Category Archives: طور طريقہ

دیر نہ کیجئے

23 مارچ 2013ء کو دوپہر کے 12 بجنے کو تھے کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔ اُٹھایا تو آواز آئی ”میں الف نظامی بول رہا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے آپ سے بات کرنا ہے“۔ میرے کان ہی نہیں رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید میں نے انجانے میں کوئی گستاخی کردی ہے ۔ لیکن اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی جو میرے لئے ایک امتحان ہی بن گئی ۔ فرمانے لگے ”درخت انسانی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ درخت کاٹنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے بلاگ پر شجرکاری کی صلاح دیں“۔

الف نظامی صاحب تحمکانہ فرمائش کر کے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سامنے ایک اُونچا پہاڑ ہے جسے میں نے اس بڑھاپے میں سر کرنا ہے

میں مضمون کا سِرا تلاش کر رہا تھا تو یاد آیا کہ میں جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں کناروں پر باٹل برش کے 2 ۔ سوہانجنا کا ایک اور امرود کے 3 درخت تھے ۔ میں نے ان میں ایک لوکاٹ کا ۔ 2 آلو بخارے کے 3 خوبانی کے درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دور دور سے منگوائے تھے ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے وہ بھی انجنیئر تھے ۔ میں 1995ء میں کسی کام سے اُن کے ہاں گیا تو میدان صاف تھا ۔ بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے ہیں“۔ مجھے یوں لگا کہ کسی نے میرا دل کاٹ دیا ہے ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے اور درجن بھر ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھتک طریقہ علاج میں موجود نہیں

متذکرہ واقعہ ایک نمونہ ہے میرے ہموطنوں کی عمومی ذہنی حالت کا ۔ جدھر دیکھو درخت کاٹنے پر زور ہے

آج دنیا کی ترقی یافتہ سائنس ماحولیات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور ساتھ ہی شجر کاری کو صحتمند ماحول کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ ”اگر مسلمان ایک درخت لگائے یا فصل بوئے جس میں سے ایک پرندہ یا انسان یا درندہ بھی کھائے تو اس خیرات کا بڑا اجر ہے (صحیح بخاری 2320 ۔ صحیح مُسلم 1553)

درخت گرمی کی حدت کو کم اور بارش برسانے میں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بارش اپنے اندر کئی صحتمند فوائد لئے ہوتی ہے
درخت ہوا میں اُڑتے کئی قسم کے ذرّات کو روک کر فضا کو صحتمند کرتے ہیں
کئی درخت انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر گھر کے ارد گرد نِیم کے درخت لگا دیئے جائیں تو مچھروں اور کئی اور پتنگوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ اگر دیسی سفیدے کے درخت گھر کے گرد لگا دیئے جائیں تو زکام سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

مارچ کا مہینہ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین ہے درخت لگایئے اپنی اچھی صحت کیلئے اور ساتھ اللہ سے انعام بھی حاصل کیجئے

دوسرے ممالک میں درخت لگانے کا حال کچھ اس طرح ہے کہ میں پہلی بار 1975ء میں متحدہ عرب عمارات گیا تو صرف العین میں ایک کیلو میٹر لمبی سڑک پر کچھ درخت نظر آئے تھے ۔ ابو ظہبی ۔ دبئی شارقہ وغیرہ میں کہیں درخت نظر نہ آئے ۔ مگر سُنا تھا کہ کوشش ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے درخت اُگانے کیلئے مٹی تک دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر درآمد کر کے بچھائی ۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ درختوں کی افزائش کیلئے چڑیاں اور دوسرے چھوٹے پرندے ضروری ہیں تو اُنہوں نے چڑیاں اور چھوٹے پرندے ہزاروں کی تعداد میں درآمد کئے ۔ شروع میں چڑیاں مرتی رہیں مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میں 2008ء سے اب تک 4 بار دبئی جا چکا ہوں ۔ اب تو وہاں ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آتے ہیں

جس زمانہ میں میں جرمنی میں تھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک درخت کاٹ دے تو اُسے جرمانہ ادا کرنے کے علاوہ ایک کے بدلے 10 درخت لگا کر اُن کی حفاظت بھی کرنا ہو گی

ہم لوگ غیرملکیوں کی برائیاں تو اپنانے میں بڑے تیز ہیں ۔ اپنانا تو اُن کی اچھایاں چاہئیں

ہم اور حقوق

73 سال قبل آج کے دن لاہور کے اس باغ میں جہاں آج مینارِ پاکستان ہماری حالتِ زار پر افسردہ کھڑا ہے ایک قرداد ”قرار دادِ مقاصد“ کے نام سے پیش کی گئی تھے جو ہمارے آباؤ اجداد کے خلوص اور محنت کے نتیجہ میں ”قرار دادِ پاکستان“ ثابت ہوئی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنا یہ مُلک پاکستان عطا کیا تاکہ اس خطے کے مسلمان اپنے وہ حقوق حاصل کر سکیں جن کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے لاکھوں جانیں اور بے حساب املاک قربان کیں

اس آزادی اور حصول کا ہم نے غلط استعمال کرتے ہوئے اپنا جو حال بنا لیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں

کہاں ہمارے آباؤ اجداد کا خلوص و محنت اور عزم کہ جناب محمد علی جوہر لندن کی عدالت میں کہیں ”میرا وطن آزاد کر دیں ورنہ مجھے یہیں دفن کر دیں کہ میں غلام زمین پر واپس نہیں جانا چاہتا ۔ اُن کی رحلت کا وقت اللہ تعالٰی لندن ہی میں لے آئے

اب ہمارا حال یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہنے کی جراءت نہیں

آیئے ۔ سب اپنے اپنے ساتھ سچا عہد کریں کہ آج سے

ہم اپنے حقوق کی بات اُس وقت کریں گے
جب
دوسرے کا حق پہچان کر اُسے اُس کا حق دلا دیں گے
کیونکہ
حقوق حاصل کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے

پاکستان پائندہ باد

انکوائری ۔ تفتیش

اس سلسہ میں 7 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“اور ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“لکھ چکا ہوں

ہمارے ہاں اول تو مجرم پکڑا ہی نہیں جاتا اور اگر پکڑا جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔ اس کی ایک مثال میں ” غیب سے مدد“ میں لکھ چکا ہوں کہ بندوقیں چوری کرنے والے کیسے رہا ہو گئے تھے ۔ اپنی تحریر ”پارسل“ میں لکڑی غائب ہونے کی انکوائری کا حال بھی لکھ چکا ہوں

آج میں ایسے 2 واقعات رقم کر رہا ہوں کہ جس تفتیش یا انکوائری میں بیان دینے والا میں خود تھا

یہ واقعہ ہے 1959ء کا جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اور میرے 3 ہم جماعت لاہور شہر سے واپس ہوسٹل جا رہے تھے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک چوراہے پر سپاہی نے میرے ایک ہمجماعت کے بائیسائکل کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا ۔ میرا ہمجماعت گر گیا اور اسے چوٹیں لگیں جس پر اس کا پولیس والے سے جھگڑا ہو گیا ۔ ہم آگے نکل چکے تھے واپس آ کر بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر پولیس والے کی منہ زوری کی وجہ سے بات بڑھ گئی ۔ اور پولیس والے بھی آ گئے اور ہمیں بھی ساتھ تھانے لیجانے لگے ۔ کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جو ہماری حمائت میں ساتھ تھانے چلے گئے ۔ وہاں ہم چاروں کو پولیس والے تھانے میں لے گئے ۔ باقی لوگ بھی اندر جانا چاہتے تھے مگر اُنہیں دھکے دیئے گئے اور تھانے کا بڑا سا آہنی دروازہ بند کر دیا گیا ۔ ہمیں اندر لیجا کر ایک بنچ پر بٹھا دیا ۔ باہر لوگ نعرے لگاتے رہے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ پندرہ بیس منٹ بعد آوازیں کم ہونا شروع ہوئیں اور پنتالیس پچاس منٹ بعد شاید سب لوگ چلے گئے ۔ اس دوران ہم چاروں کو چالان تھما دیئے گئے کہ ہم ایک ایک بائیسائکل پر دو دو بیٹھے ہوئے تھے ۔ پولیس والے نے ہمیں روکا تو ہم نے اس کی مار پیٹ کی اور لوگوں نے چھڑایا ۔ حقیقت یہ تھی کہ پولیس والے نے ہمارے ہمجماعت کو مارا اور لوگوں نے چھڑایا تھا ۔ ہم 3 جب پہنچے تو لوگ ہمارے ہمجماعت کو بچا رہے تھے

ہم نے احتجاج کیا تو کہا گیا ”پہلے دستخط کر کے چالان وصول کریں اور پھر اس کے خلاف درخواست دیں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تھانیدار صاحب انکوائری کر رہے ہیں ۔ اپنے بیان لکھوائیں ۔ ہمیں ایک ایک کر کے بُلایا گیا ۔ میری باری آخر میں آئی ۔ میں نے جو دیکھا تھا بول دیا ۔ وہاں ایک پولیس والا بیان لکھ رہا تھا ۔ دستخط کرنے کیلئے مجھے بیان دیا گیا ۔ نیچے لکھا تھا ”میں نے پڑھا اور پڑھ کر قبول کیا”۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو پولیس والا بولا ”جو تم نے کہا وہ لکھا ہے ۔ دستخط کرو“۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا تو اُس نے کاغذ میرے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے باہر نکال دیا ۔ بعد میں ایک ہمجماعت دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگا ”تم سب کچھ غلط مان کر آ گئے ہو“۔ جس کے ساتھ وہ جھگڑ رہا تھا اُس سے میں نے پوچھا ”آپ نے اپنے بیان پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھا تھا ؟“ وہ بولا ”نہیں“۔ سو بات واضح ہو گئی کہ میرے ہمجماعت بیان کچھ دے رہے تھے اور لکھا کچھ اور جا رہا تھا

دوسرا واقعہ 1973ء کا ہے جب میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ فیکٹری کے گیٹ پر معمور فوجی نے ایک چپڑاسی کی پٹائی کر دی ۔ فیکٹری کے ورکر بھی اکٹھے ہوگئے ۔ مسئلہ بڑھ گیا ۔ میں نے جا کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا ۔ معاملے کی اعلٰی سطح کی انکوائری شروع ہوئی ۔ انکوائری افسر ایک کرنل تھے ۔ مجھے بھی بیان دینے کیلئے بُلایا گیا ۔ بیان کے بعد مجھ سے سوالات بھی پوچھے گئے ۔ دوسرے دن ٹائپ شُدہ بیان مجھے دستخط کرنے کیلئے دیا گیا ۔ ایک تو مجھے یہ تحریر اپنے بیان سے بہت زیادہ طویل لگ رہی تھی دوسرے نیچے لکھا تھا ”میں نے اپنا بیان پڑھ کر درست پایا“۔ میں نے بیان پڑھنا شروع کر دیا ۔ کرنل صاحب بولے ”جو آپ نے کہا وہی لکھا ہے ۔ دستخط کریں“۔ میں نے کہا ”میں پڑھے بغیر دستخط نہیں کروں گا“۔ کاغذات میرے ہاتھ سے چھین کر کہا ”آپ جا سکتے ہیں“۔

قومی الميہ

درجہ اوّل ميں کامياب ہونے والے انجنيئر ۔ ڈاکٹر ياسائينسدان بنتے ہيں

درجہ دوم ميں کامياب ہونے والے ايڈمنسٹريٹر بنتے ہيں اور درجہ اوّل والوں پر حُکم چلاتے ہيں

درجہ سوم ميں کامياب ہونے والے سياستدان بن کر وزير بنتے ہيں اور درجہ اوّل اور دوم والے دونوں پر حُکم چلاتے ہيں

جو تعليم ميں ناکام رہتے ہيں جرائم پيشہ بنتے ہيں اور سياستدانوں پر حُکم چلاتے ہيں

اور جو تعليم کے قريب جاتے ہی نہيں وہ سوامی ۔ گُورُو يا پِير بنتے ہيں اور سب اُن کے تابعدار بن جاتے ہيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دعا

لوگوں کو اپنے لئے دعا کا کہنے سے بہتر ہے ایسے عمل کریں

کہ

لوگوں کے دل سے آپ کیلئے دعا نکلے

قول علی رضی اللہ عنہ

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ”

یو اے ای اور لبیا کیسے گیا

اس سلسلہ میں 6 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” اور ”کہانی کیا تھی“لکھ چکا ہوں

مئی 1975ء میں میں واہ چھاؤنی سے سرکاری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ۔ اہم کام سٹیٹ بنک میں تھا اسلئے پہلے وہاں جا کر متعلقہ افسر سے ملا ۔ اُس نے بتایا کہ بعد دوپہر 2 بجے تک کام ہو جائے گا سہ پہر 4 بجے تک لیجاجائیں ۔ میں کچھ کاموں سے فارغ ہو کر 4 بجے پہنچا تو ماتحت افسر نے بتایا کہ وزارتِ مالیات میں اچانک ایک اعلٰی سطح کی میٹنگ ہو گئی ہے اور صاحب وہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کے دستخط ہونا باقی ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا ”کوئی اور کام آپ نے کرنا ہے تو کر آئیں ۔ ہم تو روزانہ مغرب (6 بجے) کے بعد بھی یہیں ہوتے ہیں“۔ سب کام ختم کر کے میں سوا 6 بجے پہنچا اور مطلوبہ دستاویز لے لی ۔ ماتحت افسر نے راستے میں روک کر بتایا ”آپ کے ادارہ کے ایک افسر ایک گھنٹہ آپ کی انتظار میں بیٹھ کر گئے ہیں ۔ آپ منسٹری آف ڈیفینس میں سیکریٹری صاحب آپ کی انتظار میں ہیں“۔ میرے لئے یہ عجوبہ تھا کہ سیکریٹری صاحب بغیر پیشگی اطلاع کے میری انتظار میں بیٹھے ہیں

خیر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ”منسٹری چلو“۔ ڈرائیور نے پریشان ہو کر کہا ”سر ۔ خیریت تو ہے ؟“ میں نے پتہ نہیں کہہ کر اُسے چلنے کا اشارہ کیا ۔ منسٹری کے گیٹ پر پہنچے تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوا جیسے میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم تھا ۔ ایک صاحب مجھے ہاتھوں ہاتھ سیکریٹری صاحب کے دفتر لے گئے ۔ سیکریٹری صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”آپ آئے نہیں ؟“۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں مجھے کیوں بُلایا گیا ہے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بولے ”کیا آپ نے فلاں کام نہیں کئے تھے اور فلاں رپورٹ نہیں لکھی تھی ؟“ میں نے ہاں میں جواب دیا تو بولے ”آپ نے پرسوں صبح سویرے ساڑھے 4 بجےیو اے ای روانہ ہونا ہے ۔ جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس جائیں میں نے اُنہیں سمجھا دیا ہے“۔

میں نے جوائنٹ سیکریٹری صاحب کو بتایا کہ میرا پاسپورٹ بھی بنوانا ہے ۔ وہ بولے ”فکر نہ کریں جتنا وقت آپ کی تلاش میں لگا اس دوران یہ انتظامات کر لئے تھے اب آپ کے کوائف درج کر کے فنانشل ایڈوائزر سے منظوری لے کر نوٹیفائی کرنا ہے ۔ ٹائپسٹ سارے چھٹی کر چکے تھے ۔ ڈپٹی سیکریٹری صاحب نے نوٹیفیکیشن ٹائپ کیا ۔ دستخط کئے اور سائکلوسٹائل کر کے 3 کاپیاں 8 بجے رات میرے ہاتھ پکڑائیں ۔ میں جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا ”امیریکن ایکسپرس میں آدمی آپ کی انتظار میں ہے ۔ اُس سے 500 ڈالر لیتے جائیں“۔

واپسی پر میں نے اس افسر کو اپنے ساتھ بٹھا لیا جو مجھے تلاش کرتا رہا تھا ۔ اُس نے بتایا ”سر ۔ بنیادی طور پر آپ نے جانا تھا بطور ٹیم لیڈر ۔ باقی فوجی افسران اور فوجی تھے ۔ پھر ٹیم بنائی گئی اور مجھے بطور آپ کے نائب کے اور آپ کی فیکٹری کے ایک مستری کو ڈالا گیا۔ جب جانے کے دن قریب آئے تو آپ کا نام غائب تھا اور سربراہ کے طور پر جوائنٹ سیکریٹری صاحب تھے اور اُن کی بیگم بھی جا رہی تھیں ۔ میٹنگ میں آتے ہی سیکریٹری صاحب نے کہا ”وہ ۔ وہ کہاں ہیں ؟ جس نے سارا کام کیا ہے ؟ اُس کے نام کے ساتھ ایک خاص لفظ ہے” ہمارے چیئرمین سمیت کوئی نہ بولا”۔ کرنل ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ”سر آپ مسٹر بھوپال کی بات کر رہے ہیں ؟ اس کا تو ٹیم میں نام ہی نہیں ہے”۔ سیکریٹری صاحب یہ کہتے ہوئے کانفرنس ہال سے اُٹھ کر چلے گئےکہ بھوپال کو لائیں جہاں کہیں بھی ہے ۔ میں اُس کے آنے تک یہیں ہوں ۔ آپ کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی مجھے دی گئی ۔ میں نے آپ کے دفتر ٹیلیفون کیا تو پی اے نے بتایا کہ آپ راولپنڈی میں ہیں اور جہاں جہاں جائیں گے اُس کی تفصیل بتائی ۔ میں جہاں جاتا آپ وہاں سے جا چکے ہوتے ۔ آخر سٹیٹ بنک میں معلوم ہوا کہ آپ دوبارہ آئیں گے“۔

دوسرے دن صبح 8 بجے فوٹوگرافر میرے دفتر آیا اور میری تصویر کھینچ کر چلا گیا ۔ ایک ہیڈکلرک آیا اور ایک فارم پر میرے دستخط کروا کر لے گیا ۔ شام مغرب سے پہلے وہ مجھے میرا نیا پاسپورٹ دے گیا ۔ اگلے روز صبح ساڑھے 4 بجے جوائنٹ سیکریٹری اُن کی بیگم ۔ ایک کرنل ۔ مجھے ڈھونڈنے والا اسسٹنٹ منیجر اور میں چکلالہ سے سی 130 میں کوئٹہ روانہ ہوئے ۔ کوئٹہ سے 2 میجر اور کچھ فوجی سوار ہوئے اور ہم جا پہنچے دبئی ۔ پوری ٹیم میں صرف میں تھا جسے تمام تکنیکی معلومات تھیں ۔ فوجیوں نے ڈَیمنسٹریشن کا متعلقہ کام کرنا تھا لیکن تینوں فوجی افسروں نے کہا کہ میں ہی ساری مینجمنٹ کروں ۔ چنانچہ سب نے مل کر میری مدد کی اور دبئی کے چند فوجیوں نے بھی ہماری مدد کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ہمیں متعلقہ کام میں کامیاب فرمایا

لبیا بھی مجھے حکومت نے ہی بھیجا تھا جس کی کچھ اسی طرح کی کہانی ہے لیکن اُس میں مجھے نقصان یہ ہوا کہ مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک میری عدم موجودگی کو بہانہ بنا کر مجھے ترقی نہ دی گئی اور مجھ سے جونیئر 14 افسران کو ترقی دے کر مجھ سے سینیئر کر دیا گیا ۔ یہ خلافِ قانون تھا ۔ شاید اسی لئے مجھے اس کی خبر نہ ہونے دی گئی ۔ واپس آ کر میں نے اس کے خلاف اپیل کی مگر تحریری یاد دہانیوں کے باوجود سال بھر کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے سیکریٹری کو اپیل بھیجی ۔ منسٹری نے ہمارے ادارے سے پوچھا جس جواب سال بعد دیا گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔ پھر میں نے سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کر دیا جس کا فیصلہ 5 سال بعد 1991ء میں اس وقت ہوا جب میں ایل پی آر پر تھا ۔ ہمارے مُلک کا قانون ہے کہ ایل پی آر کے دوران مالی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دوبارہ سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کروں تو پنشن میں فائدہ ہو جائے گا ۔ لیکن مجھ میں پھر 8 سال کے چکر میں پڑنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ دوسری بار ہو چکا تھا اور مجھے سوائے ان کی تیمار داری کے کسی کا ہوش نہ تھا