Category Archives: طور طريقہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ راستہ اور منزل

My Id Pak

اگر راستہ خوبصورت ہے تو معلوم کیجئے کہ کس منزل کو جاتا ہے
اگر منزل خوبصورت ہو تو راستہ کی پرواہ مت کیجئے

کیونکہ خوبصورت منزل مل جانے پر راستہ کی دُشواریوں کا احساس ختم ہو جاتا ہے
لیکن منزل خوبصورت نہ ہو تو آدمی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا

آج سے 20 دن بعد مُلک میں انتخابات ہوں گے ۔ اگر میرے ہموطن خوبصورت منزل کو بھُول کر سیاستدانوں کے خوبصورت وعدوں کے پیچھے لگ گئے تو اگلے 5 سال روتے ہوئے ہی گذاریں گے

نہ فرشتے اُمیدوار ہیں اور نہ نبی ۔ اسلئے اُن کی تلاش چھوڑ دیجئے
ووٹ ضرور ڈالیئے مگر اُسے جو باقی سب سے اچھا ہو ۔ باتوں یا شکل میں نہیں ۔ عمل میں اچھا

دوست۔ آقا نہیں

اس سلسہ میں 9 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“ ۔ ”انکوائری ۔ تفتیش” اور ” ہمارے اطوار “ لکھ چکا ہوں

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی ۔ 6 ماہ کیلئے مختلف فیکٹریوں میں تربیت حاصل کی ۔ پہلے 4 ہفتے سمال آرمز گروپ میں تربیت کے تھے ۔ مجھے کام سیکھنے کا شوق تھا اسی لئے ٹیکنیکل کالج راولپنڈی میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ چھوڑ کر پی او ایف میں آیا تھا ۔ اس زمانہ میں سمال آرمز گروپ میں کوئی اسلحہ نہیں بن رہا تھا ۔ اینفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کے چند سپیئر پارٹ بن رہے تھے ۔ میں مشینوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان پرزوں کی پروڈکشن کا بھی مطالعہ کرتا رہا ۔ جب 2 ہفتے گذر چکے تھے تو ایک فورمین صاحب جو پوری پی او ایف میں گھاک مانے جاتے تھے مجھے کہنے لگے ”ہماری مدد کریں ۔ ایک پرزہ ہے جس میں ٹیپر (taper) آ رہا ہے ۔ میں نے انکساری سے کہا ”آپ تو کام کے ماہر ہیں ۔ جو بات آپ کو سمجھ نہیں آئی وہ مجھے کیسے سمجھ آئے گی ؟“ بولے ”میں آپ کے عِلم سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں“۔ میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا۔ ورکر نے پرزہ بنا کر دکھایا ۔ مستری بھی موجود تھا ۔ میں نے فورمین صاحب اور مستری سے پوری تاریخ معلوم کرنے کے بعد کچھ ھدایات دیں جن پر عمل کرنے سے پُرزے درست بننے شروع ہوگئے ۔ ایک دن بعد فورمین صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لے آئے ۔ مطالعہ کے بعد ھدایات دیں تو اللہ کے کرم سے وہ پرزہ بھی درست بننے لگا۔ فورمین صاحب نے منیجر صاحب کو بتایا جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا ”کوئی بڑی بات نہ تھی آپ بھی اسے کر سکتے تھے“۔ میرے پاؤں کے نیچے سے اُس وقت زمین سِرکتی محسوس ہوئی جب منیجر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں الیکٹریکل انجنیئر ہوں“۔

دوسرا واقعہ اُس دور کا ہے جب سمال آرمز گروپ بڑھ کر ویپنز فیکٹری بن چکا تھا اور میں پروڈکشن منیجر تھا ۔ ایک صاحب کسی دوسری فیکٹری سے تبدیل کر کے جنرل منیجر ویپنز فیکٹری تعینات کئے گئے ۔ میں اُنہیں پروڈکشن کے معاملات سمجھانے میں دقت محسوس کرتا رہا ۔ آدمی بہت اچھے تھے ۔ میں چند ماہ میں اُن سے بے تکلف ہو گیا ۔ ایک دن اُنہیں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے کہا ”انجیئرنگ کالج لاہور کے پڑھے مکینیکل انجنیئر کو تو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے”۔ وہ بولے ”میں دراصل سِول انجنیئر ہوں“۔

ایک سینیئر انجیئر صاحب سے کچھ بے تکلفی تھی ۔ میں نے ان سے ذکر کیا ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابتداء میں پی او ایف کی پلاننگ اور انتظام انگریزوں کے پاس تھا ۔ اُنہوں نے حکومت سے منظوری لی کہ بھرتی پبلک سروس کمیشن کی بجائے خود کریں گے ۔ اخبار میں اشتہار دے دیا کہ بٰی ایس سی انجنیئر چاہئیں ۔ پھر مکینکل ۔ الیکٹریکل اور سول انجنئر بھرتی کر کے سب کو مزید تعلیم و تربیت کی غرض سے 3 سال کیلئے برطانیہ بھیج دیا ۔ واپس آنے پر کام زیادہ نہ تھا جس سے بے اطمینانی پیدا ہوئی ۔ کئی انجنیئر شور کرنے لگے کہ ”ہمیں ملازمت چھوڑنے کی اجازت دی جائے“۔ چیئرمین نے کہا ”جو جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے“۔ اُن دنوں ملک میں انڈسٹری ترقی پا رہی تھی ۔ سب قابل اور ذھین انجنیئر چھوڑ کر چلے گئے ۔ پیچھے کچھ سول اور الیکٹریکل انجنیئر اور برطانیہ سے فیل ہو کر آنے والے مکینیکل انجنیئر رہ گئے ۔ البتہ 3 سول انجنیئرز میں سے 2 سمجھدار اور محنتی تھے اور محنت کرنے والے کی قدر اور حمائت کرتے تھے ۔ انجنیئرنگ فیکٹریز میں محنتی لوگوں میں سے زیادہ کی رپورٹیں خراب ہوتی رہیں اور نالائق مگر چاپلوس اور ذاتی خدمتگار ترقیاں پاتے رہے ۔ اس کے ذمہ دار وہ مکینکل انجنیئر تھے جو برطانیہ سے ناکام واپس لوٹے تھے یا پھر جو مکینیکل انجنئر نہ تھے سوائے 2 متذکرہ بالا سول انجنیئرز کے ۔ اس کے بر عکس ایکسپلوسِوز فیکٹری میں سارے انجینئر موجود رہے ۔ وہ سب برطانیہ سے کامیاب ہو کر واپس آئے تھے ۔ ایکسپلوسِوز فیکٹری میں کبھی کسی محنتی آفیسر کی رپورٹ خراب نہ ہوئی

ایک اور قابلِ ذکر حقیقت ہے کہ ازل سے برطانیہ اور امریکا نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی بھی اسلحہ میں خود کفیل ہو سکے ۔ ہو سکتا ہے غلط بھرتی کی یہی وجہ ہو ۔ جب 1962ء میں کم از کم بنیادی اسلحہ میں خود کفیل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ابتداء جرمن رائفل جی 3 سے ہونا تھی ۔ امریکا نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ایک لاکھ ایم 1 رائفلز دینے کی پیش کش کی ۔ افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خود کفالت کے حق میں تھے فیصلہ سربراہِ مملکت جنرل محمد ایوب خان نے کرنا تھا جس نے کہا ” ہمیں دوست چاہیئں ۔ آقا نہیں“۔ موجودہ صحافی ہمایوں گوہر کے والد الطاف گوہر صاحب نے اسی عنوان (Friends, Not Masters) سے جنرل ایوب خان کی طرف سے کتاب لکھی تھی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ازدواج

دولت ۔ کار ۔ کوٹھی سے بیوی کو کچھ خوشی تو مل جاتی ہے لیکن سکون نہیں
باہمی احترام اور مفاہمت سے بیوی محبت کا احساس پاتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے

یہی اصول بیوی پر خاوند کیلئے منطبق ہوتا ہے صرف ”دولت کار کوٹھی“ کی جگہ ”حُسن اور جنسی خواہش“ لے لیتے ہیں

ایک خواہش

شاعر نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

دم نکلنا تو بہت بڑی بات ہے میں نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں کہ جس کے پورا ہونے میں کوئی اور فرد شامل ہو ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے بزرگوں کی تربیت کا اثر ہے یا کہ میرے اساتذہ کی تعلیم کا یا دونوں کا کہ میرے دل و دماغ میں زیادہ تر ایک خواہش ہی رہی ہے جو اُس وقت پیدا ہوئی جب میں چھٹی جماعت (اواخر 1948ء) میں پڑھتا تھا ۔ اس خواہش کے سبب مجھے کبھی ذہنی اور کبھی مالی زک اُٹھانا پڑی ۔ اس کے باوجود یہ خواہش الحمدللہ بدرجہ اتم موجود رہی اور اب تک قائم ہے

اس خواہش کو بیان کرنے کیلئے مجھے دو دہائیاں قبل مناسب زبان مل گئی اور میں نے اِسے جلی حروف میں لکھ کر اپنے مطالعہ کے کمرے میں نمایاں جگہ پر لگا دیا ۔ آتے جاتے نہ صرف میری نظر اس پر پڑتی بلکہ جو بھی اس کمرے میں داخل ہوتا اُس کی نظر اس پر پڑتی

ہم جولائی 2009ء میں لاہور چلے گئے اور فروری 2011ء میں واپس آئے ۔ مجھے شدید کالا یرکان (Hepatitis C) ہو جانے کی وجہ سے میں جون 2011ء تک زیرِ علاج رہا ۔ قبل ازیں 28 ستمبر 2010ء کو سر پر شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے میرا حافظہ بگڑ چکا تھا چنانچہ جب میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں گیا تو مجھے یاد نہ تھا کہ میں نے کوئی کاغذ الماری کے شیشہ پر چپکایا تھا ۔ خواہش باقی تھی لیکن وہ کاغذ الماری کے شیشے اور میرے ذہن دونوں سے غائب ہو چکا تھا

سردیوں سے قبل میں الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ وہ کاغذ مجھے ملا ۔ میں نے سنبھال کر رکھا کہ اسے نئے کاغذ پر لکھ کر لگانا ہے ۔ حافظہ نے پھر ساتھ نہ دیا ۔ اب مجھے کچھ اور تلاش کرتے ملا تو میں نے اپنے بلاگ پر محفوظ کرنے کا سوچا

میری خواہش

اے خدا جذبہءِ اِیثار عطا کر ہم کو
جو گُفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو

زندگی اِک نعمتِ رَبّانی ہے
آؤ اِس کی کچھ تعظیم کریں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں میں تقسیم کریں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ غَلَطی

My Id Pak

کوئی شخص ایک ہی غَلَطی دو بار نہیں کرتا
کیونکہ
دوسری بار غلطی نہیں ہوتی بلکہ انتخاب ہوتا ہے

اب بھی سنبھل جائیں تو سب کچھ درست ہو سکتا ہے

عقلمندی کا ثبوت دیجئے اور 11 مئی کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات میں پچھلی غلطی نہ دہراتے ہوئے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفاد سے مبرّا ہو کر صرف مُلک کی بہتری کیلئے ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دیجئے جنہوں نے آپ کی اپنی نظر میں پچھلے کم از کم 5 سال میں دیانتدار ہونے کا ثبوت دیا ہو اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ وقت

My Id Pak

گذرا وقت نہ لوٹایا جا سکتا ہے ۔ نہ پھر کبھی آتا ہے

جذبات عارضی ہوتے ہیں ۔ فیصلے مُستقل

ایسے وقت کوئی فیصلہ نہ کیجئے جب غُصے میں ہوں
ایسے وقت کوئی وعدہ نہ کیجئے جب بہت خُوش ہوں
اور نہ ہی فیصلہ کرتے ہوئے جلدبازی کیجئے

ووٹ دینے کیلئے اُمیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے بھی ان عوامل کا خیال رکھیئے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر کلک کر کے پڑھیئے کہ دنیا کیا کہتی ہے
Barak Obama’s Tears
Palestine and US Humbug

ایک نیا مرض

ایک نیا مرض جو بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ خاندانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن بھی چکا ہے
مُشکل یہ ہے کہ اس مرض کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے
اچنبے کی بات ہے کہ اس مرض سے پریشان اکثر وہی ہیں جو اس کے جراثیم بصد شوق خود ہی لے کر آئے تھے

کہیں آپ بھی اس مرض میں مبتلاء تو نہیں ؟
کیا ہے وہ نیا مرض ؟ خود ہی دیکھ لیجئے

ابتداء یعنی جب مرض کے جراثیم گھر میں آئے خوشی بخوشی

پھر دلچسپی بڑھی

جب شوق عشق میں ڈھل گیا

نوبت یہاں تک پہنچی

انجامِ کار

پھر کمپیوٹر کا استعمال ؟