برتن اور بچھائی بيچ چکے ۔ پر وہ نہ آيا

11 دسمبر 1991ء پکھری بل بوٹہ کدل سے ایک 17 سالہ نوجوان الطاف احمد شیخ کو سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار نامعلوم وجوہات کی بناء پر گرفتار کرتے ہیں جس کا تا حال کوئی اتہ پتہ نہیں۔ پیشہ سے قالین باف الطاف احمد شیخ ولد غلام نبی کے اہلِ خانہ کہتے ہیں ”دن کے ساڑھے چار بجے سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار وں نے علی محمد کے گھر پر چھاپہ مار کارروائی میں الطاف کو جپسی میں بٹھاکر نامعلوم جگہ پہنچادیا۔ الطاف علی محمد بیگ کے کارخانہ میں قالین بنتا تھا”۔اس سلسلہ میں پولیس میں ایک عدد ایف آئی آر زیرِ نمبر 327/97بھی درج کیا جاتاہے

الطاف کے بھائی خورشید ،جسکی عمر بھائی کی حراست کے وقت 13 سال تھی،کا کہنا ہے”میرے والدین روز صبح الطاف کی تلاش میں نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہوکر گھر لوٹتے تھے۔ کبھی سی آر پی ایف کیمپ ،کبھی بی ایس ایف اور کبھی فوجی کیمپ،غرض ہر کوئی کیمپ چھان مارا لیکن حاصل یہ ہوا ماں دماغی مریض بن گئی، بہن دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئی اور باپ اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میری ماں آج بھی ڈاکٹر مشتاق (ماہرِ نفسیات) کے زیرِ علاج ہے اور روز شام ہوتے ہی کشمیری گیت (ژول ہَما روشے روشے)گنگنانے لگتی ہے”۔خورشید کا کہنا ہے ”الطاف کی تلاش میں ہم نے گھر کی ساری جائداد کو نیلام کیا اور آج ہمارے گھر میں جو قیمتی سامان ہے وہ ایک عدد گیس چولہا اور ایک عدد’ بلیک اینڈ وائٹ’ ٹی وی ہے ۔ ہمارے پاس جتنا بھی تانبہ تھا بیچنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ حد تو یہ ہے کہ کمرے میں بچھا ہوا قالین تک بیچنا پڑا اور آج مکان بھی گروی پڑا ہے”

بے کس و لاچار خورشید پہ ٹوٹنے والی مصیبتیں یہیں پہ ختم نہیں ہوتیں بلکہ خورشید کا کہنا ہے ایک دفعہ اسے پولیس تھانے سےCIDرپورٹ کی ضرورت پڑی۔ وہاں اُنہوں نے پانچ ہزار کی رقم طلب کی۔ خورشید کا کہنا ہے کہ وہ ان الفاظ کو کبھی نہیں بھول سکتا جو متعلقہ افسران نے اس وقت خورشید سے کہے ”خالی کاغذکس کام آئیں گے، اِن کی اڑان کیلئے پَر ہونے چاہئیں”۔ خورشیدکا مزید کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ”۔خورشید سرکار نام سے ہی نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ وہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے وہ تلخ الفاظ گردانتے ہیں جو وہ ڈاکٹر فاروق کی رہائش گاہ پر سن چکے ہیں۔خورشید کے مطابق ایک مرتبہ وہ ڈاکٹر فاروق کو اپنی روئيداد سنانے پہنچے کیونکہ ڈاکٹر فاروق اس وقت وزیر اعلیٰ تھے لیکن وہاں ڈاکٹر فاروق نے ان کے زخموں کا مداوا کرنے کے بجائے ایک مخصوص انداز میں کہا ” تم آزادی پسندوں کے حمایتی ہو اور عین ممکن ہے کہ آپکا بھائی پاکستانی ہوگا،جس کیلئے اُسکو کہیں مارا ہوگا”۔ خورشید نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا ” نیشنل کانفرنس کا ایک کارکن مگھرمل باغ میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ الطاف کو ڈھونڈ کے ہی رہے گا لیکن اُس کی ”برائے نام امداد” سے الطاف واپس تو نہیں آیا البتہ ہر طرف سے مار کھانے کے بعد ہم خاک میں مل گئے ”۔ ”روز صبح پورے دن کیلئے اس کے گھر ٹیکسی پہنچانی ہوتی تھی اور ہوٹل میں کھاناکھلانے کے علاوہ اعلیٰ قسم کے دو دوپیکٹ بھی پھونکنے کو دینے پڑتے تھے”

خورشید جو اپنی ماں کا اکلوتا سہارا ہے ،کا کہنا ہے”15 فروری 1993ء کو ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا “میں زندہ ہوں اور اب مجھے بی بی کینٹ بادامی باغ منتقل کرنے والے ہیں” ۔ اُمید کی یہ کرن جاگتے ہی میری ماں بادامی باغ کی طرف دوڑ پڑی اور ایک بار اُس کے زندہ ہونے کا ثبوت بھی ملا ، سرینگر کے سونہ وار علاقے میں ہی ماں نے الطاف کو سرحدی حفاظتی فورس (BSF)کی ایک جپسی میں دیکھا اور ماں پاگلوں کی طرح اُس جپسی کے پیچھے دوڑ پڑی اور رستے میں ہی بیہوش ہوکر گرپڑی۔ یہ امید جاگنے کے بعد ہم نے پھر ایک بار مختلف کیمپ اور جیل جن میں پاپا ٹو ،ائر کارگو ،ہمہامہ کیمپ ،جموں سنٹرل جیل،ہیرانگر جیل کے چکر کاٹے لیکن مصیبتوں اور سختیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا’۔ غم سے نڈھال اور تھکن سے چور ان لوگوں کو اب بھی اپنے ”پیارے” کا انتظار ہے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ سرينگر ۔ مقبوضہ جموں کشمير

This entry was posted in خبر, روز و شب, سیاست on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

One thought on “برتن اور بچھائی بيچ چکے ۔ پر وہ نہ آيا

  1. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    افتخاربھائی، آپ نےیہ ایک اچھاسلسلہ شروع کیاہے۔ایسی سینکڑوں کہانیاں ہمارےگردوپیش موجودہیں لیکن ہمارےپاس وقت نہیں۔احساس رواداری ختم ہورہاہےسب کواپنی اپنی پڑی ہے۔ اللہ تعالی ہم پراپنافضل و کرم کرے۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.