سیّدنا محمد صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ”لا نبی بعدی“ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) ۔ یہ الفاظ آنحضرت صلی الله علیہ وسلّم سے حضرت ابو ھریرہ رضی الله عنہ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی الله عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی
جیسا کہ میں 8 ستمبر 2017ء کو بیان کر چکا ہوں سورت 53 النّجم میں الله تعالٰی نے فرمایا کہ سیّدنا محمد صلی الله علیہ وسلّم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تو پھر ہمیں اُن کے فرمان کو ماننا ہو گا
ختمِ نبوّت ۔ صحابۂ کرام کا اِجماع
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں صحابۂ کرام کے اجماع کی ہے ۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ و سلم کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی، اُن سب کے خلاف صحابۂ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی
اس سلسلے میں خصوصیّت کے ساتھ مُسَیلمۂ کذّاب کا معاملہ قابلِ ذکر ہے ۔ یہ شخص نبی صلی الله علیہ و سلّم کی نبوت کا منکر نہ تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اُسے حضورؐ کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے ۔ اُس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپؐ کو لکھا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں
من مُسَیْلمۃ رسول الله الیٰ محمدٍ رسول الله سلام علیک فانی اُشرِکتُ فی الامر معک(طَبَری، جلد دوم، ص ۳۹۹، طبع مصر)
مُسَیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول الله کی طرف ۔ آپ پر سلام ہو ۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں
علاوہ بریں مؤرخ طَبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مُسَیلمہ کے ہاں جو اذاں دی جاتی تھی اس میں اشھدانّ محمّداً رسول الله کے الفاظ
بھی کہے جاتے تھے ۔ اس صریح اقرارِ رسالتِ محمدؐی کے باوجود اسے کافر اور خارج ا ز مِلت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی ۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنِیفیہ نیک نیتی کے ساتھ اُس پر ایمان لائے تھے اور انہیں واقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اسے خود شریکِ رسالت کیا ہے ۔ نیز قرآن کی آیات کو اُن کے سامنے مُسِیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینۂ طیّبہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کر کے گیا تھا (البِدایۂ و النِّہایہَ لابن کثیر، جلد ۵، ص۵۱)۔
مگر اس کے باوجود صحابۂ کرام نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہ نے ان کے خلاف ارتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کے جُرم میں جنگ کی تھی ۔ اسلامی قانون کی رُو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیرانِ جنگ غلام نہیں بنائے جا سکتے بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمّی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے لیکن مُسَیلمہ اور اس کے پیرووں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابو بکر ؓ نے اعلان فرمایا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا ۔ اور جب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا ۔ چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصّے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیّت محمد بن حَنَفیہ(حنفیہ سے مراد ہے قبیلۂ بنو حنیفہ کی عورت) نے جنم لیا (البِدایہ والنہایہ، جلد۶، ص ۳۱۶، ۳۲۵)۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جُرم کی بنا پر ان سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمد صلی الله علیہ و سلّم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے ۔ یہ کارروائی حضورؐ کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے، ابو بکرؓ کی قیادت میں ہوئی ہے، اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے ۔ اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو
تمام علمائے اُمّت کے اجماع کی تفصیل بھی وہاں درج ہے لیکن طوالت کے باعث اس سے استفادہ نہیں کیا ہے