دہشگرد کون ؟

سیّد ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ 400ھ تا 465ھ] ۔ نے شروع میں ہجویر جو کہ غزنی کا گاؤں ہے ميں قیام کيا اس لئے ہجویری کہلائے ۔ سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ اپنے مُرشد کے حکم سے آپ لاہور پہنچے ۔ کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے ۔ علی ہجويری رح اُن چند بزرگوں ميں سے ہيں جن کے عمل اور محنت کے نتيجہ ميں پنجاب اسلام کا گھر بنا۔ وہ پنجاب جو موجودہ شمالی سندھ سميت موجودہ خيبر پختونخواہ ميں دريائے سندھ تک اور مشرق ميں دہلی آگرہ تک تھا ۔ ان کے متعلق ايک نيک بزرگ نے کہا تھا

گنج بخشِ فيضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پيرِ ۔ کامِل کاملاں را رہنما

جمعہ 2 جولائی 2010ء کو صبح سويرے علی ہجويری رح صاحب کے مزار المعروف دربار داتا گنج بخش میں خودکش حملوں کی خبر پڑھی تو کچھ دير کيلئے ميرا ذہن ماؤف ہو گيا ۔ ميں بِٹر بِٹر اخبار کو ديکھتا رہا پھر مجھے اخبار نظر آنا بند ہو گيا اور 1957ء سے چند سال قبل تک آدھی صدی کے دوران ميں جب جب بھی اس مزار پر فاتحہ کہنے گيا اور ملحقہ مسجد ميں نماز پڑھی جو کچھ ميں نے ديکھا وہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ وہاں عورتوں اور مردوں کو ميں نے کس کس حال ميں کيا کيا کرتے ديکھا سب ايک ايک کر کے ذہن کے پردہ سيميں پر اُبھرتا رہا ۔ ميں نے اپنے آپ کو جھٹکا ديا ۔ ميرے دل نے پُر زور کہا “نہيں نہيں ۔ یہ حملہ کسی مسلمان نے نہيں کیا”۔ قطع نظر اس کے کہ اس جملہ سے کيا مراد ہے کچھ لوگ کہيں گے کہ “مسلمان نے نہيں کيا تو پھر کس نے کيا ؟” ميرا جواب ہے کہ اگر ميرے پاس ثبوت نہيں کہ مسلمان نے نہيں کيا تو اعتراض کرنے والوں کے پاس کيا ثبوت ہے کہ مسلمان نے کيا ؟

وقتی طور پر مزاروں کے متعلق اپنے نظريات کو بھول کر ميں صرف وہاں عام طور پر جانے والوں کے نظريات کی بنياد پر بات کروں گا ۔ زائرين اس اعلٰی کردار کے انسان کے مزار سے جو عقيدت رکھتے ہيں کوئی بے عمل مسلمان بھی اس مقام پر قتل تو کيا کسی جُرم کا بھی نہيں سوچ سکتا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا دہشت گرد گروہ سے ہو ۔ لوگ اسے داتا دربار کہتے ہيں اور روحانیت کا منبع سمجھتے ہيں ۔ وہاں روحانی فیض قلبی سکون اور دنیاوی مسائل کے حل کے لئے دعائیں مانگنے آتے ہیں ۔ لوگ وہاں عبادت ۔ چلہ کشی اور وظائف میں مصروف بلکہ مگن ہوتے ہیں ۔ وہاں منتیں ماننے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہيں

روحانی و دنیاوی مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے علاوہ داتا دربار کو بھوکوں بے روزگاروں دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدوروں اور گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوانوں کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جہاں غریبوں اور بھوکوں کو روزانہ بلاناغہ تينوں وقت کھانا مفت ملتا ہے اور رات گزارنے اور استراحت کے لئے داتا دربار کا صاف ستھرا وسیع فرش بستر کا کام دیتا ہے

یہ جگہ ہر قسم کی فرقہ واریت ۔ گروہ بندی اور مذہبی مناظروں سے بالکل پاک ہے اور یہاں آنے والوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق غریب و نادار طبقوں سے ہوتا ہے ۔ کوئی چاہے اسے کج فہمی ہی کہہ لے ليکن داتا گنج بخش کا دامن پریشان حالوں غم اوربھوک کے ماروں یا پھر روحانی بالیدگی اور قلبی روشنی کے متلاشیوں ہر کسی کو پناہ دیتا اور سکون بخشتا ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ جرائم پيشہ لوگ بھی جب کبھی تکليف محسوس کرتے ہيں تو وہاں سکونِ قلب حاصل کرنے آتے ہيں ۔ يہ حقيقت ہے کہ پنجاب کے سکھ عيسائی اور ہندو بھی اس مقام کو عقدت و احترام کی نظروں سے ديکھتے ہيں

کہا جاتا ہے کہ لاہور ميں دہشتگری ہونے کی اطلاع تھی مگر وفاقی وزيرِ داخلہ نے گورنر پنجاب کی زندگی کو خطرے کا خدشہ ظاہر کيا تھا ۔ کيا خطرہ صرف اُن کو ہی ہوتا ہے جو قلعہ نما گھروں ميں رہتے ہيں اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں سفر کرتے ہيں جن کے آگے پيچھے ايليٹ فورس کے کمانڈو ہوتے ہيں ؟

پہلے احمديوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا اور درجنوں بيگناہ پاکستانی ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد داتا دربار جسے شايد احمديہ بھی مقدس مقام سمجھتے ہيں پر ويسا ہی حملہ ہوا ۔ کيا ايسا نہيں کہ يہ دونوں حملے ايک ہی شخص يا ادارے کی منصوبہ بندی ہوں ؟

کراچی جسے ملک کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں آئے دن لاشيں گر رہی ہيں ۔ جنہيں بيانات ميں اُڑايا جا رہا ہے ۔ صرف اس سال ميں 600 آدمی ہلاک ہو چکے ہيں ۔ کيا يہ مرنے والے انسان نہيں ہيں يا پاکستانی نہيں ہيں ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور ہيں ۔ کراچی معاشی گڑھ اور لاہور تمدن کا گھر ۔ کيا يہ وارداتيں کراچی اور لاہور کے لوگوں کو پريشان رکھنے کيلئے نہيں کی جا رہيں ؟ کيا ان وارداتوں کا مقصد پاکستان کو معاشی اور تمدنی لحاظ سے تباہ کرنا نہيں ہے ؟

اپنی لوٹ مار سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے ہر لحظہ ايک نئی اختراع ايجاد کی جاتی ہے ۔ جب پاکستانی طالبان کی اختراع گھِس پِٹ گئی تو پنجابی طالبان کا شوشہ چھوڑ ديا گيا ۔ يہيں بس نہ کيا گيا بلکہ پنجاب کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ اور نرسری کہہ ديا گيا ۔ کيا ان باتوں سے حکمرانوں کی لوٹ مار پر پردہ پڑ جائے گا ؟ ايک طرف مُلک کی بنياديں کھوکھلی کی جا رہی ہيں تو دوسری طرف صوبوں اور مسلکوں کو آپس ميں لڑانے پر پورا زور لگايا جا رہا ہے ۔ تاريخی حقيقت يہ ہے کہ ايک دن اچانک امريکہ کے کسی اخبار نے پنجابی طالبان کا ذکر کيا ۔ چند دن بعد کسی پاکستانی صحافی نے لکھا کہ کسی کا ٹيليفون کہيں سے موصول ہوا کہ “ميں پنجابی طالبان کا سربراہ بول رہا ہوں”۔ اس کے بعد وفاقی سطح پر اس کی تشہير پورے زور و شور سے شروع ہو گئی

کے ای ايس سی سميت پورے پاکستان ميں بجلی پيدا کرنے والوں کو اُن کے واجبات ادا کرنے کی بجائے مہنگے کرائے پر پرانے پاور سٹيشن لئے جا رہے ہيں جن ميں سے پہلا پاور سٹيشن جو ايک ماہ قبل چلنا تھا آج تک نہيں چل سکا ۔ بايں ہمہ اس عمل کا کيا جواز ہے کہ 1991ء کی پانی کی تقسيم سے اپنا 3 فيصد حصہ سندھ کو دينے پر راضی ہونے کے باوجود پنجاب حکومت کو 18000 کيوسکس پانی روزانہ کم ديا جا رہا ہے جبکہ باقی تين صوبوں کو اپنا اپنا حصہ پورا ديا جا رہا ہے ؟ کيا يہ اسلئے نہيں کيا جا رہا کہ پنجاب کی حکومت دباؤ ميں آ کر سندھ کی حکومت کے خلاف بيان دے اور پھر صوبوں کی حکومتيں آپس ميں گتھم گتھا ہوں تاکہ بادشاہ سلامت موج ميلہ کرتے رہيں

دہشتگردوں سے نپٹنے کيلئے پوليس کمانڈو تيار کئے گئے تھے ۔ اُنہيں عوام کی حفاظت کی بجائے قلعہ نما گھروں ميں رہنے اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں گھومنے والوں کی حفاظت پر مامور کر ديا گيا ہے

دہشگرد کو واردات سے پہلے روکنے کی ذمہ داری خُفيہ والوں کی ہوتی ہے ۔ يوں لگتا ہے کہ خُفيہ والوں کو بھی اس طرح مصروف رکھا گيا ہے کہ کچھ تو بڑے صاحب کی تجوريوں کو مزيد وزنی کرنے کيلئے شکار کی تلاش ميں رہتے ہيں اور کچھ مخالفين کی سرکوبی کيلئے مختص ہيں باقی ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنے موج ميلے ميں مصروف رہتے ہيں ورنہ يہ کيسے ممکن ہے کہ شہر کی ناکہ بندی کے علاوہ شہر کے اندر جگہ جگہ ناکہ بندی ہو ۔ دہشتگردی کا خدشہ بھی ظاہر کيا جا چکا ہو ۔ داتا دربار ميں داخل ہونے والوں کو خاص ميٹل ڈيٹيکٹر دروازوں ميں سے بھی گذرنا پڑے اور دہشتگرد بارودی جيکٹ سميت اندر پہنچ جائے ؟ مزيد يہ کہ وہاں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی سسٹم لگا ہے ۔ کيا اس کے کنٹرول روم ميں کوئی موجود نہيں تھا يا سويا ہوا تھا ؟

دوسرے ممالک ميں کوتاہی کے ذمہ دار محکمہ کے سربراہ کو فوری طور پر فارغ کر ديا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اُسے ترقی دے دی جاتی ہے ۔ بينظير کی حکومت ميں اُس کے سگے بھائی کو ہلاک کر ديا جاتا ہے اور قاتل ترقياں پاتے ہيں ۔ بينظير کو ہلاک کر ديا جاتا ہے تو اس کا خاوند حکمران آئيں بائيں شائيں ميں ڈھائی سال گذار ديتا ہے اور مزيد سال بھی اسی طرح گذر جائيں گے

ان حالات کی موجودگی ميں عوام کی ہلاکتوں کی کسے پرواہ ہے ؟ ذمہ دار کسی کو بھی ٹھہرا دو ۔ پوچھنے والے حکمران ہوتے ہيں اور جب الزام ہی حکمران لگائيں تو ؟

پچھلے دنوں کسی نے لکھا تھا کہ انگريزوں کا حکومت کرنے کا اصول تھا
Divide and rule
اور ہمارے حکمرانوں کا اصول ہے
Divide, rule and loot

This entry was posted in تحريک آزادی جموں کشمير, خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

10 thoughts on “دہشگرد کون ؟

  1. Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » دہشگرد کون ؟ -- Topsy.com

  2. سعد

    مجھے تو یقین ہی نہ آیا جب یہ واقعہ رونما ہوا۔ کیسے شقی القلب لوگ تھے وہ جنہوں نے یہ حرکت کی اور کروائی۔

  3. وھاج احمد

    آپ نے درست لکھا ھے
    احمدی مسجد ھو یا داتا کا دربار یا کوئ امام باڑہ۔ یہ غیر اسلامی گھناءونا فعل ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے
    میرے والد مرحوم نے سنہ 1900 میں دیوبند سے سند لی تھی میں تقریبا” جب بھی مزار کے پاس سے گزرا ہوں وہاں دعا کر کے گزرا ہوں۔ شائد ہی کوئ ایسا ڈاکٹر ھوگا جس نےلیڈی ولنگڈن ھاسپٹل میں ٹریننگ لی اورداتا کے دربا حاضری نہ دی ہو “اوبیجی وائ این” کی ٹریننگ کینگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلباء کو وہیں دی جاتی ہے
    میرے خیال میں کچھ لوگ شرپسند ہوتے ھیں اور آجکل انھیں طالبان کا نام مل گیا ھے تو وہ اسے استعمال کرتے ہوئے اپنا کام کر رھے ھیں یا جس گروہ کا بھی نام مل جاءے استعمال کرلیتے ھیں امریکہ میں رہتے ہویے میں بریلوی اور دیوبندی نام سن کر بہت حیران ہوا نیز یہ کہ دیوبندی اور وہابی کو ایک ھی گروپ میں باندھا جارہا ہے۔
    درست ہے کہ میں “دیوبندی” گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں مگر آپ کی طرح اپنے آپ کو سیدھا سادھا مسلمان سمجھتا ہوں

  4. محمّد نعمان

    السّلام وعلیکم بھوپال صاحب،
    آپکی اس بات سے بلکل متفق ہوں کے داتا دربار مسالک و فقہ اور فرقے سے بالاتر ہے .
    اور آپکی بات جو میری سمجھ میں آئ وہیہ ہے کے اس خود کش دھماکے میں پاکستان کے دشمن ملوث ہیں . اب وہ خود کریں یہ کام یا پاک میں موجود انکے ایجنٹ.
    ضرورت اس امر کی ہے بجاۓ اسس کے کہ لوگ یا علما اپنی مسلکی اختلافات کو بیچ میں لائیں یا جس طرح لایا جا رہا ہے . کم از کم جو مطالبات وزیر ا علیٰ پنجاب کے سامنے رکھے گے ہیں سارے یا بیشتر فرقہ ورانہ ہیں .
    http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100988519&Issue=NP_LHE&Date=20100705

    میرا تو ایک ہی مطالبہ ہے کے قاتلوں کو پکڑو اور تیز مقدمہ چلاتے ہوئے سزا دو ، اب وہ کوئی بھی ہوں .

    اور جناب وہاج احمد صاحب ،
    صحیح کہا آپ نے کے آج کل دیوبندی اور وہابی کو ایک ہی گردانا جا رہا ہے ، جو کہ غلط ہے ،
    اور کوئی بھی پاکستانی جو بریلویت کی طرف رحجان رکھتا ہو یا دیوبندی ہوسب ہی مزار اور درگاہوں کا احترام کرتے ہیں ، اختلاف ان اعمال کا ہے جو بعد میں کے جاتے ہیں.
    ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ لوگ جو کلمہ گو مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں انکو expose کیا جاۓ انکے آقاؤں یا ماسٹر مائنڈ کو پکڑا جاۓ تاکہ اور لوگ گمراہ ہونے سے بچ سکیں.

    اور اس بات کا بھی خیال رکھا جاۓ کے یہ ایک great game کا حصہ ہے جس کی طرف جناب بھوپال صاحب نے بھی اشارہ کیا .
    کہیں ایسا تو نہیں کے امریکہ اور انکے کالے حواریوں نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششوں کو ناکام ہوتے دیکھ کر ایک نیا حربہ آزمایا ہو . جیسا کے امریکی مسلسل کوشش کر رہے ہیں دیکھیں
    http://www.boston.com/bostonglobe/ideas/articles/2009/01/25/mystical_power/?page=4

    http://jang.com.pk/jang/may2010-daily/25-05-2010/col2.htm
    http://jang.com.pk/jang/may2010-daily/27-05-2010/col7.htm

    الله حافظ

  5. لطف الاسلام

    ” اس کے بعد داتا دربار جسے شايد احمديہ بھی مقدس مقام سمجھتے ہيں پر ويسا ہی حملہ ہوا ”

    حضرت علی ھجویری کو احمدی بھی ولی اللہ سمجھتے ہیں اور ہمارے علماء نے کشف المحجوب کے حوالے جابجا اپنی تصانیف اور مقالہ جات میں دئے ہیں۔ سر زمین افغانستان سے کسی دور میں تصوف ایکسپورٹ ہوتا تھا۔ اب اسی علاقہ سے صوفیاء کے مزرارات تباہ کرنے کے منصوبے آتے ہیں۔

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد نعمان صاحب
    يہ معاملہ پيچيدہ ہے اور ہمارے اکثر لوگ پروپيگندہ کے پجاری بن چکے ہيں ۔ سب سے نقصان دہ بات يہ ہے کہ کئی لوگ داڑھی کو کو سند بنا کر ذاتی ايجنڈا پر کام کر رہے ہيں
    آپ نے کئی روابط ديئے ہوئے تھے اسلئے آپ کا تبصرہ بغير ميری اجازت کے شائع نہيں ہو سکتا تھا ۔ سو شائع کر ديا ہے ۔ زيادہ ربط عام طور پر سپيم ميں ہوتے ہيں

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    لطف الاسلام صاحب
    ميں نے جان بوجھ کر شايد کا لفظ لگايا تھا ۔ ميں نے آپ کے مسلک کی شايد آپ سے کہيں زيادہ کتابيں پڑھی ہوں گی

  8. لطف الاسلام

    بھوپال صاحب، میں نے صرف تصدیق کی ہے کہ ہم صوفیا ء کی قدر کرنا جانتے ہیں – چند بلاگران یہ کہ رہے ہیں کہ خوامخواہ اس معاملہ میں طالبان کا نام لیا جا رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ “قادیانی انتقام” ہو-

    باقی جہاں تک آپ کی کتب بینی کی دسترس ہے مطالعہ جاری رکھیں- ہدائت اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔

  9. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    آپ کاآخری مصرعہ سب پربھاری ہے۔اوریہی ہماری حکومت کی پالیسی ہےکیونکہ جمہوریت اچھی چیزہےلیکن اس سےتومشرف صاحب کی حکومت اچھی تھی۔

    والسلام
    جاویداقبال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.