Category Archives: سیاست

اُردو اِسپِیکِنگ

یہ واقعہ ہے اُس زمانے کا جب مجھے نویں جماعت [اپریل 1951ء] میں بیٹھے چند یوم ہوئے تھے ۔ ہمارے مُہتمم استاذ صاحب نے پوری جماعت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ بہت لائق ۔ لائق اور درمیانے درجے کے طالب علم ۔ نالائق ہماری جماعت میں کوئی نہیں تھا ۔ پھر ہر گروہ میں سے ایک ایک لڑکا لے کر تین تین کو اکٹھا بٹھا دیا ۔ میرے ساتھ “م” اور “ی” کو بٹھایا گیا جن سے میری خاص واقفیت نہ تھی ۔ میں نے تعارف کی غرض سے “م” سے جو میرے ساتھ بیٹھا تھا پوچھا “آپ کی تعریف ؟” جواب ملا “ہم Urdu Speaking ہیں”۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں لفظ “اُردو اِسپِیکِنگ” سے متعارف ہوا۔ میں نے “ی” سے وہی سوال دہرایا تو اس نے جواب دیا “ہم محلہ ۔ ۔ ۔ میں رہتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بنگلورمیں رہتے تھے” ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ “م” اپنے خاندان کے ساتھ بہار سے ہجرت کر کے آئے تھے

اُردو نے پنجاب میں جنم لیا اور پنجاب کے علاوہ حیدرآباد دکن میں پروان چڑھی ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ وہ علاقہ جس کا نام مغلوں نے پنجاب رکھا تھا دہلی اور دہرہ دون وغیرہ اس میں شامل تھے اور اس کی سرحدیں مشرق میں سہارنپور ۔ مراد آباد اور علیگڑھ تک تھیں ۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی اور اس کے شمال اور مشرق کا علاقہ اس میں سے نکال دیا تھا ۔ میں تاریخی ثبوت کے ساتھ یہ بھی واضح کر چکا ہوں کہ اُنیسویں صدی تک اُردو میں اُن الفاظ کی کثرت تھی جنہیں پنجابی سمجھا جاتا ہے

میں اپنی زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں سے ملا ہوں کہ اُردو بولتے تھے مگر وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے ان کا تعلق بھی پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے اُن علاقوں سے تھا جہاں صرف اُردو بولی جاتی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیدرآباد دکن جہاں اُردو کی افزائش ہوئی اور جہاں 1947ء سے قبل واحد اُردو یونیورسٹی تھی کے لوگ بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتے تھے

سکول کالج اور ملازمت کے شروع کے چند سالوں کے دوران مجھے کوئی دہلی سے آیا ہوا سمجھتا اور کوئی آگرہ سے کیونکہ میں اُردو بولتا تھا ۔ اس سے بھی آگے چلیں تو میرے تینوں بچے اُردو بولتے ہیں اور پنچابی نہیں جانتے ۔ اسلئے قاعدے کے لحاظ سے اُن کی مادری زبان اُردو ہوئی ۔ میرے تمام بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں اُردو بولتے ہیں اور پنجابی نہیں بول سکتے یا اچھی طرح نہیں بول سکتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو Urdu Speaking نہیں کہتا ۔ مجھے فخر ہے کہ میرے خاندان کے سب بڑے اور چھوٹے درست اُردو بولتے ہیں

اُردو ہماری قومی زبان ہونے کے علاوہ بھارت ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے اور دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔ افغانستان اور ایران کے بھی کئی باشندے اُردو سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل بھی اُردو پورے ہندوستان کی معتبر ترین زبان تھی ۔ اُردو کسی خاص قوم یا گروہ یا شہر کی زبان نہیں ہے ۔ یہ عجب بات ہے کہ ایک گروہ اپنے آپ کو ” Urdu Speaking ” کہتا ہے اور کہتے بھی انگریزی میں ہیں ۔ میں نے اس سلسلہ میں بہت سے لوگوں سے استفسار کیا اور کچھ سے براہِ راست کہا کہ وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کیوں نہیں کہتے ۔ عام تاءثر یہی تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو Urdu Speaking کہتے ہیں

سیکولرزم کا ایک اور چھَکّا

میں بہت پہلے سیکولر ہو نے کا دعوٰی کرنے والی دنیا کی منافقت کے کئی پہلو اُجاگر کر چکا ہوں ۔ میرے کچھ ہموطنوں کو میری تحاریر پر پریشانی ہوتی رہی ہے ۔ مختصر یہ کہ بھارت میں سیکولر حکومت اور عیسائیوں کے گرجے جلائے جاتے ہیں اور حکومت کے بڑوں کی اشیرباد سے مساجد جلائی اور گرائی جاتی ہیں ۔ داڑھی سکھ ہندو عیسائی يہودی اور دہریئے سب رکھتے ہیں بلکہ یہودی مذہبی پیشواؤں کی داڑھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی افغانستان کے طالبان کی لیکن امریکا ہو یا یورپ داڑھی والا صرف مسلمان ہی بُرا سمجھا جاتا ہے ۔ سر پر رومال عیسائی یہودی اور دوسری عورتیں بھی باندھتی ہیں مگر مسلمان عورتیں اگر سر پر رومال باندھیں تو دنیا کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اُن کے ساتھ بدتمیزی بھی کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ سکول کی بچیوں کو رومال باندھنے کی سزا کے نتیجہ میں سکول سے نکال دیا جاتا ہے

ان تمام حقائق کے باوجود سمجھا جاتا تھا اور میرا بھی خیال تھا کہ سوٹزرلینڈ ایک سیکولر ملک ہے ۔ وہاں پر کسی کے مذہب یا عقیدہ یا ذاتی زندگی پر اعتراض نہیں کیا جاتا مگر حکومت میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کی ایماء پر ریفرینڈم اور اس کے نتیجہ میں مسجد کے مینار یا گُنبد بنانے پر پابندی نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ سیکولرزم ایک دھوکا ہے اور غیرمُسلم دنیا کی انسانیت پسندی کا دعوٰی منافقت کا ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے گرجاؤں کے مینار مسجد کے میناروں سے بھی اُونچے ہوتے ہیں مگر اُن پر کسی کو اعتراض نہیں

تنزّل کا ایک سبب

قوم کے تنزّل کے چند اہم اسباب میں سے ایک قوم کے معمار محبانِ وطن کو اپنے ذہنوں میں سے نکالنا ہی نہیں بلکہ ان کے آثار کو بھی مٹانا ہے ۔ واہ چھاؤنی سے معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے نام لکھا ہوا محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ پڑھنے کے بعد میں کافی دیر سوچتا رہا کہ ہماری قوم اب مزید کونسی گہرئیوں میں کودنے کی متمنی ہے ؟

اس خط میں تین محبانِ وطن کا ذکر ہے جن کے نام تو احسان فراموش قوم نے بھُلا ہی دیئے تھے اب اُن کی کارگذاریوں کے رہے سہے نشان بھی مٹائے جا رہے ہیں ۔ میر لائق علی ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ اور محمد اُمراؤ خان ۔ میر لائق علی صاحب سے میرے والد صاحب واقفیت رکھتے تھے کیونکہ ہمارا خاندان حیدرآباد دکن میں کئی سال رہائش پذير رہا اور میرے دادا کے نظام حيدرآباد سے مراسم تھے

ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب کے متعلق میں نے اُس وقت جانا جب یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی ۔ جن انجنیئر صاحبان نے ان کے ساتھ کام کیا تھا اتفاق سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات بن گئے تھے ۔
چیئرمین پی او ایف بورڈ میجر جنرل ریٹارڈ محمد امراؤ خان صاحب کے ساتھ میں نے جنوری 1964ء سے ان کے پی او ایف چھوڑنے تک بطور ٹیکنکل سیکرٹری برائے جرمن رائفل جی تھری اور جرمن مشین گن ایم جی فورٹی ٹو کام کیا ۔ اس اسلحہ کی پیداواری نشو و نما کی منصوبہ بندی کیلئے میرا انتخاب اُنہوں نے ہی کیا تھا ۔ واہ اور گرد و نواح میں جدید اسلحہ ساز فیکٹریاں محمد امراؤ خان صاحب کی سوچ کا نتیجہ ہیں

محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ
“یاران وطن تاریخ سے محبان وطن کا نام مٹانے کا کام شروع کر چکے ہیں ۔ ایک صاحب میر لائق علی تھے ۔ مرحوم حیدر آباد کے آخری وزیراعظم نے قیام پاکستان کے موقع پر نظام حیدر آباد سے سفارش کر کے بیس کروڑ روپے کی رقم مشکل میں گرفتار حکومتِ پاکستان کو ٹرانسفر کر دی تھی ۔ حیدر آباد کی آزادی کی تحریک کے لئے خفیہ ذرائع سے تھوڑے بہت اسلحہ کا بندوبست کیا ۔ قائداعظم کی علالت کے آخری دنوں میں کسی نہ کسی طرح پاکستان آئے مگر ملاقات ممکن نہ تھی ۔ اس سے اگلے ہفتے اس شخصیت [قائداعظم] کا انتقال ہوگیا اور اس کی یوم وفات پر انڈیا نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ۔ میر لائق علی سمجھ دار آدمی تھا ۔ حیدر آباد کی حکومت کا کافی روپیہ بذریعہ ہائی کمیشن لندن میں جمع کروا دیا ۔ اپنی ذاتی دولت بھی اسی طرح محفوظ کر لی۔ آپ کا انڈسٹری کا بہت تجربہ تھا ۔ سقوط حیدر آباد پر ہندوستان نے آپ کو قید میں ڈال دیا کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے ۔ یہاں آپ کو اعزازی مشیر صنعت کاری مقرر کیا گیا ۔ اسی ناطے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے Consultant بھی تھے۔آپ صرف ایک روپیہ تنخواہ پاتے تھے۔ یہاں انگریز ایڈوائزر (نیوٹن بوتھ) سے نہ بنی تو اس وقت کے ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا نے آپ کو فیکٹری کے معاملات سے الگ کر دیا ۔ آپ نے واہ فیکٹری بہبود (ویلفیئر) کے لئے خطیر رقم مرحمت فرمائی ۔ اسی وجہ سے واہ کینٹ کا ایک بڑا چوک آپ کے نام سے موسوم تھا [لائق علی چوک]۔ اب 60 سال کے بعد اس چوک کا نام تبدیل کردیا گیا ہے ۔ (تُفو بر تو اے چرخ…)

میر لائق علی کے ساتھ ہی ایک جیّد سائنس دان ماہر اسلحہ ساز، عظیم محبِ وطن ڈاکٹر عبدالحفیظ (1883-1964) (آف لاہور) کی جلا وطنی انگریزوں کے چلے جانے کی وجہ سے ختم ہوئی ۔ آپ ایک بین الاقوامی شخصیت تھے ۔ ترکیہ، افغانستان کے علاوہ جرمنی، آسٹریا، انگلستان وغیرہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ امیر امان اللہ خان کے کہنے پر افغانستان میں اسلحہ ساز فیکٹری بنانے کی کوشش کی جو بوجوہ انگریزوں نے ناکام بنادی ۔ کمال اتاترک کے ذاتی دوست تھے انقرہ میں مصطفٰی کمال کے مقبرہ پر ایک البم میں اتاترک کے ساتھ آپ کی تصویر بھی دیکھی ۔ کری کالے کی بارود فیکٹری میں کام کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں آسٹریلیا کے اسلحہ ساز اداروں میں سامان تیار کرواتے اور ترکیہ بھجواتے تھے اور بھی ان کے بہت کارنامے ہیں ۔ کاش آپ جیسا کوئی محقق اس طرح کی شخصیات کی زندگیوں پر ریسرچ کرے ۔ دس سال واہ فیکٹری کے انگریز اور انگریز پرست افسروں کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر لاہور چلے گئے

ایسے ہی ایک سابق چیئرمین پی او ایف میجر جنرل محمد امراؤ خان بھی تھے ۔ آپ نے فیکٹری کے اندر اور باہر بہت کام کیا انگریز ایڈوائزروں سے پیچھا چھڑایا اور 160انگریز افسروں کو گھر بھیجا جس کے بعد فیکٹری صحیح معنوں میں Nationalize ہوئی ایک نیا موڑ آیا فرسودہ ہتھیاروں کی بجائے جدید مشینری سے آٹو میٹک رائفل اور مشین گن بنانے کا عمل شروع ہوا۔جدید اقسام کے بارود بننے لگے جس سے بھاری توپوں کے گولے بنانے ممکن ہوئے اور ڈائنامیٹ کا کارخانہ سویڈن کے اشتراک سے قائم ہوا۔ ”بستی کاریگر“ (آج کل اسے لالہ رخ کہتے ہیں) کی لاجواب رہائشی کالونی بنوائی جس میں فیکٹری ملازمین کو ارزاں نرخ پر مکانات مہیا ہوئے ۔ یہ تو نمونہ “مشتے از خروارے” ہے المیہ یہ ہے کہ جنرل امراؤ کا لگایا ہوا سنگ بنیاد جو اسی بستی کے چوک میں نصب تھا وہ بھی اکھاڑ پھینکا گیا جیساکہ میر لائق علی چوک کا حشر کیا گیا ۔ جو ”نقش وفا“ تم کو نظر آئے مٹا دو

طریقہ ۔ غیرتی اور حکومتی

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سعید مہدی مستعفی ہوگئے۔ ان پر پولو گراؤنڈ کیس ختم کروانے کا الزام ہے تاہم سعید مہدی نے کہا ہے کہ انہوں نے کیس ختم کرنے کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور استعفیٰ اپنی عزت بحال رکھنے اور پارٹی گائیڈ لائن کے مطابق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی مقدمہ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں۔این آر او سے استفادہ کرنے والے افراد کی جانب سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ سعید مہدی نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں دو مقدمات میں ملوث کیا گیا تھا جس میں طیارہ کیس اور پولو گراؤنڈ کیس شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 7اپریل 2000ء کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک روز قبل وہ طیارہ سازش کیس میں بری ہوگئے تھے

Minister for Information and Broadcasting Qamar Zaman Kaira on Monday said the NRO beneficiary ministers will not resign, as they were accused and not convicted, terming the demand unjustified.

Talking to media persons here at the CDA Academy, the minister made it clear that the cabinet members, who had benefited from the NRO were accused and not convicted to be asked to step down as minister

ایک جمہوریت کا سوال ہے بابا

امریکی صحافی سیمور ہرش کے طویل مضمون کے مطالعے سے پتہ چلتا ہےbeggar2 کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کا آغاز فوجی آمر پرویز مشرف نے کیا جو امریکیوں سے کہتا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ضرور کرو لیکن اپنے میزائلوں پر پاکستان ایئر فورس کے نشان چسپاں کردو تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ حملے امریکہ کررہا ہے۔ کیا قوم کے ساتھ اس سے بڑا کوئی اور فراڈ، دغابازی اور مکاری ہو سکتی ہے؟

سیمور ہرش نے لکھا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اس سال مئی میں امریکہ کی خواہش پر سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کا حکم دیا اور وزیرستان میں حالیہ آپریشن کا آغاز بھی دراصل اوبامہ انتظامیہ کی کامیابی ہے۔

ہرش نے جو کچھ لکھا ہے کہ اس کے بعد کون حقیقت پسند پاکستانی یہ تسلیم کرے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ یہ مشرف کی شروع کردہ جنگ ہے جسے زرداری حکومت انتہائی بے ہنگم طریقے سے آگے بڑھا رہی ہے۔ اس جنگ نے ہم پاکستانیوں کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ کردیا ہے اور درندہ نما انسان روزانہ بے گناہ انسانوں کو بم دھماکوں میں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مجھے چارسدہ اور پشاور میں کچھ ایسے مقامات پر عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا جہاں کار بم دھماکوں میں درجنوں نہیں سیکڑوں بے گناہ مارے گئے
بعض لوگ ان بم دھماکوں کو بلیک واٹر کے کھاتے میں ڈالتے رہے لیکن اکثریت کا خیال تھا کہ جب تک موجودہ حکومت مشرف دور کی پالیسیاں نہیں بدلتی پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا
فاروق اعظم چوک چارسدہ میں ایک تاجر نے مجھے کہا کہ مشرف نے ہمیں این آر او دیا اور این آر او نے ہمیں صدر زرداری دیا، کیا صدر زرداری میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرکے مشرف کے بھوت سے چھٹکارا نہیں پاسکتے؟
پیپل منڈی پشاور میں دھماکے سے تباہ شدہ مسجد کے ملبے کے قریب کھڑے ایک بزرگ نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے دوسری طرف وہ بھارت سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے تو پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کیوں؟

وہ لوگ جنہوں نے حالیہ بم دھماکوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں ان کی اکثریت بدستور اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتی۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو پشاور یا چارسدہ کے کسی بھی چوراہے پرکھڑے ہوکر لوگوں سے بات کرلیں

عام لوگ بڑے سمجھدار ہیں وہ فساد کی جڑ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو سمجھتے ہیں۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا

امریکی فوج کو اس خطے سے نکالنے کیلئے افغانستان اور پاکستان میں ایک پرامن عوامی تحریک کی ضرورت ہے اور ایسی تحریک کو امریکہ اور یورپ میں بھی پذیرائی ملے گی۔ جمہوریت جتنی بھی بُری ہو لیکن بُری جمہوریت میں بھی پرامن سیاسی تحریک چلانا آسان ہوتا ہے۔ بُری جمہوریت ایک لانگ مارچ پرمعزول ججوں کو بحال کردیتی ہے جبکہ فوجی آمر اپنوں کے سامنے جھکنے کے بجائے ایمرجنسی لگا دیتا ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ جمہوریت کو بہتر بنایاجائے اور امریکہ کی قید سے اسے رہائی دلوائی جائے لیکن جمہوریت کا خاتمہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ جمہوریت جتنی بھی بری ہو بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتی اور آمریت جتنی بھی اچھی ہو بار بار بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے۔ جمہوریت صرف اپنے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے

جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانچ دریاؤں کا پانی بھارت کو بیچ دیا
جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا، اس آپریشن سے جنم لینے والی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا اور شکست کے بعد بنگلہ دیش نے جنم لیا
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا
جنرل پرویز مشرف نے گیارہ ستمبر 2001ء سے قبل ہی نہ صرف مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف میں یکطرفہ لچک پیدا کرنی شروع کردی بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پر بھی کاٹنے شروع کردیئے ۔ 2000ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرویز مشرف کے متعلق کہا تھا کہ یہ شخص اپنا اقتدار بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے لانگ رینج میزائل پروگرام کیلئے فنڈز بند کردیئے ہیں تاکہ امریکہ اس سے خوش ہوجائے۔ یہ واقعہ نو گیارہ سے پہلے کا ہے اور نو گیارہ کے بعد مشرف نے پاکستان کے قومی ہیرو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی جمہوری حکومت کرتی تو اسے غدار قراردیا جاتا

حامد میر کے قلم کمان سے

غریبوں کا مذاق

فرنگی نے دے کے یہ جمہوریت
ہم غریبوں کا کیوں اُڑایا ہے مذاق

ملاحظہ ہوں عوام کے غم میں مبتلا رہنے اور عوام کی بہبود کی خاطر رُکن اسمبلی بننے کا دعوٰی کرنے والوں کی تنخواہ اور مراعات

تنخواہ ماہانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120000 تا 200000
دستوری اخراجات ماہانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000
دفتری اخراجات ماہانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 140000
زمینی سفر اجلاس کیلئے ۔ ۔ ۔ ۔۔ 8 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے 6000 کلومیٹر تک
اجلاس کے دنوں میں الاؤنس ۔ ۔ ۔ 500 روپے روزانہ
رہائش جہاں بھی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مُفت
بجلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 50000 یونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مفت
ٹیلیفون ۔ ۔ ۔ 170000 یونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ مفت
ہوائی جہاز پر دو آدمیوں کے ايک سال میں 40 سفر مُفت
ٹرین پر جتنا چاہے خود اور بیوی بچوں کیلئے پاکستان کے اندر سفر مُفت

اگر کوئی کمی بیشی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ۔ یہ اعداد و شمار مجھے ایک سابق سرکاری افسر نے بھیجے ہیں

کیری لوگر لاء ۔ ڈی ایچ اے اور غریب

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں کے کنارے پرویز مشرف دور میں قائم کی جانے والی ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم جس میں صرف بڑے بڑے دولتمند ہی پلاٹ خرید کر سکتے ہیں اس میں امریکی امداد سے غریب بچوں کیلئے سکول اور غریبوں کیلئے ہسپتال بنانا ایک لطیفہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے ۔ ایک حقیقت کا انکشاف

انہوں نے بتایاکہ کیری لوگر بل کے تحت ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی راولپنڈی میں غریبوں کے لئے اسکول اور اسپتال بنایا جائے گا تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟
میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ہے؟
موصوف نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ سینیٹر جان کیری کے دوست شاہد احمد خان کا ہے جو بوسٹن میں رہتے ہیں اور انہوں نے کیری لوگر بل کی منظوری میں دن رات ایک کردیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کیری لوگر بل کے اس حامی سے پوچھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں غریبوں کی خدمت کرنے کے لئے آپ غریب کہاں سے لائیں گے؟”
یہ سن کر وہ بھائی صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ شاہد احمد خان کروڑوں ڈالر راولپنڈی لارہا ہے اور آپ اس کا مذاق اڑارہے ہیں ۔ آپ دراصل پاکستانیوں کو قومی غیرت کے نام پرگمراہ کررہے ہیں اور ”غیرت لابی“ پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے

میں نے جواب میں کہا کہ ”غیرت لابی“ کی مخالف تو کوئی ”بے غیرت لابی“ ہوسکتی ہے یہ بتایئے کہ آپ کون سی لابی میں شامل ہیں؟
یہ سن کر انہوں نے فتویٰ صادر کیا کہ ”غیرت لابی“ کی وجہ سے پاکستان بہت جلد ٹوٹ جائے گا اور یہ کہہ کر وہ انگریزی میں اول فول بکتے ہوئے میرے دفتر سے چلے گئے

مجھے شاہد احمد خان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن وہ صرف جان کیری کے نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری کے بھی دوست ہیں لہٰذا انہیں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کو دیئے جانے والے فنڈز سے دور رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ یہ احتیاط نہیں کرسکتے تو پھر انہیں یا کیری لوگر بل کے فنڈز سے مستفید ہونے والی این جی اوز کو ”غیرت لابی“ اور ”بے غیرت لابی“ کی بحث نہیں چھیڑنی چاہیئے

مندرجہ بالا چند سطور ہیں ایک مضمون کی جو یہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے