Category Archives: خبر

کشمير ميں موت کا سفّاکانہ رقص جاری

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور میں فورسز کے ہاتھوں معصوم نوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف تشدد اور زور دار احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے بیچ سوموار سی آر پی ایف نے سوپور کی طرف مارچ کررہے دو جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے 9 سالہ کمسن بچے اور ایک 17 سالہ نوجوان کو موت کی ابدی نیند سلا دیا

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

جموں کشمير کے در و ديوار پر “گو انڈيا گو بيک”

جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کی طرف سے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ریاستی عوام نے اتوار کو دیواروں،سڑکوں اوردکانوں پر “گو انڈیا گو بیک” کا نعرہ مختلف علاقوں میں تحریر کیا جبکہ کئی ایک علاقوں میں “گو انڈيا گو بيک” کے بینر بھی آویزاں دیکھے گئے۔ واضح رہے کہ حریت کانفرنس (گ) نے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کیلئے 25 جون سے 13 جولائی 2010ء تک مختلف پروگرام ترتیب ديئے ہیں جن میں سے “گو انڈيا گو بيک” کا نعرہ دیواروں ،دکانوں اور سڑکوں پر تحریر کرنے کیلئے کہا گیاتھا۔ مذکورہ احتجاجی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے سرینگر کی مختلف سڑکوں اوردکانات پر نوجوانوں کو یہ نعرہ تحریر کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ وادی کے دیگر علاقوں سے بھی مذکورہ احتجاجی پروگرام عملانے کی اطلاعات ہیں۔پائین شہر کے مختلف علاقوں میں دکانوں، دیواروں، مکانوں اور اہم سڑکوں پر ”گو انڈیا گو” کے نعرے تحریر کئے گئے وہیں شہر کے مضافاتی علاقے لسجن میں بھی ”گو انڈیا گو ” کے بینر آویزان رکھے گئے تھے۔ ادھر بٹہ مالو ، حبہ کدل، آبی گذر اور دیگر مقامات پر بھی سڑکوں کے بیچوں بیچ ”گو انڈیا گو ” کے نعرے درج کئے گئے۔

[13 جولائی 1931ء کو جموں کشمير کے مسلمانوں پر جو ايک جگہ جمع تھے پر ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا جس سے 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے]

بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھيئے

دہشگرد کون ؟

سیّد ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ 400ھ تا 465ھ] ۔ نے شروع میں ہجویر جو کہ غزنی کا گاؤں ہے ميں قیام کيا اس لئے ہجویری کہلائے ۔ سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ اپنے مُرشد کے حکم سے آپ لاہور پہنچے ۔ کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے ۔ علی ہجويری رح اُن چند بزرگوں ميں سے ہيں جن کے عمل اور محنت کے نتيجہ ميں پنجاب اسلام کا گھر بنا۔ وہ پنجاب جو موجودہ شمالی سندھ سميت موجودہ خيبر پختونخواہ ميں دريائے سندھ تک اور مشرق ميں دہلی آگرہ تک تھا ۔ ان کے متعلق ايک نيک بزرگ نے کہا تھا

گنج بخشِ فيضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پيرِ ۔ کامِل کاملاں را رہنما

جمعہ 2 جولائی 2010ء کو صبح سويرے علی ہجويری رح صاحب کے مزار المعروف دربار داتا گنج بخش میں خودکش حملوں کی خبر پڑھی تو کچھ دير کيلئے ميرا ذہن ماؤف ہو گيا ۔ ميں بِٹر بِٹر اخبار کو ديکھتا رہا پھر مجھے اخبار نظر آنا بند ہو گيا اور 1957ء سے چند سال قبل تک آدھی صدی کے دوران ميں جب جب بھی اس مزار پر فاتحہ کہنے گيا اور ملحقہ مسجد ميں نماز پڑھی جو کچھ ميں نے ديکھا وہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ وہاں عورتوں اور مردوں کو ميں نے کس کس حال ميں کيا کيا کرتے ديکھا سب ايک ايک کر کے ذہن کے پردہ سيميں پر اُبھرتا رہا ۔ ميں نے اپنے آپ کو جھٹکا ديا ۔ ميرے دل نے پُر زور کہا “نہيں نہيں ۔ یہ حملہ کسی مسلمان نے نہيں کیا”۔ قطع نظر اس کے کہ اس جملہ سے کيا مراد ہے کچھ لوگ کہيں گے کہ “مسلمان نے نہيں کيا تو پھر کس نے کيا ؟” ميرا جواب ہے کہ اگر ميرے پاس ثبوت نہيں کہ مسلمان نے نہيں کيا تو اعتراض کرنے والوں کے پاس کيا ثبوت ہے کہ مسلمان نے کيا ؟

وقتی طور پر مزاروں کے متعلق اپنے نظريات کو بھول کر ميں صرف وہاں عام طور پر جانے والوں کے نظريات کی بنياد پر بات کروں گا ۔ زائرين اس اعلٰی کردار کے انسان کے مزار سے جو عقيدت رکھتے ہيں کوئی بے عمل مسلمان بھی اس مقام پر قتل تو کيا کسی جُرم کا بھی نہيں سوچ سکتا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا دہشت گرد گروہ سے ہو ۔ لوگ اسے داتا دربار کہتے ہيں اور روحانیت کا منبع سمجھتے ہيں ۔ وہاں روحانی فیض قلبی سکون اور دنیاوی مسائل کے حل کے لئے دعائیں مانگنے آتے ہیں ۔ لوگ وہاں عبادت ۔ چلہ کشی اور وظائف میں مصروف بلکہ مگن ہوتے ہیں ۔ وہاں منتیں ماننے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہيں

روحانی و دنیاوی مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے علاوہ داتا دربار کو بھوکوں بے روزگاروں دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدوروں اور گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوانوں کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جہاں غریبوں اور بھوکوں کو روزانہ بلاناغہ تينوں وقت کھانا مفت ملتا ہے اور رات گزارنے اور استراحت کے لئے داتا دربار کا صاف ستھرا وسیع فرش بستر کا کام دیتا ہے

یہ جگہ ہر قسم کی فرقہ واریت ۔ گروہ بندی اور مذہبی مناظروں سے بالکل پاک ہے اور یہاں آنے والوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق غریب و نادار طبقوں سے ہوتا ہے ۔ کوئی چاہے اسے کج فہمی ہی کہہ لے ليکن داتا گنج بخش کا دامن پریشان حالوں غم اوربھوک کے ماروں یا پھر روحانی بالیدگی اور قلبی روشنی کے متلاشیوں ہر کسی کو پناہ دیتا اور سکون بخشتا ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ جرائم پيشہ لوگ بھی جب کبھی تکليف محسوس کرتے ہيں تو وہاں سکونِ قلب حاصل کرنے آتے ہيں ۔ يہ حقيقت ہے کہ پنجاب کے سکھ عيسائی اور ہندو بھی اس مقام کو عقدت و احترام کی نظروں سے ديکھتے ہيں

کہا جاتا ہے کہ لاہور ميں دہشتگری ہونے کی اطلاع تھی مگر وفاقی وزيرِ داخلہ نے گورنر پنجاب کی زندگی کو خطرے کا خدشہ ظاہر کيا تھا ۔ کيا خطرہ صرف اُن کو ہی ہوتا ہے جو قلعہ نما گھروں ميں رہتے ہيں اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں سفر کرتے ہيں جن کے آگے پيچھے ايليٹ فورس کے کمانڈو ہوتے ہيں ؟

پہلے احمديوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا اور درجنوں بيگناہ پاکستانی ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد داتا دربار جسے شايد احمديہ بھی مقدس مقام سمجھتے ہيں پر ويسا ہی حملہ ہوا ۔ کيا ايسا نہيں کہ يہ دونوں حملے ايک ہی شخص يا ادارے کی منصوبہ بندی ہوں ؟

کراچی جسے ملک کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں آئے دن لاشيں گر رہی ہيں ۔ جنہيں بيانات ميں اُڑايا جا رہا ہے ۔ صرف اس سال ميں 600 آدمی ہلاک ہو چکے ہيں ۔ کيا يہ مرنے والے انسان نہيں ہيں يا پاکستانی نہيں ہيں ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور ہيں ۔ کراچی معاشی گڑھ اور لاہور تمدن کا گھر ۔ کيا يہ وارداتيں کراچی اور لاہور کے لوگوں کو پريشان رکھنے کيلئے نہيں کی جا رہيں ؟ کيا ان وارداتوں کا مقصد پاکستان کو معاشی اور تمدنی لحاظ سے تباہ کرنا نہيں ہے ؟

اپنی لوٹ مار سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے ہر لحظہ ايک نئی اختراع ايجاد کی جاتی ہے ۔ جب پاکستانی طالبان کی اختراع گھِس پِٹ گئی تو پنجابی طالبان کا شوشہ چھوڑ ديا گيا ۔ يہيں بس نہ کيا گيا بلکہ پنجاب کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ اور نرسری کہہ ديا گيا ۔ کيا ان باتوں سے حکمرانوں کی لوٹ مار پر پردہ پڑ جائے گا ؟ ايک طرف مُلک کی بنياديں کھوکھلی کی جا رہی ہيں تو دوسری طرف صوبوں اور مسلکوں کو آپس ميں لڑانے پر پورا زور لگايا جا رہا ہے ۔ تاريخی حقيقت يہ ہے کہ ايک دن اچانک امريکہ کے کسی اخبار نے پنجابی طالبان کا ذکر کيا ۔ چند دن بعد کسی پاکستانی صحافی نے لکھا کہ کسی کا ٹيليفون کہيں سے موصول ہوا کہ “ميں پنجابی طالبان کا سربراہ بول رہا ہوں”۔ اس کے بعد وفاقی سطح پر اس کی تشہير پورے زور و شور سے شروع ہو گئی

کے ای ايس سی سميت پورے پاکستان ميں بجلی پيدا کرنے والوں کو اُن کے واجبات ادا کرنے کی بجائے مہنگے کرائے پر پرانے پاور سٹيشن لئے جا رہے ہيں جن ميں سے پہلا پاور سٹيشن جو ايک ماہ قبل چلنا تھا آج تک نہيں چل سکا ۔ بايں ہمہ اس عمل کا کيا جواز ہے کہ 1991ء کی پانی کی تقسيم سے اپنا 3 فيصد حصہ سندھ کو دينے پر راضی ہونے کے باوجود پنجاب حکومت کو 18000 کيوسکس پانی روزانہ کم ديا جا رہا ہے جبکہ باقی تين صوبوں کو اپنا اپنا حصہ پورا ديا جا رہا ہے ؟ کيا يہ اسلئے نہيں کيا جا رہا کہ پنجاب کی حکومت دباؤ ميں آ کر سندھ کی حکومت کے خلاف بيان دے اور پھر صوبوں کی حکومتيں آپس ميں گتھم گتھا ہوں تاکہ بادشاہ سلامت موج ميلہ کرتے رہيں

دہشتگردوں سے نپٹنے کيلئے پوليس کمانڈو تيار کئے گئے تھے ۔ اُنہيں عوام کی حفاظت کی بجائے قلعہ نما گھروں ميں رہنے اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں گھومنے والوں کی حفاظت پر مامور کر ديا گيا ہے

دہشگرد کو واردات سے پہلے روکنے کی ذمہ داری خُفيہ والوں کی ہوتی ہے ۔ يوں لگتا ہے کہ خُفيہ والوں کو بھی اس طرح مصروف رکھا گيا ہے کہ کچھ تو بڑے صاحب کی تجوريوں کو مزيد وزنی کرنے کيلئے شکار کی تلاش ميں رہتے ہيں اور کچھ مخالفين کی سرکوبی کيلئے مختص ہيں باقی ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنے موج ميلے ميں مصروف رہتے ہيں ورنہ يہ کيسے ممکن ہے کہ شہر کی ناکہ بندی کے علاوہ شہر کے اندر جگہ جگہ ناکہ بندی ہو ۔ دہشتگردی کا خدشہ بھی ظاہر کيا جا چکا ہو ۔ داتا دربار ميں داخل ہونے والوں کو خاص ميٹل ڈيٹيکٹر دروازوں ميں سے بھی گذرنا پڑے اور دہشتگرد بارودی جيکٹ سميت اندر پہنچ جائے ؟ مزيد يہ کہ وہاں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی سسٹم لگا ہے ۔ کيا اس کے کنٹرول روم ميں کوئی موجود نہيں تھا يا سويا ہوا تھا ؟

دوسرے ممالک ميں کوتاہی کے ذمہ دار محکمہ کے سربراہ کو فوری طور پر فارغ کر ديا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اُسے ترقی دے دی جاتی ہے ۔ بينظير کی حکومت ميں اُس کے سگے بھائی کو ہلاک کر ديا جاتا ہے اور قاتل ترقياں پاتے ہيں ۔ بينظير کو ہلاک کر ديا جاتا ہے تو اس کا خاوند حکمران آئيں بائيں شائيں ميں ڈھائی سال گذار ديتا ہے اور مزيد سال بھی اسی طرح گذر جائيں گے

ان حالات کی موجودگی ميں عوام کی ہلاکتوں کی کسے پرواہ ہے ؟ ذمہ دار کسی کو بھی ٹھہرا دو ۔ پوچھنے والے حکمران ہوتے ہيں اور جب الزام ہی حکمران لگائيں تو ؟

پچھلے دنوں کسی نے لکھا تھا کہ انگريزوں کا حکومت کرنے کا اصول تھا
Divide and rule
اور ہمارے حکمرانوں کا اصول ہے
Divide, rule and loot

کشمير چھوڑ دو مہم کا آغاز

حریت کانفرنس (گ) کے احتجاجی پروگرام کے پہلے روزجمعہ 25 جون 2010ء کو وادی میں مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال سے زندگی کا پہیہ جام رہا ۔جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ، کولگام ، پانپورجبکہ شمالی کشمیر کے سوپوراوربارہ مولہ میں پُر امن احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکا اور بارہ مولہ میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ٹیئر گیس شيلنگ کی جسکے نتیجے میں نصف درجن افراد زخمی ہوئے۔اس دوران آزادی پسند لیڈران و کارکنان کے خلاف پولیس نے کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا۔پولیس نے تحریک حریت کے ایک کارکن کو گرفتار کر لیا جبکہ مسلم لیگ اور پیپلز فریڈم لیگ کے صدر دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔ حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے جاری کئے گئے احتجاجی کلینڈر کے پہلے روزجمعتہ البارک ‘کشمیر بندھ’ کی کال کے تحت وادی میں ہڑتال رہی ، تمام دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے جبکہ اسکولوں اور بینکو ں میں کام کام کا ج ٹھپ ہوکر رہ گیااور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ انتظامیہ نے امکانی مظاہروں اور سنگبازی کے واقعات کو روکنے کیلئے پائین شہر میں فورسز کی بھاری تعداد کوتعینات کیا تھا۔ نمازجمعہ کے بعد پائین شہر کے نوہٹہ، راجوری کدل، نواب بازار، صراف کدل اور دیگر علاقوں میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور زیادتیوں کیخلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اسی بیچ سنگباز بھی نمودار ہوئے تاہم اِکا دُکا جھڑپوں کو چھوڑ کر پائین شہر میں صورتحال پُر امن رہی۔ چنانچہ وادی کے کئی علاقوں میں نماز جمعہ کے موقعہ پر پُر امن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ سیر ہمدان کولگام میں نماز جمعہ کے بعد چوگل گام کے مقام پر لوگوں نے زیادتیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی۔

بقيہ يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

برتن اور بچھائی بيچ چکے ۔ پر وہ نہ آيا

11 دسمبر 1991ء پکھری بل بوٹہ کدل سے ایک 17 سالہ نوجوان الطاف احمد شیخ کو سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار نامعلوم وجوہات کی بناء پر گرفتار کرتے ہیں جس کا تا حال کوئی اتہ پتہ نہیں۔ پیشہ سے قالین باف الطاف احمد شیخ ولد غلام نبی کے اہلِ خانہ کہتے ہیں ”دن کے ساڑھے چار بجے سی آر پی ایف اور سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار وں نے علی محمد کے گھر پر چھاپہ مار کارروائی میں الطاف کو جپسی میں بٹھاکر نامعلوم جگہ پہنچادیا۔ الطاف علی محمد بیگ کے کارخانہ میں قالین بنتا تھا”۔اس سلسلہ میں پولیس میں ایک عدد ایف آئی آر زیرِ نمبر 327/97بھی درج کیا جاتاہے

الطاف کے بھائی خورشید ،جسکی عمر بھائی کی حراست کے وقت 13 سال تھی،کا کہنا ہے”میرے والدین روز صبح الطاف کی تلاش میں نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہوکر گھر لوٹتے تھے۔ کبھی سی آر پی ایف کیمپ ،کبھی بی ایس ایف اور کبھی فوجی کیمپ،غرض ہر کوئی کیمپ چھان مارا لیکن حاصل یہ ہوا ماں دماغی مریض بن گئی، بہن دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئی اور باپ اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میری ماں آج بھی ڈاکٹر مشتاق (ماہرِ نفسیات) کے زیرِ علاج ہے اور روز شام ہوتے ہی کشمیری گیت (ژول ہَما روشے روشے)گنگنانے لگتی ہے”۔خورشید کا کہنا ہے ”الطاف کی تلاش میں ہم نے گھر کی ساری جائداد کو نیلام کیا اور آج ہمارے گھر میں جو قیمتی سامان ہے وہ ایک عدد گیس چولہا اور ایک عدد’ بلیک اینڈ وائٹ’ ٹی وی ہے ۔ ہمارے پاس جتنا بھی تانبہ تھا بیچنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ حد تو یہ ہے کہ کمرے میں بچھا ہوا قالین تک بیچنا پڑا اور آج مکان بھی گروی پڑا ہے”

بے کس و لاچار خورشید پہ ٹوٹنے والی مصیبتیں یہیں پہ ختم نہیں ہوتیں بلکہ خورشید کا کہنا ہے ایک دفعہ اسے پولیس تھانے سےCIDرپورٹ کی ضرورت پڑی۔ وہاں اُنہوں نے پانچ ہزار کی رقم طلب کی۔ خورشید کا کہنا ہے کہ وہ ان الفاظ کو کبھی نہیں بھول سکتا جو متعلقہ افسران نے اس وقت خورشید سے کہے ”خالی کاغذکس کام آئیں گے، اِن کی اڑان کیلئے پَر ہونے چاہئیں”۔ خورشیدکا مزید کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ”۔خورشید سرکار نام سے ہی نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ وہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے وہ تلخ الفاظ گردانتے ہیں جو وہ ڈاکٹر فاروق کی رہائش گاہ پر سن چکے ہیں۔خورشید کے مطابق ایک مرتبہ وہ ڈاکٹر فاروق کو اپنی روئيداد سنانے پہنچے کیونکہ ڈاکٹر فاروق اس وقت وزیر اعلیٰ تھے لیکن وہاں ڈاکٹر فاروق نے ان کے زخموں کا مداوا کرنے کے بجائے ایک مخصوص انداز میں کہا ” تم آزادی پسندوں کے حمایتی ہو اور عین ممکن ہے کہ آپکا بھائی پاکستانی ہوگا،جس کیلئے اُسکو کہیں مارا ہوگا”۔ خورشید نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا ” نیشنل کانفرنس کا ایک کارکن مگھرمل باغ میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ الطاف کو ڈھونڈ کے ہی رہے گا لیکن اُس کی ”برائے نام امداد” سے الطاف واپس تو نہیں آیا البتہ ہر طرف سے مار کھانے کے بعد ہم خاک میں مل گئے ”۔ ”روز صبح پورے دن کیلئے اس کے گھر ٹیکسی پہنچانی ہوتی تھی اور ہوٹل میں کھاناکھلانے کے علاوہ اعلیٰ قسم کے دو دوپیکٹ بھی پھونکنے کو دینے پڑتے تھے”

خورشید جو اپنی ماں کا اکلوتا سہارا ہے ،کا کہنا ہے”15 فروری 1993ء کو ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا “میں زندہ ہوں اور اب مجھے بی بی کینٹ بادامی باغ منتقل کرنے والے ہیں” ۔ اُمید کی یہ کرن جاگتے ہی میری ماں بادامی باغ کی طرف دوڑ پڑی اور ایک بار اُس کے زندہ ہونے کا ثبوت بھی ملا ، سرینگر کے سونہ وار علاقے میں ہی ماں نے الطاف کو سرحدی حفاظتی فورس (BSF)کی ایک جپسی میں دیکھا اور ماں پاگلوں کی طرح اُس جپسی کے پیچھے دوڑ پڑی اور رستے میں ہی بیہوش ہوکر گرپڑی۔ یہ امید جاگنے کے بعد ہم نے پھر ایک بار مختلف کیمپ اور جیل جن میں پاپا ٹو ،ائر کارگو ،ہمہامہ کیمپ ،جموں سنٹرل جیل،ہیرانگر جیل کے چکر کاٹے لیکن مصیبتوں اور سختیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا’۔ غم سے نڈھال اور تھکن سے چور ان لوگوں کو اب بھی اپنے ”پیارے” کا انتظار ہے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ سرينگر ۔ مقبوضہ جموں کشمير

آج کی اہم ملکی جبريں

ہم دنيا کی بہترين قوم ہيں اسلئے ہماری ہر چيز بہترين اور اچھوتی ہے
دوسرے مُلکوں کی خبريں ہوتی ہيں مگر ہمارے مُلک ميں جبريں ہوتی ہيں
حاضر ہيں آج کی اہم جبريں ۔ ہر جبر کے 2 حصے ہوں گے ۔ پہلا ۔ جو کہا گيا اور دوسرا ۔ جو مطلب ہے

صدرِ محترم کا گلا پھاڑ اعلان
“عوام دستی کو چاہتے ہیں تو تم کیا کر سکتے ہو”
مطلب ۔ عوام دھوکے باز ہيں تو کيا وہ ديانتدار شخص کو پسند کريں گے ؟

عدلیہ سے مخاطب ہو کر ” آپ مان لیں کہ عوام اصل طاقت ہیں”
مطلب ۔ اعلٰی عدالتوں کو ميں ياد دہانی کراتا ہوں کہ ہمارے جيالوں کا جتھہ جس سڑک سے گذرتا ہے اس سڑک پر کوئی چيز سلامت نہيں رہتی ۔ ديکھتے نہيں ہم کراچی ميں بولنے والوں کو کتنی صفائی سے راستہ سے ہٹا رہے ہيں

” اپنے دوستوں کو صبر کی تلقین کرتا ہوں”
مطلب ۔ ابھی تو ميں نے ايک ارب ڈالر سے کچھ اُوپر جمع کيا ہے ۔ صبر سے کام ليں ۔ کم از کم 10 ارب ڈالر تو کر لينے ديں پھر اگر کچھ بچ گيا تو تم لے لينا

حکومت کا اعلان
حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے تحت بجلی کے نرخوں میں آج بروز جمعرات یکم جولائی سے 7.6 فیصد فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ روز کے 14 پيسے فی يونٹ اضافے سے الگ ہے
مطلب ۔ ہميں ووٹ دو گے تو ايسے ہی مزے پاؤ گے ۔ ہم سے کچھ تو سيکھو ۔ بِل ادا کرنا ہے تو مال بناؤ ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں نہيں ہيں کيا ؟

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کا اعلان
جن علاقوں میں چوری کی شرح 10 فیصد سے کم ہے وہاں لوڈشیڈنگ 3 سے 2 گھنٹے کر دی جائے گی۔ وقت پر بل ادا کرنے والوں کو کچھ فری یونٹ دیئے جائیں گے
مطلب ۔ بجلی ضرور چوری کرو بھائی مگر کچھ ہماری اِجت کا بھی کھيال رکھو ۔ بھائی تھوڑا سا بِل تو ادا کر دو ۔ ہم اُس ميں سے بھی کچھ يونٹ مُفت کر ديں گے ۔ بھائی جرا کھيال کرو ہماری اِجت کا

عوام کا اعلان
چنيوٹ ميں غربت سے تنگ آکر خاتون نے 2 بچوں سمیت دریا میں کود کر خودکشی کرلی
مطلب ۔ عوام کے پاس اب ايک ہی طاقت رہ گئی ہے اس جمہوريت ميں ۔ سُنا تو تھا کہ جمہوريت کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہيں

اِس کا ديرپا حل کيا ہے؟

ميں جانتا ہوں کہ مندرجہ ذيل خبر پڑھنے پر انٹرنيٹ صارف اس عمل کو جاہليت بھی قرار دے سکتے ہيں ليکن ميرا صرف ايک سوال ہے کہ اِس کا حل کيا ہے ؟ کيا اپنے دين کی توہين اور قرآن شريف ميں تحريف برداشت کر لی جائے ؟

لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ نے گستاخانہ مواد کی اشاعت اور قرآن پاک میں تحریف کے الزامات پر 9 ویب سائٹس یاہو، ایم ایس این، ہاٹ میل، یو ٹیوب ، گوگل ، اسلام ایکسپوزڈ، ان دا نیم آف اللہ ، امیزون اور بنگ کو فوری طور پر بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ بہاولپور بنچ نے بہاولپور کے ایک شہری محمد صدیق کی طرف سے دائر کردہ رٹ پٹیشن نمبر3246/2010 پر چیئرمین پی ٹی اے کو ہدایت جاری کی اور 28 جون کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وفاق کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بھی رٹ پٹیشنر کے مؤقف کی تائید کی۔ جسٹس مظہر اقبال کی عدالت میں مدعی کے وکیل لطیف الرحمن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِن ویب سائٹس پر توہین آمیز موادموجود ہے، عدالت کو اس حوالے سے سی ڈی اور ریکارڈ بھی پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے مذکورہ ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بتایا کہ انہوں نے پٹیشنر کی پٹیشن اور اس کا مطالبہ دیکھتے ہوئے عدالت میں خود استدعا کی کہ ان ویب سائٹس جن پر گستاخانہ مواد شائع کیا جارہا ہے کو فوری بلاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ویب سائٹس پر اس قسم کے مواد کا شائع ہونا نہایت قابل مذمت ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی جتنی مذمت کریں اتنا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پٹیشنر اور میری استدعا پر ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں صدر ہائیکورٹ بار اسلم دھکڑ نے کہا کہ عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ بہاو لپور کے وکلا آج مکمل ہڑتال کریں گے اوراس سلسلہ میں خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔