Category Archives: سیاست

کيا ہم ہميشہ بے عزتے تھے ؟

ميں آئے دن سُنتا اور پڑھتا رہتا ہوں

“62 سال سے پاکستان کی يہی حالت ہے”

درست کہ اب ہماری کوئی عزت نہيں ۔ ہم تو کيا ہمارے حکمرانوں کی عزت کا يہ حال ہے کہ امريکا کا چھوٹا سا کوئی سرکاری اہلکار بھی آ جائے تو ہمارے صدر صاحب کورنش بجا لاتے ہيں

ميں سوچتا ہوں کہ کيا کبھی يہ لوگ تاريخ پڑھتے ہی نہيں يا جان بوجھ کر دروغ گوئی سے کام ليتے ہيں ۔ ميں گواہ ہوں اس حقيقت کا کہ آج سے 4 دہائياں قبل ہم پاکستانی ايک قوم تھے ۔ ہميں نہ صرف اپنی املاک پياری تھيں بلکہ محلہ داروں کی اور سرکاری املاک بھی پياری تھيں ۔ يہی وجہ تھی کہ دوسرے ممالک ميں بھی ہماری عزت تھی ۔ ميں پہلی بار 1966ء ميں مُلک سے باہر گيا ۔ جہاں بھی گيا معلوم ہونے پر کہ ميں پاکستانی ہوں لوگوں نے ميرے ساتھ اچھا سلوک کيا ۔ ميں جرمنی ميں ايک يونيورسٹی ديکھنے گيا ۔ معلوم ہوا وہاں ايک ہال ہے جس ميں اہم اساتذہ اور طُلباء کی تصاوير لگی ہيں ۔ مگر بتايا گيا کہ وہ حال عام آدمی کيلئے نہيں کھولا جا سکتا ۔ ميرے ساتھی جرمن انجنيئر نے ايک پروفيسر سے جا کر کہا “ميرے ساتھ پاکستانی انجنيئر ہے وہ ديکھنا چاہتا ہے”۔ اس پر پروفيسر خود آئے ۔ ميرے ساتھ مصافحہ کيا اور پاکستان کے متعلق پوچھا پھر ہميں اُس ہال ميں ليجا کر سب سے پہلے علامہ اقبال کی تصورير دکھائی جو وہاں طالبعلم رہے تھے ۔ علامہ اقبال کی بہت تعريف کی اور کہا “وہ ايک فلاسفر تھے”۔ پھر باقی سب کا بتايا

ہاں ايک وقت تھا کہ ہمارے ملک کا صدر اور امريکا کے صدر ميں برابری کے تعلقات تھے ۔ تاريخ کی ورق گردانی کرتے مجھے ايک تصوير مل گئی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے صدر اور امريکا کے صدر ميں مساوات تھی

پاکستان کے صدر محمد ايوب خان اور امريکا کے صدر لنڈن بی جانسن

افغانستان پاکستان اُسامہ ۔ تاريخ کا ايک ورق

مندرجہ ذيل تحرير پڑھنے سے پہلے اگر میرے ایک دہائی سے زیادہ پر محیط مطالعہ اور تحقیق کا نچوڑ افغانستان کی تاريخ کے خلاصے پر نظر ڈال لی جائے تو اس تحرير کو سمجھنے ميں آسانی رہے گی ۔ افغانستان کی تاريخ نہائت مُختصر انداز ميں ان روابط پر موجود ہے ۔ پہلی قسط ۔ ۔ ۔ دوسری قسط ۔ ۔ ۔ تيسری قسط ۔ ۔ ۔ چوتھی قسط ۔ ۔ ۔ پانچويں قسط ۔ ۔ ۔ چھٹی قسط ۔ ۔ ۔ اور ساتويں قسط

جہاد افغانستان کے آخری مراحل میں اُسامہ بن لادن اپنے مال و دولت سمیت پاکستان میں وارد ہوئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ اور عرب ممالک کھُل کر پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کا ساتھ دے رہے تھے ۔ اس سے پچھلے مراحل میں خود امریکہ بھی محتاط تھا کیونکہ انہوں نے افغانستان کو سوویت یونین کے دائرہ اثر میں دینا قبول کرلیا تھا اور وہ افغانستان میں سوویت یونین کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لئے تیار نہیں تھا

ظاہر شاہ [1933ء تا 1973ء] کے زمانے میں حالت یہ تھی کہ افغانستان کے ایک بااثر وزیر عبدالستار سیرت کے کہنے کے مطابق شمالی افغانستان میں ایک معمولی پولیس افسر بھی ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سوویت یونین سے منظوری حاصل کئے بغیر تعینات نہیں کیا جاتا تھا تاکہ سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمران ناراض نہ ہوجائیں۔ کابل یونیورسٹی اور کابل کی پالیٹکنک انجینئرنگ یونیورسٹی کمیونسٹ طلباء اور اساتذہ کا گڑھ تھے یہاں تک کہ کابل یونیورسٹی کے شریعت فیکلٹی میں بھی بعض بااثر کمیونسٹ اساتذہ تعینات تھے

اس زمانے میں کابل میں کمیونسٹ طلباء اور اسلامی تحریک سے وابستہ طلباء کی کشمکش شروع ہوئی۔ یہ 1968ء کی بات ہے کہ مسلمان طلباء کی قیادت ایک ایسے نوجوان کے ہاتھ میں آئی جو مافوق العادہ عبقری صلاحیتوں کا مالک تھا۔ عبدالرحیم نیازی نامی اس طالب علم نے مسلمان نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ ان کے ساتھ کابل یونیورسٹی کے اساتذہ میں استاذ غلام محمد نیازی، پروفیسر برہان الدین ربانی اور طلباء میں استاذ عبدالرب الرسول سیاف اور انجینئر گلبدین حکمت یار پیش پیش تھے ۔ عبدالرحیم نیازی کو ایک پراسرار طریقے سے زہر دے کر قتل کیا گیا۔ یہ مشہور کر دیا گیا کہ انہیں کینسر ہے اور علاج کے لئے انہیں دہلی لے جایا گیا ۔ دہلی سے ان کی میت جب کابل ائیرپورٹ پر پہنچی تو پورا کابل شہر تجہیز و تکفین اور جنازے میں شرکت کے لئے اُمڈ آیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ سے ایک ہمہ گیر تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت حکمت یار ،حبیب الرحمن شہید ، سیف الدین شہید، استاذ برہان الدین ربانی ، استاذ سیاف اور مولوی محمد یونس خالص کررہے تھے ۔ ان نوجوانوں اور ان کے اساتذہ کی زیر نگرانی یہ تحریک بالآخر جہاد افغانستان میں تبدیل ہوئی

حبیب الرحمن شہید میرے پاس پشاور تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سوویت یونین اور ان کے زیر اثر کمیونسٹ گروہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے دونوں ممالک کو اسلام کے رشتے میں جوڑ کر یک جان اور دوقالب بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کوششیں کرنی چاہئیں ۔ میں انہیں لے کر مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے نوجوان کی حوصلہ افزائی کی لیکن انجینئر حبیب الرحمن شہید جو صرف 24 سالہ نوجوان تھا ۔ واپسی پر داؤد کے زیر عتاب آگیا اس پر فوجی افسران کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگایا گیا اور اسے پھانسی کی سزا ہوئی

ان کے بعد اسلامی تحریک دوسرے نوجوانوں اور پروفیسروں کی قیادت میں آئی ۔ ان کے ساتھ روابط کی تجدید کے لیے میں نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 1973ء سے لے کر 1977ء تک میں نے مختلف طریقوں سے افغانستان کے پانچ دورے کئے اور ان مسلسل رابطوں کی وجہ تھی کہ افغانستان سے برہان الدین ربانی ، انجینئر حکمت یار ، مولوی محمد یونس خالص اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی

ظاہر شاہ کے بعد محمد داؤد اور ان کے بعد نور محمد ترکی اور پھر حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب کے دور حکومت کے پورے عرصے میں افغانستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ ہمارا بھرپور تعاون جاری تھا۔ نور محمد ترکی کی حکومت تک امریکہ کھل کر جہاد کی پشتیبانی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور نور محمد ترکی [27 اپريل 1978ء تا 14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو خود امریکہ نے تسلیم کرلیاتھا اور حکومت پاکستان نے بھی امریکہ کے کہنے پر اسے تسلیم کرلیا تھا حالانکہ ہم نے جنرل ضیاء الحق کو کہا تھا کہ یہ حکومت کمزور ہے اور اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ حفیظ اللہ امین [14 ستمبر 1979ء] کی حکومت کو امریکہ اور پاکستان نے تسلیم نہیں کیا اور ان کے زیر اثر عرب ممالک نے پاکستان کی حکومت کو کنڈوٹ [Conduit] بنا کر افغان مجاہدین کی مدد شروع کی

اس دور میں بڑی تعداد میں عرب مجاہدین اور عرب شیوخ مذہبی لباس میں اور مخیر تاجروں کے لباس میں پاکستان آئے جن میں سے ایک اُسامہ بن لادن تھے لیکن دوسرے عرب شیوخ کی طرح ان کی آمد و رفت صرف بڑے ہوٹلوں اور حویلیوں تک محدود نہیں تھی ۔ انہوں نے کسی بڑے ہوٹل یا بڑی حویلی میں قیام کی بجائے مجاہدین کے ساتھ پہاڑوں اور سرنگوں میں رہنا قبول کیا اور شہزادوں کی طرز زندگی چھوڑ کر فقر کی زندگی اختیار کی

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور روسی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد اُسامہ بن لادن نے واپس سعودی عرب جا کر عیش اور آرام کی زندگی دوبارہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے لئے دوسرے عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کا راستہ اختیار کیا جو اپنے آپ کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کا اکیلا قطب الاقطاب سمجھ بیٹھا تھا اور دنیا کے لوگ بھی سمجھ بیٹھے تھے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب یہ یک محوری دنیا [Unipolarl World] بن گئی ہے۔ اُسامہ بن لادن نے اس مفروضے [myth] کو توڑنے کا تہیہ کیا۔ اس کا یقین تھا کہ جس بے سر و سامانی کی حالت میں افغانوں نے جہاد شروع کیا اس کے بعد اسباب فراہم ہوتے گئے اور بالآخر وہ دن آگیا جب لوگوں کی نظروں میں ناممکن کام ممکن بن گیا اور سوویت یونین کی مسلسل پیش قدمی نہ صرف رُک گئی بلکہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ روحانی طاقت کے مقابلے میں مادی طاقت چاہے کتنی بڑی کیوں نہ ہو بالآخر شکست کھا جائے ۔

اسامہ بن لادن نے جو حکمت عملی اختیار کی اس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے خاص طور پر 9 ستمبر 2001ء جسے عرف عام میں 9/11 کہتے ہیں کی ذمہ داری خود قبول کرنا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور مغربی دنیا کو جنگ چھیڑنے اور افغانستان اور پاکستان کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کرنے کا بہانہ بنا

9/11 سے قبل مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا پروپیگنڈہ بے اثر ہو رہا تھا۔ ساری دنیا کے انصاف پسند دانشور اسلام کو عالم انسانیت کے ایک روشن مستقبل کی نوید سمجھ رہے تھے۔ کمیونزم کی پسپائی کے بعد دنیا کے لوگ اسلام کو عدل و انصاف کے منبع کے طور پر اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن بم دھماکوں ، معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی وجہ سے دشمنوں کو موقع مل گیا کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیں ۔ نعوذ باللہ قرآن کریم کو دہشت گردی کی تعلیم کی کتاب ٹھہرا دیں اور غلیظ پروپیگنڈے کے گرد پیچھے امریکہ اور مغربی دنیا کا مکروہ چہرہ چھپا دیں جو پوری دنیا میں فساد پھیلا رہا ہے

اُمت مسلمہ اس گہری نیند سے بیدار ہو رہی ہے ۔ اُمت مسلمہ اسی عالمگیر دعوت کو لے کر اُٹھ رہی ہے۔ جو ساری انسانیت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے ۔ ایسے میں کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر غیروں کے آلہٴ کار بن کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنا کر استعمار کے مکروہ چہرے کو چھپانے کا ذریعہ بن رہے ہیں

فلسطین ، کشمیر اور افغانستان میں استعماری طاقتیں جس قسم کے ظالمانہ ہتھیار استعمال کرتی ہیں، آزاد اور حریت پسند شہریوں کی جس طرح تذلیل کی جارہی ہے بجائے اس کے کہ وہ دنیا کے سامنے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں وہ اُلٹا مسلمانوں کو دہشت گردی کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اُسامہ اور ان کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر یہ صورتحال پیدا کی ہے لیکن مخالفین پاکستان کے اندر مساجد اور بازاروں میں معصوم شہریوں کے قتل کی ذمہ داری ان پریا ان کے ہم خیال لوگوں پر ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے اندر کے دھماکوں اور تخریب کاری کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جا سکتی

اگر وہ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری کے ذمہ دار تھے تو وہ پانچ سال تک کاکول کے فوجی گیریژن کی ایک حویلی میں کیسے ٹھہرے رہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کے علم کے بغیر وہ عین فوجی چھاؤنی کے اندر ایک ایسے مکان میں، رہائش پذیر ہوں جس کے دروازوں پر ہر وقت پہرا لگا ہوا ہو ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچ سال تک اس گھر کے بارے میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو ؟ جو ادارے اتنے چوکنے ہوں کہ خود میرے جیسے بے ضرر شخص کے مکان کے ہر آنے جانے والے پر ان کی نظر ہو ان کی تیز نظروں سے چھاؤنی کے اندر وسیع وعریض قلعہ بند مکان کیسے اوجھل رہ سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں دل لگتا تجزیہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوباما ایڈمنسٹریشن افغان جنگ کے اقتصادی بوجھ سے تنگ آچکی ہے اور اس سے نکلنا چاہتی ہے لیکن یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا

میری معلومات کی حد تک افغانستان کے طالبان اور بعض دوسرے مجاہدین یہ شرط پوری کرنے کے لئے تیار ہیں اگرچہ ان کی دوسری شرط ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ افغانستان میں انہیں اڈے مہیا کئے جائیں ۔ امریکی افواج کے نکلنے کے لئے زمین تیار کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ میں اتفاق ہوچکا ہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف اور پاکستان کے سینئر فوجی اور سِول افسران کے بار بار افغانستان کے دورے اور وہاں امریکی فوجی افسروں سے ملاقاتیں بھی خالی از مصلحت نہیں تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس باہمی مشترکہ حکمت عملی میں طے ہوچکا ہو کہ اوباما کو رائے عامہ میں قبولیت حاصل کرنے کے لئے اہم ٹرافی پیش کی جائے ۔ اس کے بدلے میں پاکستان کیا حاصل کرسکتا ہے ؟ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھارت کی بجائے پاکستان کو افغانستان کی حساس اور اہم جگہوں پر فائز ہونے کے مواقع فراہم کرے تو پاکستان اس خطرے سے بچ سکتا ہے کہ مغربی سرحد اور مشرقی سرحد دونوں جگہ وہ بھارت کے درمیان محصور ہوجائے

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسامہ بن لادن پاکستان کے ساتھ تھا اور پاکستانی اداروں کو اس کا علم تھا تو انہوں نے کاکول جیسے حساس علاقے میں کیوں اسے رکھا اور اگر رکھا تو اسے اس علاقے میں امریکہ کے حوالے کیوں کیا ؟

اس علاقے میں امریکہ کی حالیہ کارروائی سے عوام اپنے ملک کے تحفظ اور خاص طور پر نیوکلیئر تنصیبات کے بارے میں شدید شکُوک و شُبہات کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اس بارے میں عوام سے حقائق کو چھپانے کی بجائے حقائق کو سامنے لانا زیادہ مفید ہوگا

ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت اسامہ بن لادن کو امریکی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتی ہے ۔ ان کو سمندر بُرد کرنے کو لوگ توہین آمیز سلوک سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح جان دی ہے اسے بھی لوگ بہادری کی علامت سمجھتے ہیں لیکن ان کی لاش کو چھپا کے کیوں رکھا گیا ؟ اس بارے میں لوگ شکُوک وشُبہات میں مبتلا ہیں ۔ کیا وہ پہلے شہید ہوچکے تھے اور یہ محض ڈرامہ تھا یا وہ ابھی زندہ ہیں ؟ اس طرح کی قیاس آرائیاں اب چلتی رہیں گی

قاضی حسین احمد کی مندرجہ بالا تحریر 2 اقساط میں 7 اور 8 مئی 2011ء کو شائع ہوئی جو يہاں اور یہاں موجود ہیں

خدمت ۔ عوام دوستی ۔ حق پرستی ؟؟؟

جب پاکستان کی داغ بيل ڈالی جا رہی تھی تو قاعد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان بنانے کی سب سے بڑی دُشمن مسلمان جماعت [جو اُن دنوں انگريز حکومت کی پِٹھُو تھی] نے اپنا نام خدائی خدمتگار رکھا ہوا تھا ۔ پھر عوامی ۔ عوام اور حق پرست کے استعارے شروع ہوئے ۔ آج 12 مئی کے حوالے سے ميں ايم کيو ايم کے ايک ايسے نوجوان کی خود نوشت پيش کر رہا ہوں جس کے خاندان نے ايم کيو ايم کيلئے مال و جان کے نظرانے پيش کئے تھے ۔ يہ تحرير دوسری بار شائع کی جا رہی ہے ۔ پہلی بار ميں نے 14 مئی 2007ء کو شائع کی تھی

بدلتے دِل ۔ سانحہ کراچی

دل کو بدلنا آسان کام نہیں لیکن کوئی ایک چھوٹا یا بڑا حادثہ کبھی ایک دل کو اور کبھی بہت سے دلوں کو بدل کے رکھ دیتا ۔ سُنا ۔ پڑھا اور میری زندگی کا تجربہ بھی ہے کہ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اسلئے انسان کو ہر چیز یا عمل میں بہتر پہلو کو تلاش کرنا چاہیئے ۔ صدر جنرل پرویز نے 9 مارچ سے شروع ہونے والے ہفتہ میں ایسی حماقتیں کیں جن سے سب پریشان ہوئے لیکن ان حماقتوں نے اُس تحریک کو جنم دے دیا جو حزبِ مخالف چلانے میں ناکام رہی تھی ۔ اللہ اس تحریک کو جلد کامیابی سے ہمکنار کرے اور ہمارے وطن میں عوم کا خیال رکھنے والی مضبوط جمہوریت قائم ہو جائے ۔ اور ڈکٹیٹر شپ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خلاصی ہو جائے ۔

12 مئی کو جو کچھ کراچی میں ہوا وہ کراچی والوں سے بہتر کون جانتا ہے ؟ اس کا اچھا پہلو جو میرے علم میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے جانثار خاندانوں کی نئی نسل جس کو 10 مئی تک “قائد صرف ایک [الطاف حسین]” اور “جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے” کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہ تھا اُس نوجوان نسل کے کئی ارکان کے دل 11 اور 12 مئی کے واقعات نے بدل کے رکھ دیئے ہیں ۔

ایک پڑھا لکھا نوجوان جو ایم کیو ایم کے علاقہ کا باسی ہے اور جس کا خاندان الطاف حسین کے جان نثاروں میں شامل ہے ۔ جس کے چچا نے 12 سال قبل الطاف حسین کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تھا اور اس کو سلام آج بھی اس کے محلے میں ہر طرف لکھا ہوا ہے ۔ اُس نوجوان نے 11 مئی کو دیکھا کہ ایئرپورٹ کو جانے والے تمام راستوں پر ٹرالر ٹرک ۔ ٹینکر اور بسیں کھڑی کر کے ان کے ٹائروں میں سے ہوا نکال دی گئی ہے ۔ پھر شام کو اس نے دیکھا کہ خود کار ہتھیاروں سے لیس جوانوں نے مورچے سنبھال لئے ہیں اور کچھ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 12 مئی کو ہسپتالوں میں چلے جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی ایسا شخص طِبّی امداد نہ لینے پائے جو ایم کیو ایم کا نہ ہو ۔

دوسرے دن یعنی 12 مئی کو صبح 10 بجے اس نے ڈرگ روڈ اسٹیشن کے قریب دیکھا کہ اس کے ساتھی ریپیٹر اور کلاشِن کوف قسم کے خود کار ہتھیار الخدمت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں بھر کر لے جا رہے ہیں ۔ اس نے دیکھا کہ شاہراہ فیصل سب کیلئے بند ہے مگر ایم کیو ایم کے جوان ہتھیار لئے آزادی سے گھوم رہے ہیں ۔پھر اس نے دیکھا کہ ایک جوان شخص گِڑگڑا کر التجائیں کر رہا ہے کہ مجھے جانے دو ۔ وہ اپنے بچے کی لاش ہسپتال سے گھر لے کر جا رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا خدا کیلئے مجھے جانے دو تا کہ میں اپنے اس معصوم بچے کے کفن دفن کا بندوبست کر سکوں ۔ ایک لمحہ آیا کہ ایم کیو ایم کے اس پڑھے لکھے نوجوان کے جسم نے ہلکی سی جھرجھری لی اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔ 12 بجے کے قریب پہلی فارنگ ہوئی اور وہ خلافِ معمول گھر چلا گیا اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد اُس کے دل نے اچانک اس کی ملامت شروع کردی کہ آج تک تیرا خاندان جو دلیری دکھاتا رہا وہ دراصل ایک مجبوری اور ضرورت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی درندگی تھی ۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے گا جس کیلئے اس کے چچا نے جان دی تھی وہ انسان نہیں درندہ ہے ۔ وہ قاتلوں کا قائد ہے مہاجروں کا نہیں ۔ رات تک اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ مرنے والے پختونوں کے علاوہ سب اُس کی طرح مہاجروں کے بچے ہیں جن کا قصور یہ ہے کہ وہ الطاف حسین کی درندگی کی حمائت نہیں کرتے ۔

یہ کہانی یا افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔ یہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں رہنے والے صرف ایک نوجوان کی آپ بیتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے کئی اور پڑھے لکھے نوجوان ہوں گے جو اس پراگندہ ماحول اور خونی سیاست سے تنگ آ کر 12 مئی کو تائب ہوئے ہوں گے لیکن وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہوئے شائد ڈر رہے ہوں مگر اس نوجوان نے اپنی دلیری کا رُخ بدلتے ہوئے نہ صرف ایم کیو ایم کے لیڈران کو تحریری طور پر اپنے دل کی تبدیلی کی اطلاع کر دی ہے بلکہ الطاف حسین کو 12 مئی کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ اس نوجوان ۔ اس جيسے دوسرے جوانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ میری محبِ وطن قارئین سے بھی التماس ہے کہ وہ بھی اُن کے لئے خصوصی دعا کریں

انسانيت اور حقوق کے پرچارک کا اصل رُوپ

آج پاکستانی عوام اپنے مُلک کے اندر اپنے ہموطنوں کی امريکی ڈرون حملوں سے ہونے والی درجنوں بلکہ سينکڑوں ہلاکتوں کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہيں ۔ پاکستانيوں کيلئے لئے تو يہ نئی بات ہو سکتی ہے ليکن امريکا کا يہ پرانا کارو بار اور شرمناک دھندہ ہے جو انسانيت اور بھائی چارے کی چادر تان کر پچھلی سوا صدی سے شد و مد کے ساتھ جاری ہے ۔ فرق صرف يہ ہے کہ دوسرے ممالک ميں اُن کے حکمرانوں کے تعاون يا اجازت کے بغير بيگناہوں کا کُشت و خون اور غير ممالک کی املاک پر قبضہ کيا گيا ليکن پاکستان ميں يہ ڈرون حملے اور دراندازی ملک کے صدر [پہلے پرويز مشرف اور 3 سال سے آصف علی زرداری] کے تعاون سے جاری ہے

امريکا کا دعوٰی ہے کہ القاعدہ ايک دہشتگرد تنظيم ہے ۔ امريکا کا يہ بھی دعوٰی ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمہ کيلئے القاعدہ کا خاتمہ ضروری ہے ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ ميں امريکا اب تک 9 لاکھ سے زيادہ انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ اپنے اس مؤقف کے برعکس امريکا لبيا کی حکومت کے خلاف جن لوگوں کو دولت اور اسلحہ مہياء کر رہا ہے وہ القاعدہ ہی کے لوگ ہيں ۔ امريکی وزيرِ خارجہ ہيلری کلنٹن لبيا کی جنگ کے متعلق لبيا کے باغيوں کے جس سربراہ “محمود جبريل” سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں وہ القاعدہ کا نمائندہ “محمود جبريل” ہی ہے

پچھلے 121 سالوں ميں امريکا نے انسانيت اور حقوق کے نام پر 50 ممالک ميں کم از کم 130 بار جارحانہ دخل اندازی کی جس کا اصل مقصد وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنا يا کم از کم امريکی اجاراداری قائم کرنا تھا ۔ اس شيطانی مقصد کے حصول کيلئے لاکھوں بے قصور شہريوں کو بے دردی سے ہلاک کيا گيا جن ميں بوڑھے عورتيں اور بچے بھی شامل تھے

امريکا کی جارحانہ دخل اندازيوں کی فہرست

پاناما ميں 8 بار ۔ 1895ء ۔ 1901 تا 1904ء ۔ 1908ء ۔ 1912ء ۔ 1918 تا 1920ء ۔ 1958ء ۔ 1964ء اور 1989ء
نکاراگوآ ميں 7 بار ۔ 1894ء ۔ 1896ء ۔ 1898ء ۔ 1899ء ۔ 1907ء ۔ 1910ء اور 1912ء سے 1933ء
ہنڈوراس ميں 7 بار ۔ 1903ء ۔ 1907ء ۔ 1911ء ۔ 1912ء ۔ 1919ء ۔ 1924ء تا 1925ء اور 1983ء تا 1989ء
چين ميں 7 بار ۔ 1894ء تا 1895ء ۔ 1898ء تا 1900ء ۔ 1911ء تا 1914ء ۔ 1922ء تا 1926ء ۔ 1927ء تا 1934ء ۔ 1948ء تا 1949ء اور 1958ء
کيوبا ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1902ء ۔ 1906ء تا 1906ء ۔ 1912ء ۔ 1917ء تا 1933ء ۔ 1961ء اور 1962ء
ڈومينيکن ريپبلک ميں 6 بار ۔ 1903ء تا 1904ء ۔ 1914ء ۔ 1916ء تا 1924ء اور 1963ء تا 1966ء
يوگوسلاويہ ميں 6 بار ۔ 1919ء ۔ 1946ء ۔ 1991ء تا 1992ء اور 1993ء تا 1994ء
فليپينز ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1910ء ۔ 1948ء تا 1954ء ۔ 1989ء اور 2002ء
ايران ميں 5 بار ۔ 1946ء ۔ 1953ء ۔ 1980ء ۔ 1984ء اور 1987ء تا 1988ء
ہيٹی يا ہائٹی مين 4 بار ۔ 1891ء ۔ 1914ء تا 1934ء ۔ 1987ء تا 1994ء اور 2004ء تا 2005ء
کوريا 3 بار ۔ 1894ء تا 1896ء ۔ 1904ء تا 1905ء اور 1945ء تا 1953ء
گوآٹے مالا ميں 3 بار ۔ 1920ء ۔ 1954ء اور 1966ء تا 1967ء
يمن ميں 3 بار ۔ 2000ء ۔ 2002ء اور 2004ء
لائيبيريا ميں 3 بار ۔ 1990ء ۔ 1997ء اور 2003ء
چلّی ميں کم از کم 2 بار ۔ 1891ء اور 1964ء تا 1974ء
ميکسيکو کم از کم 2 بار ۔ 1913ء اور 1914ء تا 1918ء
پورٹو ريکو ميں 2 بار ۔ 1898ء اور 1950ء
السلويڈور ميں 2 بار ۔ 1932ء اور 1981ء تا 1982ء
جرمنی 2 بار ۔ 1948ء اور 1961ء
لاؤس ميں 2 بار ۔ 1962ء اور 1971ء تا 1973ء
سوماليہ کم از کم 2 بار ۔ 1992ء تا 1994ء اور 2006ء
عراق ميں 6 بار ۔ 1958ء ۔ 1963ء ۔ 1990ء تا 1991ء اور 1991ء تا 1993ء جو ابھی تک جاری ہے
افغانستان ميں 2 بار ۔ 1998ء اور 2001ء جو ابھی تک جاری ہے
لبيا ميں 3 بار ۔ 1981ء ۔ 1986ء تا 1989ء اور 2011ء جو جاری ہے

مزيد يہ کہ امريکی افواج نے دونوں عظيم جنگوں ميں مندرجہ ذيل ممالک کے خلاف بھر پور حصہ ليا ۔ ارجنٹائن ۔ ساموآ ۔ روس ۔ گوآم ۔ ترکی ۔ يوروگوئے ۔ يونان ۔ ويتنام ۔ انڈونيشيا ۔ کمپوچيا ۔ عمان ۔ ميسی ڈونيا ۔ شام ۔ ہندوستان ۔ بوليويا ۔ ورجن آئی لينڈز ۔ زائر [کانگو] ۔ سعودی عرب ۔ کويت ۔ لبنان ۔ غرناطہ ۔ انگولا ۔ سوڈان ۔ البانيہ ۔ بوسنيا اور کولمبيا

استفادہ مندرجہ ذيل کُتب ۔ بشکريہ دی نيوز

A briefing on the history of US military interventions by Dr Zoltan Grossman

From wounded knee to Libya: A Century of US military interventions by Dr Zoltan Grossman
A brief history of US interventions: 1945 to Present by William Blum
Killing Hope: US Military and CIA Interventions Since World War II by William Blum

William Blum writes:
The unending American quest for supremacy has continued unabated since its first involvement in the affairs of Argentina in 1890.

Dr Zoltan Grossman also writes:
“How American policy makers have been intervening in other countries for a long time, the backgrounds of these actions and the loss of civilian lives as a result of these military offensives.”

He further write, “Since the September 11 attacks on the United States, most people in the world agree that the perpetrators need to be brought to justice, without killing many thousands of civilians in the process. But unfortunately, the US military has always accepted massive civilian deaths as part of the cost of war. The military is now poised to kill thousands of foreign civilians, in order to prove that killing US civilians is wrong.”

He writes in an article published in the “Z magazine” of US in October 2001, “The media have told us repeatedly that some Middle Easterners hate the US only because of our “freedom” and “prosperity.” Missing from this explanation is the historical context of the US role in the Middle East, and for that matter in the rest of the world. This basic primer is an attempt to brief readers who have not closely followed the history of US foreign or military affairs, and are perhaps unaware of the background of US military interventions abroad, but are concerned about the direction of our country toward a new war in the name of “freedom” and “protecting civilians.”

Dr Zoltan Grossman maintains, “The United States military has been intervening in other countries for a long time. In 1898, it seized the Philippines, Cuba, and Puerto Rico from Spain and in 1917-18 became embroiled in World War I in Europe. In the first half of the 20th century it repeatedly sent Marines to “protectorates” such as Nicaragua, Honduras, Panama, Haiti, and the Dominican Republic. All these interventions directly served corporate interests, and many resulted in massive losses of civilians, rebels, and soldiers.”

Grossman goes on to write,” In the early 1960s, the US returned to its pre-World War II intervention role in the Caribbean, directing the failed 1961 Bay of Pigs exile invasion of Cuba, and the 1965 bombing and Marine invasion of the Dominican Republic during an election campaign. The CIA trained and harboured Cuban exile groups in Miami, which launched terrorist attacks on Cuba, including the 1976 downing of a Cuban civilian jetliner near Barbados. During the Cold War, the CIA would also help to support or install pro-US dictatorships in Iran, Chile, Guatemala, Indonesia and many other countries around the world.”

He asserts, “Even when the US military had apparently defensive motives, it ended up attacking the wrong targets. After the 1998 bombings of two US embassies in East Africa, the US “retaliated” not only against Osama Bin Laden’s training camps in Afghanistan, but a pharmaceutical plant in Sudan that was mistakenly said to be a chemical warfare installation. Bin Laden retaliated by attacking a US Navy ship docked in Yemen in 2000. After the 2001 terror attacks on the United States, the US military is poised to again bomb Afghanistan, and possibly move against other states it accuses of promoting anti-US “terrorism,” such as Iraq and Sudan.”

In one of the concluding paragraphs of his afore-cited article, Dr Grossman views,” Such a campaign will certainly ratchet up the cycle of violence, in an escalating series of retaliations that is the hallmark of Middle East conflicts.

Afghanistan, like Yugoslavia, is a multiethnic state that could easily break apart in a new catastrophic regional war. Almost certainly more civilians would lose their lives in this tit-for-tat war on “terrorism” than the 3,000 civilians who died on September 11.”

بھٹو کے خط کا عکس

ميں نے پچھلے ماہ ايک تحرير “معترف ۔ چاپلوس يا منافق ؟” کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ اس ميں ذوالفقار علی بھٹو کے اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر علی مرزا کے نام ايک خط کا ترجمہ اور خط کا انگريزی متن نقل کيا تھا ۔ اتفاق سے مجھے اُس خط کا عکس دستياب ہو گيا ہے جو نيچے ديکھا جا سکتا ہے ۔ يہ خط حکومتِ پاکستان کے محافظ خانہ ميں موجود ہے طلب اور ہمت ہو تو ديکھا جا سکتا گو موجودہ حکومت کے دور ميں بہت مشکل کام ہے

سب سے بڑا دہشتگرد کون ؟

بقول امريکی اہلکاروں کے اُسامہ بن لادن کو ڈھوندنے اور ہلاک کرنے پر امريکا کے 1.3 ٹريلين يا 13 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ۔ لمحہ بھر کيلئے سوچئے کہ انسانی حقوق اور بھائی چارے کا عملبردار مگر دراصل منافقت کا انبار امريکا اگر اس سے آدھی رقم انسانيت کيلئے خرچ کرتا اور اپنی دہشتگردی چھوڑ ديتا تو ساری دنيا امريکا کی گرويدہ بن چکی ہوتی ۔ آج اس کے بر عکس جتنی امريکہ دُشمنی دنيا بھر کے عوام کے دلوں ميں ہے اتنی اور کوئی چيز نہيں

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ یہ آسان کام میڈیا کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ میڈیا پر سی آئی اے کاکنٹرول مضبوط ہے۔ اسکی مثال لوئیس پوساڈا ہے جو کیوبا، ونیزویلا اور پانامہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے لیکن سی آئی اے نے اسے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اور امریکی میڈیا سی آئی اے کی اس ”دہشت گرد نوازی“ پر چپ سادھے بیٹھا ہے

پوساڈا کیوبا کا ایک باغی ہے جس نے امریکی فوج سے تربیت حاصل کی اور سی آئی اے دستاویزات کے مطابق وہ اس کا تنخواہ دار ہے۔ اس نے 6 اکتوبر 1976ء کوکیوبا کے ایک مسافر بردار طیارے میں 2 ٹائم بم نصب کروا کر طیارے کو تباہ کیا جس میں 73 افراد مارے گئے۔ ونیزویلا کی ایک عدالت میں 2 ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پوساڈا کے کہنے پر طیارے میں بم نصب کئے۔ اس اعتراف کے بعد پوساڈا کو ونیزویلا میں گرفتار کر لیا گیا لیکن 1977ء میں وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ ونیزویلا کی حکومت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا لیکن سی آئی اے نے 1985ء میں بھاری رقم خرچ کر کے پوساڈا کو ایک دفعہ پھر جیل سے بھگا دیا

1997ء میں پوساڈا نے سی آئی اے کی مدد سے کیوبا کے مختلف ہوٹلوں میں بم دھماکے کئے تاکہ کیوبا جانے والے سیاح خوفزدہ ہو جائیں۔ ان دھماکوں میں کئی مغربی سیاح مارے گئے

2000ء میں پوساڈا ایک دفعہ پھر پانامہ میں سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔ وہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو پر قاتلانہ حملے کیلئے پانامہ آیا تھا جو 40 سال میں پہلی دفعہ پانامہ کے دورے پر آ رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش بہت پریشان ہوئے کیونکہ یہ سی آئی اے کی بہت بڑی ناکامی تھی لیکن بُش حکومت نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ پانامہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس دہشت گرد کو رہا کر دیا جائے۔ آخرکار پانامہ نے2004ء میں پوساڈا کو چھوڑ دیا اور سی آئی اے اسے امریکا لے آئی

ونیزویلا اور کیوبا نے اس دہشت گرد کی امریکا میں آؤبھگت پر شور ڈالا تو 2005ء میں سی آئی اے نے ایک ڈرامہ کیا ۔ امیگریشن قوانین کے تحت امریکا میں غیر قانونی قیام کے الزام میں پوساڈا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی سال تک مختلف عدالتوں میں اس مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار 9 اپریل 2011ء کو ٹیکساس کی ایک عدالت نے پوساڈا کو بری کر دیا

ذرا سوچئے کہ پوساڈا کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور اس نے بم دھماکے سے فضا میں طیارہ تباہ کر کے 73 افراد کی جانیں نہ لی ہوتیں بلکہ کسی امریکی کو صرف ایک تھپڑ مارا ہوتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا جس پر قتل کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

پوساڈا پر ونیزویلا میں مقدمہ چلا اور سزا سنائی جا چکی لیکن وہ امریکا کی آنکھ کا تارا ہے۔ ونیزویلا کے صدر ہیوگوشاویز اس دہشت گرد کو امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے لیکن میڈیا پوساڈا کے ساتھ سی آئی اے کی محبت کو سامنے لانے سے کتراتا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اپنے ناقد صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سبق سکھاتی رہتی ہے

لیبیا کی مثال لے لیجئے۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کیلئے سی آئی اے نے ایسے گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جو القاعدہ کے حامی ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیرس میں قذافی مخالف اتحاد کے رہنما محمود جبریل سے ملاقات کی۔ محمود جبریل ایک ایسے اتحاد کے رہنما ہیں جس میں لبیا اسلامک فائٹنگ گروپ بھی شامل ہے جس نے 2007ء میں کھُلے عام القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ القاعدہ کے رہنماؤں ابولیث اللبی اور ابو فراج اللبی کا تعلق اسی گروپ سے تھا

اس وقت قذافی کے خلاف امریکی اسلحے سے لڑنے والے باغیوں کے 2 کمانڈر سفیان بن قومو اور عبدالحکیم الحاسدی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق خود امریکا کو بھی معلوم ہے۔ سفیان بن قومو 2001ء میں قندوز سے گرفتار ہوا اور اس نے امریکا کی گوانتاناموبے جیل میں 6 سال گزارے۔ وہ 2007ء میں رہا ہوا اور قذافی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ عبدالحکیم الحاسدی کو 2002ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر کے لیبیا کے حوالے کیا۔ یہ دونوں 2008ء میں قذافی سے معافی حاصل کر کے رہا ہوئے لیکن حالیہ بغاوت کے بعد امریکا کے حمایت یافتہ گروپوں کے ساتھ جا ملے۔ امریکا کو ان کے ماضی سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اور صرف معمر قذافی کو ہٹانے سے غرض ہے

سچ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں اکثر اہداف کے حصول کیلئے لوئیس پوساڈا اور عبدالحکیم حاسدی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اگر آپ امریکا کے ساتھی بن جائیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ آپ دہشت گرد ہیں۔ آج کل امریکا افغان طالبان کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں اپنا دوست بنائے اور پھر اس دوستی کو خطّے میں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے

اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جب سے امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے ہیں کہاں کہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کم ہوئی اور پاکستان میں بڑھ گئی

پاکستان میں جب بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہوئی امریکا نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 27 مارچ 2004ء کو پاکستانی فوج نے شکئی میں مقامی عسکریت پسند نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیا اور 18جون 2004 ء کو امریکا نے اپنے پہلے ڈرون حملے میں نیک محمد کو ختم کر دیا۔ اس ڈرون حملے نے بیت اللہ محسود کو پیدا کر دیا

2005ء میں مجھے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نیک محمد کے ایک ساتھی نے بتایا کہ معاہدہ شکئی سے پہلے نیک محمد کو خوست کے راستے سے امریکیوں نے پیغام بھیجا کہ تم پاکستانی فوج کی بجائے ہمارے ساتھ بات کرو تو فائدے میں رہو گے۔ نیک محمد نے انکار کر دیا اور موت اس کا مقدر بنی۔ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ میں ایک معاہدہ ہونے والا تھا جس کے بعد اس علاقے میں عسکریت مکمل طور پر ختم ہو جاتی لیکن اسی دن امریکیوں نے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 90بچّے شہید کر دیئے اور اس حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا

وہ لوگ جو ڈرون حملوں کو پاکستان کیلئے خطرہ نہیں سمجھتے ان کی عقل پر محض ماتم کیا جا سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے صرف اور صرف ڈرون حملوں کے ردّعمل میں جنم لیا۔ یہ پہلو بہت تشویشناک ہے کہ 2006ء میں صرف 2حملوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔ 2007ء میں 4 ڈرون حملے ہوئے، 2008ء میں 33 ۔ 2009ء میں 53 اور 2010ء میں 118ڈرون حملے ہوئے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا۔ آپ قبائلی علاقوں میں چلے جائیں اور اگر وہاں عسکریت پسند مل جائیں تو پوچھ لیں کہ تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟ 90 فیصد عسکریت پسند کہیں گے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے

ڈرون حملوں کے اس کھیل کا اصل مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو لوئیس پوساڈا جیسے دہشت گردوں کی مہمان نوازی نہ کرتا جسے ونیزویلا، امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

اُسامہ مر گيا ۔ اب کيا ؟

آج صبح سويرے ميری بيگم بوليں “ٹی وی بتا رہا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ايبٹ آباد کے قريب ہلاک کر ديا گيا ہے ۔ ميرے مُسکرانے پر بيگم نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا “توبہ کرو ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ کہو”۔ ميں نے اسی وقت إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور بيگم سے کہا “يہ امريکا والے جھوٹ بول رہے ہيں اپنی عوام کو وقفے وقفے سے اسپرين کی گولی ديتے رہتے ہيں تاکہ انہيں درد کا افاقہ رہے”

ميں کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ميں نے کمپيوٹر چلا کر ای ميلز پڑھی تھيں کہ بجلی غائب ۔ ايک گھنٹے بعد بجلی آئی تو ميں سوچ چکا تھا کہ دوسرے خواتين و حضرات کا ردِ عمل ديکھا جائے ۔ صرف ايک تحرير آئی ۔ وہ بھی بطور خبر کے ۔ اس تحرير پر جو لکھنے گيا تھا اُس کی بجائے لکھاری کو دلاسہ دے کر آ گيا ۔ پھر اپنے مخزن مضامين کيلئے کچھ اور تحرير لکھنے ميں مشغول ہو گيا ۔ بجلی پھر چلی گئی ۔ پھر نيچلی منزل جا کے سارا اخبار پڑھ ڈالا ۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھايا ۔ قيلولہ کيا ۔ اوپر کی منزل پر آ کر کمپيوٹر چلايا اور خُرم صاحب کی متذکرہ بالا تحرير کو دوبارہ کھولا تو وہاں کئی تبصرے ديکھے جس سے محسوس ہوا کہ ميرے ساتھ اور لوگ بھی ہيں جو اس خبر پر يقين نہيں رکھتے ۔ ابھی ميں نے اپنے خيالات قلمبند کرنا شروع کئے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ بجلی آئی ہے تو لکھنے بيٹھا ہوں

ميرا موت ميں اتنا ہی يقين ہے جتنا اس ميں کہ ميں اس وقت لکھ رہا ہوں ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 156 ۔ ترجمہ ۔ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‏ مرنا بر حق ہے ۔ سوال صرف يہ ہے کہ کيا اُسامہ بن لادن مر گيا اور کب اور کہاں مرا ؟ ميرا جواب ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہے يا مر گيا ۔ رہا اُس کا پاکستان ميں ہونا يا مرنا تو يہ قرينِ قياس نہيں ہے ۔ اگر وہ پاکستان ميں ہوتا يا مرتا تو اس کی خبر بالخصوص موجودہ حالات ميں پاکستان آرمی کے آئی ايس پی آر سے آتی نہ کہ امريکا سے ۔ آئی ايس پی آر خاموش ہے اور حکومتی بيان مُبہم آيا ہے

امريکا کو افغانستان ميں شکست کا سامنا ہے جہاں فتح کا اعلان امريکی اہلکار کئی بار کر چکے ہيں ۔ دسمبر 2001ء ميں جب تورا بورا پر ڈيزی کٹر پھينک کر کارپٹ بومبنگ کی گئی تھی ۔ اُس وقت کے امريکی صدر جارج بُش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کيا تھا ۔ دراصل امريکی حکومت اپنی عوام کے درد کو کم کرنے کيلئے وقفوں سے اسپرين کی گولی ديتی رہتی ہے ۔ اُسامہ کی موت کی اس وقت خبر دينا بھی اسپرين کی ايک گولی سے زيادہ کچھ نہيں يا پھر ايسے وقت جب پاکستان کی فوج صرف اپنی شرائط پر مزيد تعاون کرنا چاہتی ہے پاکستانی حکومت يا فوج کو دباؤ ميں لانا مقصود ہو سکتا ہے ۔ امريکی حکمرانوں ميں عقل کی کمی ہے يا وہ بوکھلائے ہوئے ہيں کہ اپنے ہی مختلف بيانات سے خبر کو مکمل مشکوک بنا ديا ہے ۔ امريکی حکمرانوں کو چاہيئے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ق ليگ پنجاب کے صدر چوہدری پرويز الٰہی سے سيکھ ليں ۔ کس طرح اُس نے ہمارے ملک کے چالاک ترين آدمی آصف علی زرداری کو چاروں شانے چِت کر ديا ہے

حقيقت تو اللہ کو معلوم ہے اور امريکی بڑوں کو بھی معلوم ہو گی ۔ فرض کر ليتے ہيں کہ جس طرح اوبامہ نے کہا ہے امريکی ايجنسی نے کل کاروائی کر کے اُسامہ کو ايبٹ آباد ميں ہلاک کيا اور اس کاروائی ميں 2 ہيلی کاپٹروں نے حصہ ليا جن ميں سے ايک گر گيا يا گرا ليا گيا ۔ اب ان سوالوں کا کون جواب دے گا ؟

1 ۔ ايک دفاعی اہميت کے شہر “ايبٹ آباد” ميں اُسامہ قيام پذرير تھا ۔ اُسے خوراک اللہ کے فرشتے نہيں پہنچاتے تھے ۔ مگر وہ شخص جس کی شکل ٹی وی چينلز پر ديکھ ديکھ کر بوڑھوں سے بچوں تک سب کو ازبر ہو چکی ہے جان نہ سکے کہ اُسامہ اُن کے درميان رہ رہا ہے

2 ۔ حالانکہ عمارت بڑی تھی اور اس ميں کئی لوگ رہتے تھے پھر بھی فرض کر ليتے ہيں کہ کوئی نہ کبھی اس عمارت کے اندر گيا اور نہ کبھی باہر آيا ۔ پھر بھی يہ ممکن نہيں ہے کہ ايبٹ آباد کے لوگوں نے جستجو نہ کی ہو کہ اس بڑی عمارت ميں کون رہتا ہے جبکہ اگر ہميں پتہ نہ چلے کہ فلاں عمارت ميں کون رہتا ہے ؟ تو ہماری نينديں حرام ہو جاتی ہيں

3 ۔ پاکستان کی خفيہ ايجنسياں جو گڑے مُردے بھی سونگھ ليتی ہيں ۔ جہاں ان کی ذمہ دارياں سخت تھيں اسی علاقے ميں سب سے بڑا دہشتگرد مزے لُوٹ رہا تھا اور اُنہيں اس کی بھِنک نہ پڑی

4 ۔ کيا اس بات کی اجازت ہماری حکومت نے دے رکھی ہے کہ جس کا جی چاہے جہاں چاہے خُفيہ فوجی کاروائی کرے اور جسے چاہے جتنوں کو چاہے ہلاک کر دے اور اُن کے جسم بھی اُٹھا کر ليجائے ؟

5 ۔ بقول امريکی اہلکاروں کے جسم کو سمندر ميں پھينک ديا گيا ۔ کيوں ؟ اسے محفوظ کر کے امريکا ليجا کر اور اسے وہاں کے ٹی وی چينلز کو کيوں نہ دکھايا ؟ جبکہ عراق اور افغانستان ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں امريکی فوجيوں کی نعشوں کو اپنی عوام کے غيظ و غضب سے بچنے کيلئے کئی کئی سال تک عراق اور افغانستان محفوظ رکھا گيا اور تھوڑی تھوڑی نعشيں امريکا ليجائی جاتی رہيں

6 ۔ کيا پاکستانی حکومت اور ايجنسياں بالکل نااہل ہيں کہ ان کے ملک کے دفاعی اہميت کے شہر ميں ہيلی کاپٹروں کی مدد سے کاروائی ہوئی جو کم از کم 35 يا شايد 45 منٹ تک جاری رہی اور انہيں خبر تک نہ ہوئی ؟

7 ۔ لازمی امر ہے کہ ہيلی کاپٹر پاکستانی فضا ميں سينکڑوں کلوميٹر لمبا سفر طے کر کے ايبٹ آباد پہنچے ہوں گے ۔ کيا کسی ايجنسی کسی آرمی يا رينجرز فارميشن نے اُنہيں نہيں ديکھا ؟ گويا وہ سب بھی نشہ پی کر سوئے ہوئے تھے ؟

8 ۔ امريکا نے بقول امريکا افغانستان پر 2001ء ميں اسلئے حملہ کيا تھا کہ وہاں اُسامہ تھا جسے طالبان نے امريکا کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا اور وہ اُسامہ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ اُسامہ ہلاک ہو گيا ۔ اب امريکا اپنا بوريا بستر گول کر کے افغانستان سے کيوں نہيں چلا جاتا ؟

بات آخر ميں يوں بنتی ہے کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ۔ اپنے پياروں اور اپنی املاک کی حفاظت خود اپنے ہاتھ ميں لے ليں کيونکہ حکمران ۔ فوج ۔ رينجرز ۔ پوليس سب نااہل ہيں يا دشمن کے ايجنٹ ہيں ۔ ايسا نہيں ہو سکتا ايسا کبھی نہيں ہو سکتا