موضوع سے پہلے کچھ اپنے بارے ميں
جيسا کہ ميں 10 نومبر کو لکھ چکا ہوں ميری دوسری يعنی داہنی آنکھ کی ليزر سرجری 15 اور 16 نومبر کی درميانی رات کو ہوئی اور اب ميں اللہ کے فضل و کرم سے دونوں آنکھوں سے پہلے کی نسبت بہتر ديکھ سکتا ہوں ۔ 15 نومبر سے آج تک جو کچھ ميرے بلاگ پر شائع ہوا وہ پہلے سے محفوظ شدہ تھا ۔ جو شائع کروا ديا گيا
پہلا سوال
ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی تو جو جملہ پہلی ہی ديد پر ميرے ذہن ميں بيٹھ گيا اور آج تک ميں نہ صرف اسے بھولا نہيں بلکہ اس پر عمل بھی کيا وہ ہے ہر ڈرائينگ شيٹ کے کنارے پر انگريزی ميں لکھا يہ فقرہ
اگر شک ہو تو پوچھو [If in doubt, Ask ]
مجھے اُس وقت بڑی مسرت ہوئی تھی جب مجھے عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی ملی جس ميں اُنہوں نے مجھ سے دو سوال پوچھے تھے ۔ ايک کا ميں نے جواب دے ديا تھا مگر دوسرے کی وسعت کا خيال کرتے ہوئے ميں نے مہلت مانگی جس کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد ميری ياد داشت مجروح ہو چکی ہے
دوسرے سوال کے سلسلے ميں ياديں مجتمع کرتے ہوئے ميرے ذہن نے کہا کہ يہ ايک ذاتی معاملہ نہيں بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے متعلق بجا طور پر جواں نسل کی اکثريت جاننا چاہتی ہو گی مگر اُنہوں نے وہ ڈرائينگ شيٹس نہيں ديکھی ہوں گی جن پر لکھا تھا ” اگر شک ہو تو پوچھو” چنانچہ ميں نے عدنان شاہد صاحب کے سوالات اور اُن کے جوابات اپنے بلاگ پر لکھنے کا فيصلہ کيا
بلاگ پر لکھنے کا دوسرا سبب يہ ہے کہ اس طرح تبصروں کی وساطت سے ممکن ہے مشاہدات کی وضاحت ہو يا ميری معلومات ميں اضافہ ہو
عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی کا متن
السلامُ علیکم انکل جی میرا نام عدنان شاہد ہے اور میں اردو بلاگنگ کرتا ہوں اور آپ کے بلاگ کا مستقل قاری ہوں۔ انکل جی مجھے آپ کا تھوڑا سا وقت چاہئیے اور کیا آپ مجھے ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ؟
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان سے کس مطالبے نے جنم لیا؟
شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا
ميرا جواب
السلام عليکم
آپ يہ سوالات کسی تاريخ دان سے پوچھتے تو بہتر ہوتا ۔ ميری بات کی کيا اہميت ؟
آپ کا پہلا سوال
جہاں تک ميرا عِلم اور ياد داشت کام کرتی ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان ميں کسی مطالبے نے جنم نہيں ليا تھا ۔ اگر ايسا ہوتا تو حسين شہيد سہروردی صاحب جو خالص بنگالی تھے پاکستان کا پہلا آئين منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ء ميں پاکستان کے وزيرِ اعظم نہ بنتے
خيال رہے کہ حسين شہيد سہروردی صاحب اُس عوامی ليگ کے صدر تھے جس ميں شيخ مجيب الرحمٰن بھی تھا
بنگاليوں کا دُشمن دراصل بنگالی بيوروکريٹ سکندر مرزا تھا جو غلام محمد کا منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے بیوروکریٹ سے حکمران بن بیٹھا تھا
حسين شہيد سہروردی صاحب نے مشرقی پاکستان (جو کراچی کے سيٹھوں کے زيرِ اثر تھا) کو اس کا مالی حق دينے کی کوشش کی جسے روکنے کے لئے سکندر مرزا (جو اُس وقت صدر تھا) نے حسين شہيد سہروردی صاحب پر اِتنا زیادہ دباؤ ڈالا کہ اس ڈر سے کہ اُنہيں برخاست ہی نہ کر ديا جائے حسين شہيد سہروردی صاحب اکتوبر 1957ء ميں مستعفی ہو گئے تھے
يہ تھا وہ وقت جب مشرقی پاکستان ميں نفرت کی بنياد رکھی گئی
اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ء ميں وزيرِ اعظم بنے تھے اور انہيں بھی سکندر مرزا نے 1955ء ميں برخواست کيا تھا
محمد علی بوگرہ صاحب سے قبل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدين صاحب (جو لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد 1951ء میں وزیرِ اعطم بنے تھے) کو کابينہ سمیت 1953ء ميں اور پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو 1954ء ميں برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنياد رکھی تھی
دوسرے سوال کا جواب ميں براہِ راست نہيں بلکہ اپنے انداز سے دوں گا مگر اس کيلئے مجھے وقت چاہيئے کہ پرانی ياديں تازہ کروں
ترميم
ايک اہم بات جو چِٹھی ميں لکھنے سے رہ گئی تھی يہ ہے کہ مشرقی پاکستان ميں بنگالی بھائيوں کے دُشمن وہی تھے جو مغربی پاکستان ميں پنجابيوں ۔ سندھيوں ۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہيں يعنی بيوروکريٹ خواہ وہ سادہ لباس ميں ہوں يا وردی ميں