میں نے زندگی میں بڑے نچوڑ دیکھے ۔ لیموں کا نچوڑ ۔ مالٹے کا نچوڑ ۔ سیب کا نچوڑ ۔ یہ مجھے مرغوب تھے اور ہیں
اس کے علاوہ ایک اور نچوڑ بھی دیکھا جس کا نام سُنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گلاب کا نچوڑ جسے لوگ قبر پر چھڑکتے ہیں
کچھ لوگ دوسروں کا مال نچوڑتے ہیں ۔ ڈاکٹر مریض کا خون نچوڑتے ہیں ۔ کیا معلوم تھا کہ اس بڑھاپے میں مجھے اپنی ہی زندگی کا نچوڑ نکالنا ہو گا ۔ میں ڈرتا تو نہیں ہوں
چھٹی سے آٹھویں جماعت تک روزانہ صبح سویرے اپنی پوری طاقت سے کہتا رہا ہوں
”باطل سے دبنے والے ۔ اے آسماں نہیں ہم ۔ سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا“
لیکن بات یہ ہے کہ وہ حاجن بی بی ہیں نا ۔ اُن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ عمر میں 77 برس کی لگتی ہیں ۔ کیا پتا 107 برس کی ہوں ۔ خالص دودھ پیتی اور دیسی گھی کھاتی رہی ہوں ۔ اسی لئے کم عمر کی لگتی ہیں ۔ مُشکل یہ ہے کہ حاجن بی بی کے میاں بھی حاجی ہیں ۔ ”میں جاؤں تو جاؤں کہاں ۔ سمجھے گا کون یہاں ۔ مجھ جیسے بیوقوف کی زباں“۔
خیر کیا پوچھتے ہیں صاحب ۔ حاجن بی بی لَٹھ لے کے پیچھے پڑ گئیں کہ ”نکالو اپنی زندگی کا نچوڑ“۔
تب سمجھ آئی صاحب کہ وہ لیموں وہ مالٹے اور سیب کیا کہتے ہوں گے جب ہم اُن کو نچوڑتے تھے ۔ ہائے بیچارے لیموں مالٹے سیب
دیکھیں نا ۔ ایک میں بوڑھا ۔ اُوپر سے بیماری نے گھیرا ۔ کہاں رہ گئی ہے طاقت مجھ میں نچوڑنے کی
لیکن جناب مرتا کیا نہ کرتا ۔ بیٹھ گیا نچوڑنے ۔ اور بڑی مُشکل سے بس اتنا سا نچوڑ نکلا
1 ۔ نماز کسی حال میں مت چھوڑو
2 ۔ اللہ پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھو کیونکہ سب کچھ اُسی کے ہاتھ میں ہے
3 ۔ گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرو خواہ کچھ بھی ہو جائے
4 ۔ جھوٹ کبھی مت بولو خواہ کتنا ہی دُنیاوی نقصان ہو
5 ۔کسی کو تکلیف مت دوچاہے وہ کتنی ہی تکلیف دے
6 ۔ اس کے نتیجہ میں بہت تکالیف اُٹھائیں مگر اللہ نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ میں نے مجبور ہو کر 53 سال کی عمر میں ملازمت چھوڑ دی ۔ دورانِ ملازمت تنگدست رہا اور آ ج خوشحال ہوں ۔
سُبحان اللہ و بحمدہ
ارے غضب ہو گیا ۔ حاجن بی بی دیکھ تو نہیں رہیں کہیں ؟ میں بھاگ لوں ۔ اللہ حافظ