صلاح الدین ایوبی نے کیا خوب کہا تھا
۔”اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینا ہو تو اس قوم میں فحاشی پھیلا دو“۔
میری بھانجی جو لاہور کے علاقہ گُلبرگ میں رہتی ہے اُس نے کتاب چہرہ (Face Book) پر یہ کتبہ لگایا ہے
میرے زمینی حقائق بیان کرنے پر چند قارئین نے کبھی کبھار مجھے پنجابی قرار دے کر مجھ پر تعصب کا سرنامہ (Label) لگایا کہ پنجابی ہوتے ہی متعصب ہو
جب پہلی بار 4 سال قبل مجھ پر سرنامہ لگایا گیا تو میں اس امر اور اس کی وجوہات کی کھوج میں لگ گیا ۔ ایک دلچسپ حقیقت آشکار ہوئی کہ عام طور پر دوسروں پر تعصب کا سرنامہ چسپاں کرنے والے شاید غیرارادی طور پر خود تعصب کا شکار ہوتے ہیں جس کا سبب اُن کا ماحول ۔ معاندانہ انتظامِ نشر و اشاعت (Biased propaganda) یا طرزِ تربیت ہوتا ہے یا پھر اُن کو کسی ایک شخص سے زِک پہنچی ہوتی ہے اور اس بناء پر وہ اُس کی پوری برادری پر سرنامہ لگا دیتے ہیں
درحقیقت تعصب کی بنیاد کا اصل سبب دین سے دُوری اور خودپسندی ہوتے ہیں ۔ دین میرِٹ کی تلقین کرتا ہے اور اگر دین سے مُبرّا بھی غور کیا جائے تو میرٹ ہی ایک جواز ہے کسی کے اعلٰی عہدے پر پہنچنے کا ۔ ہمارے مُلک میں میرٹ کی بجائے اقرباء پروری زوروں پر ہے لیکن یہ حقیقت نطر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پنجاب میں کئی اہم تعلیمی ادارے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پہلے سے موجود تھے ۔ نتیجہ ظاہر ہے یہی ہو گا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے عہدیدار باقی صوبوں کے رہائشیوں کی نسبت زیادہ ہوں گے
جملہ معترضہ ۔ اگر جموں کشمیر سارا 1947ء میں پاکستان میں شامل ہوتا تو آج اعلٰی عہدوں پر ہر طرف جموں کشمیر کے باشندے نظر آتے کیونکہ 1947ء میں جموں کشمیر میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زائد تھی
یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی آبادی ملک کی کُل آبادی کا 65 فیصد سے زائد ہے مزید یہ کہ پنجاب میں بسنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو پنجاب کے رہائشی نہ تھے ۔ اُردو بولنے والے کچھ 1947ء میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے اور پنجاب کو رہائش کیلئے منتخب کیا ۔ پشتو یا سندھی بولنے والے اور باقی اُردو بولنے والے 1972ء کے بعد بالخصوص 1990ء کے بعد سندھ ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر پنجاب میں آباد ہوئے ۔ ان لوگوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ اکثریت نے پنجابی زبان اور ثقافت کو ایسا اپنا لیا ہوا ہے کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کسی اور صوبے یا مُلک سے آئے تھے
دسمبر 2011ء میں خبر شائع ہوئی کہ وفاقی اعلٰی عہدیداروں میں پنجابیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ان کا تعلق وفاق سے ہونے کے باعث پنجاب کی حکومت کو کوئی دسترس حاصل نہیں ۔ وفاقی اداروں میں تعیناتی کے ذمہ دار صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی بنتے ہیں ۔ گو گیلانی صاحب پنجاب کے رہنے والے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے اپنے آپ کو پنجابی کی بجائے سرائیکی کہتے ہیں ۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اختیارات زرداری صاحب کے پاس ہیں جو کہ پنجابی نہیں ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کیسے لوگوں کو اعلٰی عہدوں سے نوازتے ہیں ۔ رحمٰن ملک اور بابر عوان جو دونوں پنجابی ہیں اہم مثال ہیں
اللہ کوشش کا پھل دیتا ہے میں اپنی سی کوشش کر رہا تھا کہ 27 مارچ 2012ء کو پنجاب میں تعینات اعلٰی عہدیداروں کے اعداد و شمار شائع ہوئے جن کے مطابق پنجاب میں دوسرے صوبوں کے 13 اعلٰی عہدیدار تعینات ہیں
مندرجہ ذیل فہرست پر نظر ڈالنے کے بعد قارئین و قاریات بتائیں کہ دوسری صوبائی حکومتوں نے کتنے اعلٰی عہدیدار پنجابی تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو شامل نہ کیجئے گا جو وفاقی حکومت نے تعینات کئے ہوئے ہیں ۔ وفاقی حکمرانوں کا اپنا ذاتی نظام العمل (agenda) ہے جس کا ایک مظہر روشنیوں کے شہر کراچی کا موجودہ حال ہے سُنا تھا “بغل میں چھُری منہ میں رام رام”
فاٹا سے ایک
شیر عالم محسود ۔ کمشنر ۔ سوشل سکیوریٹی
آزاد جموں کشمیر سے ایک
محمد دین وانی ۔ سیکریٹری انفارمیشن
بلوچستان سے پانچ
نور الامین مینگل ۔ڈی سی او ۔ لاہور
داؤد برائچ ۔ سپیشل سیکریٹری ہیلتھ
ثاقب عزیز ۔ سپیشل سیکریٹی ۔ لوکل گورنمنٹ
اسلم ترین ۔ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل
اسفندیار ۔ ایڑیشنل سیکریٹری ہیلتھ
خیبر پختونخوا سے تین
شوکت علی ۔ کمشنر ۔ سرگودھا
جودت ایاز ۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ۔ لیپ ٹاپ پروجیکٹ
اکرام اللہ خان ۔ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری
سندھ سے تین
ساجد یوسفانی ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ پنجاب انویسٹمنٹ بورڈ
ہارون احمد خان ۔ ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ۔ پنجاب
مؤمن آغا ۔ چیف ایگزکٹو آفیسر ۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم
معذرت
میرے بلاگ کا سرور کل یعنی 29 مارچ بروز جمعرات صبح 6 بجے سے شام سوا 6 بجے تک بوجہ مینٹننس بند رہا
جن خواتین و حضرات کو اس بندش کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہو اُن سے غیر مشروط معافی
گر قبول اُفتَد زہے عز و شرف
وضاحت
میں نے عید میلادالنبی کے متعلق ایک کتبہ اور اللہ کا فرمان نقل کئے تھے ۔ اس پر ایک تبصرہ قابلِ اہم وضاحت آیا تو سوچا کہ سب قارئین و قاریات کی رائے سے مستفید ہونے کیلئے تبصرہ اور اس کا میری طرف سے جواب سرِ ورق پر شائع کر دوں
قاری کا تبصرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، اور ظاہر ہے کسی کو بھی نہیںہوگا۔ اور قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، لہذا سورہ ضحیٰ میں جو اللہ رب کائنات نے فرمایا “واما بنعمت ربک فحدث ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ تو اس آیت کو بیان کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر پڑھ لیجیے۔
دوسری بات یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، بعد میںاس کے مختلف مترجمین نے ترجمہ کیے، تو کچھ لوگ ترجمہ کرنے میں بھٹکے بھی ہیں اور کچھ عالم نہ ہوکر بھی ترجمہ کر بیٹھے اور صحیح ترجمہ نہیں کرپائے لہذا ترجمہ کے معنی و مفہوم میں کچھ ذرا سی تبدیلی پیدا ہوگئی، میری نظر میں امام احمد رضا کا ترجمہ ایک اچھا ترجمہ ہے کیوں کہ اُس میں ایک ایک چیز کا خیال رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت بطور مثال مختلف تین مترجمین سے پیش کر رہا ہوں،
سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)
ترجمہ: ”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔ (کنز الایمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)
کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور پھر ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔ (مولوی اشرف علی تھانوی)
بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔ (مولوی محمود الحسن دیوبندی)۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ”نجد” کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ”النجد” کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔
آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ”نجد” کے معنی ہی بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateauیعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ”نجد”کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔ (ماخوذ از، اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ، پروفیسر مجید اللہ قادری)
میرا جواب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی مفید رائے سے مستفید کرنے پر مشکور ہوں
قرآن شریف کی کسی آیت کا بغیر سیاق و سباق ترجمہ لے کر رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔ سورت الضحٰی کی متذکرہ آیت کو باقی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھیئے تو وہ مطلب نہیں نکلتا جو کتبہ لکھنے والے اور آپ نے لیا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں
سورت ۔ 93 ۔ الضحٰی ۔ آیات ۔ 6 تا 11 ۔ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى 0 وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَھَدَى 0 وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَی 0 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْھَرْ 0 وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0 وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 0
ترجمہ ۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ 0 اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا 0 اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا 0 تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا 0 اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں 0 اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا 0
اب دوسرا مسئلہ جو آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کے نام منسوب کیا ہے
“نجد” کے معنی عورت کے پستانوں کی مانند ” اُبھری ہوئی چیز” کیسے بنے میری سمجھ میں نہیں آ رہا
” نجد” فعل اور اسم دونو طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیت ۔ 10 میں ” نجدین” آیا چنانچہ بطور اسم استعمال ہوا ہے ۔ ” نجد” اسم ہو تو اس کے معنی ہیں “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” جسے انگریزی میں plateau کہتے ہیں ۔
فعل کے طور پر نجد کے معنی ہیں ۔ جان بچانا ۔ چھڑانا ۔ نجات دلانا ۔ رہا کرانا
عورت کے سینے کے اُبھاروں کو “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” نہیں کہا جا سکتا
محمود الحسن اور اشرف علی تھانوی صاحبان کے تراجم عربی لفظ ” نجد” کے قریب ترین ہیں
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ کی آیات ۔ 5 تا 11 پڑھیں تو عورت کے سینے کے اُبھار کسی طرح فِٹ نہیں ہوتے
نیچے طاہر القادری صاحب کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں جو فی زمانہ بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔ انہوں نے بھی “دو راستے” لکھا ہے
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیات ۔ 5 تا 11 ۔ 5 ۔ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْہِ أَحَدٌ
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟
6 ۔ يَقُولُ أَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَہُ أَحَدٌ7 ۔
7. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا
8 ۔ أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں
9 ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)
10 ۔ وَہَدَيْنَاہُ النَّجْدَيْنِ
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
11 ۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا
پچھلے دنوں ایک کتبہ کتابِ چہرہ (Face Book) پر گردش میں نظر آیا جس میں قرآن شریف کے حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جشنِ عید میلادالنبی منانا چاہیئے ۔ پہلے اس کتبے کو پڑھ لیجئے پھر وہ آیات جن کا حوالہ بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے اُن کا اصل ترجمہ کتبہ کے بعد نیچے پڑھ لیجئے اور موازنہ کر لیجئے کہ درست کیا ہے
سورت آل عمران ۔ آیت 103 ۔ اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔
سورت الضحٰی ۔ آیات 9 تا 11 ۔ تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا ۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں ۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا۔
سورت یونس ۔ آیت 58 ۔ کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
سورت انبیاء ۔ آیت 107 ۔ اور (اے محمد!) ہم نے تم کو تمام جہاں کے لئے رحمت (بناکر) بھیجا ہے
سورت آل عمران ۔ آیت 164 ۔ کا ترجمہ یہ ہے ۔خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
سورت ابراھیم ۔ آیت 7 ۔ اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔
سورت ابراھیم ۔ آیت 5 ۔ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیاں دیکر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور انکو خدا کے دن یاد دلاؤ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے جو صابر و شاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔
میں نے 6 مارچ اور 13 مارچ کو جو لکھا اس سے شاید عورتوں کی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ قاریات ان تحاریر کے سبب مجھ سے ناراض بیٹھی ہوں یا کوسنے دے رہی ہوں ۔ میں نے افسانے کبھی شوق سے نہیں پڑھے اور عملی زندگی گذاری ہے اور لکھتا ذاتی مشاہدے اور مطالعہ کے زیرِ اثر ہوں ۔ میرا مدعا کسی کی مخالفت یا عیب جوئی کی بجائے معاشرے کی بہتری کی خاطر حقائق کو برسرِ عام لانا ہوتا ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک قول رقم کیا جاتا ہے ” عورت بیک وقت جنّت کی حور اور جہنّم کی بھٹی ہے ”
میں عورت کی اول الذکر خصوصیت کی بات کروں گا اور اس میں ذاتی تجربہ کی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کُنبہ پروری کی زد میں آ جانے کا خدشہ ہے وجہ یہ ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے کُنبے کی تمام عورتیں یعنی ماں ۔ بہنیں ۔ بیوی ۔ بیٹی اور بہو بیٹیاں بہت ہمدرد اور جانثار عطا کیں ۔ چنانچہ بات مشاہدے کی
کچھ سال پرانا واقعہ ہے کہ یورپ میں جا بسنے والے ایک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھاتے پیتے والدین نے اپنی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی کی منگی اُس کی مرضی پوچھے بغیر یورپ کے ایک دوسرے شہر میں رہائش رکھنے والے اپنے جیسے خاندان کے لڑکے سے طے کر دی ۔ لڑکی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جو شادی میں تاخیر کا سبب بن رہا تھا ۔ کچھ لوگوں کو شُبہ ہونا شروع ہوا کہ لڑکی جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ایک دن وہ لڑکا ٹریفک کے حادثہ میں شدید زخمی ہو گیا ۔ ان وجوہ پر ہسپتال میں ہوش سنبھالنے کے بعد لڑکے نے لڑکی والوں کو پیغام بھجوایا کہ وہ کوئی اور اچھا لڑکا تلاش کر کے اپنی بیٹی کی شادی کر دیں ۔ والدین نے یہ بات اپنی بیٹی کو سنائی ۔ لڑکی نے سب سُن کر والدین سے لڑکے کے پاس جا کر اُسے دیکھنے کی اجازت مانگی تو وہ حیران ہوئے ۔ بیٹی کے اصرار پر اُسے اجازت دے دی
لڑکی دوسرے شہر ہسپتال میں اپنے منگیتر کے پاس پہنچی ۔ لڑکا اُسے دیکھ کر خوش ہوا اور اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ پھر اُسے بتایا کہ وہ اپاہج ہو چکا ہے اور بچ گیا تو ساری زندگی بستر پر اور ویل چیئر پر گذارے گا اسلئے وہ کسی اور کو اپنا زندگی کا ساتھی بنا لے ۔ لڑکی نے اپنے منگیتر سے کہا کہ ”جو کچھ ہوا اُس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں تو پھر اس کی سزا تمہیں کیوں ملے ۔ تمہیں ایک اچھی نرس کی ضرورت ہے اور بیوی سے بہتر اور کوئی نرس نہیں ہو سکتی“۔ لڑکے نے اُسے بہت سمجھایا اور کہا کہ ”میری خوشی اسی میں ہے کہ تم اپنی زندگی برباد نہ کرو ۔ میں اب تمہارے قابل نہیں رہا“۔ لڑکی چلی گئی اور گھر پہنچتے ہی اپنے والدین سے کہا کہ ”فوراً میری شادی میرے منگیتر کے ساتھ کر دیں“۔
شادی کیا کرنا تھی وہ لوگ لڑکے کے شہر گئے اور نکاح پڑھوا دیا ۔ اس کے بعد لڑکی نے اپنے خاوند کی تیمارداری شروع کر دی ۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ خاوند کی خدمت کرتی ہے ۔ جہاں جاتی ہے خاوند کو ساتھ لے کر جاتی ہے ۔ گاڑی سے اُتار کر ویل چیئر پربٹھاتی اور ویل چیئر کو خود چلاتی ہے ۔ کسی صورت بھی خاوند کو معذوری کا احساس نہیں ہونے دیتی
عورت جنّت کی حور نہیں تو پھر کیا ہے ؟
جدھر جائيں جہاں جائيں
يہی کچھ سُننے کو ملتا ہے
لڑکے يہ کرتے ہيں
لڑکے وہ کرتے ہيں
لڑکے لڑکيوں کو چھيڑتے ہيں
لڑکے لڑکيوں کو گھُورتے ہيں
مانا کہ اس ميں کچھ حقيقت بھی ہے
ليکن ايک نظر ادھر بھی

میں نے “بے غیرتاں دا ٹولہ” تو نہیں سُنا لیکن ایک دن میں کہیں جا رہا تھا تو 3 نوجوان اکٹھے ٹہل رہے تھے تو کسی نے کہا ڈشکرے ۔ بعد میں میں نے کسی سے ڈشکرے کا مطلب پوچھا تو خطرناک غُنڈے بتایا گیا ۔ یہ واضح کر دوں کہ مجھے تو اُن میں کوئی غلط بات نظر نہیں آئی ۔ اُن کی نظریں بھی جھکی ہوئی تھیں اور مدھم آواز میں آپس میں باتیں کر رہے تھے
بچپن میں کہانیاں بڑے شوق سے سنا کرتے تھے ۔ يہ کہانياں گو مبالغہ آميز ہوتيں ليکن اپنے اندر ايک سبق لئے ہوئے بچوں اور بڑوں کيلئے بھی تربيت کا ايک طريقہ ہوتی تھيں
ايک کہانی جو عام تھی يہ کہ ايک ملک کا بادشاہ مر گيا ۔ شورٰی نے فيصلہ کيا کہ جو شخص فلاں دن صبح سويرے سب سے پہلے شہر ميں داخل ہو گا اُسے بادشاہ بنا ديا جائے گا ۔ اس دن سب سے پہلے ايک فقير داخل ہوا سو اُسے بادشاہ بنا ديا گيا ۔ فقير کو کبھی حلوہ نصيب نہيں ہوا تھا ۔ اس نے حلوہ پکانے کا حُکم ديا اور خوب حلوہ کھايا ۔ دوسرے دن پھر حلوہ پکوايا اور خوب کھايا ۔ فقير حلوہ پکوانے اور کھانے ميں لگا رہا ۔ سلطنت کے اہلکار حلوے کا بندوبست کرنے ميں لگے رہے اور ملک تباہ ہو گيا ۔ فقير نے اپنا کشکول پکڑا اور پھر بھيک مانگنے چل پڑا
اس کہانی کا مقصد تو يہ تھا کہ فيصلے عقل سے ہونے چاہئيں اور ہر آدمی کو اجتماعی بہتری کا کام کرنا چاہيئے نہ کہ ايک شخص [بادشاہ] کی چاپلوسی
ليکن عوام فقير کو ہی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں
اُنہيں کوئی قصوروار نہيں کہتا جو ملک و قوم کو بھول کر حريص بادشاہ کی خوشامد ميں لگے رہے اور اپنے مناصب کا کام نہ کيا جس سے ملک تباہ ہوا اور قوم بدحال
نہ اُس بادشاہ کی رعايا کو کوئی کچھ کہتا ہے جو سوئی رہی اور تباہی کو روکنے کيلئے کچھ نہ کيا
آج پورے ملک میں امن و امان کی حالت خراب ۔ کمر توڑ مہنگائی اور قومی دولت کی لُوٹ مار ہے ۔ لاکھوں گھروں میں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس ۔ کارخانوں کے لاکھوں مزدور اور ہُنر مند دو وقت کی روٹی اور پانی بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے ذلت کی انتہائی گہرائیوں میں گر چکے ہیں ۔ سرکاری دفاتر ميں بغیر رشوت دیئے جائز کام بھی نہیں ہوتے ۔ نہ گھروں میں لوگ چوروں ڈاکوؤں سے محفوظ ہیں اور نہ ہی سڑکوں بازاروں میں
غریب آدمی سے ملک کی موجودہ بد تر حالت کو تبدیل کرنے کیلئے باہر نکلنے کو کہیں تو وہ کہتے ہیں ہم میں تو طاقت ہی نہیں ہے
مڈل کلاس والوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے
اور امیر کہتے ہیں کہ ہمیں باہر نکلنے کی کوئی ضرروت ہی نہیں ہے
سب شائد یہ بھول گئے ہیں کہ جب آگ بھڑک اُٹھے اور سب مل کر اسے نہ بجھائیں تو وہاں رہنے والے سب بھسم ہو جاتے ہیں
دوسری کہانی
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے کسان کی حویلی کے صحن میں ایک درخت تھا جس کے نیچے وہ اپنی گائے اور بکری کو باندھا کرتا تھا ۔ اس نے ایک مرغا بھی پالا ہوا تھا ۔ ایک دن کسان کی بيوی نے کہا کہ “سردیاں آرہی ہیں ۔ کل اس درخت کو کاٹ کر لکڑیاں بنا لیں گے”۔ کسان نے کہا کہ “یہ درخت ميرے باپ کی لگائی ہوئی نشانی ہے ۔ اسے مت کاٹو”۔ لیکن کسان کی بیوی نے ضد کرتے ہوئے اسے کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا
درخت نے جب یہ سنا تو اس نے اپنی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے مرغے سے کہا “تم سُن رہے ہو کہ مجھے مارنے اور کاٹنے کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میری کسی طرح مدد کرو ۔ اگر میں نہ رہا تم کس ٹہنی پر بیٹھا کروگے ؟”
مرغے نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ “تم جانو اور تمہار اکام ۔ میں پوری حویلی میں بھاگتا پھروں گا”
درخت نے مرغے سے مایوس ہو کر پہلے گائے اور پھربکری کی منتیں کیں کہ “کسی طرح حویلی کے مالکوں کو سمجھاؤ کہ وہ مجھے مت کاٹیں ۔ میں تم سب کو سانس لینے کیلئے آکسیجن دیتا ہوں ۔ تپتی گرمیوں میں اس حویلی والوں کو گرم لُو سے بچاتا ہوں اور جب تمہیں زیادہ بھوک لگتی ہے تو میرے پتے تمہارے کام آتے ہیں”۔ لیکن بکری اور گائے نے بھی کہا کہ “میاں اپنی جان بچانے کا بندو بست تم خود کرو ۔ تمہارے کٹ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ہمیں تو روزانہ باہر لے جایا جاتا ہے اور تمہارے پتوں کی ہمیں اتنی ضرورت بھی نہیں ہے”
اگلی صبح کسان کی بیوی نے اس درخت کو کٹوا کر اس کی لکڑیاں بنوا لیں اور ایک کچے کوٹھے میں اس کا ڈھیر لگا دیا ۔ جب سردیاں شروع ہوئیں تو ایک رات کسان کی بیوی لکڑیاں لینے کیلئے گئی ۔ چند لمحوں بعد اس کی تیز اور خوفناک چیخوں سے ساری حویلی گونجنے لگی ۔ سب بھاگ کر گئے تو دیکھا کہ اُسے لکڑیوں میں چھپے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ اپنی ٹانگ پکڑے بُری طرح تڑپ رہی تھی ۔ فوری طور پر گاؤں کے حکیم کو بلایا گیا جس کے فوری علاج سے عورت بچ تو گئی لیکن اس پر کمزوری چھانے لگی ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ “اسے دوائی کے ساتھ ساتھ مرغ کی گرم گرم یخنی پلائی جائے”۔
فوری طور پر مُرغے کو ذبح کیا گیا اور وقفے وقفے سے اس کی یخنی کسان کی بیوی کو پلائی جانے لگی لیکن زہر نے کمزوری سارے جسم میں پھیلا دی تھی ۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ “مریضہ کو بکرے کی یخنی پلائيں اور ساتھ گوشت بھُون کر روزانہ کھلایا جائے”۔ چنانچہ بکری کو ذبح کیا گیا ۔ جب کسان کے رشتہ داروں اور اس کے سسرال والوں تک اس کی بیوی کو سانپ کے کاٹنے کی خبر پہنچی تو ان کے پاس تیمارداری کیلئے آئے ہوئے رشتہ داروں کا جمگھٹا ہو گیا ۔ ان مہمانوں کیلئے کسان کو اپنی گائے ذبح کرنا پڑی
آج ہماری قوم کا بھی کچھ ايسا ہی حال ہے ۔ ملک اپنے ہی کرتُوتَوں کی وجہ سے تباہی کی طرف تيزی سے گامزن ہے اور جسے ديکھو وہ صرف اپنا دامن بجانے کی فکر ميں ہے ۔ اجتماعی فکر کسی کو نہيں ہے
سب بھُولے بيٹھے ہيں کہ ” يہ مُلک سلامت رہے گا تو ہم بھی سلامت رہيں گيں اور يہ مُلک ترقی کرے گا تو ہماری تکاليف دور ہوں گی”