بنک آف پنجاب کے قرض اسکینڈل کیس میں بڑے ملزم ، حارث اسٹیل ملز کے مالک شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث افضل کو آج سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ، شیخ افضل نے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں ۔ ملزم شیخ افضل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر ڈاکٹر بابراعوان نے مقدمہ کی پیروی کے لئے پچاس لاکھ روپے اور مقدمہ ختم کرانے کے لئے ساڑھے تین کروڑ مانگے تھے
Category Archives: خبر
اُمید جو بر آنا ہے مُشکل
محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2003ء میں پاکستان کی آبادی کُل 20,374,970
خاندانوں پر مُشتمل تھی ۔ اس آبادی میں 50,000,000 نفوس کا اضافہ ہو چکا ہے پرانے تناسب سے دیکھا جائے تو اب کُل21,077,555 خاندان بنتے ہیں
نَیب نے جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق زرداری ۔ وزراء ۔ مشیرانِ خاص ۔ فیڈرل سیکرٹریز ۔ کارپوریشن کے چیئرمینوں اور دوسرے سرکاری ملازمین سمیت جن لوگوں کو این آر او کے بننے کے بعد معاف کیا گیا اُنہوں نے قوم کا 1000,000,000,000 روپیہ خُرد بُرد کیا جو بیک جُنبشِ قلم معاف ہو گیا ۔ اگر یہ لوٹی ہوئی دولت ان اعلٰی سطح کے لُٹیروں سے واپس لی جائے تو اپنے مُلک کے ہر خاندان کے حصے میں 47,444 روپے آتے ہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 165,000,000,000 روپے باقاعدہ ثبوت کے بعد ان لوگوں سے واپس لئے جا سکتے ہیں ۔ اگر 165,000,000,000 روپے بھی واپس لے کر پورے مُلک میں تقسیم کئے جائیں تو ہر خاندان کے حصہ میں 7,828 روپے آتے ہیں
اور پیئو مِلک پَیک
جب تازہ خالص دودھ ملنا بہت ہی مشکل ہو گیا تو ہم نے ولائتی طریقہ سے موٹے کاغذ کے ڈبے میں بند دودھ استعمال کرنا شروع کیا گو میرا دماغ کہتا تھا کہ پانی ملا دودھ ڈبے والے دودھ سے بہتر ہے کیونکہ جتنا دودھ ڈبوں میں بند کر کے بیچا جا رہا ہے اتنی ہمارے مُلک میں گائے بھینسیں نہیں ہیں ۔ میں اکیلا کیسے عقلمند ہو سکتا ہوں جب باقی سب ڈبے والے دودھ کے حق میں ہوں ۔ اور کئی تو اچھے خاصے پڑھے لکھے خواتین و حضرات نیسلے کا ایوری ڈے [Every Day] خالص اور عمدہ دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ ایوری ڈے میں دودھ ہوتا ہی نہیں
میرے عِلم میں ایک درخواست آئی ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں داخل کی گئی تھی اور 2 نومبر 2009ءکو ہائیکورٹ نے متعلقہ سرکاری اہلکار کو 17 نومبر کو پیش ہونے کا حُکم دیا تھا ۔ داخل کی گئی درخواست میں مصدقہ اعداد و شمار دیئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ گذشتہ 5 سال میں ڈبوں میں بند دودھ [نیسلے کا ملک پیک ۔ ہلّہ ۔ گُڈ ملک ۔ اولپر ۔ وغیرہ] کے 19718 نمونے حاصل کر کے ان کا معائینہ کیا گیا تو ان میں سے 17529 نمونوں کا دودھ مضرِ صحت تھا اور انسانوں کے پینے کے قابل نہ تھا ۔ یعنی 88 فیصد نمونوں میں مُضرِ صحت دودھ تھا ۔کئی نمونوں میں مُختلف کیمیائی [chemical] اجزاء اور دیگر زہریلی اشیاء کی ملاوٹ بھی پائی گئی تھی
ہمیں ڈبوں کا دودھ شروع کئے چار پانچ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن اس کے ذائقہ سے ہم بد دِل ہو رہے تھے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دوہفتے قبل ہمیں اچھا تازہ دودھ ملنا شروع ہوگیا ورنہ اس خبر پر ہمیں نجانے قے شروع ہو جاتیں یا اسہال
کیا یہی بارود خود کش دھماکوں میں استعمال ہو رہا ہے ؟
کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ناصر خان درانی کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو بھیجے گئے میمورنڈم نمبر 12981 میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے بیورو آف ڈپلومیٹک سکیوٹی نے پولیس کالج سہالہ میں انسداد دہشتگردی ریسپانس ٹیمز کی تربیت کیلئے 2003ء میں انسداد دہشتگردی کی مدد کا دفتر قائم کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے19جولائی 2003ء کو ایک میمورنڈم نمبر 1/41/2003 کے ذریعے اس آفس کے قیام میں اپنی رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ امریکی سفارتخانہ کو مذکورہ تربیتی مقاصد کیلئے پولیس کالج سہالہ کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں فائرنگ رینج ، آرمری اور دیگر متعلقہ سہولیات و انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی اجازت دی گئی تھی ۔ اس علاقے کو نہ صرف پولیس کالج سہالہ کی انتظامیہ بلکہ زیر تربیت اہلکاروں کیلئے بھی نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے ۔
اس خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کالج کی حدود میں بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ اس تربیتی ادارے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے ۔
کمانڈنٹ سہالہ پولیس نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) کو اس معاملے میں ملوث کریں تاکہ مناسب حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں
بشکریہ ۔ جنگ
آخر امریکہ نے ایسا کیوں کیا ؟
اُمید ہے کہ وہ قارئین مندرجہ ذیل خبر پڑھ کر اپنے رویّے پر نظرِ ثانی کریں گے جو نام نہاد پاکستانی طالبان کو غیرمُلکی حکومتوں کے ایجنٹ قرار دینے پر اسے سازشی قیاس آرائی [conspiracy theory] قرار دیتے یا اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ کسی نے مجھے اپنے خول میں بند کہا اور کسی نے کڑوی گولی نگل کر حقیقت [جو حقیقت نہیں تھی] کو مان لینے کا کہا
سرحد حکومت اور فوجی فیصلہ سازوں کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے صرف 5 روز قبل امریکی فوج نے افغانستان میں وزیرستان سے ملحقہ سرحد پر اپنی 8 چوکیاں خالی کر دیں ۔ ان میں سے 4 وزیرستان کے قریب تھیں جن میں زمبالی اور نورخہ کی چوکیاں بھی شامل ہیں جبکہ 4 نورستان کے علاقے میں تھیں
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکا نے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں بھی اپنی چوکیاں ختم کر دی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان میں داخل ہونے کے لئے حوصلہ ملے گا۔ اس امریکی اقدام سے پاکستان کی حکومت اور فوجی حلقوں نے سخت ناپسند کیا ہے۔ صوبہ سرحد میں بھی سول اور فوجی رہنما اس پر نہ صرف حیران ہیں بلکہ اس کے جنوبی وزیرستان آپریشن پر ممکنہ اثرات سے پریشان ہیں۔ سرحد حکومت نے اسلام آباد کے متعلقہ حلقوں کو اس صورتحال پر پہلے ہی الرٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس معاملے کو امریکا کے سامنے اٹھایا ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ بشکریہ ۔ جنگ
[تبصرہ ۔ اس اقدام سے واضح ہو گیا ہے کہ اصل امریکی صدف پاکستان کی فوجی قوت کو کمزور کرنا اور پاکستان کا اسلامی تشخّص ختم کرنا ہے اور نام نہاد پاکستانی طالبان دراصل امریکا کے مال پر پلنے والے کرائے کے قاتل [mercenaries] ہیں]
طالبان طالبان کی رَٹ ۔ حقائق سے چشم پوشی
میرے ہموطنوں کی اکثریت کو ٹی وی نشریات اور اخبارات نے اتنا محصور [hypnotise] کیا ہے کہ وہ بھی افسانوی راگ الاپنے لگ گئے ہیں ۔ میں نے پہلے 25 جولائی 2008ء کو طالبان کی پوری تاریخ لکھی پھر سوات کے حوالے سے 24 اور 25 فروری 2009ء کو لکھا ۔ 7 مئی 2009ء کو اسی سلسلہ میں قارئین کے سوالات کے جوابات لکھے ۔ میرے ہموطنوں کے عمومی رویہ سے متعلق میں اپنی 25 فروری 2009ء کی تحریر میں سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں
یہ واقعہ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”
دورِ حاضر کی جواں نسل [عمر 20 تا 40 سال] کی اکثریت کی پہچان ہے کہ ان کا پہلا فقرہ یا ردِ عمل ہوتا ہے “آپ نہیں جانتے” بلکہ درست فقرہ یہ ہے “آپ کو کچھ پتہ نہیں”۔ کوئی اور مزید آگے بڑھے گا اور کہہ دے گا “آپ اب اپنے مصنوعی خول سے نکلیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں”۔ پچھلے ماہ میں اپنے ایک ساتھی کے سامنے يہی بات کہہ رہا تھا تو ایک چونتیس پینتیس سالہ اعلٰی تعلیم يافتہ جوان بولا ” آجکل چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ”
حقیقت یہ ہے دورِ حاضر کے اکثر لوگوں کو سطحی معلومات تو بہت ہوتی ہیں ۔کسی معاملہ کی گہرائی میں جانے کی یا تو وہ کوشش نہیں کرتے یا زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنے کی وجہ سے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ملتا ۔ بعض اوقات صورتِ حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سچ سامنے رکھ دیا جائے تو اُسے کسی بہانے ٹالنے پر اصرار ہوتا ہے
مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ بے تکلّف احباب کی محفل میں بیٹھے اگر کوئی پوچھے “آجکل کیا ہو رہا ہے ؟” تو میں کہہ دیتا “اپنے تو دو ہی شوق ہیں ۔ کھانا اور سونا”۔ ایک دن جب میں نے ایسا کہا تو وہاں ایک پڑھا لکھا جوان جو مجھے نہیں جانتا تھا موجود تھا ۔ بعد میں اُس جوان کو کچھ عِلمی معلومات کی ضرورت پڑی تو اُس کے ایک بزرگ نے اُسے میرے پاس آنے کو کہا مگر وہ نہ آیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ معلومات اُسے حاصل نہ ہو سکیں ۔ اس پر اس بزرگ نے اسے کہا “کیا اجمل بھوپال صاحب کو بھی معلوم نہیں ؟” تو جوان بولا “جسے کھانے اور سونے سے فرصت نہیں وہ کیا بتائے گا”۔ اُس کے بزرگ نے اُسے صرف اتنا کہا ” تم لوگ بدقسمت ہو”
میں جب بچپن میں قرآن شریف میں پڑھتا تھا ” اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے”۔ تو سوچتا تھا کہ شاید اُس زمانہ کے لوگ بے علم تھے جب یہ آیت اُتری ۔ 1970ء کی دہائی کے عوامی دور میں معلوم ہوا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ کہلانے والوں کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ سو یہ وصف ہماری قوم کی اکثریت کا ہے کہ نجانے کس انجانے خوف کے زیرِ اثر حقائق کا خود سامنا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے کو غیرمصدقہ بات کو حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں
اس صورتِ حال کے نتیجہ میں قوم ایک غیر معیّن تیر [misguided missile] بن کے رہ گئی ہے ۔ شور شرابا بہت ہے سُدھار کیلئے عملی طور پر آگے کوئی نہیں بڑھتا ۔ سال سے زائد عرصہ گذرا کہ غریب پختون بچوں کو تعلیم میسر نہ ہونے کا بہت واویلا تھا ۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر وہ مدرسوں کی بجائے انگریزی سکولوں میں نہ گئے تو دہشتگرد بن جائیں گے ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بلاگ پر عملی تعاون کی درخواست کی ۔ دو تین جوانوں نے اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میری ہمت افزائی کی ۔ میں نے صورتِ حال کی وضاحت کی ۔ بڑا نہیں چھوٹا سا منصوبہ تھا ۔ درجن سے زیادہ بچوں کی ایک اچھے سکول میں تعلیم کی کفالت کی جا چکی تھی ۔ اس سے قبل یہ بچے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے تھے ۔ اس تعداد کو 24 تک لیجانا چاہ رہے تھے مگر مالی وسائل نہ تھے ۔ فی بچہ 600 روپیہ ماہانہ فیس ۔ اس کے علاوہ کتابیں کاپیاں پنسل وغیرہ اور روزانہ ایک وقت کا کھانا ۔ بس اتنا ہی کرنا تھا
ابھی پھر کوئی اسی طرح کا عنوان چھیڑ دیجئے ۔ اس پر لمبی لمبی تحاریر لکھی جائیں گی مگر جب باری عمل کی آئے گی تو شاید کوئی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے خواندہ گنے لوگوں میں سے نصف مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی جاہلیت کے متعلق پچھلے چند سالوں میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں سے درجنوں بلاگرز نے لکھے ہیں ۔ ان سب لکھنے والوں میں کتنے ہیں جنہوں نے دور نہیں اپنے علاقے کے مدرسہ کی ہی بہتری کیلئے عملی کام کیا ہے ؟ اسے بھی چھوڑیئے کیا کسی نے کبھی کسی مدرسہ کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ہے ؟ پوچھیئے تو محلے کی مسجد کے مدرسہ کی بات کریں گے جہاں بچوں کو طوطوں کی طرح قرآن شریف رٹایا جاتا ہے اور وہاں کا بھی مطالعاتی دورہ نہیں کیا ہو گا
بیت اللہ محسود جسے پاکستانی طالبان کا سربراہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق معروف ہے کہ گونٹانامو بے میں 11 ماہ قید کے بعد رہا کر ديا گیا بلکہ کھُلا چھوڑ دیا گیا جبکہ 80 سالہ بوڑھے بیگناہ پاکستانی کو بھی ڈھائی سال بعد اُس وقت چھوڑا گیا تھا جب وہ قریب مرگ تھا اور بات بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ باقی پاکستانی جو ڈھائی تین سال بعد وہاں سے چھوٹے وہ کسی اور جگہ قید ہیں ۔ اب شُنید ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کھیلے جانے والے ڈرامہ کا حصہ ہے اور وہ زندہ ہے مگر غائب ہے ۔ حقیقت جو میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں یہی ہے کہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے اور فوج کے خلاف لڑنے والے کرائے کے قاتل ہیں جن کے آقا غیر ملک یا ممالک کی حکومتیں ہیں ۔ ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے البتٰہ افغانستان کی کٹھپتلی حکومت کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے
جب تک غیرملکی مفاد کو چھوڑ کر ملکی مفاد کے تحت کام نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے رہیں گے اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنگجو حملہ آوروں کی تعداد پہلے سے کہیں زیاد ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور پہلے سے زیادہ بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ اسلام آباد اقوامِ متحدہ کے امدادی دفتر پر حملہ ۔ پھر پشاور میں اہم شہری علاقہ میں دھماکہ پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو کر حملہ اور آج لاہور شہر کے اہم علاقہ میں واقعہ ایف آئی اے کے دفتر مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز اور بیدیاں میں پولیس کمانڈو تربیتی مرکز پر حملے ہوئے ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملے کی پہلے سے اطلاع تھی
اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکہ بندیاں ہیں ۔ میرے اپنے گھر کے تین راستے مکمل بند کر کے ایک راستہ میں جگہ جگہ بلاک رکھے ہیں جن میں سے بالکل آہستہ ہی گذرا جا سکتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا امدادی دفتر میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اُس کی حفاظت کیوں نہ کی جا سکی ؟ آخر ان علاقوں کی درست حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزارتِ داخلہ کیا کر رہی ہے ؟ رحمٰن ملک صرف بیان داغنے کے کی بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کرتا ؟
آنکھوں [عقل] پر پردہ پڑنا اور کسے کہتے ہیں ؟ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو سیدھی راہ پر لگائے اور ہمارے ملک کو مزید تباہی سے بچائے
فری میسن سے بلیک واٹر تک
”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔
جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔
قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس
میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔
تحریر ۔ انور غازی ۔ بشکریہ جنگ 30 ستمبر 2009