نئے سال کا خاندان

فیس بُک پر کچھ روز قبل دیکھا کہ بڑے جوش سے اظہار کیا جا رہا تھا کہ سن 2014ء بالکل ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا ۔ بات درست ہے لیکن ایک 1947ء ہی نہیں بہت سے اور سال بھی 2014ء پر منطبق ہیں

سال 2014ء کے 365 دن ہوں گے ۔ سال 1947ء کے بھی 365 دن تھے
سال 2014ء بدھ کے روز شروع ہوا ہے ۔ سال 1947ء بھی بدھ کے روز شروع ہوا تھا
نیچے سال 1900ء کے بعد سے 2014ء پر منطبق ہونے والوں کی فہرست ہے
خیال رہے کے چھُٹیاں منطبق نہیں ہوتیں
سال پر کلک کر کے پورے سال دیکھا جا سکتا ہے

سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2014ء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیانی مدت
1902 ۔ ۔ ۔ ۔ 112 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1913 ۔ ۔ ۔ ۔ 101 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1919 ۔ ۔ ۔ ۔ 95 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1930 ۔ ۔ ۔ ۔ 84 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1941 ۔ ۔ ۔ ۔ 73 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1947 ۔ ۔ ۔ ۔ 67 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1958 ۔ ۔ ۔ ۔ 56 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1969 ۔ ۔ ۔ ۔ 45 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1975 ۔ ۔ ۔ ۔ 39 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1986 ۔ ۔ ۔ ۔ 28 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1997 ۔ ۔ ۔ ۔ 17 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
2003 ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
2014 ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال

مقامِ توبہ

اگر کسی بڑے پر مصیبت آئے ۔ خواہ وہ اپنا دُشمن ہی کیوں نہ ہو ۔ تو توبہ کرنا چاہیئے اور اللہ سے معافی طلب کرنا چاہیئے کیونکہ کچھ عِلم نہیں ہوتا کل کو کیا ہونے والا ہے

غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت سابق سربراہ فوج اور سابق صدر کو یکم جنوری 2014ء کو عدالت میں پیش ہونے کا کہا تھا لیکن حاضر نہیں ہوئے تھے جس پر 2 جنوری 2014ء کو خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے کی تاکید کی گئی تھی
آج صبح جب اُن کیلئے سکیورٹی فورسز کی بہت بھاری نفری کے درمیان وہ گھر سے چلے تو راستہ میں اُنہیں دل کا دورہ پڑا ۔ اُنہیں عدالت پہنچانے کی بجائے ہسپتال پہنچانا پڑا ۔ خبر کچھ یوں ہے

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان سے دریافت کیا کہ پر ویز مشرف کہاں ہیں؟
انور منصور خان نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی سے معلوم کیا جائے
خصوصی عدالت کے استفسار پر ڈی آئی جی سیکیورٹی اسلام آباد جان محمد کا نے بتایا کہ پر ویزمشرف راستے میں تھے انھیں دل کی تکلیف ہوئی اور انہیں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی ) منتقل کر دیا گیا ہے

ذرائع کے مطابق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی اہلیہ بیگم صہبامشرف اے ایف آئی سی پہنچ گئی ہیں اور ان کی بیٹی کو بھی کراچی سے اسلام آباد بلا لیاگیا۔ سابق صدر اب تک ہوش میں نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹرز کی ٹیم ان کا طبی معائنہ کررہی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں بیرون ملک منتقل کیا جائے یا پاکستان میں ہی علاج کیا جائے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغِیں بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ سجناں وی ٹُر جانا

بجلی چور ہوشیار باش

صدر ممنون حسین نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی ہے جس کے تحت پورے ملک میں گھریلو اور تجارتی صارفین کو بجلی چوری کے الزام میں 10 لاکھ سے ایک کروڑ (ایک ملین سے 10 ملین) روپے جرمانہ اور 2 سے 7سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی ۔ آرڈیننس کا مسودہ وزارت پانی و بجلی نے تیار کیا تھا۔ صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر آرڈیننس کی منظوری دی ہے ۔ ملک میں بجلی چوروں کو سزا دینے کے لئے پہلی بار قانون نافذ کیا گیا ہے

ہم سا ہو تو سامنے آئے

ساری عمر سُنتے آئے تھے
نئیں رِیساں شہر لاہور دِیاں
ایہہ کندھاں کہن پشور دیاں

لیکن پشور (پشاور) نے تو وہ کر دیا ہے جو کیا لاہور کیا کراچی کیا کوئٹہ نہ کر سکا ہے نہ کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔ عمران خان صاحب کی تائید کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ایک خط وزیرِ اعظم کو اور دوسرا وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف کو لکھے ہیں کہ بجلی کی پیداوار ۔ ترسیل اور تقسیم (Generation, Transmission and Distribution) کا مکمل کنٹرول خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کیا جائے جس کی (ہماری من پسند) 11 شرائط ہوں گی
ان شرائط کا ترجمہ نیچے لکھ رہا ہوں (مکمل متن یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے)
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلا اور آئیندہ 7 سال تک ہونے والا نقصان اور قرضے وفاقی حکومت ادا کرے ۔ منافع خیبر پختونخوا کی حکومت لے اور جو چاہے سو کرے

1 ۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے ذمہ اس وقت جتنے قرضے و دیگر واجبات ہیں وہ وفاقی حکومت ادا کرے اور اگر ماضی میں کوئی اس کی ترقی میں کوئی کمی رہی ہے تو اسے بھی پورا کرے
2 ۔ خیبر پختونخوا کی حکومت جب تک پیسکو کے موجودہ 56 فیصد نقصانات کو 18 فیصد تک کم نہیں کرتی جس میں کم از کم 5 سال لگیں گے تمام نقصابات وفاقی حکومت برداشت کرے
3 ۔ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں بجلی کی پیداوار کرنے والے تمام پلانٹ فوری طور پر بین الاقوامی معیار کے مطابق بہتر بنائے
4 ۔ اس وقت چلنے والے تمام توسیعی منصوبوں کے موجودہ اور مستقبل کے تمام اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے
5 ۔ سردیوں میں پن بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کم از کم 7 سال تک دوسرے ذرائع سے بننے والی کم از کم 1000 میگا واٹ بجلی وفاقی حکومت مہیاء کرے
6 ۔ تھرمل ذرائع سے بجلی بنانا شروع کرنے کیلئے وفاقی حکومت فوری طور پر یومیہ 200000000 سٹینڈرڈ مکعب فٹ گیس مہیاء کرے
7 ۔ ماضی میں خیبرپختونخوا میں بجلی کے سیکٹر میں جو مالی کمی رہی اُسے وفاقی حکومت اگلے 5 سال تک پورا کرے
8 ۔ بجلی کے پیداوار ۔ ترسیل اور تقسیم کرنے والے اداروں کو چلانے میں خیبرپختونخوا کی حکومت کو مکمل آزادی ہو ۔ جسے چاہے ملازم رکھے جسے چاہے فارغ کر دے اور جو ملازمین فارغ کئے جائیں اُنہیں وفاقی حکومت متبال نوکریاں خیبرپختونخوا سے باہر مہیاء کرے
9 ۔ بجلی کے سلسلے میں خیبرپختونخوا میں نیپرا کا عمل دخل بالکل ختم کر دیا جائے
10 ۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کو بجلی کا مکمل اختیار دینے کیلئے قوانین میں تبدیلیاں کی جائیں
11 ۔ این ایف ۔ سی سی آئی وغیرہ نے جو سفارشات کی ہوں وہ تمام رقوم خیبرپختونخوا کی حکومت کو فوری طور پر ادا کی جائیں

جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو

ہمارے ہاں عام تاءثر یہی ہے کہ پڑھائی کی بنیاد اور عقل کی نشانی انگریزی ہے ۔ ایک سیاسی لیڈر نے زندگی کا بہتر حصہ ولائت میں گذارا تھا اور شادی بھی ولائتی گوری سے کر کے گویا سونے پر سوہاگہ مل دیا تھا ۔ اُس نے لاہور سونامی کو اپنا رہبر بنایا ۔ اس کی چکا چوند نے بہت لوگوں کی نظروں کو خیرا کر دیا ۔ عوام پیچھ چل پڑی ۔ ہر طرف بالخصوص فیس بُک پر خان خان بلا بلا ہونے لگا ۔ لیڈر صاحب بھی موج میں آ کر سمجھ بیٹھے بلکہ اعلان کر بیٹھے کی پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم وہی ہوں گے ۔ جب انتخابات ہوئے تو سارے خواب چکنا چور ہو گئے

وزارتِ عُظمٰی ہاتھ سے گئی تو احتجاج کا دامن ایسا پکڑا کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے ۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں افغانستان کو جانے والے ٹرکوں کے راستہ میں صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دھرنا دیتے ہیں جسے چِلّہ ہونے کو ہے ۔ سُنا ہے کہ باقی راستوں سے تو ٹرک معمول کے مطابق جا رہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں سے بھی رات کے وقت جاتے ہیں ۔ خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اعلٰی صاحب نہیں جانتے کہ وزیرِ اعلٰی وفاق کا نمائیندہ اور وفاق کے ماتحت ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہو رہے ہیں

لیڈر صاحب جس جمِ غفیر کو لے کر چلے تھے سمجھتے رہے کہ شاید اُن سب کی ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ سینہ تان کے آگے آگے چلتے رہے اور لوگ اپنے اپنے دھندوں کی طرف رخصت ہوتے رہے ۔ سُنا تھا کہ ”اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے“۔ لیکن شاید یہ ضرب المثل ولائت میں نہیں پڑھائی جاتی اسلئے لیڈر صاحب کے عِلم میں نہ تھی ۔ ترنگ میں مہنگائی کے خلاف دُشمن کے گڑھ لاہور میں جلوس جلسہ کی ٹھان لی ۔ جب سردی سے کچھ زیادہ ہی سُکڑا ہوا جلسہ دیکھا تو جوش میں کہہ دیا ”خیبر پختونخوا کی بجلی سپلائی کی کمپنی خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کر دی جائے تو ہم سب ٹھیک کر دیں گے“۔ بُرا ہو میڈیا کا کہ جھٹ پٹ بات دشمن کو پہنچا دی ۔ بجلی اور پانی کے وزیر کا جواب آیا ”بصد شوق لیجئے“۔ 29 دسمبر کو وزیرِ اعظم نے بھی اس کی منظوری دے دی

اب لیڈر صاحب کے چیلے کہتے پھر رہے ہیں کہ خان صاحب نے تو کہا تھا کہ بجلی کی پیداوار کا محکمہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کیا جائے ۔ وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا نے فرما دیا ہے ”وزیرِ اعظم ہمارے ساتھ مذاق نہ کریں ۔ یہ تو پہلے ہی آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق ہمارا حق ہے ۔ ہمیں جنریشن اور ڈسٹریبیوشن بھی دی جائے“۔ محترم نے شاید آئین کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی ۔ اٹھارویں ترمیم کے مطابق وفاق کسی صوبے کو اپنے کوئی اختیارات تفویض کر سکتا ہے ۔ یہ نہیں لکھا کہ بجلی کمپنی صوبے کو دے دی گئی ۔ خیر ۔ وہ جو چاہے کہتے رہیں بادشاہ ہیں ۔ بلاول بھی تو بہت کچھ کہتا ہے

مگر میں اس سوچ میں پڑا ہوں کہ اگر بجلی اور پانی کے وزیر نے کہہ دیا ”وہ بھی لے لیجئے“ تو لیڈر صاحب پھر کیا کریں گے ؟ میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں لیڈر صاحب اپنے دل کی بات کہہ اُٹھے کہ ”وزارتِ عظمٰی مجھے دے دیں تو میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا“۔
اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ ملک نہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہے جو کبھی کپتان اور کبھی پی سی بی کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کی زکٰوۃ اور خیرات پر چلنے والا شوکت خانم میموریل ہسپتال
کہیں ملک کو چلاتے چلاتے خدا نخواستہ چلتا ہی نہ کر دیں

جَل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو

ملک کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کی سازش کا انکشاف

پاکستان کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بابائے قوم محمد علی جناح کی جانب سے معاشرے کو مُلک کے نظریئے کے مطابق اسلامی بنانے کی خاطر تشکیل دیئے گئے محکمہ برائے اسلامی تنظیم نو (ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن) کو بابائے قوم کے انتقال کے فوراً بعد بند اور اس کا ریکارڈ ضائع کردیا گیا تھا

پنجاب کے سیکریٹری آرکائیوز نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لئے احکامات دیئے تھے جس کا واحد مقصد مُلک کی کمیونٹی کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تنظیم نو کرنا تھا لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد ہی اس محکمہ کو بند کردیا گیا تھا۔ سیکریٹری آرکائیوز () اوریا مقبول جان نے کہا کہ وہ جلد ہی مُلک کی اعلیٰ قیادت کو پاکستان کے خلاف اس سنگین سازش سے آگاہ کریں گے

سرکاری دستاویز میں اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں ۔
اسلامی تعلیمی نظام
اسلامی قانون اور معاشرتی تنظیم نو
اسلامی معیشت
شہری اخلاق
یہ وہ چار شعبہ جات تھے جو قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے طے کئے گئے تھے۔ سیکریٹری اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کردیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دیدی۔ اوریا مقبول جان نے بتایا کہ علامہ اسد کے جانے کے بعد ڈپارٹمنٹ کو بھی ختم کردیا گیا۔ بعد میں 1948ء میں پُراسرار انداز سے محکمہ کی عمارت میں آگ لگ گئی اور پورا ریکارڈ تباہ ہوگیا۔ اوریا نے کہا کہ یہ ملک کو قائد اعظم کی بصیرت کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خلاف ایک سازش تھی

انہوں نے مزید بتایا کہ اپنی سوانح عمری ”یورپی بدو“ میں علامہ محمد اسد نے لکھا تھا کہ کس طرح اچانک ان کا ملازمت سے تبادلہ کیا گیا۔ علامہ اسد نے بھی سازش کے متعلق باتیں لکھی ہیں۔ سیکریٹری آرکائیوز اوریا مقبول کی جانب سے دی نیوز کو دی جانے والی سرکاری دستاویز کی نقل کے مطابق اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں ان میں لکھا ہے کہ کئی قربانیوں اور غیر معمولی مشکلات کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم چاہتے تھے کہ ملک کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے اور وہ پاکستان کے قیام کو سفر کا اختتام نہیں سمجھتے تھے۔ دستاویز میں لکھا ہے کہ ”پاکستان کے متعلق کہا گیا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے قیام کو نہیں روک سکتی اور ایسا ہوا بھی لیکن کئی مشکلات اور مسائل کے خاتمے کے لئے ابھی بہت کوشش کرنا باقی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے نظریہ کی ریاست قائم کرنا ہوگی یعنی کہ ایک ایسی ریاست بنائیں گے جہاں اسلامی اصولوں کے تحت نظام حکومت تشکیل دیا جائے گا۔ کئی برسوں کی غلامی اور رسوائی کے بعد یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ اسی وجہ سے ہماری طاقت اور سماجی سطح پر حوصلہ کمزور ہوا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حصول کے لئے ہماری جدوجہد کا محور نظریاتی پلیٹ فارم رہا ہے۔ ہم یہ کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہم اسلامی استقامت کی وجہ سے بحیثیت مسلم ایک قوم ہیں، ہمارے لئے مذہب صرف ایک عقیدہ یا اخلاقی قواعد نہیں ہے بلکہ عملی رویہ کا ایک مجموعہ قانون بھی ہے۔ تقریباً تمام دیگر مذاہب کے برعکس، اسلام کا تعلق صرف روحانیت سے نہیں بلکہ یہ ہماری طبعی زندگی کو بھی ترتیب دینے کے لئے ہے۔ قرآن میں بتائی گئی اسکیم کے مطابق اور حضور پاکﷺ کی زندگی کی مثال سے انسانی بقاء کے تمام پہلوئوں کو زیر غور رکھا جاتا ہے جسے ہم انسانی زندگی کہتے ہیں۔ لہٰذا ہم صرف اسلامی عقائد کو اپنے پاس رکھ کر اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ کرنا ہوگا۔ اسلام کے تحت ہمیں رویہ، انفرادیت، سماجی رکھ رکھاؤ کو بھی اسی انداز میں ڈھالنا ہوگا“۔

ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی دستاویزات میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی راہ میں ممکنہ رکاوٹوں کا بھی ذکر موجود ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ یقیناً، خالصتاً ثقافتی اور نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے نظریات پر عمل پیرا دنیا کے درمیان نظریاتی ریاست کا تصور بالکل منفرد ہے تو ایسے ماحول میں جہاں پوری دنیا ایسے ممالک کو جدید اور پسندیدہ کہتی ہے ایسے میں زبرست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہمارے دور کے لوگوں کی اکثریت نسلی وابستگی اور تاریخی روایات کو قومیت کی واحد قانونی حیثیت کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ہم نظریاتی کمیونٹی، ایک ایسی کمیونٹی جس میں لوگوں کی زندگی کے متعلق ایک طے شدہ رائے ہو اور اس میں اخلاقی اقدار پائی جاتی ہوں، کو قومیت کی اعلیٰ ترین قسم سمجھتے ہیں جس کی انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ہم یہ دعوٰی صرف اس لئے نہیں کرتے کہ ہم یہ بات باور کرچکے ہیں کہ ہمارا مخصوص نظریہ ”اسلام“ براہِ راست خدا کی طرف سے ہے بلکہ اسلئے بھی کہ ہماری منطق ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حادثے یا پھر رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر یا پھر جغرافیائی محل و وقوع کی بنیاد پر قائم ہونے والی کمیونٹی کے برعکس مشترکہ طور پر ایک نظریہ پر عمل کرنے والی ایک کمیونٹی انسانی زندگی کا ایک بہترین اظہار ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہماری قوم اس وقت تک مسلم ملت کہلائے جانے کے لئے متحد نہیں ہوسکتی جب تک شرمناک بوکھلاہٹ اور بد دلی، سماجی تانے بانے کے نقصان، اخلاقی کرپشن پر قابو نہیں پا لیتے۔ اور یہی وجہ مقام ہے جہاں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن اپنا کام دکھائے گا۔ اس کے بعد اس دستاویز میں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی جانب سے جس منصوبے
پر عمل کرنا ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے

تحریر ۔ انصار عباسی

قائد اعظم پر تہمت

آج 25 دسمبر ہے ۔ اس دن معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آج سے 137 سال قبل کراچی میں پیدا ہوئے تھے ۔ گو اس موضوع پر میں بہت پہلے بھی لکھ چکا لیکن آج خیال آیا کہ قائد اعظم کے اس خطاب کے اس حصہ کی مزید وضاحت کی جائے جسے بنیاد بنا کر اپنے آپ کو روشن خیال اور عالِم سمجھنے والے کچھ لوگ عرصہ ایک دہائی سے قائد اعظم پر تہمت لگاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان کو ایک لادینی (Secular) ریاست بنایا تھا

کسی نے صرف دس جماعتیں ہی پڑھی ہیں تو یہ کہانی ضرور پڑھی یا سُنی ہو گی کہ کسی زمانہ میں بندرگاہ پر تعینات ایک اہلکار رشوت لئے بغیر کسی جہاز کو لنگر انداز نہیں ہونے دیتا تھا ۔ ایک جہاز کے کپتان نے انکار کیا اور اپنا اہلکارا بادشاہ کے پاس بھیج دیا ۔ بادشاہ نے لکھ کر دیا ” روکو مت آنے دو “۔ اُس اہلکار نے پڑھا تو کہنے لگا ” دیکھو ۔ لکھا ہے روکو ۔ مت آنے دو“۔اِن پڑھے لکھے روشن خیال ہموطنوں کا استدلال بھی کچھ اسی طرح ہے

پاکستان کی پہلی اسمبلی سے قائد اعظم کے پہلے خطاب (11 اگست 1947ء) کا متعلقہ حصہ من و عن نقل کر رہا ہوں ۔ اسے غور سے پڑھ کر دیکھیئے کہ اس میں پاکستان لادینی ریاست ہونا کہاں سے آ گیا ؟ مکمل تقریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور آخر میں قائد اعظم کا واضح بیان بھی پڑھ لیجئے

Para 6. I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record its verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that it was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

Para 7. I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Para 8. Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

پاکستان کا نظام حکومت ۔ قائداعظم