He has the right to criticize
Who
Has the heart to help
Category Archives: طور طريقہ
ہمارا مُلک اور ہم
” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے ؟“
” اس مُلک میں کیا رکھا ہے ؟“
میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن بلا توقّف اور بلا تکلّف یہ فقرے منہ سے ادا کرتے ہوئے نہ شرماتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں
خاموش اکثریت اِن فقروں کو سُننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اُنہیں اِن میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی
کبھی ہم نے سوچا کہ ہم پر اس مُلک کی کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟
کیا ہم نے اپنی ذمہ داریوں میں سے 10 فیصد بھی ادا کر دی ہیں ؟
” نہیں یہ ہم کیوں سوچیں ؟ ہم تو پیدا ہوئے اپنی ماں کے بطن سے ۔ پلے اور پڑھے اپنے باپ کی کمائی سے ۔ ملازمت یا کاروبار کیا اپنی عقل اور تعلیم کے زور پر ۔ ہمیں اس مُلک نے کیا دیا جو ہم پر اس کی ذمہ داریاں عائد ہوں ؟“
آپ 14 اگست کو یومِ آزادی یا قائداعظم کے الفاظ میں یومِ استقلال منانے کی بجائے 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات نیو ایئر نائٹ مناتے ہیں
آپ مسلمان ہیں لیکن رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ کے بتائے ہوئے تہوار عیدین کو جوش و جذبہ سے منانے کی بجائے ہندوؤں کے تہوار بسنت کو بڑے شوق اور جوش و جذبہ سے مناتے ہیں
آپ کو قائدِ اعظم اور اُن کے رُفقاء کی سوانح میں تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن ایکٹر بالی وُڈ کا ہو یا ہالی وُڈ کا اُس کے متعلق آپ کا عِلم وسیع ہے
آپ دفتر میں ہوں تو گپ شپ کرنا لازمی سمجھتے ہیں اور سرکاری (قومی) اشیاء بالخصوص ٹیلیفون کا اپنی ذات کیلئے استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں
سڑک پر گاڑی چلا رہے ہوں تو سُرخ بتی پر رُکنا یا کسی دوسری گاڑی کا آپ کی گاڑی سے آگے ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں
آپ کو پاکستانی کہلانا پسند نہیں
آپ کو اپنی زبان بھی گنوار لگتی ہے ۔ جب تک اس میں انگریزی کی بے ربط ملاوٹ نہ کر لیں آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا
آپ کو اپنے لوگوں ۔ اپنی ثقافت میں بد بُو آتی ہے
آپ اس مُلک کو چھوڑ کر چلے جایئے ۔ جس ملک میں جانا چاہیں گے وہ مُلک آپ کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا ۔ اگر آپ میں وہ وصف ہو گا جو اس مُلک کو چاہیئے تو آپ کو داخلے کی اجازت ملے گی ۔ وہاں آپ کو کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا پڑے گا ۔ اپنی مرضی نہیں چلے گی اور نہ آپ کی اُوٹ پٹانگ باتیں جو آپ یہاں کرتے ہیں کوئی برداشت کرے گا ۔ وہاں آپ کو سب کچھ اُن کی مرضی سے کرنا پڑے گا ۔ مانا کہ اُن کی تابعداری کرنے کے بعد آپ کو وہاں کی شہریت مل جائے گی مگر اگلی کئی نسلوں تک آپ کو پاکستانی ہی کہا جائے گا ۔
کبھی تو حق بات سوچیئے
اس سراب سے نکل آیئے جس میں آپ گھِرے ہوئے ہیں
کیا اس مُلک نے آپ کو ایک شناخت نہیں بخشی ؟
کیا یہ مُلک آپ کا بوجھ نہیں اُٹھا ہوئے ؟
کیا آپ کے وفات پاجانے والے بزرگ اس کی مٹی کے نیچے دفن نہیں ہیں ؟
اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود کیا آپ کو یہاں علاج معالجہ کی سہولت آسانی سے نہیں ملتی ؟ اگر آپ نہیں جانتے تو سُن لیجئے ۔ میں جرمنی کے ایک بڑے شہر ڈُوسل ڈَورف میں تیز بُخار میں مبتلاء ہوا ۔ جس ادارہ کے ساتھ میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے کام کر رہا تھا اُس کے اعلیٰ افسر نے پوری کوشش کی کہ جلد از جلد میرے علاج کا بندوبست ہو ۔ کئی گھنٹوں کی کاوش کے بعد جو ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت ملا وہ 10 دن بعد کا تھا ۔ میں نے کہا ”10 دن میں یا تو میں اللہ کے حُکم سے تندرست ہو گیا ہوں گا یا مر چکا ہوں گا“۔ ہمیں اپنے مُلک میں 2 گھنٹے انتظار کرنا پڑ جائے تو ہم طوفان مچا دیتے ہیں
یہی نہیں اپنے مُلک میں آپ کے رشتہ دار آپ کی خدمت کو تیار رہتے ہیں ۔ اگر رشتہ دار قریب نہ رہتے ہوں تو محلے دار آپ کی مدد کو تیار رہتے ہیں ۔ لیکن آپ اُس یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جہاں کسی کے پاس آپ کی بات سُننے کا بھی وقت نہیں ہوتا
آپ کے وطن اس خداداد مملکت پاکستان میں کیا نہیں ہے ؟
ہر قسم کا موسم ۔ سردی ۔ بہار ۔ گرمی ۔ برسات اور خزاں
ہر قسم کی زمین ۔ برف سے لدے پہاڑ ۔ سر سبز پہاڑ ۔ چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ میدان ۔ ہرے بھرے کھیت ۔ صحرا ۔ دریا ۔ نہریں ۔ سمندر ۔ حسین وادیاں ۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سوائے مؤنٹ ایورسٹ کے ۔ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ۔
ہر قسم کے پھل ۔ سیب ۔ ناشپاتی ۔ انگور ۔ داخ ۔ لیچی ۔ گلاس (انگریزی میں چَیری) ۔ امردو ۔ پپیتا ۔ کیلا ۔ مالٹے ۔ کینو ۔ میٹھا ۔ لیموں ۔ چکوترا (انگریزی میں گریپ فروٹ)۔ خوبانی ۔ آلو بخارا ۔ آڑو ۔ لوکاٹ ۔ بگو گوشہ ۔ بیر ۔ گرنے یا گرنڈے ۔ فالسے ۔ بادام ۔ مونگ پھلی ۔ اخروٹ ۔ اناناس ۔ انار ۔ تُوت ۔ شہتوت ۔ چیکُو ۔ کھجور ۔ رس بھری ۔ سٹابری ۔ تربوز ۔ خربوزہ ۔ مونگ پھلی ۔ سردا ۔ گرما ۔ دنیا کا لذیذ ترین آم ۔ اور ہمارے مُلک کے کِینو کا بھی دنیا میں ثانی نہیں ہے
ہر قسم کی اور بہترین سبزیاں۔ نام لکھنے شروع کروں تو میں لکھتے اور آپ پڑھتے تھک جائیں گے ۔ صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ دنیا کی بہترین گندم اور بہترین چاول (باسمتی) ہمارے مُلک پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ باسمتی چاول صرف پاکستان کی پہچان ہے کسی اور مُلک میں نہیں پایا جاتا ۔ اور ہاں ہمارے مُلک کی کپاس بھی مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
کبھی تو ان نعمتوں کیلئے اللہ کے شکرگذار ہو کر اپنے اس وطن کی بہتری کا سوچیئے اور اس کیلئے محنت کیجئے
جتنی محنت آپ غیر ممالک کیلئے یا وہاں جا کر کرتے ہیں اور جس نظم و ضبط کی پابندی آپ وہاں کرتے ہیں اتنا اپنے ملک پاکستان میں کریں پھر اپنا مُلک بہترین ہو جائے گا اور اس میں روزگار کے اتنے مواقع ہو جائیں گے کہ کسی ہموطن کو غیر ممالک میں دھکے کھانے کی حاجت نہیں رہے گی
اللہ ہم سب کو حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سیدھی راہ پر گامزن کرے
میری ڈائری ۔ جون 1955ء
جون 1955ء میں میری لکھی ہوئی ایک نصیحت
The greater part of your trouble
lies in your own imaginations
So you may free yourself from it when you please
سب چور ہیں
جو کچھ میں آج لکھنے جا رہا ہوں اگر کوئی قاری اس میں سے کچھ غلط سمجھے یا اس سے متفق نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آئے تو ضرور اپنے خیالات کا اظہار کرے ۔ میں مشکور ہوں گا
کہیں بھی چلے جایئے اگر لوگ گپ شپ کر رہے ہیں تو بات حکومت پہ پہنچنے پر بحث میں تیزی آ جاتی ہے ۔ بالآخر ایک اپنے تئیں مفکّر کوئی صاحب فتوٰی صادر کر دیں گے
”سب ہی چور ہیں“۔
اگر محفل والوں سے میری بے تکلّفی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں ”اگر یہ جُملہ میں کہوں تو آپ کا اپنے متعلق کیا خیال ہے ؟“
حکمران ہماری پسند کے نہ ہوں یا ہمارا کام نہ کرتے ہوں تو اُنہیں ہم چور کہتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا اپنا کردار و عمل کیسا ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے بھُول جایئے کہ آپ کیا ہیں پھر اپنے اِرد گِرد نظر ڈالیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثرلوگ (50 فیصد سے زائد) نیچے درج سب یا اِن میں سے اکثر عوامل کے مالک ہوں گے
1 ۔ کسی کی خدمت یا مدد کرتے ہیں تو اللہ کی رضا کا خیال نہیں ہوتا بلکہ دل میں ہوتا ہے کہ یہ شخص ہمارے کام آ سکتا ہے
2 ۔ مذاق کا نام دے کر کسی کو تکلیف پہنچاتے یا چوری کرتے ہیں
3 ۔ نظر صرف اپنے فائدہ کی طرف رکھتے ہیں چاہے اس سے کسی دوسرے کا نقصان ہو جائے
4 ۔ اپنے مفاد کیلئے دوسرے کا حق یا خُوشی پامال کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اپنی باری لینے کی بجائے دھونس یا تعلق استعمال کرتے ہیں
5 ۔ کوئی دیکھ نہ رہا ہو یا نظر بچا کر اپنے معمولی یا وقتی لُطف کیلئے گُناہ کے مُرتکِب ہوتے ہیں ۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ اللہ ہر جگہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
6 ۔ اپنے چھوٹے سے فائدہ یا آرام کی خاطر مُلکی قانون یا دینی حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں مثال کے طور پر کچھ لوگ اپنا غَلَط کام کروانے کیلئے یا درُست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کی پشکش کرتے ہیں اور بہانہ ہوتا ہے ”مجبور ہیں ۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا“۔
7 ۔ ووٹ دیتے وقت دیانتدار اور مُخلصانہ خدمت کی بنیاد کو چھوڑ کر جذبات اور ذاتیات کی رَو میں بہہ کر ووٹ دیتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان اٹَل ہے اور کسی صورت جھُٹلایا نہیں جا سکتا
سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (ترجمہ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دِلوں میں ہے)
سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
حُسن جوانی
بابا عالم سیاہ پوش نے کہا تھا
حُسن جوانی دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام
(مکمل اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)
اسی موضوع پر میں میاں محمد بخش کے شعر جو 3 اکتوبر 2015ء کو بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے ایک اہم موقع پر پہلی بار سُنے تھے اور مُجھے لکھنے والے کی کھوج ہوئی تھی ۔ 19 اپریل 1974ء کو سابق آرمی چیف اور صدر محمد ایوب خان نے وفات پائی ۔ اُس وقت کی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی) نے ایوب خان کا جنازہ اسلام آباد میں اُن کی رہائشگاہ سے وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ قبل زبردستی اُٹھوا دیا اور ٹرک پر رکھ کر لیجانے لگے جبکہ فیصلہ کندھوں پر لیجانے کا ہوا تھا ۔ جب ٹرک چلا تو سوگوار لوگ سڑک پر ٹرک کے آگے لیٹ گئے ۔ پولیس نے اُنہیں زبردستی اُٹھانا شروع کر دیا ۔ اس بھگدڑ میں ایک سُریلی آواز اُبھری ۔ ایک سپاہی جو لاٹھیاں برسا رہا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے
سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا
کلام بابا عالم سیاہ پوش
بھاگا والیو ۔ نام جپُوں مَولا نام نام ۔ نام جپُوں مَولا نام نام
بندہ مَکری ۔ تولے تَکڑی ۔ ہَتھ وِچ تَسبیح ۔ جَپدا جاوے مَولا نام نام
حُسن جوانی ۔ دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام نام
لَوک بُپاری ۔ پیار دے وَیری ۔ عِشقے دی رَمز نوں جانَن نہ ۔ رہے مَولا نام نام
اَوکھیاں راہواں پہنچ نہ پاواں ۔ لَمبیاں نے مَنز لاں پیار دِیاں ۔ رہے مَولا نام نام
ترقی پذیر سائنس اور زوال پذیرانسانیت
سائنس اور سائنس کی بنیاد پر ترتیب شُدا ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید معاشرے نے بڑی مادی ترقی کی ہے لیکن سائنسی معلومات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کامیابی کے حصول انسانی سے معاشرے کا مُستقبل خطرے میں ہے ۔ زمینی ماحول کی ترتیبِ نَو کرتے ہوئے جدید معاشرہ اس کے طفیل زمین پر بسنے والوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ مفروضے اور رویّئے جو صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کرتے آ رہے ہیں مناسب نہیں رہیں گے ۔ جن صلاحیتوں نے جدید معاشرے کی موجودہ تمدن حاصل کرنے میں مدد کی ہے وہ اس سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پیش رفت نے انسان کو دنیا کو زیادہ تیز رفتار سے نئے راستے پر لگانے کے قابل بنا دیا ہے لیکن پیش رفت کے فوائد اور خطرات کو سمجھنے کے سلسلہ میں خاطر خواہ نشو و نما نہیں ہوئی
فطرت کو قابو کرنے کی کوشش میں فطری دنیا کے ساتھ رعائت باہمی کو خیر باد کہہ دیا گیا اور جدید تمدن نے فطرت کے ساتھ قدیم بندھن توڑ ڈالا ۔ انسان صدیوں فطرت کی مناسب حدود میں رہ کر فطرت کی کرم فرمائی سے مستفید ہوا ۔ فطرت کی تال اختیار کرتا اور سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ ابھی تک فطری دنیا سے نتھی ہونے کے باعث جدید انسانیت ایک ایجاد کردہ ماحول میں رہتی ہے جو بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے بنسبت انسانوں کے جو حیاتی استداد رکھتے ہیں ۔ انجام یہ کہ انسان کا جسم و دماغ ۔ قیاس اور طرزِ عمل تناؤ میں آ چکے ہیں
گو انسان نے مصنوعی ماحول تخلیق کر لیا ہے جسے تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے لیکن اس کی بقاء فطری نظام میں نظر آتی ہے بجائے اس کے تخلیق کردہ نظام کے ۔ انسان کیلئے اس فطری اور مصنوعی دو نسلے ماحول میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے
یہ پیشگوئی کرنا نہائت مُشکل ہے کہ انسان اس انسانی ایجاد کی حیاتی اور نفسیاتی تبدیلی کو اپنانے میں کتنا عرصہ لے گا اور کس حد تک اپنائے گا
فطرت کی اُن قوّتوں کو جنہیں انسان اپنے آپ کو استوار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔جو لوگ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیئے اگر انسان فطرت سنساری قسم کی بنیادی حرکیات کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا تو اس کا ہارنا لازم ہے ۔ فطری نظام اور روِش ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہوئے فطرت کے اشتراک سے انسان نظام کو چلا سکتا ہے ۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا دعوٰی ہے کہ”فطرت پر قابو حاصل کرنے سے قبل فطرت کی تابعداری ضروری ہے
عوامی پالیسی کے انتظامی اصولوں کی مضبوط حدود کے بغیر انسانی حاضر دماغی اُسے اپنی موت کی طرف لے جا سکتی ہے ۔ حدود ہر قسم کی زندگی پر صادق آتی ہیں اور بالآخر انسانی نشو و نما کی سمت کو محدود کر دیتی ہے ۔ عوام اور پالیسی بنانے والوں کو اس اصول پر آگے بڑھنا چاہیئے کہ مفید نظام میں آزاد نشو و نما اور بے لگام کشادگی ایسی بند گلی میں پہنچا دے گی جس سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو گا ۔ جدید سوسائٹی کے رجحان کے خطرناک ہونے کا کافی خدشہ موجود ہے جو اس گُتھی ہوئی حکمت عملی کے ممکنہ نتائج حکم عملی کی مربوط تحقیق و تفتیش کی طرف مائل کرتا ہے
اگر ہم اپنے متناسب خطرات ۔ امکانات اور مفید ممکنات کو پوری طرح سمجھ لیں پھر شاید ہم اپنی مجموعی کوششوں کو یقین کے ساتھ قابلِ تائید اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کر سکیں
تحقیقی مقالہ از سمیع سعید
اُردو ترجمہ اور تلخیص ۔ افتخار اجمل بھوپال
شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش
میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟
کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی
چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں
پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟
آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں
اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے
صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔
اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟
جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے