سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیادی وجہ

سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا

اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں ،کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش علاقائی آزادی کی تحریکیں اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں،

اسی طرح کی صورتحال بہت سے نوآزاد یا ترقی پذیر ممالک کے علاوہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی وفاقی یا مرکزی حکومت پر بے انصافی کے الزامات لگے رہتے ہیں، بہت سے نو آزاد ممالک کے صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوامل کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بناء پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے اور نہ ہی آزاد۔ سکھوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہندوستان نے اسے کچل کر رکھ دیا مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ تو ڑے جارہےہیں پھر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟

ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا،مشرقی پاکستان آبادی میں 56 فیصد تھا اس لئے جمہوری اصولوں کی روشنی میں پیرٹی یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔
یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں پیرٹی پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالیہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں جذبات کی رومیں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر 1954ء میں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کرکے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی

اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی تفصیل میری کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں موجود ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے پروگراموں میں1956ء کے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ1956ء کا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گُرو بھی تھے

دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ (After thought) ہیں، اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا پھرتو یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لاء اور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود وہ اقتدار حاصل کرسکیں گے لیکن ایوبی مارشل لاء نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلادیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، پھر ایوبی مارشل لاء کی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔’’پاکستان سے بنگلہ دیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے1969ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے ۔ شیخ مجیب الرحمن جب 1972ء میں رہائی پاکر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کررہا تھا

16 نومبر2009ء کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی۔ حسینہ واجد کا بیان عینی شاہد کا بیان ہے۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب 1956ء کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کردیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اور ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کے لئے مجیب الرحمن سے ساز باز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوس اقتدار کے تحت کئے گئے تھے

یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کے لئے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی ،چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو بہت کمزور کردیا تھا

16 دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ”وہ بنیادی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دو تہائی بارڈر کا مشترک ہونا“۔

فرض کیجئے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور سیاسی مدد ملتی، اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا، ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کرکے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا، آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی کردار کشی کرتا، روس جیسی سپر پاور کو اندرونی معاملے میں شا مل کرتا اور روس سے بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا کیا وہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی لئے سولہ دسمبر 1971ء کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا

بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں جن کا جتنا بھی ماتم کیا جائےکم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھیئے اسے آئندہ بھی موقع ملا تو باز نہیں آئے گا ۔ یہ بھی یقین رکھیئے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹے ہیں۔ میں ہمسایہ ممالک بشمول ہندوستان سے اچھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے حق میں ہوں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امن ہماری ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ کو بھلادیا جائے کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں فراموش کردیتا ہے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ہونی

جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے
اُسی وقت جب اُس نے ہونا ہوتا ہے
اور اُسی طرح جس طرح ہونا ہوتا ہے

اس پر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا
البتہ پریشان ہونے سے نقصان ہو سکتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Drone Summit

میری کہانی ۔ مالیات

والد صاحب نے1948ء میں راولپنڈی فائر کلے برکس (Fire clay bricks) کا ایک کارخانہ لگایا ۔ جموں کشمیر کے مہاجر ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی شہریت حاصل نہ تھی چنانچہ کارخانہ کیلئے زمین 25 فیصد منافع کا حصہ دار بنانے کی شرط پر ایک مقامی شخص کی استعمال کی گئی ۔ والد صاحب نے پاکستان بننے سے کچھ قبل یورپ میں اس کام کا مطالعہ اور عملی مشاہدہ کیا تھا ۔ ان اینٹوں کیلئے پاکستان میں مٹی کی تلاش کی اور مختلف علاقوں سے نمونے لے کر جرمنی بھیجے جن میں سے داؤد خیل کا نمونہ سب سے اچھا پایا گیا ۔ اواخر 1949ء میں پیداوار شروع ہوئی تو پاکستان میں پہلی ہونے کے باعث بہت سے آرڈر ملنے شروع ہو گئے جس نے زمین کے مالک کو چُندیا دیا اور اُس نے منافع میں 50 فیصد کا مطالبہ کر دیا ۔ ایسا نہ ہونے پر اپنی زمین سے کارخانہ اُٹھانے کا نوٹس دے دیا ۔ والد صاحب کا منیجر نمعلوم کیوں اُن کے ساتھ مل گیا اور تمام دستاویزات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ چنانچہ والد صاحب کو کارخانہ چھوڑنا پڑا ۔ منہ کے بل تو پاکستان بننے پر گرے تھے لیکن اُٹھنے کے بعد پاکستان میں ہمیں پہلی زوردار ٹھوکر یہ لگی

والد صاحب نے 1950ء کے شروع میں ایک دکان کرایہ پر لی اور کار و بار شروع کیا ۔ وہ صبح پونے 8 بجے گھر سے جاتے اور شام 7 بجے لوٹتے ۔ جمعہ کو چھٹی ہوتی مگر ہر ماہ 2 بار جمعرات کی رات لاہور مال لینے جاتے اور جمعہ کی رات کو واپس پہنچتے ۔ یکم اپریل 1950ء کو والد صاحب نے مجھے 500 روپے دے کر کہا کہ ”پورے ماہ کا خرچ ہے ۔ اگر مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم کر دو گے تو باقی دن بھوکے رہیں گے اور اگر کچھ بچا لو گے تو اگلے ماہ بہتر کھا لیں گے”۔ میری اصلی عمر اُس وقت ساڑھے 12 سال تھی (سرکاری ساڑھے 11 سال) اور میں ساتویں جماعت کے بعد آٹھویں میں بیٹھا ہی تھا ۔ یہ رقم کھانے پینے کی و دیگر اشیاء ضروریہ ۔ جلانے کی لکڑی ۔ بجلی اور پانی کا بل ۔ سکول کی فیسیں ۔ کتابیں ۔ کاپیاں وغیرہ سب کیلئے تھی

چھوٹا موٹا سودا تو پہلے بھی میں لاتا رہتا تھا لیکن اب پورا سودا لانا میرے ذمہ ہو گیا ۔ میں ہفتہ میں تین چار بار سبزیاں راجہ بازار کے بازو والی سبزی منڈی سے اور پھل گنج منڈی کے اُس سرے سے لاتا جو رتہ امرال کی طرف ہے ۔ دالگراں بازار سے چاول اور دالیں مہینہ میں ایک بار لاتا ۔ 4 سال یہ سب کام پیدل ہی کرتا رہا

اپریل 1950ء میں 2 بہنیں مجھ سے بڑی اور چھوٹے 2 بھائی اور ایک بہن تھے جبکہ اپریل 1953ء تک چھوٹی 2 بہنیں اور 3 بھائی ہو گئے تھے ۔ کہا گیا کہ ایک بڑی بہن ۔ ایک چھوٹی بہن اور 2 چھوٹے بھائیوں کو جیب خرچ دیا کروں جو میں نے دینا شروع کر دیا ۔ ایک دن کوئی چیز خریدنے کو میرا دل چاہا تو رات کو والد صاحب سے پوچھا ”میں بھی جیب خرچ لے لوں ؟“ جواب ملا ”سارے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں ۔ خود کھاؤ یا گھر کا خرچ چلاؤ ۔ تمہاری مرضی“۔ اکتوبر 1956ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور چلے جانے پر میری یہ ذمہ داری تو ختم ہو گئی لیکن یکم اپریل 1950ء کے بعد ساری عمر مجھے جیب خرچ نہ کبھی ملا اور نہ پھر مانگنے کی جراءت ہوئی

دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع ہوئی تو چھوٹے بہنوں بھائیوں کی تعلیم کا خرچ میرے ذمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اُن کی شادیوں کے اخراجات میں والد صاحب کی مدد بھی لازم تھی ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی ۔ جنوری 1968ء میں والدین کی ھدائت پر میں بیوی کو لے کر واہ چھاؤنی میں سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہو گیا ۔ 7 دسمبر 1970ء کو جس دن پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے اللہ کریم نے مجھے بیٹا (زکریا) عطا کیا ۔ فروری 1975ء ختم ہونے تک اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں کا باپ بنا دیا تھا

مئی 1976ء میں مجھے حکومت نے لبیا بھیج دیا جہاں سے یکم فروری 1983ء کو واپسی ہوئی ۔ درمیان میں ہر 2 سال بعد 2 ماہ کی چھٹی گذارنے راولپنڈی آتے رہے ۔ 29 جون 1980ء کو والدہ محترمہ اچانک فوت ہو گئیں تو میں اکیلا ہی آ سکا ۔ 1982ء میں ہم راولپنڈی آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے کہا ”اب تم مجھے کوئی پیسہ نہ بھیجنا”۔ لیکن یہ ذمہ داری اکتوبر 1984ء میں ختم ہوئی جب میں دوبارہ واہ چھاؤنی میں رہائش پذیر ہوا

میں نے واہ میں سرکاری رہائشگاہ والد صاحب کے اصرار پر لی کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری سب سے چھوٹی بہن راولپنڈی سیٹیلائٹ ٹاؤن والے مکان میں رہے ۔ میں والد صاحب کو ساتھ واہ لیجانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ والد صاحب پر 1987ء میں فالج کا حملہ ہوا تو میں اپنی سب سے بڑی بہن کی مدد سے اُنہیں اپنے پاس واہ چھاؤنی لے گیا ۔ گھر میں والد صاحب کی خدمت کیلئے وقت اور محنت درکار تھی ۔ دفتر میں ایک محکمہ کا سربراہ ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ عیاریوں اور منافقتوں کا ماحول تھا ۔ میں نے باپ کی خدمت کو درست جانتے ہوئے قوانین کے مطابق 1990ء میں یکم مارچ 1991ء سے سوا سال کی چھٹی کے ساتھ 3 اگست 1992ء سے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی ۔ والد صاحب کو علاج کیلئے کبھی ہفتہ کبھی 2 ہفتے بعد اسلام آباد لانا پڑتا تھا جس سے والد صاحب بہت تھک جاتے تھے ۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو جو سرجن ہے اور اُن دنوں انگلستان میں تھا کہا کہ واپس آ جائے اور اسلام آباد اپنے مکان میں رہ کر والد صاحب کو اپنے پاس رکھے ۔ وہ 1990ء میں آ گیا اور میں نے والد صاحب کو اُس کے پاس چھوڑ دیا ۔ جون 1991ء کے آخر میں چھوٹا بھائی اپنا سامان لینے انگلستان گیا تو میں والد صاحب کو پھر اپنے پاس واہ لے گیا ۔ 2 جولائی کو والد صاحب اچانک فوت ہو گئے

اللہ کی کرم نوازی ہمیشہ شامل حال رہی اور میرا دل یا پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے ۔ اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بے حساب نوازشات کرتا ہے

دل کا داغ جو مٹ نہ سکا

کچھ اصحاب کی خواہش پوری کرتے ہوئے میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا
کچھ اصحاب کے کی خواہش پر میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں

13 دردوں کے علاج آپ کے گھر موجود

1 ۔ ڈنمارک کے محققین کے مطابق پٹھوں کی سوزش اور جوڑ درد کیلئے ہنڈیا میں روزانہ 2 چائے کے چمچے کُتری ہوئی ادرک یا ایک چائے کا چمچہ خُشک ادرک کا سفوف ڈال کر کھانے سے 60 فیصد افاقہ ہوتا ہے
.
.
.
.
.
.
2 ۔ دانت میں درد سے عارضی سکون پانے کیلئے درد والے دانت پر ایک الونگ رکھ کر آہستہ آہستہ چبائیے 2 گھنٹہ تک آرام رہے گا
.
.
.
.
.
.
3 ۔ کھانے میں لہسن کا استعمال ہائی بلڈ پریشر سے بچاتا ہے ۔ ھائی بلڈ پریشر ہو تو کچے لہسن کی ایک پھانک یا تُری روزانہ کھایئے ۔ بلڈ پریشر میں کمی آئے گی ۔
University of New Mexico School of Medicine کے ماہرین کے مطابق کان میں درد کیلئے لہسن کے تیل کے دو قطرے صبح شام 5 دن کان میں ڈالنے سے کان درد سے چھٹکارا مل سکتا ہے
.
.
.
.
.
.
4 ۔ East Lansing ‘s Michigan State University کے محققین کے مطابق روزانہ 20 دانے گلاس (Cherries) کھانے سے جوڑوں اور سر کے درد میں افاقہ ہو سکتا ہے
.
.
.
.
.
5 ۔ آنتوں کی سوزش ۔ پیٹ درد اور بل پڑتے ہوں تو کورٹی سٹیرائیڈز کی بجائے ہفتے میں ایک کیلو گرام مچھلی کھایئے ۔ افاقہ ہو گا ۔ مچھلی میں سالمن ۔ سارڈینز ۔ ٹُونا ۔ میکریل ۔ ٹراؤٹ اور ھَیرِنگ بہتر ہیں
.
.
.
.
.
.
.
6 ۔ خواتین کو قدرتی نظام کے تحت ماہانہ تکلیف سے گذرنا پڑتا ہے New York Columbia University کی گائناکالوجی کی پروفیسر Mary Jane Minkin, M.D. کے مطابق روزانہ 2 کپ قدرتی دہی کھانے سے ان کی تکلیف میں 48 فیصد کمی آ سکتی ہے
.
.
.
.
.
.
.
7 ۔ غذا کے ماہر محقق Julian Whitaker, M.D. کے مطابق روزانہ پسی ہوئی ہلدی چائے کا چوتھائی چمچہ ہنڈیا میں ڈال کر پکا کھانا کھانے سے دائمی درد میں افاقہ ہو گا ۔ یہ نسخہ اسپرین ۔ بروفین یا ناپروکسن کھانے سے بہتر ہے
.
.
.
.
.
8 ۔ Ohio State University کے مطابق روزانہ ایک بھرا ہوا کپ انگور کھانے سے کمر کے درد میں افاقہ ہوتا ہے
.
.
.
.
.
9 ۔ جرمن محققین کے مطابق سُہانجنا یا مُنگا کی جڑ سے sinusitis کا علاج ہو سکتا ہے ۔ ایک چائے کا چمچہ صبح شام ایسے ہی یا گوشت پر یا سینڈ وِچ پر لگا کر جب تک آرام نہ آئے کھاتے ریئے
.
.
.
.
.
.
10 ۔ Rutgers University کی سائنسدان Amy Howell, Ph.D. کے مطابق اگر ایک کپ تازہ نیلے بیر (blueberries) یا جمے ہوئے روزانہ کھانے یا ان کا رَس (juice) پینے سے urinary tract infection سے 60 فیصد بچاؤ ہو سکتا ہے
.
.
.
11 ۔ منہ اندر سے پک جائے تو خالص شہد دن میں 4 مرتبہ لگایئے
.
.
.
.
.
.
.
.
.
12 ۔ اگر ٹانگ کی رگ چڑھ جاتی ہو جسے انگریزی میں cramps کہتے ہیں جو کہ بہت تکلیف دہ ہوتی ہے تو روزانہ 250 ملی لیٹر یعنی چوتھائی لیٹر ٹماٹروں کا رَس پیجئے

13 ۔ امریکا کی National Headache Foundation کے مطابق تو تیز کافی پینے سے مِیگرین (migraine) کے علاج کی دواؤں کا اثر 40 فیصد تیز ہو جائے گا
لیکن
میرا ذاتی تجربہ مِیگرین کا مکمل اور پائیدار علاج ہے جس کیلئے نہ ڈاکٹر کی فیس دینا پڑے اور نہ مہنگی دوائیاں خریدنا پڑیں ۔ کوئی 17 سال قبل مجھے شدید سر درد کی شکائت ہوئی جو مہینے میں 2 بار ہونا شروع ہوئی ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مِیگرین ہے اور دوا دے دی لیکن سر درد بڑھتے بڑھتے ایک سال بعد مہینے میں 4 بار ہونے لگی ۔ نیورو سرجن کے بعد نیورو فزیشن کے پاس پہنچا ۔ اس نے دوا دی اور چاکلیٹ ۔ کیلا اور چاول کھانا اور کافی ۔ پیپسی اور کوکا کولا پینا منع کر دیا ۔ لیکن بمِثل ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” 2 سال بعد مجھے ہفتہ میں دو بار مِیگرین ہونا شروع ہو گئی ۔ اتفاق سے دفتر کے ایک پرانے ساتھی سے ملاقات ہو گئی جسے کسی زمانہ میں مِیگرین نے بہت تنگ کیا ہوا تھا ۔ اس سے احوال دریافت کیا تو اس نے جواب دیا “الحمدللہ اب ٹھیک ہوں ۔ بہت علاج کر کے مایوس ہو چکا تھا کہ کسی نے دیسی نُسخہ بتایا جس کے استعمال سے سر درد ہمیشہ کیلئے جاتا رہا”۔

وہ نسخہ یہ ہے ۔ برابر مقدار میں سفید زیرہ اور سؤنف علیحدہ علیحدہ پیس کر اچھی طرح ملا لیجئے ۔ اس کا ایک چائے کا بھرا ہوا چمچہ ہر کھانے کے بعد 6 ماہ تک کھایئے ۔ میں نے سفید زیرہ اور سؤنف 3 ماہ متواتر کھایا پھر کبھی کبھی کھاتا رہا کیونکہ چَسکا پڑ گیا تھا اللہ کے فضل سے مِیگرین ایسی گئی کہ یاد نہیں ہوئی بھی تھی

میں فقیر نہیں ہوں

راشد ادریس رانا صاحب نے اپنے بلاگ پر ایک تحریر نقل کی جسے میں نیچے دُہرا رہا ہوں ۔ میری تمام قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ دولت کسی وقت بھی چھن سکتی ہے اور زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کہ کب اچانک ختم ہو جائے اسلئے آج ہی سے اپنے عزیز و اقارب ۔ محلے داروں ۔ ملنے والوں اور چلتے پھرتے نظر آنے والوں کو ذیل میں درج واقعہ کے راوی کی نظر سے دیکھا کیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ سے قریب ہی کوئی خاندان ایسا ہو گا جو بظاہر ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہیں یعنی اپنا بھرم کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ فوری مدد کے مستحق ہیں ۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جلد مدد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ خاموشی سے کی ہوئی آپ کی امداد آپ کی دسترس میں کمی کرنے کی بجائے اِن شاء اللہ اسے اور بڑھا دے گی کیوں کہ اللہ ایک کے بدلہ میں 10 سے 100 تک دیتا ہے ۔ اُنہیں تو اللہ نے پال ہی دینا ہے تو کیوں نا اس نیکی کو آپ اپنے نام لکھ لیں
درجِ ذیل واقعہ کو اِنہماک سے پڑھیئے اور اپنا مستقبل درست کرنے کی کوشش کیجئے لیکن اس سے پہلے میری 3 دسمبر 2013ء کی تحریر پر نظر ڈال لیجئے

واقعہ
مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ایک معصوم سے چہرے پر نظر پڑی ۔ عمر یہی کوئی 14 یا 15 سال ہوگی ۔ پر پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی اس کے چہرے پر کہ میں رُک کر اُسے دیکھنے لگا اور ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے مجھے وہ نہ دیکھ پائے ۔ وہ بچہ باہر نکلتے ہوئے جھجک رہا تھا ۔ نمازیوں نمازیوں کی طرف قدم بڑھاتا پھر پیچھے ہو جاتا ۔ میں سمجھ گیا کہ اس لڑکے کو ضرور کوئی ممسئلہ درپیش ہے ۔

خیر آہستہ آہستہ نمازی مسجد سے باہر نکل گئے ۔ وہ لڑکا دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر پیٹھ گیا اور زمین پر اپنی اُنگلیوں سے آڑھی ترچھی لکیریں بنانے لگا ۔ میری بے صبری طبیعت بھی اب مجھے اس کا حال احوال پوچھنے کیلئے اُکسانے لگی تھی سو اسکے پاس جا کر زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔ مجھے دیکھ کر وہ اُٹھ کر جانے لگا تو میں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور پوچھا ”کیا ہو گیا ہیرو ؟ کیوں پریشان ہو ؟“

جواب ملا ”کچھ نہیں بھائی ۔ میں گھر جا رہا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ پھر جانے لگا تو میں بھی اُس کے پیچھے ہو لیا اور تھوڑی دور جانے کے بعد پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا اور کہا ”دیکھو ۔ میں تمہارا بھائی ہوں ۔ تم مجھے جانتے ہو گے (دراصل آس پاس محلے کے لڑکے میرے بہت اچھے دوست ہیں اور تقریباً سب ہی مجھے نام سے جانتے ہیں)۔

میں نے کہا ”بھائی سے تو بات نہیں چھپایا کرتے ۔ میں جانتا ہوں تم کسی پریشانی میں ہو ۔ دیکھو ۔ تمہارا بھائی اتنے پیسے والا تو نہیں کہ تمہارے مسائل حل کر سکے ۔ پر جتنا ہو سکا اتنا ضرور کروں گا ۔ اس کی آنکھیں تو شاید کب سے برسنا چاہ رہی تھیں میری ان باتوں سے تو وہ ساون کی بپھری ہوئی برسات کی طرح برس پڑیں ۔ یہ 14 ، 15 سال کی عمر بہت حساس ہوتی ہے ۔ بچہ اس عمر مین نئی نئی چیزیں اور انسانی عادت سمجھتا ہے ۔ محسوسات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دُکھ یا خوشی کا مطلب سمجھنا شروع کرتا ہے ۔ میں نے اسے بہت مشکل سے چُپ کرایا پھر اسے کُریدنا شروع کیا تو جو کچھ اُس نے کہا وہ آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں

”میں فقیر نہیں ہوں ۔ اللہ قسم میں فقیر نہیں ہوں ۔ کچھ عرصہ پہلے جب ابو سکول کی کتابیں لینے جا رہے تھے تو اُنہیں کسی نے گولی مار دی ۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ تمہارے ابو کی ”ٹارگٹ کِلِنگ“ ہو گئی ۔ امی نے فیکٹری مین کام کرنا شروع کر دیا لیکن جب وہ بیمار ہو گئیں تو کام چھوڑ دیا ۔ ابھی امی بہت بیمار ہین ۔ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتیں ۔ شام مین نے کہا ”امی ۔ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گی تو میں روزہ نہیں کھولوں گا ۔ پھر امی رونے لگی ۔ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تو رات کھانا کیا کھائیں گے ؟ اب تو دکان والا اُدھار بھی نہیں دیتا ہے ۔ عرصہ ہوا تمہارے چچا تایا وغیرہ بھی نہیں آئے ۔ مین نے امی سے کہا کہ میں کھیلنے جا رہا ہوں ۔ عصر کی نماز پڑھی تو مسجد میں ایک بندہ پیسے مانگ رہا تھا اور سب اسے پیسے دے رہے تھے ۔ وہاں سب مجھے جانتے ہیں تو پھر میں ادھر آپ لوگوں کے علاقے میں آ گیا کہ مجھے بھی پیسے ملیں گے تو میں امی کو ڈاکٹر کے پاس لیجاؤں گا ۔ لیکن جب مین نے مانگنے کی کوشش کی تو میں نہ تو ہاتھ پھیلا سکا اور نہ ہی میری آواز نکلی ۔ مجھے ابو یاد آ گئے وہ کسی سے بھی کچھ مانگنے سے منع کرتے تھے ۔ ابو بہت اچھے تھے ۔ سکول سے ایک بھی چھٹی نہیں ہونے دیتے تھے ۔ اب مین نے سکول بھی چھوڑ دیا ۔ اب اگر بھیک مانگوں گا تو ابو اور خفا ہو جائین گے ۔ پر پیسے نہ ہوئے تو امی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائین گی پھر وہ بھی مر جائیں گی ۔ پھر میرا کیا ہو گا ؟ میں کہاں جاؤں گا ؟

شاید اس سے زیادہ مجھ میں بھی سننے کی ہمت نہیں تھی ۔ میں نے اپنے آنسو روکے اور اسے گلے سے لگا لیا ۔ جیب میں پاکٹ منی کی تھوڑی سی رقم تھی سو اسکے گھر گیا ۔ وہاں اس کی والدہ سے ملا اور پھر اپنے ننھے شیر کی ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ اس کے بعد ایک طویل کہانی ہے کہ کس طرح میں نے اپنے والد صاحب کو قائل کیا کہ ان کی مستقل مدد کرنا چاہیئے ۔ اس وقت بھی میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں ۔ آنسوؤں سے ناجانے کتنی ہی معصوم کلیاں مجبوری کے پتھروں تلے کُچلی جاتی ہوں گی

میری ان تمام لوگوں سے گذارش جنہیں اللہ تعالٰی نے مناسب مال عطا کر کے ایک آزمائش مین ڈالا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں کہ کسی کو ہاتھ پھیلانے کا موقع نہ ملے ۔ یہ آپ کا احسان نہیں آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حلات خود سمجھیئے ۔ ڈھائی فی صد تو فرض ہے ۔ اپنے ہاتھ کھولیئے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کیجیئے ۔ میں دروازے پر مانگنے والوں کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ باہر نکلئیے اور مستحق لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کیجیئے ۔ یقین کیجیئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا سوائے اُس (الباقیات الصالحات) کے جو آپ نے آگے بھیجا

یہ پیسہ اور مال کسی کام کا نہیں اگر اس سے کسی دکھی دل کی خدمت نہ ہو ۔ میں آپ کو وہ سکون اور خوشی کبھی بھی کسی بھی طرح نہیں بتا سکتا جو سچے دل سے اور بنا کسی بدلے کی اُمید کے کسی کا دکھ بانٹ کر ملتی ہے ۔ یہ بچپن بہت قیمتی ہوتا ہے ۔ خدا راہ کسی کا بچپن بچا لیجئے ۔ کسی کے موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی آنسو مٹی تک نہ پہنچنے دیجئے ورنہ یہ نمی مٹی تک پہنچنے سے پہلے بہت تیزی سے عرش تک جا پہنچتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ اللہ تعالٰی کی بے آواز لاٹھی وار کرے اُٹھین اور دوسروں کی مدد کریں