Category Archives: سیاست

چوروں کے ديس کا قانون

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تابش گوہر نے کہا ہے کہ کراچی کے وہ علاقے جہاں بجلی کی چوری بہت کم اور بجلی کے بل بروقت ادا کئے جاتے ہیں ان کو جلدہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا جائے گا اور جن علاقوں میں بجلی کی بہت زیادہ اور مسلسل چوری اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی تک نہیں کی جاتی ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے 4 گھنٹے سے بڑھاکر 6 گھنٹے کردیا جائے گا

تابش گوہر نے کہا کہ چوری کی جانچ کیلئے ہر فیڈر پر میٹر نصب ہیں، ان سے بجلی کی چوری کا پتہ لگایا جاتا ہے، جن فیڈرز پر 40 فیصد سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں اضافہ، جن فیڈرز سے 10 فیصد سے کم بجلی کی چوری کی جاتی ہے وہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیئے جائیں گے

جملہ معترضہ ۔ کہيں ايسا تو نہيں کہ تابش گوہر صاحب پنجابی ہيں اسلئے خواہ مخوا کراچی والوں کو بدنام کر رہے ہيں

بشکريہ ۔ جنگ

اوباما کيلئے بڑا چيلنج

کيا امريکا کا صدر اوباما شرق الوسط کو جوھری اسلحہ خانہ سے پاک علاقہ بنا سکتا ہے ؟ يہ ايک بڑا سوال ہی نہيں بلکہ ايک بڑا چيلنچ بھی ہے

وِکی لِيکس [Wiki Leaks] کی طرف سے افغانستان ميں امريکا کی 9 سال سے جاری يلغار کے متعلق امريکی دستاويزات کے انکشاف نے تمام امريکيوں کو مبہوت کر رکھا ہے ۔ ان ميں ايسی بھی دستاويز ہے جس کے مطابق پاکستان کے خُفيہ والے افغانستان کے طالبان کو مالی امداد ۔ اسلحہ اور تربيت ديتے رہے ہيں

متذکرہ دستاويزات سے عياں ہونے والے کوائف کی درستگی ايک الگ مسئلہ ہے اور ان انکشافات کے اثرات نمودار ہونا ابھی باقی ہے مگر اس ابلاغی دھماکے نے ايک بڑی حيران کُن حقيقت کو امريکيوں اور باقی دنيا کے عوام کی نظروں سے اوجھل کر ديا ہے ۔ امريکی حکومت کے احتسابی ادارے [US Government Accountability Office (GAO)] نے مئی 2010ء ميں ايک سربستہ راز جس کی 32 سال سے حفاظت کی جارہی تھی جزوی طور پر غير مخفی [Partialy declassified] کيا جس کا عنوان ہے

‘Nuclear Diversion in the US? 13 Years of Contradiction and Confusion’,
تفصيل ميرے بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔۔۔ Reality is Often Bitter ” پر يا يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

پہلی دہشتگردی

ميں اتفاق سے 6 اگست کو پيدا ہوا تھا مگر کسی کے وہم و گماں ميں نہ تھا کہ امريکا ايک بڑی طاقت بن کر دنيا ميں بڑے پيمانے پر دہشتگردی کا آغاز کرے گا اور ميں اپنی پيدائش کے دن خوش ہونے کی بجائے مغموم بيٹھا کروں گا

امريکا جو امن کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے نے جب ايٹم بم بنانا شروع کيا تو معاندانہ طور پر اسے خُفيہ رکھا اور اس کا نام مين ہيٹن پروجيکٹ [Manhattan Project] اور کارخانہ کے علاقہ کا نام مين ہيٹن انجيئر ڈسٹرکٹ [Manhattan Engineer District.] رکھا ہوا تھا ۔
ليباٹری ميں پہلا کامياب تجربہ 16 جولائی 1945ء کو کيا گيا
اور
پہلا عملی تجربہ 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہيروشيما پر کيا گيا جہاں کی آبادی اُس وقت 3 اور 4 لاکھ کے درميان تھی ۔
بم گرانے کے بعد آگ کا اايک گولہ اُٹھا جس کا قطر 30 ميٹر تھا
اور درجہ حرارت 3 لاکھ درجے سَيلسيئس ۔
اس تابکاری بادل کی اُونچائی 17000 ميٹر تک پہنچی ۔
اس کے بعد کالی بارش ہوئی جس سے تابکاری فُضلہ [radioactive debris] ايک بہت بڑے علاقہ پر ايک گھنٹہ تک گرتا رہا

اس 3 لاکھ درجے سَيلسيئس حرارت کے نتيجہ ميں
بم گرنے کی جگہ کے گرد کم از کم 7 کلو ميٹر قطر کے دائرہ ميں موجود جانداروں کے جسم کی کھال جل گئی آنکھوں کی بينائی جاتی رہی ۔
2 کلو ميٹر قطر کے اندر موجود ہر جاندار جل کر راکھ ہو گيا ۔
گھروں کے شيشے اور ٹائليں پگھل گئيں ۔
جو کوئی بھی چيز جل سکتی تھی جل کر راکھ ہو گئی

اس دھماکے کے بعد ہوا کا دباؤ يکدم بڑھ کر 35000 کلو گرام فی سکوائر ميٹر ہو گيا
بعد ميں اس کے نتيجہ ميں طوفانی ہوائيں چليں جن کی رفتار 1584 کلو ميٹر فی گھنٹہ تھی ۔
دھماکہ کی جگہ کے گرد 5 کلو ميٹر علاقہ ميں تمام لکڑی کے مکان جل کر فنا ہو گئے
اور کنکريٹ کے مکانوں کے پرخچے اُڑ گئے ۔
6 سے 10 کلو ميٹر کے اندر موجود انسان تابکاری اثرات کی وجہ سے بعد ميں کينسر اور دوسری خطرناک بيماريوں سے ہلاک ہوتے رہے ۔
1976ء ميں اقوامِ متحدہ ميں ديئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 6 اگست 1945ء کو ہيرو شیما کے ايٹمی دھماکہ ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150000 کے قريب تھی
اور 1957ء کے قانون کے مطابق جن لوگوں کے پاس ہيلتھ کارڈ تھے 31 مارچ 1990 کو تيار کئے گئے ريکارڈ کے مطابق ايٹمی دھماکہ سے متاءثر 352550 لوگوں کو علاج کی سہولت مہياء کی گئی

تابکاری اثرات کے تحت کئی سال تک عجيب الخلقت بچے پيدا ہوتے اور مرتے رہے

ہيروشيہ پر ايٹمی دھماکے کے بعد کے چند مناظر

ہم کيا ہيں ؟

ملک و قوم کبھی تباہ کُن زلزلے کا شکار ہيں تو کبھی سيلاب کا ۔ دہشتگردی کہيں خود کُش حملہ کے نام سے ۔ کہيں ٹارگٹ کِلنگ کی صورت ميں اور کہيں برسرِ عام ڈکيتی بن کر مُلک اور عوام کا گوشت نوچ رہی ہے

جن کو ووٹ دے کر قوم نے اپنا نمائندہ بنايا وہ حُکمران بن کر عوام سے وصول کئے گئے ٹيکسوں کے بل بوتے پر عياشيوں ميں مشغول ہيں

خيبر پختونخواہ ميں سيلاب بڑے علاقے کو بہا کر لے گيا اور وہاں کے وزير اعلٰی کو پانچ دن تباہ شدہ علاقے کی خبر لينے ک فرصت نہ ملی

آزاد جموں کشمير کے دارالحکومت مظفرآباد ميں زلزلے کے 5 سال بعد بھی بہت سے لوگ چھپر نما عارضی مکانوں ميں رہ رہے تھے سيلاب کا ريلا وہ بھی بہا کر لے گيا اور ساتھ 53 انسان بھی ۔ وفاقی حکومت ابھی تک اس خوشی ميں مدہوش پڑی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کا حاکم وہاں بٹھا ديا ہے

خیبر پختونخواہ ۔ بلوچستان اور آزاد جموں کشمير کے بعد پنجاب بھی تباہی سے دو چار ہو گيا اور وزيِر اعظم کے شہر ملتان مں بھی پانی داخل ہو گيا مگر وزير اعظم صاحب کو اليکشن مہم سے فرصت نہ ملی ۔ چاروں طرف سے آوازے اُٹھنے لگے تو امدادی فنڈ کے سلسلہ ميں نيشنل بنک ميں اکاؤنٹ کھولنے کا اعلان ہوا مگر يہ نہ بتايا کہ اس ميں فنڈ آئے گا کہاں سے ؟

کراچی ميں ايک رُکن صوبائی اسمبلی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوا ۔ اس کے بعد جو طوفان اُٹھا اس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 اور اور زخميوں کی تعداد 100 پر پہنچا دی ۔ يہی نہيں اس طوفان کی گھن گرج سے حيدرآباد اور سکھر بھی محفوظ نہ رہے ۔ جنگل اور جنگل کے قانون کی مثاليں دی جاتی ہيں مگر کراچی تو ترقی يافتہ شہر ہے جہاں خواندگی کا معيار بہت اونچا ہے

کراچی کی ہمدردی ميں وزير اعلٰی نے تحقيقات کا حکم دے کر اپنا فرض پورا کر ليا اور وفاقی وزير داخلہ نے سارا ملبہ سپاہِ صحابہ کے سر ڈال کر غُسلِ صحت کر ليا

صدرِ پاکستان ملک اور عوام کو ڈوبتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے بيٹے بلاول کی ليڈری کا اعلان کرنے براستہ فرانس لندن کے سفر پر روانہ ہو گئے

ہمارے معاشرے کا يہ حال ہے کہ کسی کو مُلا ايک آنکھ نہيں بھاتا تو کوئی دين اسلام کو موجودہ دور ميں ناقابلِ استمال قرار دينے ميں زمين آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور کوئی صوبائی تعصب پھيلانا فرضِ اوليں سمجھتا ہے

جو کام قوموں کے کرنے کے ہيں اُس کيلئے شايد کسی خلائی مخلوق کو لانا پڑے گا

ميں سوچتا ہوں “ہم کيا ہيں ؟”۔

پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ

جو کھیل پرويز مشرف کی حکومت نا جانے کس مقصد کے لئے کھیل گئی پاکستان کے صرف ارباب اختیار کو اس کا ذاتی فائدہ اور بھارت کو سیاسی فائدہ ہوا ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرويز مشرف حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی جس جگہ کانٹے دار تاریں بچھائی جاسکتی تھیں وہاں کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔ سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور روزانہ دس بارہ افراد شہید کئے جاتے رہے ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی رہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا گيا ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ۔ بگلیہار ڈیم جس پر کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے مکمل کيا گيا اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی جو شايد اب تک مکمل ہو گئے ہوں

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے يا کچھ سالوں بعد قبر ملے جس پر کتبہ لگا ہو کہ يہ پاکستانی دہشت گرد تھا ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟

بھارتی ردِ عمل اور حقیقت

کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا تھا جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بہت پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کی تفصیل بعد میں آئے گی

پاکستان کو بنجر کرنے کا منصوبہ

مقبوضہ جموں کشمیر میں متذکّرہ بالا ڈیمز مکمل ہو جانے کے بعد کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر سکتا ہےاور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک سکتا ہے جس کا کچھ نمونہ ميری تحرير کے 5 سال بعد سامنے آ چکا ہے ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ اللہ نہ کرے کہ ايسا ہو ۔

قحط اور سیلاب

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا مقبوضہ جموں کشمیر میں 7 ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے جن میں سے بھارت دریائے جہلم اور چناب پر 3 ڈیم 2005ء تک مکمل کر چکا تھا ۔ 2 دریاؤں پر 7 ڈیم بنانے کے 2 مقاصد ہیں ۔ اول یہ کہ دریاؤں کا سارا پانی نہروں کے ذریعہ بھارتی پنجاب اور دوسرے علاقوں تک لیجایا جائے اور پاکستان کو بوقت ضرورت پانی نہ دے کر قحط کا شکار بنا دیا جائے ۔ دوم جب برف پگلے اور بارشیں زیادہ ہوں تو اس وقت سارا پانی جہلم اور چناب میں چھوڑ دیا جائے تاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ۔ ماضی ميں بھارت یہ حرکت دو بار کر چکا ہے ۔ بھارت کا اعلان کہ ڈیم بجلی کی پیداوار کے لئے بنائے جا رہے ہیں سفید جھوٹ اور دھوکا ہے ۔ کیونکہ جموں کشمیر پہاڑی علاقہ ہے ہر جگہ دریاؤں کے راستہ میں بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے ڈیم بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں

قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرويز مشرف کی حکومت نے منگلا ڈیم کو 10 میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا جس پر موجودہ حکومت بھی عمل پيرا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی توقع نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ ضائع کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی اور نہ اس کا جواز کسی کے پاس ہے

ایک ضمنی بات يہ ہے کہ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے 10 میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی محافظت اور پانی کی مماثل مقدار کی کم توقع کے مدنظر اونچائی 10 میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں 2004ء سے 2006ء تک اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو عقل کی بات سمجھ ميں نہيں آتی

پرويز مشرف حکومت کا فارمولا

پہلے یہ جاننا ضرور ی ہے کہ ہمارے مُلک کا آئین کیا کہتا ہے ۔ آئین کی شق 257 کہتی ہے

Article 257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir
When the people of State Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.

ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ امریکی دفتر خارجہ ڈاکٹر سٹیفن ڈی کراسز اور آفیسر ڈاکٹر ڈینیل مارکسی 2005ء کی دوسری سہ ماہی ميں اسلام آباد کے دورہ پر آئےتھے ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرّف ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ۔ حریت کانفرنس کے سربراہ عباس انصاری اور آزاد کشمیر اور پاکستان شاخ کے کنوینر سیّد یوسف نسیم وغیرہ سے ملاقاتیں کيں ۔ با خبر ذرائع کے مطابق امریکی حکام یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر اور سرحدیں نرم کرنے وغیرہ کے منصوبہ می‍‍ں دلچسپی رکھتے تھے ۔ میر واعظ عمر فاروق کو پاکستان کے دورہ کے درمیان حریت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہوں نے سری نگر پہنچتے ہی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر فارمولا کی بات کی تھی ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ جموں کشمیر کو 7 ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کی یونین بنانے کا جو فارمولا امریکہ کے دورہ سے واپس آ کر جنرل پرویز مشرف نے پیش کیا تھا وہ دراصل امریکی حکومت کی خواہش و تجویز تھی جبکہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق ریاست کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی مجموعی آبادی کی بنیاد پر ہونا تھا ۔ اس لئے امریکہ کی ایماء پر پرویز مشرف کا پیش کردہ 7 ریاستوں والا فارمولا ديگر وجوہات کے علاوہ بنیادی طور پر بھی غلط تھا ۔ مزید یہ کہ اس فارمولا کے نتیجہ میں جموں پورے کا پورا بھارت کو چلا جاتا اور دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو حاصل ہوتا۔

کشمير چھوڑ دو مہم کا آغاز

حریت کانفرنس (گ) کے احتجاجی پروگرام کے پہلے روزجمعہ 25 جون 2010ء کو وادی میں مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال سے زندگی کا پہیہ جام رہا ۔جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ، کولگام ، پانپورجبکہ شمالی کشمیر کے سوپوراوربارہ مولہ میں پُر امن احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکا اور بارہ مولہ میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ٹیئر گیس شيلنگ کی جسکے نتیجے میں نصف درجن افراد زخمی ہوئے۔اس دوران آزادی پسند لیڈران و کارکنان کے خلاف پولیس نے کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا۔پولیس نے تحریک حریت کے ایک کارکن کو گرفتار کر لیا جبکہ مسلم لیگ اور پیپلز فریڈم لیگ کے صدر دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔ حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے جاری کئے گئے احتجاجی کلینڈر کے پہلے روزجمعتہ البارک ‘کشمیر بندھ’ کی کال کے تحت وادی میں ہڑتال رہی ، تمام دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے جبکہ اسکولوں اور بینکو ں میں کام کام کا ج ٹھپ ہوکر رہ گیااور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ انتظامیہ نے امکانی مظاہروں اور سنگبازی کے واقعات کو روکنے کیلئے پائین شہر میں فورسز کی بھاری تعداد کوتعینات کیا تھا۔ نمازجمعہ کے بعد پائین شہر کے نوہٹہ، راجوری کدل، نواب بازار، صراف کدل اور دیگر علاقوں میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور زیادتیوں کیخلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اسی بیچ سنگباز بھی نمودار ہوئے تاہم اِکا دُکا جھڑپوں کو چھوڑ کر پائین شہر میں صورتحال پُر امن رہی۔ چنانچہ وادی کے کئی علاقوں میں نماز جمعہ کے موقعہ پر پُر امن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ سیر ہمدان کولگام میں نماز جمعہ کے بعد چوگل گام کے مقام پر لوگوں نے زیادتیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی۔

بقيہ يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

برتن اور بچھائی بيچ چکے ۔ پر وہ نہ آيا

11 دسمبر 1991ء پکھری بل بوٹہ کدل سے ایک 17 سالہ نوجوان الطاف احمد شیخ کو سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار نامعلوم وجوہات کی بناء پر گرفتار کرتے ہیں جس کا تا حال کوئی اتہ پتہ نہیں۔ پیشہ سے قالین باف الطاف احمد شیخ ولد غلام نبی کے اہلِ خانہ کہتے ہیں ”دن کے ساڑھے چار بجے سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار وں نے علی محمد کے گھر پر چھاپہ مار کارروائی میں الطاف کو جپسی میں بٹھاکر نامعلوم جگہ پہنچادیا۔ الطاف علی محمد بیگ کے کارخانہ میں قالین بنتا تھا”۔اس سلسلہ میں پولیس میں ایک عدد ایف آئی آر زیرِ نمبر 327/97بھی درج کیا جاتاہے

الطاف کے بھائی خورشید ،جسکی عمر بھائی کی حراست کے وقت 13 سال تھی،کا کہنا ہے”میرے والدین روز صبح الطاف کی تلاش میں نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہوکر گھر لوٹتے تھے۔ کبھی سی آر پی ایف کیمپ ،کبھی بی ایس ایف اور کبھی فوجی کیمپ،غرض ہر کوئی کیمپ چھان مارا لیکن حاصل یہ ہوا ماں دماغی مریض بن گئی، بہن دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئی اور باپ اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میری ماں آج بھی ڈاکٹر مشتاق (ماہرِ نفسیات) کے زیرِ علاج ہے اور روز شام ہوتے ہی کشمیری گیت (ژول ہَما روشے روشے)گنگنانے لگتی ہے”۔خورشید کا کہنا ہے ”الطاف کی تلاش میں ہم نے گھر کی ساری جائداد کو نیلام کیا اور آج ہمارے گھر میں جو قیمتی سامان ہے وہ ایک عدد گیس چولہا اور ایک عدد’ بلیک اینڈ وائٹ’ ٹی وی ہے ۔ ہمارے پاس جتنا بھی تانبہ تھا بیچنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ حد تو یہ ہے کہ کمرے میں بچھا ہوا قالین تک بیچنا پڑا اور آج مکان بھی گروی پڑا ہے”

بے کس و لاچار خورشید پہ ٹوٹنے والی مصیبتیں یہیں پہ ختم نہیں ہوتیں بلکہ خورشید کا کہنا ہے ایک دفعہ اسے پولیس تھانے سےCIDرپورٹ کی ضرورت پڑی۔ وہاں اُنہوں نے پانچ ہزار کی رقم طلب کی۔ خورشید کا کہنا ہے کہ وہ ان الفاظ کو کبھی نہیں بھول سکتا جو متعلقہ افسران نے اس وقت خورشید سے کہے ”خالی کاغذکس کام آئیں گے، اِن کی اڑان کیلئے پَر ہونے چاہئیں”۔ خورشیدکا مزید کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ”۔خورشید سرکار نام سے ہی نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ وہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے وہ تلخ الفاظ گردانتے ہیں جو وہ ڈاکٹر فاروق کی رہائش گاہ پر سن چکے ہیں۔خورشید کے مطابق ایک مرتبہ وہ ڈاکٹر فاروق کو اپنی روئيداد سنانے پہنچے کیونکہ ڈاکٹر فاروق اس وقت وزیر اعلیٰ تھے لیکن وہاں ڈاکٹر فاروق نے ان کے زخموں کا مداوا کرنے کے بجائے ایک مخصوص انداز میں کہا ” تم آزادی پسندوں کے حمایتی ہو اور عین ممکن ہے کہ آپکا بھائی پاکستانی ہوگا،جس کیلئے اُسکو کہیں مارا ہوگا”۔ خورشید نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا ” نیشنل کانفرنس کا ایک کارکن مگھرمل باغ میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ الطاف کو ڈھونڈ کے ہی رہے گا لیکن اُس کی ”برائے نام امداد” سے الطاف واپس تو نہیں آیا البتہ ہر طرف سے مار کھانے کے بعد ہم خاک میں مل گئے ”۔ ”روز صبح پورے دن کیلئے اس کے گھر ٹیکسی پہنچانی ہوتی تھی اور ہوٹل میں کھاناکھلانے کے علاوہ اعلیٰ قسم کے دو دوپیکٹ بھی پھونکنے کو دینے پڑتے تھے”

خورشید جو اپنی ماں کا اکلوتا سہارا ہے ،کا کہنا ہے”15 فروری 1993ء کو ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا “میں زندہ ہوں اور اب مجھے بی بی کینٹ بادامی باغ منتقل کرنے والے ہیں” ۔ اُمید کی یہ کرن جاگتے ہی میری ماں بادامی باغ کی طرف دوڑ پڑی اور ایک بار اُس کے زندہ ہونے کا ثبوت بھی ملا ، سرینگر کے سونہ وار علاقے میں ہی ماں نے الطاف کو سرحدی حفاظتی فورس (BSF)کی ایک جپسی میں دیکھا اور ماں پاگلوں کی طرح اُس جپسی کے پیچھے دوڑ پڑی اور رستے میں ہی بیہوش ہوکر گرپڑی۔ یہ امید جاگنے کے بعد ہم نے پھر ایک بار مختلف کیمپ اور جیل جن میں پاپا ٹو ،ائر کارگو ،ہمہامہ کیمپ ،جموں سنٹرل جیل،ہیرانگر جیل کے چکر کاٹے لیکن مصیبتوں اور سختیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا’۔ غم سے نڈھال اور تھکن سے چور ان لوگوں کو اب بھی اپنے ”پیارے” کا انتظار ہے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ سرينگر ۔ مقبوضہ جموں کشمير