Category Archives: معلومات

اِتنا تو میں بُرا نہیں

” اِتنا تو میں بُرا نہیں “۔ یہ آواز ہے میرے وطن کی جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے لیکن ہم ناقدرے لوگ ہیں

میرا واسطہ 2 درجن سے زائد غیرممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رہا اور ان میں سے آدھے ممالک میں رہائش کا بھی موقع ملا ۔ میں نے ان لوگوں کو کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف کوئی بات کرتے نہیں سُنا ۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت سے آئے ہوئے مسلمانوں کو بھی کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف بات کرتے نہیں سُنا ۔ یہاں تک کہ اگر ان کے مُلک یا ان کے کسی ہموطن کے خلاف کوئی بات کریں تو وہ بلاتوقف اس کا دفاع کرتے تھے

مگر میرے ہموطن جہاں کہیں بھی ہوں اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کے خلاف نہ صرف بلاجواز بولنے لگتے ہیں بلکہ انہیں منع کیا جائے تو تکرار اور بدتمیزی پر اُتر آتے ہیں ۔ یہی نہیں غیرمُلکیوں سے اپنے ہموطنوں کے خلاف یا اپنے وطن کے خلاف باتیں کرنا شاید اپنی بڑائی سمجھتے ہیں

ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ نمعلوم کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی کشتی میں سوراخ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک کر رہے ہوتے ہیں ۔ میرے ہموطنوں کے اسی رویئے کے نتیجے میں پہلے متحدہ امارات (یو اے ای) پھر لبیا اور پھر سعودی عرب میں بھی بھارت کے لوگوں نے پاکستانیوں کی جگہ لے لی ۔ سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ متعدد مصدقہ واقعات میں سے نمونے کے طور پر صرف 3 جو کم از کم میری سمجھ سے باہر ہیں قلمبند کرتا ہوں

لبیا کے شہر طرابلس میں ایک پاکستانی سکول تھا جس میں ہماری ٹیم کے بچے بھی پڑھتے تھے ۔ سکول رفاہی بنیاد پر چلایا جا رہا تھا اور اس کا تعلیمی معیار اچھا تھا ۔ سکول کی عمارت کا کرایہ لبیا کی حکومت دیتی تھی ۔ ایک پاکستانی سپیشلسٹ ڈاکٹر جس کے بچے چند سال قبل اس سکول سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان جا چکے تھے کا شاید کوئی ذاتی جھگڑا تھا یا کچھ اور، اُس نے سکول کی انتظامیہ کے ناکردہ گناہوں کا لکھ کر لبیا کی حکومت کو درخواست دی کہ سکول کی عمارت واپس لے لی جائے ۔ اُن دنوں ایک سڑک چوڑی کرنے کیلئے ایک پرائیویٹ لیبی سکول کی عمارت گرائی جانا تھی چنانچہ درخواست سیکریٹری تعلیم کو بھیج دی گئی ۔ ایک پاکستانی خاندان پچھلے 15 سال سے سیکریٹری تعلیم کا ہمسایہ تھا ۔ خاتونِ خانہ مجوزہ گرائے جانے والے سکول کی ہیڈ مسٹرس تھیں ۔ سیکریٹری نے اُن سے ذکر کیا کہ پاکستانی سکول بند ہونے کے بعد وہ عمارت لے لیں ۔ وہ ہمسایہ پاکستانی تصدیق کیلئے ایک پاکستانی آفیسر کے پاس گئے جس کا پاکستانی سفارتخانہ سے تعلق تھا ۔ اس طرح بات سفیر صاحب تک پہنچی اور لبیا کی وزارتِ تعلیم سے رابطے کے بعد اللہ کی مہربانی سے سکول بچ گیا

سعودی عرب میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شاہی خاندان کا ڈینٹل سرجن تھا ۔ وزیرِ صحت کے ساتھ اُس کی دوستی تھی ۔ ایک دن وزیرِ صحت نے اُسے بتایا کہ ”ہمارے 2 اعلٰی سطح کے پاکستانی ملازم میرے پاس آ کر ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرتے رہتے تھے چنانچہ میں نے تنگ آ کر دونوں کو فارغ کر کے پاکستان بھجوا دیا ہے“۔
ایک پاکستانی طرابلس کے ایک تاجر کے پاس ملازم تھا ۔ ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ لبیا سے یورپ چلا گیا اور اُس لیبی تاجر کو خط لکھا جس کا لب لباب تھا ” میں اَووراِنوائسِنگ کرواتا رہا اور اب لاکھوں ڈالر یورپ کے بنک میں میرے نام پہ جمع ہو گئے ہیں ۔ تم نرے بیوقوف ہو ۔ سب لیبی بیوقوف ہیں ۔ پاکستانی تیز دماغ ہیں اور مال بنا رہے ہیں“۔ اس لیبی تاجر کے ساتھ میری سلام دعا تھی اور اُس پاکستانی سے بھی میری جان پہچان ہو گئی ہوئی تھی ۔ ایک دن میں لیبی کی دکان پر گیا تو اُس نے مجھے بٹھا لیا اور خط دکھا کر کہنے لگا ”میں نہیں جانتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔ یہ مجھے بیوقوف کہتا ہے دراصل یہ خود بیوقوف ہے جو اپنے مُلک کی بدنامی اور سارے ہموطنوں سے دشمنی کر رہا ہے“۔

سعودی شہزادہ اور قانون

یکم مئی 2004 بروز ہفتہ سعودی عرب کے دارالحکومت میں ایک انوکھا، مگر دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس ملک میں ابھی تک الحمدللہ حدود اسلامی کا نظام نافذ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں‌اور حاسدین کے حسد کے باوجود ابھی تک سعودی عرب میں‌ خیروبرکات غالب ہیں۔

یہ 18 ستمبر 2002 ء کی بات ہے جب سترہ سالہ شہزدہ فہد بن نایف بن سعود بن عبدالعزیز نے اپنے ایک دوست پندرہ سالہ منذر بن سلیمان القاضی کو اپنے بھائی پندرہ سالہ شہزادہ سلطان بن نایف سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ غصے میں وہ کلاشنکوف اٹھا لایا اور منذر پر فائرنگ کردی۔ منذر کو تین گولیاں ‌لگیں اور وہ وہیں‌جان بحق ہوگیا۔ شہزادے کو فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ سعودی وزارت عدل کے قانون کے مطابق ہر قتل کے کیس کو تیرہ قاضی دیکھتے ہیں، چنانچہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی 14 جولائی 2003ء کو صادر کردیا گیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف نہیں کرتے تو اس کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 178 ۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں‌جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمھارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو شرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔

زمانہ جاہلیت میں‌قصاص کا کوئی مستحکم دستور اور قانون نہ تھا، اس لئے زور آور لوگ کمزوروں پر جس طرح‌چاہتے ظلم کرتے۔ ظلم کی ایک شکل یہ تھی کہ ایک آدمی کے قتل کے عوض بسا اوقات قاتل کے پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کردینے کی کوشش کی جاتی اور عورت کے بدلے مرد کو غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرڈلتے۔ بعض لوگ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر مقتول کے کمزور وارثوں کا مقدمہ دبا کر رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس سارے فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے یہ قانون جاری کردیا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص میں‌اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں‌وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں‌وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں‌وہی عورت قتل کی جائے گی نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد یا ایک آدمی کے بدلے میں ‌متعدد آدمی۔

چنانچہ سعودی عرب میں‌نافذ شرعی قوانین پر عمل کرتے ہوئے انصاف پرور ججوں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کا خون بہا لے کر یا اللہ کے لئے معاف کردیں تو ٹھیک ورنہ قاتل بہرحال شرعی حدود کے مطابق گردن زنی ہے۔ اس مقدمے میں شاہی خاندان کے کسی فرد نے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور نہ جج صاحبان نے عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہم دیکھتے ہیں‌، بلکہ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ قصاص کا حکم جاری کردیا گیا کیونکہ ان اسلامی ججوں‌کو خوب معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے قصاص ہی میں اصل زندگی رکھی ہے اور اس کے نفاذ ہی سے ملک میں امن اور آشتی کے سائے تلے انسان راحت کے سانس لے سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد برحق ہے
وًلًکُم فِی القِصَاصِ حَیاۃ یَاُولِی الاَلبَابِ لَعَلَکُم تَتَقُون سورۃ البقرۃ آیت 179 ۔
ترجمہ: عقلمندو! قصاص ہی میں تمھارے لئے زندگی ہے، تاکہ تم ( قتل وغارت سے) بچو۔

چونکہ اس واقعے میں‌مضرم شاہی خاندان کا فرد تھا اور شاہ فہد کے بھائی سعود کا پوتا تھا، اس لئے اس مقدمہ نے اور زیادہ اہمیت اختیار کرلی۔ واضح رہے کہ اس شہزادے کے دادا شاہ سعود بن عبدالعزیز سعودی عرب کے دوسرے حکمران تھے۔ مقتول سلیمان منذر بن سلیمان قاضی بھی ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نسب نامہ بنو تمیم سے جا ملتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی تھی۔ محمد بن عبدالوھاب بھی اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مقدمے کے دوران بہت سے با اثر لوگوں نے کوشش کی کہ مقتول کے ورثاء خون بہا لے لیں اور شہزادے کو معاف کردیں مگر مقتول کے والد سلیمان نے ہر قسم کی پیشکش کو ٹھکرادیا ۔ ہر چند کہ

معاملہ ایک سعودی شہزادے کا تھا مگر اس دوران میں مقتول کے خاندان پر قطعی طور پر دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی قاضیوں پر کسی قسم کا دباؤ تھا، چنانچہ عدالت نے آزادانہ کاروائی کی اور سپریم کورٹ نے بھی یکم دسمبر 2003ء کو اپیل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ مقدمے کے دوران میں شہزادے کو ریاض کے اصلاحی مرکز میں رکھا گیا تھا اور بعد ازاں اسے ریاض کی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران میں اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔

صرف ایک مرتبہ اس کی اپنے والد نایف بن سعود کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ یاد رہے قاتل مرحوم شاہ سعود کا پوتا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم
نامے میں لکھا کہ قاتل کو یکم مئی 2004ء کی صبح قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ یکم مئی، ہفتے کا دن، ریاض کے شہزادے کے لئے انتہائی حیرانی کا دن تھا۔ صبح‌سویرے بے شمار لوگ قصر الحکم کے پہلو میں میدانِ قصاص میں جمع تھے۔ ان میں شہزادے بھی تھے
اور مختلف بڑے بڑے قبائل کے سردار بھی۔ شہزادے کو بھی پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ ہفتے کے دن اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں‌۔ صبح آٹھ بجے اس کو پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارا گیا۔ اس نے قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا۔ صبح سویرے گورنر ریاض امیر سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دفتر میں مقتول کے والد اور اس کے رشتہ داروں‌سے ملاقات کی اور بتایا کہ آج قاتل سے قصاص لیاجارہا ہے۔

نیز گورنر نے کہا کہ میں آپ لوگوں‌کے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی شاہی خاندان نے اس مقدمے کے دوران میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہاں‌،البتہ میں آپ کو اسلام میں معاف کرنے کی اہمیت سے ضرور آگاہ کروں گا ۔ اگر آپ
معاف کردیں تو یہ آپ کے اعلیٰ کردار کی دلیل ہوگی، اور اگر آپ قصاص لیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ امیر سلمان کے دفتر اور میدانِ قصاص کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ادھر ایک دن پہلے شہزادے کی والدہ سارا دن مقتول کے گھر کے باہر بیٹھی رہی۔ اس نے مقدمے کے دوران میں چھ مرتبہ منذر کی والدہ سے رابطہ کیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو رضائے الٰہی کے لئے معاف کردے ۔ مگر منذر کی والدہ اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی۔

منذر (مقتول ) کے والدین جمعہ کے روز سارا دن گھر پر نہیں‌تھے۔ سلیمان بن عبدالرحمٰن قاضی جن کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور شاہ سعود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، جاپانی پٹرول کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں‌ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام تمیم ہے۔ جس کے نام پر ان کی کنیت ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے اخبارات کو انٹرویو دیا جو سعودی اخبارات میں‌شائع ہوا ۔ یہ کوئی ڈرامہ یا فلم کا حصہ نہیں‌تھا، جب صبح دس بجے کے قریب صلح اور معافی کی تمام تر اُمیدیں ختم ہوگئیں تو شہزادے کو پابجولاں آہستہ آہستہ مقتل کی طرف لایا گیا۔ سیکورٹی کے افراد نے اس کا بازو تھاما ہوا تھا ۔ صبح کے دس بج رہے تھے ۔ عدالت کے اہلکاروں نے مقتول کے والد سلیمان سے پوچھا ۔ کیا آپ قاتل کو پہچان رہے ہیں؟ اس نے، اس کے چچا زاد بھائیوں‌نے اور قبیلے کے افراد نے گواہی دی کہ یہی شہزادہ قاتل ہے ۔ ادھر جلاد نے تلوار میان سے نکال لی کہ شہزادے نے پکارا ۔ اے ابوتمیم! اللہ کی رضا کی خاطر مجھے معاف کردیں۔ اخباری نمائندوں کو سلیمان نے بتایا کہ میں نے گزشتہ تمام وقت صرف اور صرف قصاص پر زور دیا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی عبدالرحمٰن نے مجھے ایک بار پھر کہا کہ پانچ منٹ تک غور کرلو ۔ میں سوچتا رہا۔

پانچ منٹ کے بعد پولیس کے چیف نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ قصاص لیا جائے، چنانچہ اس نے جلاد کو اشارہ کردیا۔ اس دوران میں قبیلے کے بعض افراد نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک بار پھر استخارہ کرلوں، اور اپنے رب سے بھی مشورہ طلب کرلوں ۔ میں اس سے پہلے دو مرتبہ استخارہ کرچکا تھا، اور میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ہر حالت میں قصاص چاہئیے۔ آخری لمحات میں پھر میں نے استخارے کا فیصلہ کرلیا۔ مشہد (قتل گاہ) سے چند میٹر دور میں نے اپنا رخ قبلے کی طرف کرلیا۔ میرے نیچے کوئی مصلیٰ نہ تھا۔ ایک عزیز نے اپنا رومال سجدہ گاہ میں بچھادیا کہ سورج کی تمازت سے بچ سکوں۔ آدھ گھنٹہ میں نماز ادا کرتا رہا اور مسلسل اپنے رب سے مشورہ کرتا رہا۔ (ادھر لوگ دم سادھے سلیمان القاضی کی طرف دیکھ رہے تھے۔) نماز کے بعد میں نے اپنے بیٹے تمیم سے کہا کہ موبائل پر اپنی والدہ سے بات کراؤ ۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ تمھارا کیا فیصلہ ہے؟ اس نے کہا ۔ تم جو بھی فیصلہ کروگے مجھے منظور ہے۔ پھر میں‌ نے اپنے بیٹے تمیم اور بھائی عبدالرحمٰن کو بلوایا اور ان کو بتایا کہ نماز استخارہ کے بعد میرا ذہن معاف کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری فیصلہ تو تمہارا ہے مگر اللہ کے لئے معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ ہمیں اس کے بدلے میں‌قیامت کو معاف کردے۔ اب چند لمحات کی بات تھی ۔ ۔ ۔

شہزادہ سر جھکائے ہوئے تھا۔ جلاد تلوار سونتے اشارے کا منتظر تھا کہ اچانک سلیمان القاضی نے پکارا ۔ جاؤ میں نے اللہ کے لئے تمہیں‌ معاف کردیا ۔ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا اور نہ مجھے کوئی مالی لالچ ہے ۔ ہاں، تمہیں قرآن حفظ کرنا چاہیے، بقیہ زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں‌گزارنی چاہیے۔ سلیمان القاضی نے جیسے ہی معاف کرنے کا اعلان کیا، لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ لا الہ الا اللہ کتنی ہی زبانوں پر تھا۔ حقیقی بلندی، اللہ کی ہے جس کے قانون پر عمل کرتے ہوئے قصاص لینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر اسی کی رضا کے لئے معافی کا اعلان ہوا اور شہزادہ فہد کو نئی زندگی ملی۔ ۔ ۔ بے شمار لوگوں کی آنکھیں ‌اشکبار تھیں ۔ پھر سلیمان القاضی آگے بڑھا اور شہزادے کو گلے لگالیا۔ شہزادہ فہد نے سلیمان القاضی کے سر کے بوسے لئے، اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کا بار بار شکریہ ادا کیا کہ اس کے معاف کرنے کی بدولت اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی نئی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارے گا اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے گا۔

ادھر شہزادے کی والدہ معافی نامہ سے مایوس ہوکر سخت بے چینی واضطراب کی کیفیت میں‌ مبتلا تھی جو اس موقع پر کسی ماں‌کی
ہوسکتی ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کرادیا گیا تھا۔ معافی نامہ کے فورا بعد شہزادہ فہد فہد بیڑیاں‌ پہنے ہی سکیورٹی کے عملے کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گیا۔ چونکہ معافی ملنے کے بعد ابھی عدالتی کاروائی مکمل نہیں ہوئی تھی، اس لئے شہزادے کو بیڑیوں‌سمیت ہی اس کی ماں کے پاس ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کی والدہ نے اسے دیکھ کر سخت حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ مقتول کے ورثاء نے قصاص معاف کردیا ہے تو وہ بے اختیار اپنے بیٹے سے چمٹ گئیں ۔ وہ بار بار اللہ تعالیٰ کا اور پھر قاضی فیملی کا شکریہ ادا کررہی تھیں۔ قانون کے مطابق شہزادے کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جہاں مقتول کے ورثاء نے عدالت میں حلفیہ بیان دیا کہ انہوں نے بغیر کسی جبر و اکراہ کے قاتل کو معاف کیا ہے۔ اخبارات کے مطابق سلیمان القاضی نے دیت کی ایک خطیر رقم کو ٹھکرا دیا تھا۔ شاہی فیملی نے 70 ملین ریال تک دیت کی پیش کش کی تھی۔ بعض اخبارات کے مطابق یہ رقم 20 ملین تھی۔ بہرحال رقم 20 ملین ہو یا 70 ملین، بلاشبہ انتہائی زیادہ رقم تھی جسے مقتول کے والد نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میں اپنے بیٹے کے خون کا سودا نہیں‌کرسکتا۔

اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے شہزادہ فہد کے والد نایف بن سعود نے بتایا کہ جس دن عدالتی حکم کا نفاذ ہونا تھا، اس روز صبح سویرے ایک عدالتی اہلکار نے فون پر بتایا کہ وہ عدالت پہنچ جائیں کیونکہ آج فیصلہ نافذ کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ گھر کے تمام افراد سخت پریشان اور بے چین ہوگئے ۔ شہزادے کی والدہ تو شدتِ غم سے بیہوش ہوگئیں، جنہیں فورا ہسپتال داخل کرا دیا گیا اور میں ریاض کے گورنر ہاؤس پہنچ گیا جہاں عملے کے ارکان نے مجھے صبر کی تلقین شروع کی ۔ بحیثیت والد اس موقع پر میری قلبی کیفیت کا اندازہ کیا
جاسکتا ہے ۔ اب کوئی معجزہ ہی میرے بیٹے کو بچا سکتا تھا اور بلاشبہ سلیمان القاضی نے عفو و درگذر کا مظاہرہ کرکے ایثار کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ ادھر شہزادہ فہد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مقتول منذر کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک مسجد بنائے گا تاکہ رہتی دنیا تک اس کا ثواب مرحوم کو ملتا رہے ۔ وہ بار بار جذباتی انداز میں اپنے سابقہ اقدام پر شدید ندامت کا اظہار کررہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی آئندہ
زندگی ایک مثالی مسلمان کی زندگی ہوگی ۔ سلیمان القاضی نے معافی کے بعد دوبارہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جنہوں نے اس کے جذبہ انسانی کی تحسین کی ۔

دریں اثناء بہت سے افراد اور شہزادوں نے اس عظیم کارِ خیر پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، نیز انہوں نے سعودی عرب میں اسلامی حدود کی تطبیق پر تحسین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں انصاف سب کے لئے ہے۔ شہزادہ عبدالرحمٰن بن سعود بن عبدالعزیز نے کہا کہ مملکت کی بنیاد شریعت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ آج حق اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے، اور حقدار کو حق مل گیا ہے۔ یقیناً اللہ کے شکر کے بعد سلیمان القاضی اور ان کا خاندان فیملی شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے آخری لمحات میں معافی کا اعلان کرکے ایک شہزادے کی جان بچالی۔ انہوں نے کہا کہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے شرعی قوانین کو سب کے لیے یکساں رائج کیا اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے اور نہ کوئی دباؤ ڈالا

حساب اور تاریخ

اگر گیارہ کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ یعنی ایک سو گیارہ ملین ایک سو گیارہ ہزار ایک سو گیارہ کو اتنے سے ہی ضرب دیں یعنی

111,111,111 X 111,111,111

تو حاصل ضرب ہوتا ہے

12,345,678,987,654,321

تاش کے پتوں میں ہر بادشاہ ایک خاص شخص کو بیان کرتا ہے
حُکم ۔ بادشاہ داؤد (King David) ۔ ۔ پان ۔ بادشاہ شارلے مان (Charlemagne) ۔ ۔ چڑیا ۔ بادشاہ سکندرِ اعظم (Alexander, the Great) اور اینٹ ۔ بادشاہ جولِیئس قیصر (Julius Caesar)
The Difference
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Difference “

پشاور موڑ ؟ ؟ ؟

بات تو پشاور موڑ کی کرنا ہے لیکن پہلے دو شعر جو پشاور موڑ کے قریب ہی پڑھنے کو ملے
جی 9 مرکز میں یوٹیلیٹی سٹور کے پیچھے والے احاطہ میں قصاب کی ایک دکان پر لکھا ہے
وہ مجھ سے ہو جائیں ناراض ۔ کوئی گِلہ نہیں
خفا ہو کے مجھ سے ۔ میرا شہر تو نہ چھوڑیں

ایک ٹرک کے پیچھے لکھا تھا
سانپ بند کر دیئے سپیرے نے کہہ کر یہ
انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لئے

اسلام آباد سکٹرز جی 9 ۔ ایچ 9 ۔ جی 8 اور ایچ 8 کے درمیان شاہراہ کشمیر اور نائنتھ یا آغا شاہی ایونیو جہاں ایک دوسری کو کاٹتی ہیں اس چوراہے ۔ چوک یا چورنگی کا نام پشاور موڑ مشہور ہو گیا ہوا ہے ۔ یہاں ایک انٹر چینج یا شاید سڑکوں کا گورکھ دھندا بن رہا ہے

جن لوگوں نے اسے تعمیر کیلئے بند ہونے سے قبل یعنی 9 ماہ قبل دیکھا تھا ۔ کیا وہ انٹر چینج بن جانے کے بعد اسے پہچان سکیں گے ؟
میں تو سرگرداں ہوں کہ ہفتہ وار بازار المعروف اتوار بازار کیسے جاؤں گا

ماڈل کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگائیے

Peshawar Morr Interchange

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشگوار زندگی

زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے
کہ
آنکھیں لوگوں میں اچھائی تلاش کریں
دل بڑی سے بڑی غلطی معاف کر دے
دماغ برائی کو بھول جائے
لیکن
اللہ کے احکام کبھی نہ بھولے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Missing Peace “

دہشتگردی کا ذمہ دار کون ؟

ریاض شاہد صاحب کی تحریر پر میرے تبصرے کے حوالے سے ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے تاریخی حقائق لکھے ہیں جو ہمیں اخباروں ۔ رسالوں اور کتابوں میں نہیں ملتے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ نقل کر رہا ہوں ۔ جس کے بعد ایک نکتے کی کچھ وضاحت درج ہے

در اصل اس معاملے کو ہر ایک اپنی عینک سے دیکھ کر عینک کے شیشے کے رنگ کے مطابق فیصلہ دیتا ہے۔ جتنے مُنہ اتنی باتیں کے مصداق میں بھی رائے دینے کا مرتکب ہو رہا ہوں ۔ مجھے جب ایک کینیڈین ویب سائٹ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ اگر روس 1979ء میں افغانستان میں داخل نہ ہوتا تو پاکستانی حمایت یافتہ مجاہدین 1980ء کی دہائی کے شروع میں ہی کابل پر قابض ہوجاتے تو میں حیران ہوا۔
میرے ایک دو جاننے والے ہیں جو افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین کسی نہ کسی طرح اس کانفلکٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانیوں کی تربیت مذہبی بنیادوں پر کی۔ ان کو قلعہ بالا حصار میں تیار کیا گیا۔ 1973ء میں یہ کام شروع ہوا اور 1975ء میں اسلام پسندوں نے ایک عدد بغاوت کی جو ناکام ہوئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کا سب سے پہلا ریلا 1975ء میں آیا تھا۔ چار سال بعد روس افغانستان میں داخل ہوا۔ ایک عدد سپر پاور کو جب آپ اس حد تک قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر آپ کو مدد کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا ء کو جو پالیسی ملی، اس نے حالات کی وجہ سے اس کو جاری رکھا۔
اگر جنرل ضیاء اس پالیسی پر عمل کی وجہ سے مطعون قرار پا سکتا ہے تو اس پالیسی کا بانی کیوں نہیں ؟ 1994ء ۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جن کا ذکر آپ نے کیا ، طالبان کو آرگنائز کرنے میں براہ راست ملوث تھے۔ جنرل ضیاء کو گالیاں کیوں؟
جنرل ضیا ء کو گالیاں ایک خاص طبقہ شوق سے دیتا ہے اور وہ اپنے نظریئے کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ آج کل فیشن ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا جس کو کچھ علم نہیں اٹھتا ہے اور ضیاء مرحوم کو تختہ ء مشق بنا لیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ جنرل ضیا ء ایک فرشتہ تھا، مگر عدل کا تقاضا ہے کہ آپ اس کو اس بات کا الزام نہ دیں جس کا ارتکاب اس نے کیا ہی نہ ہو۔ باقی آپ اپنا نظریہ قائم کرنے میں آزاد ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ہم سب، یا ہمارے آباء ذمہ دار ہیں۔ اتنی زیادہ خرابی صرف ایک شخص کے اقدامات کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ تفصیلات مندرجہ بالا حوالاجات میں پڑھی جا سکتی ہیں

میں ساڑھے چھ سال قبل اس موضوع پر مندرجہ ذیل تحاریر لکھ چکا ہوں ۔ اس میں ”3 ۔ افغان جہاد“ میں 1975ء کی بغاوت کا ذکر ہے
1 ۔ طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ ۔ 2 ۔ افغانوں کی تاریخ کا خاکہ ۔ 3 ۔ افغان جہاد ۔ 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا ۔ 5 ۔ ہیروئین کا کاروبار ۔ 6 ۔ پاکستانی طالبان ۔ 7 ۔ ذرائع ابلاغ کا کردار۔
قاضی حسین احمد کی تاریخی تحریر جو 2 قسطوں میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی

میرے مطالعہ اور تحقیق سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے افغانیوں کی تربیت ”مذہبی بنیادوں پر“ نہیں کی تھی بلکہ مذہب کا نام استعمال کر کے کرائے کے جنگجو تیار کروائے تھے جنہیں محمد داؤد خان کی حکومت کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ خیال رہے کہ 1973ء میں محمد داؤد خان نے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت حاصل کی تھی ۔ ظاہر شاہ امریکہ اور یو ایس ایس آر کا مشترکہ محبوب تھا ۔ محمد داؤد خان ایسے اقدامات کرتا رہا جس سے کبھی یو ایس ایس آر اور کبھی امریکہ کا طرفدار یا نمائیندہ ہونے کا تاءثر ملتا رہا لیکن آخر ایک دن اس نے اسلامی سلطنت کا اعلان کر کے سب کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا تھا

قائد اعظم اور قرآن

اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ”میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ“جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ
نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ حصہ اول میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے، اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن
سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔ (صفحات 239، 240)

غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941ء کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ءبحوالہ احمد سعید صفحہ 216)

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔

بشکریہ ۔ جنگ