چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اچھا آدمی

اچھے آدمی کی نشانی یہ ہے
کہ وہ اُن لوگوں کی بھی عزت کرتا ہے
جن سے اسے کسی قسم کے فائدے کی توقع نہیں ہوتی

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Torture “

An Excerpt
They are only jolted out of their slumber about once a decade when some star diplomats turn up, handling negotiations over the latest international crisis. Back in the 1990s it was the former Yugoslavia. More recently it’s been America and Iran. And once the belligerents in Syria have exhausted each other in a few years time they too will probably head to the city that has come to symbolise internationalism, neutrality and the laws of war.

پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا

ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں محاورے پڑھائے گئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ جنگ میں یا آپس میں دُشمنی ہو تو کوئی سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے پیچھے سے آ کر حملہ کر دے تو اُسے کہتے ہوں گے ”پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا“۔
بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کر لینے کے بعد 1962ء میں ملازمت شروع کی تو سمجھ میں آیا کہ دُشمن نہیں بلکہ یہ فعل دوست یا دوست کے بھیس میں دُشمن کرتا ہے ۔ اپنے ساتھ بِیتے کئی ایسے واقعات میں سے 4 بطور نمونہ نذرِ قلم کر رہا ہوں
کیا منافقت اس سے کسی فرق چیز کا نام ہے ؟

1 ۔ دسمبر 1962ء سے اپریل 1963ء تک 5 ماہ میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سینیئر لیکچرر تھا ۔ ایک دن میں صبح سویرے پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذر کر اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سینیئر لیکچرر مسٹر ”م“سامنے سے آتے ہوئے ملے جنہوں نے گارڈن کالج میں گیارہویں جماعت میں ہمیں فزکس پڑھائی تھی ۔ پوچھنے لگے ”آپ پرنسپل صاحب کو مل کر آ رہے ہیں ؟“ میں نے ”نہیں“ کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ایک دوسرے سینیئر لیکچرر جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے اور پوچھا ”آج صبح دیر ہو گئی تھی کیا ؟“ میرے ”نہیں“ کہنے پر بولے ”مجھے پرنسپل صاحب سے کام تھا تو صبح پہنچتے ہی اُن کے دفتر میں چلا گیا تھا ۔ بعد میں وہاں مسٹر ”م“ نے آ کر پوچھا کہ کیا بھوپال صاحب آج چھٹی پر ہیں ؟ میں نے سارا انسٹیٹیوٹ دیکھ لیا مگر نہیں ملے“۔

2 ۔ میں نے مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر ملازمت اختیار کر لی ۔ پہلے 6 ماہ ہمیں مختلف فیکٹریوں میں مشینوں اور ان کے کام کے مطالعہ کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ میں پہلے ماہ سمال آرمز گروپ میں تھا ۔ میرے ساتھ بھرتی ہونے والے 9 میں سے ایک مسٹر ”خ“ جو میری دوستی کا دم بھرتے تھے ایک قریبی فیکٹری میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون آیا ”جلدی آؤ تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے“۔ میں نے کہا ”چھٹی کے بعد ملوں گا“۔ بولے ”میں نے چائے منگوائی ہے اور چائے کے ساتھ کھانے کیلئے باہر سے کچھ منگوایا ہے ۔ اتنی بے مروّتی تو نہ کرو“۔ میں اپنے ورکس منیجر کے دفتر گیا ۔ وہ نہیں تھے تو میں دوسرے مجھ سے سینیئر اسسٹنٹ ورکس منیجر کو بتا کر چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو تو مجھے بٹھایا ساتھ ہی چائے آ گئی مگر مسٹر ”خ“ مجھے یہ کہہ کر دوسرے دفتر میں چلا گیا ”تم چائے پینا شروع کرو میں ضروری ٹیلیفون کر کے آتا ہوں“۔ میں نے چائے نہیں پی اور اُس کا 10 منٹ انتظار کرنے کے بعد واپس آ گیا ۔ میں 20 منٹ میں واپس پہنچ گیا ۔ واپس آنے پر سیدھا ورکس منیجر کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے پوچھا ”تم کہاں تھے ؟“ میرے بتانے پر بولے ”اس دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں میری شکل پسند نہیں ۔ اسی طرح ایسے بھی ہوں گے جنہیں تمہاری شکل پسند نہیں ۔ ہر آدمی کو دوست مت سمجھو“۔ میں حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگا تو اپنی گھڑی دیکھ کر بولے ”10 منٹ قبل مسٹر ”خ“ کا ٹیلیفون آیا تھا کہ مجھے اجمل سے ضروری کام ہے میں آدھے گھنٹے سے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مل نہیں رہا ۔ کیا وہ چھٹی پر ہے ؟“

3 ایک انجنیئر مسٹر ”ب“ صاحب نے پی او ایف میں ملازمت شروع کی ۔ اُنہیں 2 سال بعد اسسٹنٹ منیجر بنایا جانا تھا لیکن 3 سال سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی نہ بنایا گیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ میری محنت اور کارکردگی کی وجہ سے ٹیکنیکل چیف مجھ سے خوش تھے ۔ کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے ایک اسسٹنٹ کی منظوری ہو چکی تھی ۔ میں نے ایک اچھا موقع دیکھ کر اُن سے بات کی جس کے نتیجے میں پرانی تاریخ یعنی 2 سال کے بعد سے مسٹر ”ب“ کی ترقی ہو گئی اور اُسے ہماری فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا ۔ مسٹر ”ب“ میری دوستی کا دم بھرنے لگے
پھر 1973ء میں ہماری فیکٹری سے چوری ہوئی تو مسٹر ”ب“ کو گھر سے اُٹھا کر کسی تفتیشی مرکز میں رکھ دیا گیا ۔ میں نے اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل حتٰی کہ اپنی جان کی بازی لگا کر قانونی چارہ جوئی اور دیگر اقدامات کئے اور اللہ کے فضل سے اُنہیں 5 دن بعد رہا کر دیا گیا ۔ میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مسٹر ”ب“ نے کہا ”میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ جو آپ نے میرے لئے کیا ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو نہیں کر سکتا تھا“۔
اس کے بعد ذاتی مفاد کی خاطر مسٹر ”ب“ میرے خلاف من گھڑت کہانیاں بڑے باس تک پہنچاتے رہے جس کے نتیجے میں بڑے باس نے جو پہلے ہی غلط احکام نہ ماننے کی وجہ سے مجھ سے ناراض رہتے تھے کئی سال میری ترقی روکے رکھی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملی

4 ۔ پی او ایف میں ہر آفیسر کی سالانہ خُفیہ رپورٹ کی ابتداء اُس کا سیئنر آفیسر کرتا تھا ۔ اس فارم میں پہلا صفحہ وہ آفیسر خود پُر کرتا تھا جس کے متعلق رپورٹ ہوتی تھی ۔ میں پچھلے 8 سال سے جرمنوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اُن کی جرمن سمجھنا اور بولنا پڑتی تھی ۔ کئی ڈرائینگز بھی جرمن زبان میں ہوتی تھیں ۔ رپورٹ میں ایک خانہ تھا کہ کون کونسی زبان جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن صرف بول لیتا ہوں ۔ میرے سینیئر افسر مسٹر” گ“ نے مجھے بُلا کر کہا ”دو لفظ جرمن کے بول لیتے ہو تو یہاں لکھ دیا ہے ۔ اسے کاٹو“۔ میں نے کاٹ دیا ۔ دوسرے دن ایک مسٹر ”ع“ جو پی او ایف میں بھرتی ہونے سے لے کر منیجر ہونے تک میرے ماتحت رہے تھے میرے پاس آئے ۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ”باس مسٹر ” گ“ نے بُلایا تھا”۔
میں نے وجہ پوچھی تو بولے ”کہہ رہے تھے کہ رپورٹ فارم پر لکھو کہ تم جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھ دیا“۔
میں نے کہا ”آپ تو جرمن کا ایک حرف بولنا بھی نہیں جانتے اور آپ نے لکھ دیا“۔
بولے ”باس نے کہا تھا سو میں نے لکھ دیا ۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔
جرمن جاننے کی بناء پر مسٹر ”الف“ کو جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا جبکہ اس اسامی کیلئے میرے نام کی 3 سال قبل منظور دی گئی تھی جب مجھ سے سینیئر افسر کو تعینات کیا گیا تھا

بلاگ 2014ء میں کیسا رہا

پہلے نئے عیسوی سال کیلئے میری سادہ سی دعا
اے کُل کائنات کے خالق و مالک ۔ اس کا نظام آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ِاس دنیا سے جھُوٹ اور منافقت کو اُٹھا لے

ورڈ پریس نے پہلی بار میرے اس بلاگ کی سال بھر کی کارکردگی کے کچھ اعداد و شمار بھیجے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے

سال 2014ء میں یہ بلاگ75480بار دیکھا گیا
سب سے مصروف دن 11 فروری 2014ء تھا جس دن 1634 قارئین نے یہ بلاگ دیکھا
سال 2014ء کے قارئین کا تعلق 65 ممالک سے تھا ۔ سب سے زیادہ قارئین کا تعلق چیک ریپبلِک ۔ پاکستان اور امریکہ سے تھا

سب سے زیادہ مندرجہ ذیل تحاریر دیکھی گئیں

ڈاکٹر طاہر القادری ۔ وضاحت ۔ 1237 بار دیکھی گئی
اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء ۔ 1222 بار دیکھی گئی
بلاگر ۔ سالگرہ ۔ فوائد اور نقصانات ۔ 1194 بار دیکھی گئی
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عزت ۔ 1044 بار دیکھی گئی
اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت ۔ 1028 بار دیکھی گئی
عورت اور مرد ۔ 1009 بار دیکھی گئی
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی ۔، 1003 بار دیکھی گئی

میرے بچے

میرے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے
مجھے طعنہ دیا جاتا ہے
”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا

میں نے کسی کو ملک سے باہر جانے سے منع نہیں کیا ۔ صرف محبِ وطن بننے کی تلقین کرتا ہوں جو ملک سے باہر رہ کر بھی ہو سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ ”کیا روزی کمانے کیلئے مُلک سے باہر جانے والا آدمی محبِ وطن نہیں رہتا ؟“
دوسری بات کہ ہمارے ہاں اُوپر سے لے کر نیچے تک الزامات لگانے کو شاید اعلیٰ تعلیمی اور عقلی معیار سمجھا جانے لگا ہے ۔ اب تو کچھ ایسا احساس بیدار کیا گیا ہے کہ حُب الوطنی کا ثبوت دوسرے پر الزامات لگانا ہے
کبھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ الزام لگانے سے پہلے کچھ حقائق معلوم کر لے
۔سیانے کہتے ہیں کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے قبل سوچو کیونکہ ہو سکتا ہے دوسرا عملی طور پر آپ سے بہتر ہو

میرے بڑے بیٹے زکریا نے ایف ایس سی (ہائرسیکنڈری) کے امتحان میں میرٹ سکالرشپ حاصل کیا پھر انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں چاروں سال اوّل رہا ۔ قائد اعظم سکالرشپ اوّل آنے والے کو ملتا ہے ۔ یہ سکالرشپ صوبہ سندھ کے رہائشی کو دیا گیا جو کسی امتحان میں اوّل نہیں آیاتھا البتہ اُس کے میٹرک کے امتحان میں زکریا سے زیادہ نمبر تھے ۔ (بینظیر بھٹو کا دورِ حکومت 19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء)
اُس نے ایک سال تک سکالرشپ سے فائدہ حاصل نہ کیا ۔ زکریا نے اُس کو ٹیلیفون کیا۔ وہ زکریا کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آیا اور یہاں تک کہا ”میں شکالرشپ سے مستفید ہوں یا اسے ضائع کر دوں ۔ میری مرضی ۔ تُم کون ہوتے ہو ۔ تُم نے مجھے ٹیلیفون کرنے کی جُراءت کیسے کی“۔ اور پھر وہ سکالرشپ ضائع ہو گیا

ایس اینڈ ٹی سکالرشپ آیا تو زکریا کے آجر (employer) نے اس پر سفارش لکھ کر واپس کرنے کی بجائے فارم ہی غائب کر دیا ۔ رابطہ کرنے پر کہا کہ ”ہم خود ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے امریکہ بھیجیں گے ۔ امریکہ کی معیاری یونیورسٹی میں داخلہ لے لو ۔ جو خرچہ ہو گا ہم دے دیں گے“۔ زکریا نے داخلہ لے لیا جس پر 34000 روپے خرچ ہوئے جو ضائع گئے کیونکہ 3 سال تک نہ بھیجا گیا جبکہ ایرے غیرے بھیجے جاتے رہے ۔ زکریا نے کہا کہ ”مجھے آپ فارغ کر دیں ۔ میں مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتا“ تو فٹا فٹ سکالرشپ پر ایم ایس انجنیئرنگ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ میں نے سربراہ ادارہ (کراچی کے رہائشی) سے رابطہ کیا جس نے میرے بہنوئی (جو اُن دنوں ممبر پی او ایف بورڈ تھے) کی وساطت سے میری منّت سماجت کی تھی کہ زکریا کو اس ادارے میں ملازمت کا مشورہ دو ں اور وہ اُسے ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے بھیجیں گے ۔ اُس نے بتایا کہ ”کچھ رولز آڑے آ گئے ہیں ۔ زکریا کے ایم ایس کر کے آنے کے ایک سال بعد اُسے پی ایچ ڈی کیلئے بھیج دیں گے“۔

دوبارہ داخلے کیلئے درخواستیں بھیجیں ۔ محکمہ نے پہلے والا 34000 روپیہ نہ دیا ۔ دوسری بار کے اخراجات اور 3 ماہ کا تعلیمی خرچہ دے کر ستمبر 1997ء میں امریکہ بھیج دیا اور کہا کہ ہر 3 ماہ بعد خرچہ بھیج دیا جائے گا لیکن اس کے بعد ایک پیسہ بھی نہ بھیجا ۔ زکریا دسمبر 1997ء سے جون 1998ء تک بار بار ای میلز بھیجتا رہا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا ۔ زکریا مالی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلاء رہا اور تنگ آ کر جون 1998ء میں مستعفی ہو گیا ۔ اُس وقت تک وہ عارضی ملازمت پر تھا ۔ اس کے 2 سال 3 ماہ بعد یعنی ستمبر 2000ء میں حادثاتی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ محکمہ نے جولائی 2000ء میں زکریا کے خلاف راولپنڈی کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہوا تھا جبکہ ادارے کو معلوم تھا کہ ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ بیلف کو شاید پیسے کھلا کر اس کے سمن ہم تک نہ پہنچنے دیئے گئے تھے ۔ میں اگلی پیشی پر عدالت پہنچ گیا ۔ دعوے کی نقل ملنے پر معلوم ہوا کہ زکریا سے دیئے گئے پیسے واپس مانگنے کے علاوہ 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ مانگا گیا ہے ۔ راولپنڈی کچہری ہمارے گھر (اسلام آباد) سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور راستہ میں ٹریفک بہت ہوتا ہے اسلئے کچہری کے چکروں سے بچنے کیلئے میں نے لکھ کر دے دیا کہ ”وصول کی ہوئی رقم ہم واپس کرنے کو تیار ہیں مگر جرمانہ بے بنیاد ہے“ ۔ اس کے بعد میں ہر ماہ تاریخ پر حاضر ہوتا رہا لیکن ادارے والوں کی طرف سے اوّل کوئی حاضر نہ ہوتا اور حاضری لازمی ہو جانے پر کوئی انٹ شنٹ درخواست جمع کرا دی جاتی ۔ ڈھائی تین سال بعد جج تبدیل ہو جاتا تو پھر پہلے والی گردان دہرائی جاتی ۔ آخر 2010ء میں جج نے فیصلہ کر دیا کہ ”صرف لیا ہوا پیسہ واپس کیا جائے“۔ جو ہم نے بڑی مشکل سے 4 ماہانہ اقساط میں ادا کیا

جو آدمی مقروض ہو گیا ہو اور اس کے پاس واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہ ہوں اور باپ بھی ریٹائر ہو چکا ہو وہ اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ جہاں ہے وہاں اگر اُسے روزی کمانے کا جائز ذریعہ مل رہا ہو تو اس سے مستفید ہو

میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے آئی بی اے کراچی سے صبح کے کورس میں ایم بی اے کیا ۔ اسلام آباد میں بغیر سفارش مناسب ملازمت ممکن نہ ہوئی تو اُس نے معمولی ملازمت شروع کی ۔ میں نے اعتراض کیا تو بولا ”ابو جی ۔ کچھ ملے گا ہی ۔ اگر فارغ رہا تو بے کار ہو جاؤں گا“۔
پھر ایک بہتر ملازمت ملی تو چند ماہ بعد پرویز مشرف کی حکومت آ گئی ۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہر صوبے سے ایک آدمی تھا ۔ حکومت نے سب لوگ تبدیل کر کے صرف کراچی والے رکھ لئے ۔ کراچی والوں کو اسلام آباد شاید پسند نہ آیا ۔ ملازمین کو فارغ کر دیا اور دفتر بند کر دیا
اس کے بعد فوزی نے برطانیہ سے ایم ایس سی فناس پاس کیا ۔ اسلام آباد میں ایک غیرملکی ادارے میں اسامی نکلی ۔ ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ۔ میرٹ کے لحاظ سے فوزی اول رہا ۔ سینیئر وائس پریزیڈنٹ جس کے ماتحت کام کرنا تھا اُس نے منظوری دے دی لیکن پریزیڈنٹ صاحب کراچی کے تھے ۔ اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے کو رکھ لیا
کچھ ماہ بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔ 3 سال بعد ترقی بھی ہوئی ۔ اس کے بعد وہی کہ اگلی ترقی کیلئے سفارش نہ تھی ۔ پھر دبئی میں ملازمت مل گئی اور 2008ء سے دبئی میں ہے

بیٹی نے کلِنیکل سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ۔ پھر پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کیا ۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج کرنا چاہا تو معلوم ہوا معالج مریض کو ڈرا کر رقم اکٹھی کرتا ہے اور مریض کی تسلّی بھی ایسے معالج سے ہوتی ہے ۔ سو یہ کام چھوڑ دیا ۔ کمپیوٹر کی ماہر تھی ۔ گھر سے ہی مختلف کمپنیوں کا ایڈمنسٹریشن کا کام شروع کیا ۔ ہوتے ہوتے غیر ملکی کمپنیوں تک پہنچی اور دفتر میں جانا شروع کیا ۔ مالی بے ضابطگی دیکھ کر کمپنی چھوڑی ۔ دوسری میں کام ملا پھر تیسری ۔ ہر جگہ مالی بے ضابطگی معمول کی بات تھی جس کے باعث زندگی مُشکل میں رہی ۔ جب کمپنی میں کام کم ہو جاتا پہلے میری بیٹی اور اس جیسوں کو فارغ کیا جاتا ۔ جو اپنی جیبیں بھرتے اور صاحب لوگوں کو خوش رکھتے وہ ٹِکے رہتے
آخری کمپنی میں بیٹی پرفارمینس آڈیٹر تھی ۔ آڈٹ کرنے پر بھاری مالی بے ضابطگی پائی گئی جس کی رپورٹ دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد بیٹی کی تنخواہ بہت کم کر دی گئی کہ کام کم ہو گیا ہے چنانچہ بیٹٰی نے ملازمت چھوڑ دی اور اکتوبر 2012ء میں بھائی کے پاس دبئی چلی گئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اپنا عکس

آپ کو جو کچھ دوسرے میں نظر آتا ہے
وہ آپ کی اپنی سوچ یا شخصیت ہے
اگر آپ کو دوسرے میں بہت اچھی چیز نظر آئے گی
وہ دراصل آپ کی اپنی اچھائی ہو گی

That ordinary people can carry out evil deeds led Professor Arendt to suggest that the “banality of evil” was a critical problem that had to be recognised as a modern condition. The Israeli war with Gaza provided riveting visuals of the bombardment of homes, shops, hospitals, schools, several of which served as United Nations’ “safe havens,” that killed and wounded thousands. Israel responded to Hamas’ rain of rockets by bombing and invading Gaza, attacking urban living areas where Hamas fighters were alleged to be operating with a network of tunnels.
The Palestinian death toll in Gaza stands at more than 2,000 with nearly 10,000 wounded. More than 300 children have died. Included in the carnage were 26 members of the Abu Jame’ family, who were killed in a single strike. Sixty-four Israeli soldiers and three civilians have died. When U.N. observers denied that there were any weapons in their smashed shelters, the Israeli reply was that they would investigate the shelling.
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Banal “

بلاگستان کی پی پی

میرا معمول ہے کے صبح سویرے پھر دوپہر اور پھر شام کو بلاگستان کھول کر نظر ڈالتا ہوں کیا نیا ہے

آج جو صبح سویرے کھولا تو پی پی (PP) نظر پڑی ۔ آگے بڑھا تو اور پی پی (PP) ۔ آگے اور پھر اور پی پی (PP) ۔

میں بھی ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھتا گیا حتٰی کہ وہ تحاریر شروع ہو گئیں جو گذشتہ شام کو دیکھی تھیں

چنانچہ اس حد تک مبلغ ڈیڑھ درجن پی پی (PP) یعنی پوری 18 عدد پی پی (PP) تحاریر گِن چکا تھا نصف جن کے 9 ہوتے ہیں

شاید اسلئے کہ آج پی پی (PP) کی ایک بڑی لیڈر کا یومِ وصال ہے

اس وقت تک میری پی پی (PP) بول گئی

دہشتگردی کا ذمہ دار کون ؟

ریاض شاہد صاحب کی تحریر پر میرے تبصرے کے حوالے سے ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے تاریخی حقائق لکھے ہیں جو ہمیں اخباروں ۔ رسالوں اور کتابوں میں نہیں ملتے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ نقل کر رہا ہوں ۔ جس کے بعد ایک نکتے کی کچھ وضاحت درج ہے

در اصل اس معاملے کو ہر ایک اپنی عینک سے دیکھ کر عینک کے شیشے کے رنگ کے مطابق فیصلہ دیتا ہے۔ جتنے مُنہ اتنی باتیں کے مصداق میں بھی رائے دینے کا مرتکب ہو رہا ہوں ۔ مجھے جب ایک کینیڈین ویب سائٹ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ اگر روس 1979ء میں افغانستان میں داخل نہ ہوتا تو پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین 1980ء کی دہائی کے شروع میں ہی کابل پر قابض ہوجاتے تو میں حیران ہوا۔
میرے ایک دو جاننے والے ہیں جو افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین کسی نہ کسی طرح اس کانفلکٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانیوں کی تربیت مذہبی بنیادوں پر کی۔ ان کو قلعہ بالا حصار میں تیار کیا گیا۔ 1973ء میں یہ کام شروع ہوا اور 1975ء میں اسلام پسندوں نے ایک عدد بغاوت کی جو ناکام ہوئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کا سب سے پہلا ریلا 1975ء میں آیا تھا۔ چار سال بعد روس افغانستان میں داخل ہوا۔ ایک عدد سپر پاور کو جب آپ اس حد تک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر آپ کو مدد کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا ء کو جو پالیسی ملی، اس نے حالات کی وجہ سے اس کو جاری رکھا۔
اگر جنرل ضیاء اس پالیسی پر عمل کی وجہ سے مطعون قرار پا سکتا ہے تو اس پالیسی کا بانی کیوں نہیں ؟ 1994ء ۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جن کا ذکر آپ نے کیا ، طالبان کو آرگنائز کرنے میں براہ راست ملوث تھے۔ جنرل ضیاء کو گالیاں کیوں؟
جنرل ضیا ء کو گالیاں ایک خاص طبقہ شوق سے دیتا ہے اور وہ اپنے نظریئے کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ آج کل فیشن ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جس کو کچھ علم نہیں اٹھتا ہے اور ضیاء مرحوم کو تختہ ء مشق بنا لیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جنرل ضیا ء ایک فرشتہ تھا، مگر عدل کا تقاضا ہے کہ آپ اس کو اس بات کا الزام نہ دیں جس کا ارتکاب اس نے کیا ہی نہ ہو۔ باقی آپ اپنا نظریہ قائم کرنے میں آزاد ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم سب، یا ہمارے آباء ذمہ دار ہیں۔ اتنی زیادہ خرابی صرف ایک شخص کے اقدامات کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات مندرجہ بالا حوالاجات میں پڑھی جا سکتی ہیں

میں ساڑھے چھ سال قبل اس موضوع پر مندرجہ ذیل تحاریر لکھ چکا ہوں ۔ اس میں ”3 ۔ افغان جہاد“ میں 1975ء کی بغاوت کا ذکر ہے
1 ۔ طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ ۔ 2 ۔ افغانوں کی تاریخ کا خاکہ ۔ 3 ۔ افغان جہاد ۔ 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا ۔ 5 ۔ ہیروئین کا کاروبار ۔ 6 ۔ پاکستانی طالبان ۔ 7 ۔ ذرائع ابلاغ کا کردار۔
قاضی حسین احمد کی تاریخی تحریر جو 2 قسطوں میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی

میرے مطالعہ اور تحقیق سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے افغانیوں کی تربیت ”مذہبی بنیادوں پر“ نہیں کی تھی بلکہ مذہب کا نام استعمال کر کے کرائے کے جنگجو تیار کروائے تھے جنہیں محمد داؤد خان کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ خیال رہے کہ 1973ء میں محمد داؤد خان نے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت حاصل کی تھی ۔ ظاہر شاہ امریکہ اور یو ایس ایس آر کا مشترکہ محبوب تھا ۔ محمد داؤد خان ایسے اقدامات کرتا رہا جس سے کبھی یو ایس ایس آر اور کبھی امریکہ کا طرفدار یا نمائیندہ ہونے کا تاءثر ملتا رہا لیکن آخر ایک دن اس نے اسلامی سلطنت کا اعلان کر کے سب کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا تھا