيں اور سب اُن کے تابعدار بن جاتے ہيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دعا

لوگوں کو اپنے لئے دعا کا کہنے سے بہتر ہے ایسے عمل کریں

کہ

لوگوں کے دل سے آپ کیلئے دعا نکلے

قول علی رضی اللہ عنہ

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ”

یو اے ای اور لبیا کیسے گیا

اس سلسلہ میں 6 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” اور ”کہانی کیا تھی“لکھ چکا ہوں

مئی 1975ء میں میں واہ چھاؤنی سے سرکاری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ۔ اہم کام سٹیٹ بنک میں تھا اسلئے پہلے وہاں جا کر متعلقہ افسر سے ملا ۔ اُس نے بتایا کہ بعد دوپہر 2 بجے تک کام ہو جائے گا سہ پہر 4 بجے تک لیجاجائیں ۔ میں کچھ کاموں سے فارغ ہو کر 4 بجے پہنچا تو ماتحت افسر نے بتایا کہ وزارتِ مالیات میں اچانک ایک اعلٰی سطح کی میٹنگ ہو گئی ہے اور صاحب وہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کے دستخط ہونا باقی ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا ”کوئی اور کام آپ نے کرنا ہے تو کر آئیں ۔ ہم تو روزانہ مغرب (6 بجے) کے بعد بھی یہیں ہوتے ہیں“۔ سب کام ختم کر کے میں سوا 6 بجے پہنچا اور مطلوبہ دستاویز لے لی ۔ ماتحت افسر نے راستے میں روک کر بتایا ”آپ کے ادارہ کے ایک افسر ایک گھنٹہ آپ کی انتظار میں بیٹھ کر گئے ہیں ۔ آپ منسٹری آف ڈیفینس میں سیکریٹری صاحب آپ کی انتظار میں ہیں“۔ میرے لئے یہ عجوبہ تھا کہ سیکریٹری صاحب بغیر پیشگی اطلاع کے میری انتظار میں بیٹھے ہیں

خیر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ”منسٹری چلو“۔ ڈرائیور نے پریشان ہو کر کہا ”سر ۔ خیریت تو ہے ؟“ میں نے پتہ نہیں کہہ کر اُسے چلنے کا اشارہ کیا ۔ منسٹری کے گیٹ پر پہنچے تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوا جیسے میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم تھا ۔ ایک صاحب مجھے ہاتھوں ہاتھ سیکریٹری صاحب کے دفتر لے گئے ۔ سیکریٹری صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”آپ آئے نہیں ؟“۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں مجھے کیوں بُلایا گیا ہے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بولے ”کیا آپ نے فلاں کام نہیں کئے تھے اور فلاں رپورٹ نہیں لکھی تھی ؟“ میں نے ہاں میں جواب دیا تو بولے ”آپ نے پرسوں صبح سویرے ساڑھے 4 بجےیو اے ای روانہ ہونا ہے ۔ جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس جائیں میں نے اُنہیں سمجھا دیا ہے“۔

میں نے جوائنٹ سیکریٹری صاحب کو بتایا کہ میرا پاسپورٹ بھی بنوانا ہے ۔ وہ بولے ”فکر نہ کریں جتنا وقت آپ کی تلاش میں لگا اس دوران یہ انتظامات کر لئے تھے اب آپ کے کوائف درج کر کے فنانشل ایڈوائزر سے منظوری لے کر نوٹیفائی کرنا ہے ۔ ٹائپسٹ سارے چھٹی کر چکے تھے ۔ ڈپٹی سیکریٹری صاحب نے نوٹیفیکیشن ٹائپ کیا ۔ دستخط کئے اور سائکلوسٹائل کر کے 3 کاپیاں 8 بجے رات میرے ہاتھ پکڑائیں ۔ میں جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا ”امیریکن ایکسپرس میں آدمی آپ کی انتظار میں ہے ۔ اُس سے 500 ڈالر لیتے جائیں“۔

واپسی پر میں نے اس افسر کو اپنے ساتھ بٹھا لیا جو مجھے تلاش کرتا رہا تھا ۔ اُس نے بتایا ”سر ۔ بنیادی طور پر آپ نے جانا تھا بطور ٹیم لیڈر ۔ باقی فوجی افسران اور فوجی تھے ۔ پھر ٹیم بنائی گئی اور مجھے بطور آپ کے نائب کے اور آپ کی فیکٹری کے ایک مستری کو ڈالا گیا۔ جب جانے کے دن قریب آئے تو آپ کا نام غائب تھا اور سربراہ کے طور پر جوائنٹ سیکریٹری صاحب تھے اور اُن کی بیگم بھی جا رہی تھیں ۔ میٹنگ میں آتے ہی سیکریٹری صاحب نے کہا ”وہ ۔ وہ کہاں ہیں ؟ جس نے سارا کام کیا ہے ؟ اُس کے نام کے ساتھ ایک خاص لفظ ہے” ہمارے چیئرمین سمیت کوئی نہ بولا”۔ کرنل ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ”سر آپ مسٹر بھوپال کی بات کر رہے ہیں ؟ اس کا تو ٹیم میں نام ہی نہیں ہے”۔ سیکریٹری صاحب یہ کہتے ہوئے کانفرنس ہال سے اُٹھ کر چلے گئےکہ بھوپال کو لائیں جہاں کہیں بھی ہے ۔ میں اُس کے آنے تک یہیں ہوں ۔ آپ کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی مجھے دی گئی ۔ میں نے آپ کے دفتر ٹیلیفون کیا تو پی اے نے بتایا کہ آپ راولپنڈی میں ہیں اور جہاں جہاں جائیں گے اُس کی تفصیل بتائی ۔ میں جہاں جاتا آپ وہاں سے جا چکے ہوتے ۔ آخر سٹیٹ بنک میں معلوم ہوا کہ آپ دوبارہ آئیں گے“۔

دوسرے دن صبح 8 بجے فوٹوگرافر میرے دفتر آیا اور میری تصویر کھینچ کر چلا گیا ۔ ایک ہیڈکلرک آیا اور ایک فارم پر میرے دستخط کروا کر لے گیا ۔ شام مغرب سے پہلے وہ مجھے میرا نیا پاسپورٹ دے گیا ۔ اگلے روز صبح ساڑھے 4 بجے جوائنٹ سیکریٹری اُن کی بیگم ۔ ایک کرنل ۔ مجھے ڈھونڈنے والا اسسٹنٹ منیجر اور میں چکلالہ سے سی 130 میں کوئٹہ روانہ ہوئے ۔ کوئٹہ سے 2 میجر اور کچھ فوجی سوار ہوئے اور ہم جا پہنچے دبئی ۔ پوری ٹیم میں صرف میں تھا جسے تمام تکنیکی معلومات تھیں ۔ فوجیوں نے ڈَیمنسٹریشن کا متعلقہ کام کرنا تھا لیکن تینوں فوجی افسروں نے کہا کہ میں ہی ساری مینجمنٹ کروں ۔ چنانچہ سب نے مل کر میری مدد کی اور دبئی کے چند فوجیوں نے بھی ہماری مدد کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ہمیں متعلقہ کام میں کامیاب فرمایا

لبیا بھی مجھے حکومت نے ہی بھیجا تھا جس کی کچھ اسی طرح کی کہانی ہے لیکن اُس میں مجھے نقصان یہ ہوا کہ مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک میری عدم موجودگی کو بہانہ بنا کر مجھے ترقی نہ دی گئی اور مجھ سے جونیئر 14 افسران کو ترقی دے کر مجھ سے سینیئر کر دیا گیا ۔ یہ خلافِ قانون تھا ۔ شاید اسی لئے مجھے اس کی خبر نہ ہونے دی گئی ۔ واپس آ کر میں نے اس کے خلاف اپیل کی مگر تحریری یاد دہانیوں کے باوجود سال بھر کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے سیکریٹری کو اپیل بھیجی ۔ منسٹری نے ہمارے ادارے سے پوچھا جس جواب سال بعد دیا گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔ پھر میں نے سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کر دیا جس کا فیصلہ 5 سال بعد 1991ء میں اس وقت ہوا جب میں ایل پی آر پر تھا ۔ ہمارے مُلک کا قانون ہے کہ ایل پی آر کے دوران مالی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دوبارہ سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کروں تو پنشن میں فائدہ ہو جائے گا ۔ لیکن مجھ میں پھر 8 سال کے چکر میں پڑنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ دوسری بار ہو چکا تھا اور مجھے سوائے ان کی تیمار داری کے کسی کا ہوش نہ تھا

معذرت

محترمات قاریات و محترمان قارئین
السلام علیکم
سائنس بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے (گو انسانیت تنزل پذیر ہے) چنانچہ میرے اس بلاگ کے خد وخال پرانے زمانے میں شمار ہونے لگے تھے ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا کو میرا پرانا ہونا پسند نہیں اسلئے اپنی دوسری مژروفیات کت ساتھ ساتھ میرے بلاگ کی تجدید میں مصروف ہے

بایں وجوہ کوئی کوفت کا سامان پیدا ہو تو اس کیلئے پیشگی معذرت کر رہا ہوں

اُمید

میں نہیں جانتا لکھنے والا کون ہے ۔ میں نے کہیں یہ نظم پڑھی ۔ بار بار پڑھی ۔ اور ہر دم دل کی گہرائیوں سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا نکلتی رہی ”یا میرے مالک و خالق ۔ ایسا ہو جائے ۔ یا رب ذوالجلال والاکرام ۔ ایسا جلد ہو جائے ۔ اور یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرما“۔
اُمید کرتا ہوں کہ قارئین بھی صدق دل سے یہی دعا کریں گے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔ اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔ اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔ اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔ اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔ اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔ اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے ۔ دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔ جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔ یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اک بستی بسنے والی ہے

کہانی کیا تھی؟

قبل ازیں ”میں چور ؟” اور ”غیب سے مدد“ کے عنوانات سے ایک واقعہ مع پس منظر اور پیش منظر بیان کر چکا ہوں ۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے ۔ کہانی جس پر تفتیش شروع کی گئی یہ تھی

مُخبر نے بتایا ”اجمل بھوپال نے منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فورمین ”ح“ نے مدد کی ۔ گوڈؤن کیپر اور اُس کا ہیلپر(Helper) ہفتے کو ورکشاپ کے اندر ہی رہے ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منیجر ”ع“ اپنی سفید کار میں فورمین ”ت“ کو ساتھ لے کر آیا ۔ اندر سے بندوقیں گوڈؤن کیپر اور اس کے مددگار نے نکالیں ۔ چارجمین نے بندوقیں کار میں رکھنے میں مدد دی“

مُخبر کون ؟
متذکرہ بالا کہانی کا مُصنّف اور مُخبر ایک بدنامِ زمانہ ورکر تھا جو فیکٹری میں لیڈر بنا پھرتا تھا اور کاروبار اس کا تھا کہ ٹھرا (دیسی شراب) بیچتا تھا اور جُوے کا اڈا چلاتا تھا ۔ ایک بار اسے فیکٹری کے اندر جوا کھلاتے پکڑا گیا تھا ۔ میرے پاس لائے تو میں نے اُسے سخت تنبیہ کی تھی اور اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”ع“ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نظر میں رکھے جب تک وہ اپنا چال چلن درست نہ کر لے ۔ منیجر ”ع“ اُن دنوں اسسٹنٹ منیجر تھا ۔ فورمین ”ح“ اُس ورکشاپ کا فورمین تھا اور مُخبر کا بھی ۔ فورمین ”ت“ کا اس ورکشاپ سے تعلق نہ تھا مگر وہ نہ غلط کام کرتا تھا نہ کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ چارجمین کا بھی اس ورکشاپ سے کوئی تعلق نہ تھا

حقیقت
ہمارے لوگوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ کوئی کہے ”کُتا تمہارا کان لے گیا“ تو کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کان موجود ہے یا نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ہندوستان پر قابض انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ نظامِ پولیس جاری ہے جو کہ مزید خراب ہو چکا ہے ۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پھندا کس کے گلے میں ڈالنا ہے پھر ایک کہانی بنائی جاتی ہے اور اس کہانی کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے

موازنہ
اگر کوئی متذکرہ بالا کہانی کے حوالے سے زمینی حقائق پر سرسری نظر بھی ڈالتا تو کہانی غلط ثابت ہو جاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ

1۔ منیجر ”ع“ کے پاس کالے رنگ کی کار تھی اور وہ فیکٹری کار پر نہیں آتا تھا ۔ سفید کار جنرل منیجر کے پاس تھی جو کار پر فیکٹری آیا کرتا تھا مگر ان دنوں چھٹی پر تھا اور شہر سے باہر گیا ہوا تھا
2۔ ویپنز فیکٹری کے چاروں طرف خاردار تار کی دبیز باڑ لگی ہوئی تھی ۔ اس باڑ میں سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اسے کاٹا جائے اور یہ کہیں سے کٹی ہوئی نہیں تھی
3۔ صرف ایک گیٹ تھا اور اس پر فوج کا پہرا ہوتا تھا ۔ اوقاتِ کار کے دوران اس فیکٹری کے ملازمین پاس دکھا کر اندر آ سکتے تھے ۔ اوقاتِ کار کے بعد اُنہیں آرڈرلی آفیسر (Orderly) کو ساتھ لے کر آنا پڑتا تھا جو کہ تمام فیکٹریوں کا صرف ایک ہوتا تھا اور بغیر اچھی طرح چھان بین کے اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر اجازت دے تو اس کا اندراج وہ اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں کرتا اور گیٹ کیپر اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں ۔ مگر ایسا کچھ موجود نہ تھا
4۔ متذکرہ بالا باڑ کے علاوہ پی او ایف کے گرد 8 فٹ اُونچی دیوار تھی ۔ 3 گیٹ تھے ۔ اوقاتِ کار کے دوران پاس دکھا کر ان میں فیکٹری میں داخل ہوا جا سکتا تھا لیکن اوقاتِ کار کے بعد باقی گیٹ پکے بند ہو جاتے تھے صرف مین گیٹ کھولا جا سکتا تھا جہاں گیٹ سٹاف کے ساتھ سیکیورٹی والے اور فوجی بھی موجود ہوتے تھے ۔ ان دنوں میں اوقاتِ کار کے بعد نہ کوئی داخل ہوا اور نہ باہر نکلا تھا
5۔ ورکشاپوں کے تمام دروازوں کو بڑے بڑے تالے لگا کر چابیاں مین گیٹ پر جمع کرادی جاتی ہیں ۔ اوقاتِ کار کے بعد صرف آرڈرلی آفیسر مین گیٹ کے رجسٹر پر اندراج کر کے چابیاں لے سکتا ہے اور اس کیلئے معقول وجہ لکھنا ہوتی تھی ۔ مگر کسی نے چابیاں نہیں لی تھیں اور چوری کے بعد اگلے دن چابیاں ویپنز فیکٹری کا نمائندہ مین گیٹ سے لے کر آیا تھا

مندرجہ بالا حقائق ثابت کرتے ہیں کہ متذکرہ بالا کہانی بالکل غلط اور بے تُکی تھی اور اشارہ دیتے ہیں کہ مین گیٹ پر مامور لوگوں میں سے کوئی چور یا چور کا معاون تھا

چوری کیسے ہوئی اور کیسے پکڑی گئی ؟
پچھلی تحریر میں ورکشاپ کی دیوار میں سوراخ کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اس سوراخ والی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف سیڑھی لگائی گئی تھی ۔ اس سوراخ میں سے چادر کے ساتھ لٹک کر ایک آدمی جس کا شانہ 18 انچ سے کم تھا ورکشاپ میں اُترا اور بندوقیں چادر کے ساتھ باندھ باندھ کر باہر بھجواتا رہا ۔ تمام بندوقیں سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر پی او ایف کے اندر ہی مارشلنگ یارڈ میں چھُپا دی گئیں اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر سیکیورٹی والوں کا ڈرائیور پی او ایف سے باہر لے جاتا رہا تھا

ورکشاپ میں اُترنے والا وہی ورکر تھا جس کا نام میری دی ہوئی 7 مشکوک آدمیوں کی فہرست میں سب سے اُوپر تھا ۔ مجھے متعلقہ ورکشاپ کے سینئر مستری ۔ چارجمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور فورمین نے اپنی اپنی سوچ اور تحقیق کے مطابق کُل 15 نام دیئے تھے ۔ میں نے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تبادلہ خیال کیا اور 8 نام فہرست میں سے نکال دیئے تھے ۔ بقایا 7 میں سرِ فہرست ایک لیبر کا نام تھا جو سینئر مستری نے دیا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ نوجوان حُکم دیئے جانے کے باوجود کبھی ڈانگری نہیں پہنتا تھا اور عام طور پر کام کا وقت شروع ہونے کے ایک سے 5 منٹ بعد آتا تھا ۔ چوری کے بعد والے دن صبح وہ کام کے وقت سے کچھ منٹ پہلے ہی آ گیا ۔ اُس نے ڈانگری پہنی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر مچھروں کے کاٹنے کے نشان تھے جس کا بہانہ بنا کر وہ چھٹی لے کر چلا گیا تھا ۔ مستری کا خیال تھا کہ بندوقیں چوری کر کے مارشلنگ یارڈ میں چھپائی گئی ہوں گی جہاں مچھر بہت ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس نے ڈانگری پہنی اور وہیں سے اسے مچھروں نے کاٹا

مستری کا خیال درست تھا ۔ 2 ہفتے بعد جب میرے بتائے ہوئے کے مطابق تفتیش شروع کی گئی تو 12 بندوقیں مارشلنگ یارڈ سے ہی ملی تھیں ۔ باقی قبائلی علاقہ میں بیچ دی گئی تھیں جن میں سے 3 پیسے دے کر واپس لی گئیں اور باقی کا کچھ پتہ نہ چلا تھا